“السلام علیکم خالہ! ”
احسن اندر آتا ہوا بولا۔
“وعلیکم السلام! بڑے دنوں بعد شکل دکھائی۔۔۔”
وہ اس کے سر پر پیار دیتی ہوئی بولیں۔
“بس بابا سائیں کے ساتھ کچھ مصروف تھا۔”
وہ کہتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
“کیا حویلی میں کوئی نہیں؟ اتنی خاموشی کیوں ہے؟”
وہ اردگرد نگاہ دوڑاتا ہوا بولا۔
“ہاں بس ایسے ہی سمجھ لو،،نور اپنی تائی امی کو لے کر ہاسپٹل گئی ہے۔”
وہ تاسف سے بولیں۔
“ہاسپٹل؟ لیکن کیسے؟”
وہ بولتا ہوا سیدھا ہو گیا۔
“حمزہ کے ساتھ۔ جیرو چاےُ لے کر آؤ۔”
وہ بلند آواز میں بولیں۔
“نہیں رہنے دیں چاےُ نہیں پیوں گا میں۔”
وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
حمزہ کے ذکر پر اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔
“جی بابا سائیں؟ اچھا میں آتا ہوں۔”
وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“کیا ہوا؟”
وہ متفکر سی بولیں۔
“مجھے جانا ہوگا پھر کبھی آؤں گا۔”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
“بیٹھا بھی نہیں آج تو۔۔۔ ”
وہ اسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہی تھیں۔
~~~~~~~~
زرش آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔
بائیں ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
ثریا جنید صاحب کے عقب میں چلتی ہوئی آگے آ رہی تھی۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔
آہٹ پر زرش نے آنکھیں کھول دیں۔
انہیں دیکھتے ہی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
“زرش؟”
انہوں نے کہتے ہوۓ اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
“امی۔۔۔ ”
وہ سسکتی ہوئی ہوئی۔
آنسو جو وہ تنہا بہا رہی تھی اب انہیں سہارا مل گیا تھا۔
“بس میری بچی بس۔۔۔ ”
وہ اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔
“پتہ نہیں یہ کیسے آزمائش ہے؟”
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
“حوصلہ کرو۔۔۔ ﷲ بہتر کارساز ہے۔”
جنید صاحب ان کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
زرش ہچکیاں لیتی رو رہی تھی۔
اس کے آنسو انہیں مزید تکلیف سے دو چار کر رہے تھے۔
“بس۔۔۔ ﷲ پر بھروسہ رکھو۔ سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسی صورتحال ہے اپنی عزت کے پامال ہونے پر سوگ منائیں یا اس کے نکاح ہونے پر شکر کریں؟”
وہ چہرہ صاف کرتی ہوئی بولیں۔
“ان کی ڈرپ پوری ہو جاےُ تو آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔”
نرس اندر آتی ہوئی بولی۔
“اور ان کے علاج کے پیسے؟”
جنید صاحب آگے آتے ہوۓ بولے۔
“انہوں نے کلئیر کر دیا ہے۔”
وہ زرش کو ایک نظر دیکھتی ہوئی بولی۔
آنکھوں میں ہمدردی اور افسوس تھا۔
~~~~~~~~
دو دن بعد:
“یار تم کچھ بول کیوں نہیں رہی؟”
مشل اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔
وہ بت بنی بیٹھی تھی۔
“جب سے ہاسپٹل سے آئی ہے ایسے ہی ہے نہ کچھ بول رہی ہے نہ کھا رہی ہے۔”
ثریا متفکر سی بولیں۔
“آنٹی کیا میں تھوڑی دیر اکیلے میں بات کر لوں؟”
وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
وہ خاموشی دروازہ بند کرتی باہر نکل گئیں۔
“افسوس ہے اب تم مجھ سے بھی بات نہیں کرو گی؟ یہی دوستی تھی تمہاری؟”
وہ اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں۔
وہ کمزور پڑ رہی تھی۔
“کچھ تو بولو۔۔۔ چاہے گالیاں دے دو لیکن کچھ بولو تو سہی۔”
اس کی خاموشی خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔
وہ ہچکیاں لیتی مشل کے سینے سے لگ گئی۔
آنسوؤں میں روانی آ گئی۔
مشل کی آنکھیں بھی برس رہی تھی۔
وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
“یار پلیز چپ ہو جاؤ۔”
وہ اس کی پشت تھپکتی ہوئی بولی۔
وہ خاموش ہونے کی بجاےُ مزید شدت سے رونے لگی۔
“زرش پاگل ہو گئی ہو کیا؟ کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو؟ اور اس انسان کو دیکھو ایسے گھوم رہا ہے جیسے کچھ کیا ہی نہیں۔۔۔ ”
وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔
“میرے ساتھ کیوں ہوا یہ؟ کیا اس دن کے لئے اپنی عزت کی حفاظت کی تھی میں نے؟ میں ہی کیوں؟ کیا غلطی تھی میری؟”
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
“پاگل ایسے نہیں کہتے یہ خدا کے معاملات ہیں بندہ اس میں دخل نہیں دے سکتا۔”
وہ اس کا چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
“تو کیا یہ نا انصافی نہیں میرے ساتھ؟ کیا میں اس سب کی حقدار تھی؟ میں کیوں اس کی حوس کا نشانہ بنی؟”
وہ پے در پے سوال کرتی جا رہی تھی جس کے جواب مشل کے پاس نہیں تھے۔
“امی کہتی ہیں میں بولتی نہیں ہوں۔۔۔ کیا بولوں میں بتاؤ؟ کیا بچا ہے میرے پاس؟ میں مر چکی ہوں صرف سانس ہے جو چل رہی۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد تو شاید سانس بھی رک جاتا ہو میں نجانے کیسے اب تک زندہ ہوں۔ اس انسان نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے۔۔۔ ”
وہ آہیں بھرتی بول رہی تھی۔
وہ یہی چاہتی تھی کہ زرش اپنے اندر کا غبار باہر نکال دے۔
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
~~~~~~~~
“آ گئے ہیں صاحبزادے۔۔۔ ”
وائز کو اندر آتے دیکھ کر رضی حیات بولے۔
وہ گرے ٹی شرٹ پر لیدر کی بلیک جیکٹ پہنے ہوۓ تھا۔ آنکھوں پر سیاہ گاگلز لگاےُ سینہ تانے چلا آ رہا تھا۔ اس کی چال سے غرور ٹپک رہا تھا۔
نہ وہ پیشمان تھا نہ ہی چہرے پر کوئی ملال تھا۔
“آپ نے بلایا تھا؟”
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“نہ سلام نہ دعا۔۔۔ بہت خوب؟”
گل ناز سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
گھر کے تمام افراد اس وقت موجود تھے۔
“وہ لڑکی کہاں ہے؟”
رضی حیات خفگی سے دیکھتے ہوۓ بولے۔
“اپنے گھر ہو گی مجھے کیا پتہ؟”
وہ لاپرواہی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔
“تمہاری بیوی ہے برخوردار۔۔ اور کان کھول کر ہماری بات سن لو رخصتی کروا کے اسے اپنے ساتھ رکھو۔ تمہیں اتنی ڈھیل اس لئے نہیں دی تھی کہ یہ بدکاریاں کرتے پھرو۔۔ دنیا کے سامنے ہمیں ذلیل کروانے کا شوق چڑھا ہے نواب صاحب کو۔۔۔”
وہ طیش میں چلا رہے تھے۔
“اچھا بھیج دیں۔ پڑی رہے گی ایک کونے۔”
وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“کچھ تو شرم کر لو وائز۔۔۔ یہ تربیت تو نہیں کی تھی تمہاری۔ کہ تم لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلو۔”
گل ناز تاسف سے بولی۔
“اوکے بس۔۔۔ یہ لیکچر سننے نہیں آیا میں۔ بابا سائیں نے کہا نکاح کرو میں نے کر لیا۔ اب کہہ رہے رخصتی کرواؤ، میں تیار ہوں لیکن میں اسے جیسے مرضی رکھو اس سب میں آپ دخل نہیں دیں گے۔”
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
ثوبیہ بے چینی سے پہلو بدلتی وائز کو دیکھنے لگی۔
“یہ تم ہماری ہی شہ پر اتنا چڑھ رہے ہو۔”
وہ تنک کر بولے۔
“تو پھر اب اس کا کیا مقصد؟ اتنے آرام سے آپ کی بات مان رہا ہوں کیا یہ بہت نہیں؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔”
باقی سب خاموش تھے ایک انجان لڑکی کے عوض انہیں وائز سے اپنا رشتہ خراب نہیں کرنا تھا۔
“یار چاچو سمجھایا کریں اپنے بھائی کو۔۔ بلاوجہ تاؤ کھاتے رہتے ہیں۔”
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
احسن اس کی بات پر معدوم سا مسکرایا۔
“اگر یہ عدالت ختم ہو گئی ہو تو میں آرام کر لوں یا الٹے قدم واپس لوٹ جاؤں؟”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“جاؤ کمرے میں۔۔۔۔باقی کام میں تو جیسے ہم سے اجازت طلب کرتے ہو نہ۔”
وہ ہنکار بھرتے دوسری جانب دیکھنے لگے۔
“شام میں ملتا ہوں تم سے۔”
وہ احسن کے بال بکھیرتا چل دیا۔
~~~~~~~~
“جب نکاح ہو گیا ہے تو پھر رخصت کر دینا ہی بہتر ہے کل کو کوئی آپ سے سوال تو نہیں کرے گا نہ۔۔۔۔”
رضی حیات سوچتے ہوۓ بولے۔
جنید صاحب اثبات میں سر ہلانے لگے۔
“ہم ولیمے کا فنکشن کر لیں گے آپ اپنے مہمانوں کو بھی مدعو کر لینا۔۔۔ باقی کوئی اعتراض آپ کو؟”
وہ رک کر انہیں دیکھنے لگے۔
مالی حیثیت ابھی اجازت نہ دیتی تھی کہ وہ کوئی معمولی سا بھی فنکشن کر سکیں۔ثریا کا زیور بیچ کر وہ زرش کو پڑھا رہے تھے اب گھر میں کچھ بھی باقی نہیں تھا سو خاموشی سے نفی میں گردن ہلانے لگے۔
وائز باہر گاڑی میں ان کا منتظر تھا۔
زرش زندہ لاش کی مانند بن چکی تھی جسے جو کہا مان لیا، جہاں کہا چل دی۔
آنکھیں خشک اور ویران تھیں۔
آخر ان کی بھی ایک حد تھی اور ان دنوں میں وہ تمام حدود کو عبور کر چکی تھی۔
وائز جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا۔
زرش ہچکچاتی ہوئی اندر آ گئی۔
یہ وہی جگہ تھی جہاں اس کی روح اس کے جسم کو پامال کیا گیا تھا۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔
“تم؟”
وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
وہ سر جھکاےُ وہیں رک گئی۔
“آج میرے کچھ دوست آ رہے ہیں اس لئے تم اس کمرے میں چلی جاؤ اور باہر مت نکلنا۔”
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ بنا کچھ کہے کمرے کی جانب چل دی۔
“لگتا ہے زبان گھر چھوڑ کر آئی ہے۔”
وہ بولتا ہوا اپنے کمرے میں آ گیا۔
“ہاں سعد کب تک آےُ گا؟”
وہ فون کان سے لگاتا بیڈ پر گر گیا۔
“یار یہ کیا مذاق ہے اب میں آؤں؟”
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
“اچھا کون سے ریسٹورنٹ بتا؟”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“میں چینج کر کے آؤں گا اس لئے دماغ مت کھانا میرا۔”
وہ خفگی سے کہتا فون بیڈ پر پھینک کر وارڈروب کھول کر کھڑا ہو گیا۔
بلیو شرٹ پر گرے لانگ کوٹ پہنے وہ دلکش لگ رہا تھا۔
“سنو۔۔۔ میں باہر جا رہا ہوں تم اندر سے لاک کر لو۔”
وہ دروازے سے اندر جھانکتا ہوا بولا۔
وہ جو سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھے تھی اس کی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگا جو اس سرد موسم میں فرش پر بیٹھی تھی۔
چہرہ تر تھا لیکن کمرے میں نیم تاریکی تھی جس کے باعث وہ دیکھ نہ سکا۔
وہ اثبات میں گردن ہلانے لگی۔
“عجیب لڑکی ہے یونی میں تو ایسے زبان چل رہی تھی اور اب۔۔۔ ”
وہ جھرجھری لیتا باہر نکل گیا۔
“ہاےُ؟”
وہ کہتا ہوا سعد سے ملنے لگا۔
“جینی تم؟”
وہ حیران ہوا۔
“ہاں۔۔ لیکن تم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟”
وہ گھوری سے نوازتی ہوئی بولی۔
“سعد نے مجھے بتایا نہیں کہ تم بھی آ رہی ہو۔”
وہ جینی سے مل کر بیٹھ گیا۔
“میری فون پر بات ہوئی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ ہم باہر جا رہے ہیں تو یہ بھی تیار ہو گئی۔”
سعد ویٹر کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔
“تم سناؤ مان گئی منگیتر یا نہیں؟”
وائز ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔
“ہاں یار بس پوچھ نہ۔۔۔ بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“تو چھوڑ دیتا لڑکیوں کی کمی تو نہیں دنیا میں۔”
وہ بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔
“تو کبھی نہیں سدھر سکتا لیکن ہم اتنے بگڑے نہیں ہیں۔”
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
“چل پہلے آڈر کر لیتے ہیں پھر باتیں کریں گے۔”
وہ جینی کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہا تھا۔
رات گئے وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔
لاؤنج میں قدم رکھتے اس کی نظر زرش کے کمرے پر پڑی۔
“اس نے کھانا کھایا ہو گا؟”
بے ساختہ وہ بول گیا۔
“کچن میں سب موجود تھا کھا لیا ہو گا اس نے۔۔۔ ”
وہ لاپرواہی سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
~~~~~~~~
“آپ کو کیا لگتا ہے یہ صحیح فیصلہ ہے؟”
تاریکی میں سرگوشی گونجی۔
“پتہ نہیں لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ جب نکاح کیا تو رخصت بھی کرنا تھا۔”
جنید صاحب سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
“میرا مطلب اس لڑکے سے زرش کا نکاح کرنا۔۔۔ ”
ثریا ہچکچاتی ہوئی بولی۔
“عزت بھی تو بچانی تھی نہ۔۔۔”
وہ لاچاری سے بولے۔
“وہ میری بیٹی کے لائق نہیں ہے۔”
وہ اشک بہاتی ہوئی بولیں۔
“ہم سب مجبور ہیں۔۔۔ شاید قسمت کے ہاتھوں۔”
وہ مدھم آواز میں بولے۔
“پتہ نہیں کیا لکھا ہے زرش کے نصیب میں۔”
ان کی آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
“بیگم بس اللہ پر بھروسہ رکھیں۔۔۔ اس سے دعا کیا کریں کیونکہ وہی بہتر کارساز ہے۔”
وہ خاموش ہو گئیں۔ شاید الفاظ دم توڑ گئے تھے۔
~~~~~~~~~
“میں تمہارے ساتھ یونی نہیں جاؤں گی۔”
وہ کمرے سے باہر نکلتی ہوئی بولی۔
وہ جو ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔
“پہلے بات سن لو میری تم۔۔۔ میں تمہیں نہیں کہوں گا کہ ناشتہ کر لو ڈنر کر لو۔ گھر میں سب موجود ہے جو کھانا ہو کھا سکتی ہو۔”
وہ کھڑا ہو کر اس کی جانب چلتا ہوا بولا۔
“ضرورت نہیں۔”
وہ بائیں جانب دیکھ رہی تھی۔
“ہاں تاکہ کل کو تمہارے ماں باپ میرے پاس آ جائیں کہ ان کی بیٹی کو بھوکا رکھ کر مار دیا میں نے۔”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا چبا چبا کر بولا۔
“یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے کی روادار نہ تھی۔
“یہاں تمہاری مرضی نہیں چلے گی بیوی ہو میری جو میں کہوں گا وہی کرو گی سمجھی تم؟”
وہ آگے بڑھتا فاصلہ سمیٹنے لگا۔
وہ دو قدم پیچھے ہو گئی۔
وائز ششدر سا وہی رک گیا۔
“ناشتہ کرو اور چلی جانا اکیلی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
وہ کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
وہ لب بھینچ کر ڈائینگ ٹیبل کو دیکھنے لگی۔
بھوک کا احساس ہوا تو دو سلائس کھا کر باہر نکل گئی۔
“زرش تم ٹھیک ہو؟”
مشل اس کے ہمراہ چلتی ہوئی بولی۔
“پتہ نہیں۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“پھر؟ آنٹی کا فون آیا تھا کہ تمہیں۔۔۔ ”
وہ اسے دیکھتی خاموش ہو گئی۔
“ہاں لیکن میں اکیلی آئی ہوں جیسے پہلے آتی تھی۔”
بولتے بولتے اس کی آواز بھیگ گئی۔
“تم ٹھیک ہو؟”
وہ رک کر اس کے سامنے آ گئی۔
“مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیسا رد عمل ظاہر کروں؟ اس انسان کی شکل دیکھتی ہوں تو مجھے وہ سب یاد آتا ہے۔ میں کیسے بھول جاؤں اس نے میری سسکیوں کا دم توڑا تھا۔اس نے جو کیا، وہ ناقابل فراموش ہے۔ اور اب اسے اپنا شوہر مان لوں کیسے مشل کیسے؟”
وہ مشل کے گلے لگی اشک بہا رہی تھی۔
“سنبھالو خود کو۔۔۔ ہم یونی میں ہیں۔”
وہ اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھتا ہوا وائز انہیں دیکھنے لگا۔
آنکھوں میں تعجب تھا۔
ایک اچٹتی نگاہ زرش پر ڈالتا وہ آگے چل دیا۔
وہ سر جھکاےُ مشل کے ہمراہ کلاس میں داخل ہوئی۔
“زرش یہ دیکھو تمہاری غیرموجودگی میں تمہارے نوٹس بنا دئیے میں نے۔”
دائم جو کہ ان کے آگے بیٹھا تھا رخ موڑتا ہوا بولا۔
“تھینک یو۔”
وہ پھیکا سا مسکرائی۔
“کیا کوئی بات ہے؟”
وہ باری باری دونوں کے چہرے دیکھتا ہوا بولا۔
“نہیں۔۔۔ کیا بات ہونی ہے؟”
مشل مسکراتی ہوئی بولی۔
“کچھ تو ہے۔ کیا چھپا رہی ہو تم دونوں؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“تم ایسے ہی سوچ رہے ہو کچھ بھی نہیں ہے۔”
مشل نے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
اس کی نظر زرش پر تھی جس کا چہرہ ہر شے بیان کر رہا تھا۔
“اچھا چلو آج کا بل میں دوں گا۔۔۔ جو دل کرے کھا لینا کیفے سے۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
کلاس ختم ہو چکی تھی کچھ لوگ کلاس میں تھے اور کچھ باہر نکل گئے تھے۔
“سوچ لو۔۔۔ بعد میں نہ کہنا میری جیب خالی کروا دی۔”
مشل منہ بسورتی ہوئی بولی۔
“ارے نہیں کہتا۔۔۔ تم کہاں گم ہو؟”
وہ زرش کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا۔
سیٹ سے اٹھتا وائز یہ منظر دیکھ چکا تھا۔
وہ اس کی بیوی تھی۔ رشتہ ان چاہا تھا لیکن پھر بھی اسے غصہ آنے لگا۔
وہ فون نکال کر زرش کا نمبر ملانے لگا۔
انجان نمبر دیکھ کر زرش کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“اٹھا کیوں نہیں رہی؟”
دائم خفگی سے بولا۔
وہ فون کان سے لگا کر سامنے دیکھنے لگی۔
“ابھی اٹھو وہاں سے؟”
جونہی نظر وائز سے ملی اسپیکر پر اس کی آواز سرسرائی۔
اسے اپنی سماعت پر شبہ ہو رہا تھا۔
“کون؟”
وہ نظروں کا زاویہ موڑ چکی تھی۔
“تمہارا شوہر۔۔۔ ”
تنک کر جواب آیا۔
“گھر جا کر بات کرتی ہوں۔”
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
وائز اس حرکت پر تلملا اٹھا۔
“تم کس سے بات کر رہے ہو؟”
عقب سے جینی بولی۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا زرش کے سر پر جا کھڑا ہوا۔
مشل اور دائم کے ساتھ ساتھ زرش بھی حیران تھی۔
ایک سلگتی نگاہ دائم پر ڈالتا وہ زرش کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔
وہاں موجود ہر شخص حیران تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...