اقبال حسن آزاد(مونگیر)
گاؤں کی پگڈنڈیاں طے کر تے ہوئے اب وہ دونوں شہر جانے والی سڑک کے قریب آ گئے تھے۔ ابھی اندھیرا تھا اور تھوڑے فاصلے پر واقع لائین ہوٹل صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔البتہ وہاں پر کھڑے ٹرکوں کے دھندلے دھندلے سائے نظر آ رہے تھے۔وقفے وقفے سے کوئی گاڑی گزرتی تو سڑک روشن ہو جاتی اور آس پاس کی چیزیں دکھائی دینے لگتیں۔ جب وہ پکی سڑک پر آ گئے تو اپنی اپنی دھوتیاں اُتار کر سروں پر ڈال لیں ، لوٹے کو بائیں جانب رکھا اور زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے۔
’’او سامنے والا گاؤں میاں لوگ کا ہے نا؟‘‘
’’ہاں! بڑا بھاری گاؤں ہے۔‘‘
’’اوہی تو!کل سام کو بس سے اترا تو میاں جی اللہ اللہ پکار رہا تھا۔‘‘
’’کیا کریں، سالا روج پانچ دن کا یہی دھندا ہے ۔اور ابھیو تھوڑی دیر میں پکارے گا۔‘‘
’’تم لوگ کو ڈر نہیں لگتا؟‘‘
’’ڈر، کاہے کا ڈر؟‘‘
’’ارے سب سالے آتنک وادی ہو تے ہیں۔‘‘دیکھا نہیں،کبھی دلی،کبھی ممبئی․․․․․جب نہ تب کچھ نہ کچھ ہوتے رہتا ہے۔‘‘
’’ہاں! مگر مارا بھی تو جاتا ہے۔‘‘
’’اک کے بار کاہے نہیں سب کو مار دیتا ہے؟‘‘
’’اتّا آسان نہیں ہے نا!اب دیکھو نا،اپنے ہی لوگوں کو پکڑ لیا۔کوئی کوئی پولس والا بھی سالا چوتیا ہوتا ہے۔یہی سب گلت سلت کام کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’مگر او لوگ کے کھلاپھ ثبوتو مل گیا۔‘‘
’’کیا کریں؟ کھالی مارے کھاتے رہیں۔کوئی جواب دینے والا بھی تو ہونا چاہئے۔دنّو طرپھ سے ہوگا تاٹھیک ہوگا نہیں تو ہمیسہ ڈر بنا رہے گا کہ کب سالا بجار میں دھماکہ ہو جائے ،کب گاڑی اُڑ جائے․․․․․کب کیا ہو جائے․․․․․کب کیا ہو جائے․․․․․‘‘
اچانک پورب سے تیز ہوا کا ایک جھونکا دونوں کی چوٹروں کو سہلاتا ہوا گذر گیا ۔اتنی دیر میں وہ فارغ ہو چکے تھے۔لوٹے کے پانی کو اپنے اپنے مقعد میں چھڑک کر دونوں کھڑے ہو گئے اور سر سے دھوتی اُتار کر پہن لی۔پھر سڑک کے کنارے کی مٹّی پر ہاتھ رگڑاور بچے کھچے پانی سے ہاتھ دھو کر کھڑے ہو گئے ۔ملگجا سا اندھیرا اب تک قائم تھا۔اسی وقت سامنے والے گاؤں کی مسجد سے اذان کی آواز اُبھری۔دونوں خاموش ہو گئے اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔
’’او گاؤں میں مدرسہ بھی ہوگا؟‘‘
’’ہاں ہے تو؟‘‘
’’وہیں تو سب سالا آتنک وادی بنتا ہے۔مدرسہ کاہے کو ہے،ہتھیار کا بھنڈار ہے بھنڈار۔‘‘
’’ہاں!اور او سب لوگ داڑھی کیسا رکھتا ہے ،دیکھ کے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’داڑھی تو سردار لوگ بھی رکھتا ہے اور ہم لوگ بھی۔‘‘
’’سردار لوگ کا بات او ر ہے۔او لوگ بڑا سریا کے اور کنگھی کر کے رکھتا ہے۔دیکھنے میں اچھا لگتا ہے اور ای لوگ تو اتّی لمبی لمبی داڑھی،اوپر سے گندی ،پتہ نہیں کتنی جوئیاں بھری ہونگی۔دیکھتے ہو طالبان لوگ کو ٹی وی پر؟ کیسا ڈینجرس لگتا ہے دیکھنے میں؟‘‘
’’ہاں! اور جنانی لوگ جو بُرکا پہنتی ہے۔ نام ہے بُرکا اور رکھے ہے سر پر۔پتہ نہیں اس کے اندر کیا کیا چھپا کے رکھتی ہے ․․․․․۔‘‘
’’ہاں ! اسی لئے تو جج صاحب بولے کہ اپنے ایہاں طالبان نہیں چاہیے۔‘‘
’’ٹھیک بولے۔ایسا ایسا جج ہر نیالے میں ہونا چاہئے،تبھی ہم لوگ کو نیائے ملے گا۔‘‘
اسی وقت ان میں سے ایک کی نظر سامنے والے گاؤں کی طرف اُٹھی۔
’’ارے!دیکھ دیکھ کون جا رہا ہے ۔‘‘
’’ای تو کوئی آتنک وادی دکھائی دیتا ہے۔‘‘
’’ہاں!طالبان لوگ کی طرح سر پر پگّڑ باندھے ہوئے ہوئے ہے۔اور یہ لمبی داڑھی بھی ہے اور کندھے پر بندوق․․․․․ارے باپ رے باپ۔ اور دیکھو دیکھو ایک ٹھو کتا بھی لئے جا رہا ہے۔‘‘
’’ارے ہاں! کِتّا بڑا کالا کتا ہے۔‘‘
’’مگر میاں لوگ تو کتا نہیں پالتا۔‘‘
’’ارے جاسوسی والا کتا ہو گا ،جیسا پولس والے سب کے پاس ہوتا ہے۔‘‘
’’مگر ای سویرے سویرے جا کہاں رہا ہے؟‘‘
’’آگے ایک اور گاؤں میاں لوگ کا ہے ۔اندر ہی اندر کچھ ہو رہا ہوگا۔‘‘
’’اور ایہاں سے بارڈر بھی جادے دور نہیں ہے۔کیا پتہ بارڈر کراس کر کے آتا جاتاہوگا۔‘‘
’’ہو سکتا ہے۔‘‘
اچانک وہ شخص سڑک کی جانب مڑ گیا ۔دونوں سہم سے گئے اور دم ساد ھے بیٹھے رہے۔وہ شخص قریب آتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اُجالا پھیلتا چلا گیا۔کھیتوں سے ہوتے ہوئے جب وہ سڑک پر نمودار ہوا تو زمین پر بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک نے کہا ۔
’’ارے!ای تو پھجلو میاں ہے۔‘‘
’’کون پھجلو میاں؟‘‘
’’ای سامنے والے گاؤں میں رہے ہے۔کھیت جوتے ہے اور بکری بیچے ہے۔ارے دیکھ کنھے پر تو ہل ہے اور ای کتا․․․․․ای تو پھجلو میاں کی بکری ہے۔‘‘
’’مگر تم تو کہہ رہے تھے کہ آتنک وادی․․․․․!‘‘
’’کیا کریں بھیا!روج دن دیکھ دیکھ کے ،سن سن کے ایسا ہی لگتا ہے کہ سب سالے آتنک وادی ہیں۔‘‘ ٭٭٭
میری تاریخ میرے جغرافیہ کی وجہ سے تھی، جغرافیہ ہی نہ رہا تو تاریخ کے کیا معنی، ایک مردہ روایت۔
دہلی سے لاہور پینتالیس منٹ کا سفر تھا جو جہاز میں چائے کے آتے اور پیتے گزر گیا۔
لاہور کے ہوائی اڈہ پر اترتے ہوئے اس کا ذہن قندھار ، لاہور اور دہلی کے درمیان سفر کرنے لگا،درویش کہاں بسیرا ہوا۔کہاں کہاں کی خاک چھان کر دلی پہنچا۔۔۔اے خاک بکھر کر بھی تو ،تو خاک ہی رہتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔بس اڑتی رہتی ہے۔
خاک قندھار سے اڑی ، لاہور کو چھوتی دلی پہنچی، یہ جغرافیہ کا سفر تھا، اور تاریخ تو میں خود ہوں۔ ہوائی اڈہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر وہ جب لاؤنج سے گزر رہا تھا تو نظر ٹی وی پر پڑی،سلائیڈ چل رہی تھی۔ ۔۔ قندھار پر امریکی طیاروں کی شدید بمباری۔۔۔اس نے گھبرا کر دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے بیگ نیچے جا پڑا۔۔قندھار، لاہور، دلی سب ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اور وہ تن تنہا اپنے ہی ملبہ پر کھڑا اپنا جغرافیہ ڈھونڈ رہا ہے۔
(ڈاکٹر رشید امجد کے افسانہ پژ مردہ کا تبسم کا اختتامی اقتباس)