تو یہی حساب اللہ اور اس کے بندے کا ہے
پانچ نمازیں ایک ماہ کے روزے اس نے فرض کر دیے ہیں
وہ ہر حال میں ہم پر واجب ہیں اگر نہ رکھ سکو تو ہدیہ دو وہ الگ بات ہے
تواسیطرح میرے بچے اللہ نے نفلی روزے اور نفلی عبادت رکھی ہے
وہ دیکھنا چاہتا ہے کون زیادہ محنت کرتا ہے ہے کون اس کی بارگاہ میں زیادہ معتبر بننا چاہتا ہے
وہ اسے چن لیتا ہے اور پھر تہجد میں بلاتا ہے
خاص کر لیتا ہے ،اور پھر ان خاص کو اور خاص کرنے کے لیے اور مظبوط بنانے کے لیے وہ ان سے آزمائش لیتا ہے
اور آزمائش ویسی لیتا ہے کہ انسان کو لگتا ہے اب کچھ نہیں رہا مگر وہ جانتا ہے اس کے بندے کی ہمت کتنی ہے
بیٹا وہ اتنی آزمائش دیتا ہے جتنی اسکا بندہ سہہ سکے جہاں اس کے بندے کی بس ہونے لگتی ہے وہ بس وہیں فرما دیتا ہے
کُن فیکون
تو وہ جاتاہے
وہ بندے کو آزمائش میں سینچ کر اسے ہیرا بنا دیتا ہے اور اس مقام پہ لے جاتا ہے جہاں پھر اسے رب کے سوائے کسی کی ضرورت نہیں رہتی
میرے بچے وہ پتہ کیسے آزماتے ہے
وہ ہنوز انہیں سن رہی تھی ، ہاں میں سر ہلا نہیں پتہ کیسے کیسے آزماتا ہے
میرا بچہ بہت بھولا ہے سر ہہ ہاتھ رکھتے وہ تھوڑا سا مسکرائے
بیٹا اس کے اپنے رنگ ہیں
کسی کا غرور تھوڑنے کے لیے آزماتا ہے
کسی کی انا تھوڑنے کے لیے آزماتا ہے
کسی کا پیار چھین کر کسی کا سب سے انمول رشتہ چھین کر
اور سب سے زیادہ وہ کبھی کبھی ہمارے اپنوں کے ذریعے آزماتا ہے ،
یہاں تک بیٹا ماں باپ ،اولاد تک آزمائش ہے
اور وہ کہ سب اس لیے کرتا ہے
جسے وہ خاص کرنا چاہتا ہے اسے مظبوط بھی کرے
اور انسان کو پتہ چل سکے کہ اس کی ذات کے سوائے کوئی نہیں ہے تیرا
وہ نہیں ہوتا تو بھی ہوتا ہے
اس لیے بیٹا اگر کوئی کچھ کہے
آپ صحیح بھی ہوں تو بھی چپ رہو ،اور رشتہ نہ توڑو مگر معاملہ اللہ پہ چھوڑ دو
یہاں تک اگر ماں باپ بہن بھائی بھی کچھ کہے تو مسکرا کر جواب دو اور غلط بات کبھی نہ کہو
اللہ سب کا منصف ہے اور سب سے بڑا منصف ہے
اس کی ذات کے سوائے کبھی بھی کسی سے امید مت لگانا ،
چاہے وہ ماں ہو یا پھر باپ ہو __کوئی بھی ہو
امید بس اللہ سے
امید بس اس کی ذات سے لگاو اور مری اپنے اچھے بچے سے ریکوسٹ ہے کہ وہ تہجد ضرور پڑھا کرے
دیکھنا پھر سب ٹھیک ہو جائے ،
اس وقت بیٹا اللہ بندے کو خود پکارتا ہے تہجد سب سے لاڈلی عبادت ہے اس وقت بندہ اللہ سے کچھ بھی جا ئز بات منوا سکتاہے
جی انکل میں پوری کوش کروں گی اب تہجد پڑھا کروں
کچھ دیر بعد وہ پھر بولے بیٹا ماشاءاللہ
اللہ پاک بیٹا آپ کے نصیب خوشیوں سے بھر دے ،
کیا تھے وہ۔کون
تھے اس کے دل کا حال وہ کیسے جان گِے ،
اور ہر بات دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی
نہ بوڑھے نہ اتنے جوان ، داڑھی کہیں کہیں سفید ہو رہی تھی کچھ بال کالے تھے ابھی،
چہرہ نوارنی صورت تھا
نہ ہاتھ میں تسبیح نہ بغل میں مصلہ نہ سر پہ ٹوپی ،
پھر بھی اتنی گہری اور اچھی باتیں نہ لہجہ کڑوا نہ تحکمیہ ،
بس التجا ہی التجا ، میٹھا لہجہ ہر لفظ دل میں اتراتا
ابھی وہ سوچوں میں تھی جب کسی نے تسلسل تھوڑا ،
گوجرانوالہ سیالکوٹ بائی پاس
سارے نزدیک نزدیک آ جاو ،سیالکوٹ سے ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر اسے پتہ ہی نہ چلا گوجرانولہ کیسے آ بھی گیا ہے
مگر ابھی ایمن کا سٹاپ کافی دور تھا
وہ ہنوز انہیں دیکھ رہی تھی
بیٹا زندگی آزمائش ہے مگر اس آزمائش کو ہم آسان بنا سکتے ہیں
اس اللہ کی اس واحد کی مان کر اور اس کے رسول پاکؑ کے نقش قدم پہ چل کر ،
بیٹا راستہ بتا دیا گیا ہے ،چلنا ہمیں خود ہے
بس دل کو صاف رکھنا کیوں کے یہ اسکا مسکن ہے
جب تک یہ پاک رہے گا سب صاف رہے گا جس دن اس میں میل آ گئی ،سمجھو سب میلا کچلا ہو گیا
یہ زندگی قدم قدم پہ امتحان لیتی ہے بیٹا
یہاں ایک دن تم خوش ہوگے تو دوسرے دن اداس۔۔
مشکلات سے سبھی گزرتے ہیں اور گزرتے رہیں گے۔۔
بس تکالیف پر تمہارا ردِعمل اور تمہارے الفاظ بتاتے ہیں کہ تم ٹیسٹ میں پاس رہے یا فیل۔۔
جب بھی اداس اور غمزدہ ہو، ہمیشہ یاد رکھو صرف اللہ ہی تمہاری زندگی میں خوشی و مسرت لا سکتا ہے۔
تمہارا رب کہتا ہے
“اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا”
(سورۃ النجم، آیت 43
اس لیے اسی پر بھروسہ رکھو اور صرف اسی سے امید لگاؤ، صبر اور برداشت سے کام لیتے جاؤ کیونکہ جلد ہی تمہاری آزمائش ختم کر دی جائے گی اور پھر یہ محض ماضی کا حصہ بن جائے گی۔
صرف تمہارا ری-ایکشَن کہ تم اللہ کے بندے بنے رہے، یا نافرن بندے بنے ،
ان کی باتوں میں اک سحر تھا جس میں وہ جکڑ گئی تھی
اب آنسووں کی جگہ حیرت نے لی تھی وہ کیا سوچتی تھی اور یہ سب
کنیکٹر کی آواز سے سوچوں کے بھنور سے باہر نکلی تھی
باجی جلدی آئیں پنجاب یونی ورسٹی آ گئی ہے
بیٹا روکو وہ انکل پھر بولے ،گاڑی کو بریک لگاو بچی پھر اترے گئی
بریک لگتے ہی وہ اٹھی
اس سے پہلے انکل اٹھے ،راستے میں کھڑے لڑکوں کو بولا بیٹا پیچھے ہٹو بہن کو اترنے دو
وہ بھی آرام سے پیچھے ہٹ گئے ،حیرت کی انتہا تھی آج
اللہ حفاظ انکل
اللہ نہگبان بیٹا سر پہ ہاتھ رکھتے وہ مسکرا کر بولے
گاڑی چلی گئی مگر اسے نئی سوچوں سے ہمکنار کر گئی تھی
روڈ کراس کرتی وہ یونی ورسٹی تو انٹر ہو گئی تھی
ذہیں انکل کی باتوں میں اٹک گیا تھا
امی میں جانتی ہوں آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں
مگر بس کبھی آپ کو غصہ آ جاتا ہے
مسکرا کر اس نے موبائل نکلا اور امی کا نمبر ملایا
تیسری بیل پہ کال اٹھا لی
اسلام علیکم
کیا ہے کیوں کی فون
بجائے سلام کا جواب دینے کے وہ غصہ سے بولی
امی دعا کیئجے گا ،میریے لیے
ابھی ایمن کے لفظ منہ میں ہی تھے
شمائلہ بیگم نے کال کٹ کر دی
وہ حیرانی سے موبائل کو دیکھنے لگی ،
اک پھیکی ہنسی ہنستی وہ اندر کی طرف بڑھ گِی
پرپوزل جمع کرواتے اور اپرول لیتے چار بج گِے مگر یہ کام اسے آج ہی کرنا تھا کیوں کہ نیکسٹ تھیسز میں ٹائم کم رہ جانا تھا
آخر کار اسے اپرول مل گیا
شکر ہے اللہ تیرا ،
وہ شکر کرتی کیفے کی طرف بڑھی ،
تاکہ کچھ کھا پی سکے صبح سے صرف چار بریڈ کھائے ہوئے تھے
ایمن آئی نہیں یہ بابا پوچھ رہے تھے
پتہ نہیں ،
شمائلہ بیگم بیٹی ہے وہ آپ کی ،_
آئی ہوتی تو آپ کو نظر آجاتی نہ
اندرونی دروازے سے اندر آتے وہ ماما بابا کی باتیں سن چکی تھی اس سے پہلے ماما بابا کو اور سناتی ایمن آگے بڑھ گئی
اسلام علیکم
وعلیکم سلام
بابا کیسے ہیں
الحمد للہ
بڑی خوش نظر آ رہی ہے ہماری بیٹی
جی بابا
ماما آپ کیسی ہیں ، ہنہ ہنہہ وہ بسورتے وہ اٹھ گئی
بابا آپ کو پتہ ہے اپرول مل گیا میرا ٹاپک سر کو بہت پسند آیا ،_
ماشاءاللہ چلو پھر تو بہت اچھی بات ہے
چلو بیٹا جاو فریش ہو جاو اور پھر کھانا وغیرہ کھاتے ہیں میں بھی آج ابھی آیا ہوں
لیٹ ہو گیا تھا
جی بابا چلیں ،ملتے ہیں کھانے پہ وہ دلخراش ہنسی سجائے اوپری منزل کی طرف بڑھ گئی تھی