کسی اداکارہ پر ڈائریکٹر کا دل آ بھی جائے تو وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا فرعون کا فرعون ہی بنا رہتا ہے اور پروڈیوسر جس کے لاکھوں روپے لگے ہوتے ہیں۔۔۔
وہ تو کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح سب کو دانت نکوس نکوس کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ باقی میرے جیسے اسسٹنٹ اور کیمرہ مین وغیرہ جو بچتے ہیں تو ان بیچاروں کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا لہذا صبر کا گھونٹ وہ خود بھی پیتے ہیں اور اداکارہ کو بھی نظریں بھر بھر کر تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔
عالیہ کا کردار ادا کرنے والی کو بار بار خفت کا سامنا کرنا پڑتا مگر پھر بھی وہ اپنی غیر سنجیدگی ترک کرنے کو تیار نہ تھی در اصل اس کا مزاج ہی ایسا تھا وہ کہتی تھی اگر میں ہنسوں گی نہیں تو مر جاؤں گی۔
جان بوجھ کر جملے غلط بولتی اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگتی یہاں تک کہ ہماری اپنی ہنسی چھوٹ جاتی۔
ایک بار ڈائیلاگ ڈیلیوری کے دوران اسے ڈکار آ گئی اور منہ سے عجیب آواز نکلی جسے سن کر پہلی بار ڈائریکٹر صاحب بھی ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے باہر بالکونی میں چلے گئے۔
’’بڑی کمپنی عورت ہو تم‘‘ جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے مگر غصے سے نہیں پیار سے۔
میں نے اندازہ لگایا کہ اس کے لبوں کی بے ساختہ ہنسی کمسنی کی سبب ہے اور کچھ نہیں۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ لا ابالی پن، چلبلاہٹ، طبیعت میں شوخی اور شرارت چڑھتی جوانی کے استعارے ہیں۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ابھی دنیا کا کوئی غم اسے چھو کر نہیں گزرا، کسی نے اس کے ساتھ دھوکا نہیں کیا، کسی دکھ نے اسے سنجیدہ ہونے پر مجبور نہیں کیا کسی محرومی نے ابھی تک اس پر اپنی پرچھائیں نہیں ڈالی۔۔۔
مگر ایک دن جب اس کے کردار کی کہانی دسویں قسط تک پہنچی جس میں اس کا یہ غم دکھانا تھا کہ نہ صرف وہ شادی شدہ ہے بلکہ اس کے دو بچے بھی ہیں جنہیں وہ گھر میں بند کر کے نوکری پہ آ جاتی ہے تاکہ انہیں پال سکے۔ رات کو گھر جاتی ہے تو بچے سو چکے ہوتے ہیں صبح جب وہ دو بارہ گھر سے روانہ ہونے لگتی ہے تو بچے دروازے تک اس کا پیچھا کر کے اسے چھوڑ کر نہ جانے کے لیے کہتے ہیں مگر وہ کٹھور دل کے ساتھ انہیں جھڑک کر چلی جاتی ہے۔ بعد میں راستے بھر اس کے آنسو نہیں رکتے۔
اس چنچل اداکارہ نے جب یہ سین مکمل کر کے دیا تو ہمارے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ اور وہ خود اس بری طرح روئی جیسے واقعی رو رہی ہو۔۔
میں اس مذکورہ ڈرامے کا اسسٹنٹ رائٹر تھا، ڈرامے کا یہ حصہ میرے ہی کہنے پر شوٹ کیا گیا، اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔
میں ڈیفنس کے جس فلیٹ میں میڈم کے ساتھ رہ رہا تھا اس کے بالکل سامنے والے فلیٹ میں اسی طرح کے دو بچے رہتے تھے۔ اسکرپٹ لکھنے کے دوران کھڑکی کے راستے میری نظر ان پر پڑتی رہتی تھی، وہ اسکول سے آ کر کھانا کھاتے، ہوم ورک کرتے پھر کمپیوٹر میں گیم وغیرہ کھیلتے، جب سب چیزوں سے دل بھر جاتا تو شاید انہیں ماں باپ کی یاد ستانے لگتی۔۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے آ لگتے اور گھنٹوں نیچے سڑک پر گزرنے والے لوگوں کو دیکھتے یا مجھے دیکھنے لگتے۔۔۔
کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں۔۔۔ ؟ شاید یہ کہ یہ بھی کوئی ہماری طرح کا تنہا شخص ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی کاغذ پر سر جھکائے کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا ہے۔
لڑکے کی نسبت لڑکی مجھے زیادہ تکتی تھی ۔
وہ شاید بارہ سال کی تھی یا دس سال کی یا آٹھ کی، مجھے نہیں پتہ، مجھے لوگوں کی عمروں کا اندازہ نہیں ہوتا ۔
جب میں لکھتے لکھتے کچھ سوچنے لگتا تو کھڑکی سے باہر میری نظریں خلاؤں میں گھورنے لگتیں لیکن سامنے والوں کو لگتا میں انہیں گھور رہا ہوں۔
بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی آیا کو جب بھی موقع ملتا وہ شیشے کے آگے پردے گرا دیتی اور یوں ان کے کمرے کا سارا منظر اوجھل ہو جاتا۔ مگر زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی جب لڑکی دو بارہ پردے اٹھا دیتی اور نیچے گلی میں جھانک کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر مطمئن ہو جاتی کہ وہ کسی قید خانے میں نہیں ہے، ایک رابطے والی کھڑکی نے اسے باہر کی دنیا سے جوڑ رکھا ہے۔
لڑکا جو شاید چھ سال کا تھا بہت ضدی اور لڑاکا تھا کبھی کبھی اپنی بڑی بہن پر بھی ہاتھ اٹھا دیتا یا اسے دھکا دے دیتا اور آیا سے تو اسے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا کر آیا کے منہ پر دے مارتا۔ بہن اسے روکتی رہ جاتی، کبھی کبھی منہ پر تھپڑ بھی جڑ دیتی جسے کھا کر عجیب سی نظروں سے وہ بہن کو گھورتا پھر رندھے گلے کے ساتھ اپنی شکل بگاڑ کر چیختا، ” امی کو آنے دو پھر بتاؤں گا ” اور اس کے بعد باقاعدہ منہ چھپا کر زور زور سے رونے لگتا۔
اس کی آنکھوں کا جھرنا دیکھ کر بہن اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی یا گلے سے لگانے لگتی مگر وہ اسے دھکا دے دیتا اور روئے چلا جاتا۔۔
پھر وہ لڑکی جب مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھتی تو اس کی اپنی آنکھوں میں آنسو تیرتے نظر آتے۔۔ ٹھیک اسی وقت میں اپنی کھڑکی کا پردہ گرا دیا کرتا۔۔ میرے جیسے حساس دل کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکوں۔۔
ایسے ہی ایک سین کے دوران میڈم کمرے میں آ گئیں۔۔۔ جانے کتنی دیر مجھے غور سے دیکھا میں تو ان بچوں کے غم میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ پوچھنے لگیں ’’کیا ہوا ہے تم کو عدنان‘‘؟
’’کچھ نہیں میڈم‘‘ جلدی سے اپنے آپ کو بحال کرنے لگا۔
میڈم واپس چلی گئیں کہا ایک کپ چائے بنا کر لاؤں۔ میں اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔۔ الیکٹرک کیتلی میں ان کے لیے چائے تیار کی کپ لے کر ہشاش بشاش ان کے کمرے میں پہنچا مگر میری یہ اداکاری دھری کی دھری رہ گئی۔ میڈم چائے پیتے ہوئے ہمدردی جتانے لگیں ” تم ایسا کرو کچھ دنوں کے لیے گھر چلے جاؤ، تمہیں چھٹی کی ضرورت ہے جو کہ ہر انسان کو ہوتی ہے ”
نہیں نہیں میڈم۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں، آج رات مجھے وہ قسط بھی لکھنی ہے جس میں سائرہ بھاگ کے شادی کر لیتی ہے۔
بھاگ کے شادی کیا ہوتی ہے؟ میڈم خفا ہو گئیں۔۔۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ سائرہ اپنی پسند سے شادی کر رہی ہے۔
جی میڈم۔۔ مختصر جواب
ایک توقف کے بعد میڈم کی ہمدردی پھر جاگ گئی۔۔۔ یہ قسط میں لکھ دوں گی، تم گھر جاؤ آرام کرو، اپنے بیوی بچوں سے ملو۔۔
جی میڈم۔۔۔
میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا مگر کافی دیر بعد بھی رخت سفر نہ باندھ سکا جانتا تھا میڈم آج والے ایپی سوڈ کو لکھ تو دیں گی مگر انہیں بہت زیادہ دقت پیش آئے گی، تمام سیاق و سباق کو دیکھنا پڑے گا ڈرامے سے متعلق وہ چھوٹے چھوٹے نوٹس بھی پڑھنے ہوں گے جو میں اپنی یاد دہانی کے لیے لکھتا رہتا ہوں۔۔ خیر یہ ٹیکنکل باتیں ہیں جو آپ نہیں سمجھ پائیں گے۔ آگے چلتے ہیں۔
میڈم کے حکم پر میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے گھر آ گیا۔
کیا اپنے بچوں سے مل پاؤں گا؟ ایک خالی گھر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہاں تو شیشے کی وہ کھڑکی بھی نہیں تھی جہاں سے میں ان دو بچوں پر نظر ڈال سکتا جن کی ماں صبح سویرے ہی نوکری پر نکل جاتی اور رات کو پتہ نہیں کب آتی تھی، باپ کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ یا تو وہ انتقال کر گیا تھا یا انہیں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اب میری ان دونوں سے دوستی ہو گئی تھی جس کی ابتدا لڑکے نے کی تھی۔ ایک دن وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منہ چڑانے لگا۔ بس پھر کیا تھا میں نے بھی الٹی سیدھی شکل بنا کر خوب خوب منہ چڑایا۔ لڑکی یہ منظر دیکھ کر خوب ہنسی پھر اپنے بھائی کو کھینچ کر لے گئی جو مسلسل میرے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا۔۔
پھر اس طرح کے مقابلے اکثر ہونے لگے۔
اس طرح کم سے کم ہم تینوں خوش تو ہو جاتے تھے۔
لڑکی اشارے سے پوچھتی کہ میں کیا لکھتا رہتا ہوں مگر میرے سمجھانے پر اسے سمجھ نہ آتی شاید میرے اشاروں میں جان نہیں تھی۔۔ کبھی کبھی وہ کہتی ” بس کریں، کتنا لکھیں گے، اب آرام کر لیں (اشاروں میں)
میں کہتا۔ ایسا ممکن نہیں میری گڑیا رانی۔ کبھی وہ نیچے گلی کی طرف توجہ دلاتی ” وہاں دیکھیں کیا ہو رہا ہے ” میں دیکھتا کہ دو نوجوان آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے ہیں۔۔
میں محسوس کرنے لگا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بچی میری فکر کر رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ میں اتنا زیادہ کام نہ کیا کروں، تھوڑا بہت باہر بھی جایا کروں کہیں چائے وائے پینے یا اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے، خود کو کمرے میں اس طرح بند نہ رکھا کروں۔
اف یہ لڑکیاں دوسروں کا اتنا خیال کیوں کرتی ہیں چھوٹی سی عمر سے ہی
وہ بہن کے روپ میں چھوٹے بھائی کی ایسے کئیر کر رہی تھی جیسے ماں ہو، میری طرف دیکھتی تو بیٹی کا روپ دھار لیتی اور مجھ میں اپنے کھوئے ہوئے باپ کو تلاش کر کے کف افسوس ملتی کہ کاش اس شخص کی کوئی خدمت کر سکتی مگر اتنی دور سے کیسے کرے۔۔ تاہم اس کی آنکھوں میں ایک بیٹی کا سارا پیار امڈ آتا اور وہ میری طرف اپنی پیاری سی مسکراہٹ پھینک دیتی جسے پا کر میں وقتی طور پر اپنے بچوں کو بھول جاتا۔ میری بیوی ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی تھی، امید کرتا ہوں کہ ایک دن وہ واپس آ جائے گی۔ خیر یہ ایک دوسری کہانی ہے اور ایک تیسری کہانی میڈم کی ہے جو اس شوٹ کیے جانے والے ڈرامے کی اصل رائٹر ہے۔
یہ دو کہانیاں بعد میں کبھی لکھوں گا۔۔
اللہ اللہ کر کے جب یہ ڈرامہ شوٹ ہو کر اپنے اختتام کو پہنچا تو میں بھی فارغ ہو کر گھر آ گیا۔۔
کئی ہفتے بعد جب یونہی ایک دن میڈم سے ملنے گیا تھا تو واپسی پر سوچا ایک نظر اور ان بچوں کو دیکھ لوں پھر پتہ نہیں کب یہاں دوبارا آنا ہو۔۔
میڈم سے اجازت لے کر جب میں اس کمرے میں آیا اور شیشے کی کھڑکی سے پردہ اٹھایا تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات نے میری سانسیں روک لیں۔ دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ کھیل کود رہے تھے، مسکرا رہے تھے، ہنس رہے تھے، ماں سے لپٹ لپٹ جا رہے تھے اور پتہ ہے ان کی ماں کون تھی؟؟؟
وہی ہماری چنچل اداکارا عالیہ۔۔۔
2
سارے پیر منگل اور بدھ گنوانے کے بعد بھی مرادوں والیجمعرات کبھی نہ آئی۔
شام کو ٹیوشن کے بعد اسکول کے بڑے
سے آنگن میں طرح طرح کے کھیل کھیلنے والی سکھیاں معصومیت کے اتنے گہرے لبادے میں رہتی تھیں کہ ماسٹر جی سے متعلق انہیں میرے دل کی کیفیات پر کبھی اچھنبا نہیں ہوا اور ماسٹر جی اتنے اچھے تھے کہ ہمیں کھیلنے کودنے اور شورکرنے سے منع کرنے کی بجائے چپ چاپ اپنے کمرے میں بیٹھے موٹی موٹی کتابیں پڑھتے رہتے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ جونہیمغرب کی اذان ہوتی وہ ہمیں گھر جانے کی تلقین کرتے۔
۔ چلو سب اپنے اپنے گھر جاؤ۔ کس قدر شفقت بھری آواز ہوتی تھی ان کی۔ میں نے ماسٹر جی کو کبھی سر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کی مگر ان کی آواز کے اتار چڑھاؤ
کو اپنے بند بند میں اتار لینا اور
پھر اس کے زیر اثر کسیدلفریب نشے میں ڈوبے رہناجیسے عادت سی بن چکی تھیکھیل کے دوران سکھیوں کی
نظریں بچا کر ماسٹر جی کے کمرے کی طرف جانا اورکھڑکی سے جھانک کر انہیں دیکھنے کی خواہش سے ڈر کربھاگ آنا بھی معمول تھا ۔ دل رفتہ رفتہ سکھیوں کے کھیل سے اچاٹ ہوتا گیا کبھیکبھی میں دور بیٹھی صرفانہیں دیکھتی رہتی اور کسینامعلوم محرومی کے احساسکی شدت سے روہانسی ہو جاتی ۔
اس دن بھی مغرب کیاذان کا وقت ہو رہا تھا پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹرہے تھے سورج دن بھر کیمسافت سے تھک چکا تھا اورمیری ہی طرح کسی کی آغوش
میں سمٹ کر سونا چاہتا تھا کہ ماسٹر جی نے سب کو بستے سمیٹ کر گھر جانے کا حکم دے دیا ۔
بے فکر لڑکیاں ہنستی کھلکھلاتی باہر جانے لگیں میں انکے پیچھے تھی ۔ کہ دفعتا ایک مقناطیسی کشش نے میرے پاؤں جکڑ لیے۔ میں اسکول سے باہر نہ جا سکی تو ایک درختکے پیچھے چھپ گئی ۔ کوئیاندازہ نہیں تھا کہ کتنی صدیوں بعد میں وہاں سے نکلی اورماسٹر جی کے کمرے میں جاپہنچی۔ ہوش تب آیا جب ماسٹرجی کی ڈانٹ سنائی دی ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ ۔ مجھے بے اختیار رونا آ گیا میں دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رونے لگی ۔ جانے کیوں رورہی تھی میں ۔ شاید یہ مان کر
کہ آنسوؤں کی بھی زبان ہوتیاور آنسو خود ہی سب کچھ کہہ دیا کرتے ہیں مگر ماسٹر جیخاموش دل کی گزارش نہ سنسکے انہوں نے بازو سے پکڑ کرکمرے سے باہر کر دیا اورپھر جوتے پہن کر مجھے گھرتک بھی چھوڑنے گئے ۔ اگلے روز سے اسکول کے آنگن میں ہماراکھیلنا کودنا بند کر دیا گیا
3
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ کمار سانو۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اس کے دل کی حقیقی ترجمانی کوئی کر سکتا تھا تو وہ یہی فنکار تھا۔
اس نے نیا ریکارڈ پلیئر خرید لیا جس کا ساؤنڈ اتنا زیادہ تھا کہ چوتھے محلے کی صائمہ تک بھی پہنچ جاتا، مگر فی الحال اسے اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک منزلہ عمارت میں اس کا کمرا چھت پر واقع تھا جہاں سے وہ جب بھی نیچے جھانکتا، نگاہوں کی مراد بر آتی۔
اس کی بھابھی جسے وہ، بھرجائی، کہتا تھا بڑے سے آنگن میں جھاڑو لگاتی یا برتن دھوتی یا بکریوں کو چارہ دیتی نظر آ جاتی اور اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا۔ وہ ریکارڈ پلیئر آن کرتا تو اس کا ترجمان کمار سانو اپنی مدھر آواز میں گانے لگتا،
نظر کے سامنے جگر کے پاس کوئی رہتا ہے، وہ ہو تم تم تم۔ اور جب جواب میں الکا یا سادھنا گاتی تو اسے لگتا یہ کوئی اور نہیں بھرجائی کے اپنے بول ہیں اور وہ بھی اسے اتنا ہی چاہتی ہے۔
حالانکہ یہ بات ابھی ثابت نہیں ہوئی تھی کہ وہ سچ میں اسے کوئی اہمیت دیتی ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور تھا کہ کمار سانو کی پکار پر اس کا ڈوپٹہ ڈھلک ڈھلک جاتا اور برتن دھوتے دھوتے یا جھاڑو لگاتے لگاتے اس کے سینے کے ابھار کھل کر سامنے آ جاتے۔
وہ چھت کی بلندی سے جب نیچے دیکھتا تو اکثر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹ جاتا اور اف اف کی آوازیں نکالنے لگتا، یہ بھرجائی تو روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہے، وہ سوچتا۔
حالانکہ وہ پکے رنگ کی تھی پہلے۔ جب بھائی اس کی ڈولی لے کر آیا تھا تب بھی وہ اسے کوئی خاص پسند نہیں آئی تھی اور شادی سے پہلے تک تو وہ اسے بالکل ہی بیکار لگتی تھی۔ پتہ نہیں ایک سال کے اندر اندر کیا ہوا تھا کہ اس نے خاص اداؤں کے ساتھ ساتھ اپنی جلد کو بھی تبدیل کر لیا تھا۔
سوال ’’کیا سانپ کی طرح کچھ خواتین بھی اپنی کینچلی تبدیل کر سکتی ہیں؟‘‘
جواب ’’پتہ نہیں۔ ‘‘
بھرجائی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر جب باہر گلی میں محلے کی عورتوں کے بیچ بیٹھتی تو کہتی ’’بہن۔۔ رب کسے نوں حسن نہ دیوے، سارے مرد پچھے پے جاندے نے۔ ‘‘
(بہن خدا کسی کو حسن نہ دے ورنہ سارے مرد پیچھے لگ جاتے ہیں)
کوئی حیران ہو کر پوچھتی ” ہائے بہنا کون تیرے پیچھے پڑا ہے تو بھرجائی فوراً اللہ توبہ کرتی ”ہائے ہائے میرے پچھے کون آوے گا میں اس دا منہ نہ توڑ دیاں۔ ‘‘
یہ نائنٹی سے ذرا پہلے کا دور تھا چنانچہ فراغت ہی فراغت تھی۔ دن کاٹے نہیں کٹتا تھا، صبح ہوتی تو دوپہر نہ ہوتی، کسی طرح دوپہر ہو جاتی تو شام نہ آ کر دیتی۔
شام کو گلی میں ایک طرف عورتوں تو دوسری طرف محلے کے بڑے بوڑھوں کی بیٹھک لگتی۔ ایک ایک چارپائی پر چار چار بزرگ بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے، کھانستے اور نئی نسل کی بے راہ روی کا رونا روتے۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کا موضوع سخن کچھ اور ہونے والا ہے۔
کلر ٹی وی مارکیٹوں میں آ چکا تھا۔ اب وی سی آر کی وبا پھیلنے والی تھی۔ عورت کی شرم و حیا پر باتیں کرنے والے یہی بزرگ کل کو چھپتے چھپاتے جب وی سی آر کرائے پر لائیں گے تو ان کی آنکھیں حلقوں سے باہر آ جائیں گی اور اگلے دن حقہ گڑگڑاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہیں گے ” اللہ معاف کرے، اے انگریز تے بڑے ہی بے غیرت نے۔ پھر وہ دیر تک انگریز کی گندی حرکتوں کا ذکر کیا کریں گے جو انہیں نیلی فلموں میں دیکھنے کو ملیں گی۔ اور جب وہ نظر اٹھا کر گلی کے دوسرے سرے پر خوش گپیاں کرتی مٹیاروں کو دیکھیں گے تو سوچیں گے یہ تو بڑی ہی پاک دامن بیبیاں ہیں، انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں۔
بھرجائی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا ایک عاشق ہے اور وہ اس عاشق کو اتنا تڑپانے والی ہے اتنا تڑپانے والی ہے کہ وہ اس کے آگے ناک رگڑ دے گا اور دونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگے گا۔
کس بات پر معافیاں مانگے گا، یہ بھی اسے معلوم تھا۔
اسے تڑپانے کے لیے ہی وہ ہر وقت ہونٹوں پر سرخی لگائے رکھتی اور بڑے بڑے گلے والی قمیضیں پہنتی۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی جچتی بھی بہت تھی۔ پیارے پیارے مکھڑے پر جیسے کسی نے گلاب کی دو سرخ پتیاں سجا دی ہوں۔
کمار سانو کا نیا آنے والا گیت بھی ان دو پتیوں کے بارے ہی تھا۔ یعنی
چوم لوں ہونٹ ترے دل کی یہی خواہش ہے
بات یہ میری نہیں پیار کی فرمائش ہے۔
جب اس گانے کی کیسٹ وہ خرید کر لایا تو اس نے تو اسے بجا بجا کر حد ہی کر دی اور بھرجائی کے سن سن کر کان پک گئے اور تنگ آ کر وہ چھت کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگی ’’لے بھائی تو آ کر چوم لے میرے ہونٹ اور جان چھوڑ۔ ‘‘
اس کے بعد مارکیٹ میں ایک اور کیسٹ آ گئی۔ کمار سانو چھا گیا تھا، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔ اس نے ان کہے جذبات کو الفاظ دے دیے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کچھ ایک دوسرے کو کہنا چاہتے تھے وہ کمار سانو کی زبان سے کہہ ڈالتے۔ اسی گلوکار کی وجہ سے بھرجائی بھی مجبور ہو چکی تھی اور ایک دن جب وہ چھت والا اوپر سے اتر کر نیچے آیا اور زبردستی اس کے ہونٹ چوم کر بھاگ گیا تو وہ کچھ بھی نہ کر پائی، دیر تک ساکت ہو کر ایک مخملی کیفیت میں مبتلا رہی۔ نگاہوں سے محبت کرنے والے نے آج اسے آ کر چھو لیا تھا۔
’’اف اللہ‘‘ کیفیت ختم ہوتے ہی اسے خوف نے آ لیا، یہ میں کیا ظلم کرا بیٹھی ہوں اپنے ساتھ۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگی۔
منڈیر پر بیٹھا کالا کوا زور زور سے کائیں کائیں کرنے لگا۔ وہ سہم گئی کہ کہیں یہ کوا ہی نہ سب کو بتا دے۔
اس نے ہش، ہش، کر کے کوے کو اڑانے کی کوشش کی مگر وہ ڈٹا رہا اور پورے جسم کا زور لگا کر کائیں کائیں کرتا رہا جیسے اسے ڈانٹ رہا ہو۔ وہ دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کر کے بستر پر گر گئی۔
رات کو وہ نیند میں تھی جب اس کے شوہر نے اسے چوما، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ بدن اس خوف سے لرز گیا تھا کہ کہیں یہ دیور نہ ہو۔ بچت ہو گئی کہ یہ وہ نہیں تھا بلکہ وہ تھا جس کا سچ مچ حق بنتا تھا۔ منہ ایک اور چومنے والے دو۔
سوال ’کیا یہ سلسلہ چلنا چاہئیے؟‘
جواب ’نہیں۔ ‘
وہ یہ سوچ کر دوبارہ سو گئی کہ صبح کسی ایک کو وہ ضرور سختی سے منع کر دے گی۔
صبح دونوں بھائی اٹھ کر کام پر چلے گئے۔ اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جبکہ مردود کوا صبح ہی صبح آن دھمکا۔ کائیں کائیں کائیں۔ وہ گھر سے باہر نکل گئی۔ کچر کچر باتیں کرنے والی محلے والیوں میں جا بیٹھی۔ تمام عورتیں جمیلہ کو اپنے جھرمٹ میں لیے اسے دلاسے تسلیاں دے رہی تھیں۔ جبکہ جمیلہ محض سر کو جھکائے ہوئے ناک کو سڑ سڑ کر رہی تھی۔ آج اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا تھا اور طلاق کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ قصور بیچاری کا صرف اتنا تھا کہ وہ سامنے والوں کے منڈے کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی پکڑی گئی تھی۔
’اے مرد ذات تے بہت ہی شکی ہوندی اے۔ ‘ عورتیں مرد ذات کی اس عادت پر بہت ہی نالاں نظر آئیں اور دیر تک لعنت ملامت کرتی رہیں۔
بھرجائی کا اپنا بھی ماتھا ٹھنکا تھا۔ جمیلہ کی یہ حالت دیکھ کر اسے اپنی بھی فکر پڑ گئی تھی۔ اس نے سبق سیکھا کہ کسی غیر کے آگے کبھی بھی ہنس ہنس کر باتیں نہیں کرنی۔۔ اس نے سوچا، غیر تو غیر اب وہ اپنے دیور کے سامنے بھی کبھی نہیں ہنسے گی۔
بھرجائی وہاں بیٹھی دیر تک خیالوں میں کھوئی رہی۔ بظاہر وہ محلے والیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
گلی میں بیٹھا ایک کتا زور سے بھونکا تو اسے ہوش آیا۔ کتا ایک بلی کے پیچھے بھاگا تھا۔ بلی اس طرف دوڑ گئی جس طرف بڑے بوڑھے اپنی بیٹھک جمائے ہوئے تھے۔ وہ اٹھی اور اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔
شام کو جب دیور گھر آیا اور آتے ہی اس نے کمار سانو کو بجانا شروع کیا تو وہ غصے سے پاؤں پٹختی چھت پر جا پہنچی۔
یہ دعا ہے میری رب سے تجھے عاشقوں میں سب سے میری عاشقی پسند آئے۔ میری عاشقی پسند آئے۔ کمار سانو کہہ رہا تھا مگر بھرجائی نے جاتے ہی ڈیک کا تار کھینچ دیا۔۔۔ وے تینوں شرم نئیں آندی۔۔۔ وہ پنجابی زبان میں صلواتیں سنانے لگی جس کا متن یہ تھا کہ یہ تم کیا بجاتے رہتے ہو فضول میں۔ اور یہ کیا حرکت کری تھی کل تم نے۔ اگر تمہارے بھائی کو پتہ لگ گیا تو کیا ہو گا کبھی سوچا ہے۔ اور جب میرا رشتہ لے کر میرے گھر والے آئے تھے تو اس وقت تم نے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت تمہیں میں اچھی نہیں لگتی تھی۔ اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتے تھے تم۔ اب تمہارے بھائی سے میرا بیاہ ہو گیا ہے تو مر رہے ہو۔ اب کیا فائدہ۔
پتہ نہیں بھرجائی ڈانٹ رہی تھی یا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ یہ تو سچ ہی تھا کہ اس کا رشتہ آیا تھا مگر انکار کے بعد وہی رشتہ دوسرے بھائی کے ساتھ طے ہو گیا تھا۔ وہ اس کی طرف سے ٹھکرا دی گئی تھی۔ اور یہ ٹھکرایا جانا وہ کبھی فراموش نہیں کر پائی تھی۔ اسے انتقام لینا تھا ایک ایسا انتقام جو مسلسل جاری رہے۔ اس کے لبوں کی لالی اس کی نکھری ہوئی جلد اور بے ڈوپٹہ سینے کے دونوں ادھ کھلے ابھار ہی در اصل اس کے انوکھے انتقام کی ایک شکل تھی۔
وہ پنجابی میں خوب ڈانٹ پلانے کے بعد نیچے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اور پتہ نہیں کس وجہ سے رونے لگی۔
سوال ’کیا عورت کبھی سمجھ میں آ سکتی ہے؟‘
جواب ’نہیں‘
کمار سانو کا منہ بند ہو چکا تھا۔ اور دیور جی نے نہ رات کا کھانا کھایا نہ صبح کا۔ منہ اندھیرے ہی کہیں نکل گیا۔
بھرجائی کو فکر ستانے لگی۔ سوچا کاش اسے اس طرح ذلیل نہ کرتی۔ جب وہ دوپہر کو گھر آیا تو پوچھا کام پر کیوں نہیں گئے اور ناشتہ بھی نہیں کیا؟ وہ کچھ نہ بولا، چپ چاپ سیڑھیاں چڑھ گیا۔ اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں۔ بھرجائی کے دل پر کوڑے پڑ گئے۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ رات بھر روتا رہا ہے۔ وہ بے چین ہو گئی، پریشان ہو گئی، چکی کے دو پاٹوں میں آ گئی۔ رشتوں کے تقاضے اپنی جگہ مگر اسے یہ بھی کب منظور تھا کہ کوئی اس کی وجہ سے کھانا پینا چھوڑ دے اور رو رو کر آنکھیں سجا لے۔
اس نے کھانا گرم کر کے اسے کھانے کو دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، گردن لٹکائے ہونٹ کاٹتا رہا۔
’چل کھانا کھا لے۔۔ چھوڑ پرے۔۔۔ ‘
وہ نرمی سے کہنے لگی
وہ نہ مانا۔
’اچھا چل کھانا تو کھا‘ وہ زور دے کر کہنے لگی۔
’میں نہیں کھاؤں گا۔ ‘ آخرکار ایک پتلی سی آواز برآمد ہوئی۔
’کیوں نہیں کھائے گا؟ مرنا ہے تجھے؟‘
وہ منہ گھما کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
’اچھا ادھر تو دیکھ۔ ‘ وہ لاڈ سے کہنے لگی۔
’مجھے نہیں دیکھنا۔ ‘
’دیکھ تو سہی۔ ‘ وہ یوں دیکھنے کو کہہ رہی تھی جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں سے سارے معاملات درست کر لے گی۔
’اچھا غلطی بھی تیری اور ناراض بھی تو ہو رہا ہے۔ چل میں تجھ سے معافی مانگ لیتی ہوں۔ ‘ بھرجائی نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ دیور جی کے ضبط کیے ہوئے آنسو چھلکنے لگے۔ وہ بے اختیار رو پڑا۔
بھرجائی کے دل پر ایک اور کوڑے کی ضرب لگی اور وہ ایکدم سے بھول گئی کہ اس کا شوہر کون ہے اور یہ اس کے سامنے کون ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
منڈیر پر چغل خور کوا کائیں کائیں ہی کرتا رہ گیا۔ اس کی ایک نہ چلی اور دور کھیتوں میں کسان نے نئے بیج بو دیے۔ اور باغوں میں اتنے پھول کھلے کہ مالی مالا مال ہو گیا۔
گلی کا کتا بلی کے پیچھے دوڑتا تو وہ بھاگ کر بابوں کی چارپائی کے نیچے چلی جاتی اور دور سے اسے منہ چڑاتی۔ محلے والیاں جمیلہ کا دکھ بانٹتیں اور بھرجائی کہیں اور ہی خیالوں میں کھوئی رہتی۔ یا کبھی کبھی کہتی ’’نی بھینا مرد جدوں پیار وچ انھا ہو جائے تے فیر کج نئیں ہو سکدا۔ ‘ (اے بہن مرد جب پیار میں اندھا ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا)
کمار سانو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اب وہ روز شام کو اپنے سر بکھیرتا اور الکا منہ پھیرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیتی۔ دونوں مل کر گنگناتے، پیار کے گیت گاتے۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے۔ پھر وہی ہاتھ بانہوں میں تبدیل ہو کر ایک دوسرے کو کھینچ لیتے۔ پھر دو پیاسے ہونٹ آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو اتنا چومتے اتنا چومتے کہ چہرہ لال کر دیتے یہاں تک کہ کالا کوا چیخ چیخ کر اپنا گلا سکھا لیتا اور بھرجائی ہنس کر کہتی ’’تو جل جل کے اور کالا ہو جا کوے۔ ‘‘
خوشی کے دن تھوڑے۔۔۔ یہ کائیں کائیں ایک دن ابا جی کے کانوں تک پہنچ گئی۔ انہوں نے بہو کو بلایا۔ حکم دیا کہ فوراً اپنے دیور کے لیے کڑی تلاش کر۔ کب تک وہ کنوارا رہے گا۔ اس کا بھی بیاہ کر دیتے ہیں تاکہ میں فارغ ہو جاؤں۔ ابا جی نے دو چار گھروں تک بھی رہنمائی کی کہ وہاں جا کے پتہ کر اور رشتے کی بات چلا
بھرجائی جانتی تھی کہ یہ دن ایک دن آنے والا ہے۔ مگر اتنی جلدی کیوں۔۔۔ دو چار سال اور نکل جاتے۔ اسے اتنا دیوانہ بنا دیتی کہ پھر وہ شادی کے قابل ہی نہ رہتا۔ ملنگ بن جاتا یا کسی مزار کا بابا یا مجنوں بن کر جنگل جنگل گھومتا۔ جس نے اسے بوجہ غرور ٹھکرایا تھا اس کی ایسی سزا تو بنتی تھی۔
پہلا ہی رشتہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے سر توڑ کوشش کر کے منع کروا دیا۔ لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت تھی۔ اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ اگر دیورانی بنا کر لے آتی تو اس کی اپنی کیا ویلیو رہ جاتی۔ اسے تو ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو اس سے کمتر ہو ہر معاملے میں۔
اباجی نے رشتہ ڈھونڈنے کا کام اسے سونپا ہوا تھا چنانچہ وہ اپنے مطلب کی دیورانی تلاش کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہی کامیاب ہو گئی۔ یہ ایک بے کشش اور بڑی عمر کی کوئی عورت ٹائپ کنواری تھی۔
کمار سانو کا چہیتا گھوڑی چڑھ گیا اور اپنی خود کی دلہن لے آیا۔
بھرجائی بیاہ والے دن رونے دھونے کی بجائے مطمئن اور مسرور تھی۔ یقین رکھتی تھی کہ سہاگ رات کے بعد جو سورج طلوع ہو گا۔ وہ سب کچھ واپس بحال کر دے گا۔ پھر وہی کمار سانو کی آواز ہو گی اور وہی اس کا عاشق اس کے لیے جان قربان کرنے کو حاضر ہو جائے گا۔
مگر یہ کیا۔۔۔ ایک دن گزرا۔ دوسرا دن گزرا۔۔ تیسرا دن بھی چلا گیا مگر عاشق تو ایک منٹ کے لیے بھی اپنا کمرا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔
اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نصیب دشمناں کہیں طبیعت تو خراب نہیں۔ مگر پتہ چلا کہ بندہ ہشاش بشاش ہے۔ اسے اپنا کمرا بے حد پسند آ گیا ہے۔ کون بھرجائی۔ کس کی بھرجائی۔ کیسی بھرجائی۔ جب کعبے کا رخ ہی چینج ہو گیا۔ تو سجدوں کا رخ بھی کیوں نہ بدلے۔
وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے مڑ کر کمار سانو کی بھی خبر نہ لی۔ الکا حیران تھی کہ کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے کیا آن کی آن میں۔
سوال ’کیا کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے؟‘
جواب ’ہاں‘
کالا کوا اب کائیں کائیں کی بجائے زور زور سے ہنستا۔ اور بھرجائی کا جی بھر کے مذاق اڑاتا۔ ہتک محسوس کر کے وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی۔
مہینوں انتظار کے باوجود عاشق اپنے پرانے موڈ میں واپس نہ آیا۔ اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک سوکھ سوکھ کر مٹی ہو گئی۔ بڑے گلے کی قمیضیں سکڑ کے چھوٹی ہو گئیں اور سینے کے ابھار دب کر کہیں سینے میں ہی گم ہو گئے۔۔ ایک دن گلی میں ریڑھی والا آیا اور پانچ روپے کلو کے حساب سے ساری کیسٹیں خرید کر لے گیا۔
کچر کچر باتیں گھماتی محلے والیاں اب بھرجائی کے معاملے کو لے بیٹھی تھیں، نجانے انہیں کس نے خبر دے ڈالی تھی کہ وہ اپنے دیور پر مرتی ہے۔ عورتیں دبی زبان میں اسے دلاسے دیتیں مگر وہ اپنے ہی خیالات میں کھوئی رہتی یا کبھی کبھی کہتی ’نی بھینا مرد صرف جسم دا بھکا ہوندا ای۔ ‘
(اے بہن مرد صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے)
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...