اگے پیچھے گاڑیاں بڑی سی عالیشان حویلی کہ آگے رکیں ۔۔۔۔۔۔
بارودی گاڑد جو دروازہ پہ بیٹھا اونگھ رہا تھا۔۔۔۔ یک دم ہڑبڑا کر اٹھا اور پھرتی سے لوہے سے بنے بڑے دروازہ وا کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے سکندر صاحب نے گاڑی اندر بڑھائی اس کہ عین پیچھے صعود سکندر کی گاڑی پورچ میں اکر رکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایک کر کہ تمام لوگ گاڑی سے اترے اور اندرونی حصہ کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔
وہ الگ بات تھی کہ ایک فرد وہیں اسی گاوں کی مٹی میں رہ گیا تھا۔۔۔۔۔
اور شاید اس حویلی سے جڑی خوشیاں بھی وہیں کہیں رہ گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔
اے لڑکی!!!تمھیں دعوت نامہ دیا جائے گا؟؟؟؟
وہ من من بھر کہ قدم اٹھاتا ہوا اندر جارہا تھا تو صائمہ کی آواز اس کہ کانوں سے ٹکڑائی۔۔۔ لب بھینچ کر وہ نظر انداز کرتا ہوا اندر چلا گیا:
“جی نہیں میں آرہئ ہوں ۔۔۔”
اسے صائمہ سے خوف محسوس ہوا تھا لیکن اپنے آپ کو پر اعتماد ثابت کرتے ہوئے مضبوطی سے بولی۔۔۔۔۔
“زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ اپنی حیثیت کا تعین جتنی جلدی کرلو اچھا ہے ۔۔۔۔۔”
وہ زہر خند لہجے میں پھنکار کر بیرونی حصہ میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
اس نے بھی تھکے ہوئے قدم اندر بڑھا دئیے۔۔۔۔
حویلی باہر سے جتنی بڑی نظر آرہی تھی اندر سے کئی گنا زیادہ وسیع تھی۔۔۔۔۔
وہاں لگی ہر شئہ چیخ چیخ کر اپنے قیمتی ہونے کی گواہی دے رہی تھی ۔۔۔
عینو کو اپنا آپ ان قیمتی چیزوں سے حقیر لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔
یک دم اسے اپنا گھر یاد آگیا ۔۔۔۔ اتنا بڑا تو نہ تھا لیکن وہاں زندگی تھی۔۔۔۔۔۔۔
سب اپنی اپنے کمرہ میں بند ہوگئے۔۔۔۔۔
وہ تھک ہار کر وہیں صوفہ پہ بیٹھ گئی۔۔۔ تبھی اسے ایک عمر رسیدہ خاتون آتی ہوئی نظر آئیں۔۔۔۔۔ پانی کا گلاس انہوں نے اس نئے چہرہ کی جانب بڑھایا۔۔۔۔
عینو انھیں دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
“ارے بی بی جی آپ کھڑی کیوں ہوگئیں بیٹھ جائیں میں اس گھر کی ملازما ہوں ۔۔۔۔”
خالہ بی اس کہ یک دم کھڑے ہونے پر ہولے سے مسکرا دیں۔۔۔
“ملازمہ ہیں تو کیا ہوا یہ آپکا پیشہ ہے لیکن آپ قابل عزت انسان بھی تو ہیں۔۔۔۔۔ اور میرا کھڑا ہونا احتراماً ہے۔۔۔۔”
عینو نے ٹہر کر مگر نرمی سے کہا:
خالہ بی اس چھوٹی سی لڑکی کو ستائشی نظروں سے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ تبھی صائمہ وہاں چلی آئی۔۔۔۔۔۔
خالی بی آپ کو پتا ہے یہ لڑکی کون ہے جس سے آپ مسکرا کر بات کررہیں ہیں؟؟؟
صائمہ نے تنفر سے عینو کو گھورا۔۔۔ جو ان کی آواز پر پلٹی تھی۔۔۔۔۔
“یہ ہماری دانی کہ قاتل کی بہن ہے ۔۔۔”
خالہ بی یک دم زمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔۔۔
دانی کا قتل ، قاتل کی بہن ۔۔۔۔۔
صائمہ ان کی جانب بڑھی جو بے ہوش ہوچکی تھیں۔۔۔ عینو کو دانی کی اہمیت بخوبی معلوم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔ صائمہ اور عینو نے سنبھال کر انھیں صوفہ پہ بٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ بی ابھی بھی صدمہ کے زیر اثر تھیں۔۔۔۔۔۔۔
تم اب سے خالہ بی کہ ساتھ ان کے کواٹر میں رہو گی ۔۔۔۔ عینو بس اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سوال اٹھانے کا حق اسے نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ چپ چاپ خالہ بی کو تھامے انیکسی کی جانب چلی گئی۔۔۔۔۔
____________________________
سر کچھ ریکارڈنگ وغیرہ ہے آپ چیک کرلیں ۔۔۔
دین محمد اسے کہ سامنے والی کرسی پہ براجمان تھا۔۔۔۔۔۔
دین مشن کی رپورٹ؟؟؟
“سر ابھی کوئی سرا ہاتھ نہیں لگا ابھی تو قدم جمانے باقی ہیں ۔۔۔۔۔۔”
“ہمم ٹھیک ہے جتنا وقت چاہے لو کوئی جلدی نہیں۔۔۔”
آیف آئی آر کا کیا بنا؟؟؟؟
“کیا بننا تھا سر اے ایس پی نے اس خاتون کو ایسا دھمکایا کہ وہ دوبارہ پولیس اسٹیشن ہی نہیں آئی ۔۔۔۔۔”
اور یہ کب کی بات ہے؟؟؟
“دو دن پہلے کی ۔۔۔۔”
“اور تم مجھے اب بتارہے ہو بے وقوف۔۔۔۔”
درراب ایک دم ڈھاڑا۔۔۔ دین سہم کر کرسی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
“سر سر میں بتابے ہی لگا تھا لیکن آپ نے کال ہی ریسیو نہیں کی ۔۔۔۔”
تم۔۔۔
” اے ایس پی کو بھیجو ۔۔۔۔”
دین سرعت سے کمرہ سے گیا اور تھوڑی ہی دیر میں لعیم شعیم وردی پہنے تندرست و تاوانہ مرد اندر آیا۔۔۔۔
ہاں تو اے ایس پی فروخ ایف آئی آر دکھائیں؟؟؟
کون سی ایف آئی آرسر؟؟
“تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیا بات کررہا ہوں اس لئےسیدھی شرافت سے میرے سامنے کرو ایف آئی آر۔۔۔۔”
“سر وہ عورت نیم پاگل ہے بیان دیا تھا پھر اس نے واپس بھی لے لیا۔۔۔۔۔”
درراب نے اس کی انکھوں میں اپنی لہو رنگ انکھیں گاڑیں جس پر وہ نظریں پھیر گیا تھا ۔۔۔۔
درراب چلتا ہوا اس کی جانب آیا اور زور دار تھپڑ اس کہ منہ پر مارا۔۔۔۔
جس سے وہ لڑکھڑا گیا تھا۔۔۔۔۔
“بے غیرت تم نے کیا سمجھا ہوا ہے مجھے میں اندھا ہوں تمہاری بودی دلیل سے قائل ہوجاوں گا۔۔۔۔۔۔”
“اے ایس پی فاروخ اگر تم سیکنڈوں میں مجھے اس عورت کہ گھر نہیں لے کر گئے تو استیفہ ٹیبل پر رکھ دینا۔۔۔۔”
فروخ نے غصہ دباتے ہوئے مودبانہ انداز میں کہا ۔۔ اور باہر نکل گیا۔۔۔
درراب اپنی کیپ اور اسٹک لے کر کیبن سے نکلا تو دین محمد خاموشی سے اس کی تقلید میں چل پڑا۔۔۔۔
__________________________
“امی آپ مجھ سے کچھ چھپا رہیں ہیں ۔۔۔”
مونا بیگم نے بیٹی کو دیکھا ۔۔۔۔
جب جانتی ہو تو کیوں پوچھ رہی ہو؟؟
کیوں کہ میں جاننا چاہتی ہوں آپ دادو کو کیسے جانتی ہیں ؟؟؟
فوزیہ کہ دادو کہنے پر مونا نے کھرنٹ کھاکر اپنی بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“وہ تمہاری دادو نہیں ہیں سنا تم نے اور آئندہ اس عورت کا ذکر تمہارے منہ سے نا سنوں۔۔۔”
فوزیہ بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھے گئی اتنی سختی تھی ان کہ چہرہ پر اپنی پوری زندگی میں کبھی انھیں غصہ میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن امی آخر ایسی وجہ کیا ہے کہ۔۔۔
“فوزیہ مجھ سے بحث نہیں کرو کچن میں جاکر کھانا کھاو ۔۔۔۔”
مونا نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹی۔۔۔۔۔
فوزیہ الجھتی ہوئی وہاں سے نکل گئی کیوں کہ مونا نے بتانا ہوتا تو بتادیتی ۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کو اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
مونا نے اسے جاتا ہوا دیکھا اور وہیں پلنگ پر چت لیٹ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
راحب نے حویلی اکر ہر طرف عینو کو تلاشا تھا لیکن وہ وہاں ہوتی تو اس کو نظر آتی ۔۔۔۔
“دادو شمشیر تایا سائیں نے اچھا نہیں کیا بغیر کچھ جانے انھوں نے انتہائی فیصلہ کیسے کرلیا۔۔۔۔۔۔”
چپ کرو تمہارے پاس اصلحہ تھا کس سچ کی بات کررہے ہو؟؟
سعیدہ بیگم بھڑک آٹھیں۔۔۔۔۔
“آپ بھی وہ ہی دیکھ رہیں ہیں دادو جو سب نے دیکھا لیکن آپ نے وہ نہیں دیکھا جو واضح تھا۔۔۔۔۔ آپ کیسے عینو کو ان کہ ساتھ بھیج سکتی ہیں۔۔۔”
“یہ یہاں کی رسم ہے تم نے ان کی لاڈلی بہن کو موت کہ گھاٹ اتار دیا بدلہ میں تمہاری بہن ونی ہوئی ہے ۔۔۔۔”
دادو شمشیر تایا سائیں نے بہت زیادتی کی ہے ہمارے ساتھ یہ کیسا انصاف ہے پنچائیت کا ۔۔۔
“میرے متھے نہ لگ جاکر اپنے باپ کو بتا جس نے تمھیں شئہ دی ہے۔۔۔”
سعیدہ بیگم غصہ سے کہتی رخ موڑ گئیں۔۔۔۔۔
تبھی ضعیم آحمد وہیں چلے آئے۔ ۔۔۔
راحب انھیں دیکھ کر کمرہ میں چلاگیا۔۔۔۔
“ناہنجار اولاد۔۔۔”
ضعیم صاحب کا۔ غصہ عود آیا تھا۔۔۔۔
“کہتی تھی میں تجھے ضعیم نہ جا شہر لیکن تو نے میری ایک نہ سنی تیری اولاد بے بہرہ ہوگئی اپنوں میں رہتے تو تہذیب و تمدن کا پیکر بنتے ۔۔ لیکن تو نے میری ایک نہ سنی ۔۔۔۔”
سعیدہ بیگم غمگینی سے کہتی ہوئی رودیں۔۔۔ “میری بچی بے قصور ان کہ ظالم سہے گی ۔۔۔”
اماں جان آپ نے جھوٹ بولا تھا ؟؟؟
آپ نے مجھ سے کیوں غلط بیانی کی اماں یہ سب اسی کی آہ لگی ہے جو قبر تک ہمارے ساتھ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔”
سعیدہ بیگم کچھ نہ بولیں کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو ۔۔۔۔۔
____________________________
یہ ایک چھوٹی سی پرانی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
درراب نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک ادھیڑ عمر عورت نے زنجیر ہٹا کر لکڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔
سامنے پولیس کو دیکھ کر وہ خاتون گھبرا کر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم ماں جی کیا میں اندر آسکتا ہوں؟؟
خاتون نے سلام کا جواب دیا اور ایک طرف ہوگئی۔۔۔۔۔
اس پاس کہ لوگ گھروں سے نکل کر انھیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
” بیٹا میں بہت غریب ہوں جتنے پیسے دے سکتی تھی دے چکی ہوں اب مجھ لاچار کہ پاس یہ جھونپڑی ہی ہے ۔۔۔”
درراب نے ناسمجھی سے دین محمد کو دیکھا اور اگے بڑھ کر اس عورت کہ پاس گیا اور ان کا نحیف لرزتا ہاتھ تھام کر تخت پہ بٹھایا:
کتنے پیسے دیئے تھے اور کس نے لئے تھے؟؟؟
درراب نے دین کہ برابر میں کھڑے اے ایس پی کہ فق چہرہ کو دیکھا:
ان اسپیکٹر صاحب کو دیئے تھے بیٹا ۔۔۔۔۔
کس لئے دیئے تھے ؟
“ایف آئی آر کہ بیٹا ۔۔۔۔”
درراب نے سختی سے دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بھینچی دماغ کی رگیں تن کر واضح ہونے لگیں۔۔۔۔۔
درراب نے پینٹ کی جیب سے وائلٹ نکال کر پانچ ہزار کہ کئ کئی نوٹ عورت کہ آگے کیئے۔۔۔۔۔۔
تبھی وہ یک دم کھڑی ہوگئیں۔۔۔
نہ نہ بیٹا یہ کیا ہے اور کیوں دے رہے ہو ؟؟
ان کی انکھوں میں لہراتے خوف کہ اثار درراب کی رگ و پہ میں غصہ سرائیت کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا بس چلتا تو اس فروخ کو دھول چٹا دیتا ۔۔۔۔
“ماں جی یہ وہی رقم ہے جو بھتہ کہ طور پر ناحق آپ سے وصولی گئئ تھی میں بہت شرمندہ ہوں کہ ملک کہ رکھوالے ہی قوم کو لوٹ رہے ہیں اور اپنے ضمیر بیچ رہے ہیں۔۔۔۔”
“آپ کہ اپنے پیسے ہیں یہ رکھ لیں۔۔۔۔”
اے ایس پی فروخ؟؟؟
“جی سر ۔۔۔۔”
“ماں جی کا بیان درج کرو ۔۔۔۔”
درراب نے سختی سے کہہ کر ماں جی کو نرم نگاہوں سے دیکھا۔۔۔
“بیٹا اللہ تمھیں آباد رکھے تم جیسے رحمدل ، باضمیر لوگ اس محکمہ میں رہے تو ضرور یہ ترقی کرے گا۔۔۔”
ماں جی نے پلو سے انکھیں صاف کیں تھیں۔۔۔
فروخ کو باتوں سے ایسا تھپڑ مارا تھا کہ وہ نگاہیں نہ اٹھا سکا۔۔۔۔۔۔ ۔
“بس آپ کی دعائیں چاہیئں۔۔۔۔”
دو تین باتوں کہ بعد ایف آئی آر درج کی اور واپسی کی راہ لی۔۔۔۔
پورے راستے درراب کی رگیں تنی ہوئیں تھیں۔۔ فروخ تو فروخ دین محمد نے بھی اسے دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔۔۔
یہ تو ایک واقعہ تھا جو اس کہ علم میں لایا گیا تھا نجانے اتنے کتنے ہی لوگ استعمال ہوئے ہوں گے۔۔۔۔
یہ سوچ کر اسکا خون کھول اٹھا۔۔۔
“فروخ تمہاری شومئی قسمت ہے کہ تم یہاں موجود ہو ورنہ میرا بس چلے تو تم جیسے لوگ کو زندہ دفن کروں جو قوم کے لئے ایک دھبہ ہو۔۔۔۔”
گاڑی فل اسپیڈ سے کچی پکی سڑکوں پر رواں دواں تھی ۔۔۔۔ ہچکولے لیتی گاڑی میں درراب کی دھاڑ ان کہ کانوں کو سن کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________
آج وہ پورے تین ماہ بعد شاہ ولا آیا تھا۔۔۔۔ چاروں طرف دلوں کو چیر دینے والی خاموشی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے لگا اسکا دل بند ہوجائے گا تبھی اپنے اس پاس بازگشت سنائی دی۔۔۔۔
بھیا آپ سے ناراض ہوں ؟؟؟
شاہ نے گردن دائیں جانب گھمائی لیکن وہاں کوئی نہیں تھا وہ بھی نہیں جس کی آواز اسے سنائی دی تھی۔۔۔۔۔
“آپ کو میری بلکل فکر نہیں ہے ایک میں ہی ہوں جو اپکا انتظار کرتی ہوں دیکھنا ایک دن ایسا آئے گا آپ صرف انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے ۔۔۔۔۔”
کیوں دانی کیوں ؟؟ کیوں کہا تھا ایسا تم نے ؟؟ میں تمھیں آوازیں دیتا رہتا ہوں تم کیوں نہیں آتیں؟؟؟
وہ وہیں صوفہ پہ ڈھیر ہوگیا۔۔۔۔
یک دم انکھوں میں نمی چمکنے لگی۔۔۔۔۔۔
وہ مہتاب بیگم کہ دروازہ کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم اماں بی ؟؟
وعلیکم سلام شاہ تو کہاں تھا نہ اتا نہ پتا ؟؟
“بس اماں بی ٹرینگ کہ لئے گیا ہوا تھا”
آپ بتائیں کیسی ہیں ؟؟
“میں کیسی ہو سکتی ہوں شاہ جو حال پوچھنے والی تھی وہ منوں مٹی تلے جا سوئی ۔۔۔ جانے کی عمر میری تھی میری بچی نے میری موت اپنے اوپر لے لی ۔۔۔۔۔”
“بس اماں بی دانی کو تکلیف ہوگی اگر آپ اس طرح سے روئے گیں۔۔۔۔۔”
“میں کیا کروں کیسے صبر کروں کلیجہ منہ کو آتا ہے میرا جب جب دانی کا سوچتی ہوں۔۔۔۔”
تو بھابھی کہاں ہیں کیا وہ آپکا خیال نہیں کرتیں ؟؟
شاہ کہ ماتھے پہ بل نمایاں ہوئے۔۔۔
“کرتی ہے بیٹا لیکن اس وقت وہ تخلیق کہ مراحل سے گزر رہی ہے ۔۔۔۔”
‘اماں بی میرا پولیس فورس میں سلیکشن ہوچکا ہے۔۔۔۔۔ سب اسپیکٹر کی پوسٹ پر اپوائنٹ کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔”
“اللہ مبارک کرے تجھے اللہ تیرا حامی و ناصر ہو ۔۔۔ ”
“بس اب تیرا ہی سہارا ہے میرے بچے ۔۔۔ ورنہ یہ چلتا پھرتا جسم بھئ خاک میں مل جائے گا۔۔۔”
“اللہ نہ کرے اماں بی آپ کا سایہ ہم پر سلامت رہے ۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے ان باتوں سے اماں بی ایک دفعہ گڑیا نے بھی کہا تھا وہ بھی چلی گئی آپ بھی ایسا کہیں گی تو میں کس کہ سہارہ زندہ رہوں گا۔۔۔۔۔”
درراب شاہ مہتاب کی گفتگو سے دہل گیا تھا ۔۔۔ دانی کہ بعد اس میں کسی کو کھونے کی ہممت باقی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
___________________________
پورے دن کا تھکا ہارا وہ رات میں گھر پہنچا تھا ۔۔۔۔۔اس وقت وہ دو کیس پر کام کررہا تھا ماں جی والا کیس اس نے فروخ کو ہینڈل کرنے کو کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج خلاف معمول کچن سے کھٹ پٹ کی آواز آنے لگی۔۔۔
وہ کمرہ میں جانے کا ارداہ ملتوی کرکہ کچن میں آیا ۔۔۔۔
ڈوپٹہ سے بے نیاز وہ پیاز کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
“اسلام و علیکم ۔۔۔۔”
جانی پہچانی آواز پر عنایہ نے کرنٹ کھا کر دروازہ کی جانب دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
“وعلیکم اسلام”
سلام کا جواب
دے کر اس نے ڈوپٹہ تلاشا جو کرسی پہ لٹکا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
درراب فرصت سے دیوار سے ٹیک لگائے اس کہ بوکھلائے بوکھلائے تاثرات سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔۔۔۔
کندھوں پر دوپٹہ پھیلایا اور نل کھول کر سنگ میں ہاتھ دھوئے۔۔۔۔۔
فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس میں پانی انڈیلا ۔۔۔۔ ہاتھوں کی لرزراہٹ درراب کی نظروں سے مخفی نہ رہ سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلتا ہوا کرسی پہ اکر بیٹھ گیا۔۔۔
درراب نے چپ چاپ پانی کا گلاس تھاما۔۔۔۔۔۔۔
نظریں ہنوز اسی پر تھیں۔۔۔۔۔
کیا بنا رہی ہو ؟؟؟
ٹانگ پہ ٹانگ چرھا کر بیک سے ٹیک لگائی۔۔۔
“بریانی بنا رہی تھی ۔۔۔۔”
“ہممم بہت خوب تو۔ تم بھی اس ہنر سے آراستہ ہو۔۔۔۔”
درراب نے ستائشی آنداز میں سراہا۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہاں وقت سب کچھ سکھا دیتا ہے ۔۔۔”
عنایہ کی آواز میں تلخی درراب نے شدت سے محسوس کی تھی ۔۔۔۔
درراب نے بے اختیار اس کہ سفید مومی ہاتھ تھام لئے تھے۔۔۔
“گڑیا کہتی تھی بھیا میم کہ نازک ہاتھ صرف پینٹ برش پکڑنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔۔۔ ان کی ہاتھوں کی انگلیاں اتنی نازک ہیں جو صرف پینٹنگ کرتے ہوئے ہی جچتی ہیں۔۔۔۔”
اور وہ حقہ بقہ منہ کھولے درراب کو دیکھے گئی وہ کیا کہہ رہا تھا وہ اس سے اپنی بہن کی بات کررہا تھا اور وہ بھی اس کی تعریف۔۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھے گئی جو اس کا ہاتھ تھامے کسی اور دنیا میں چلا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ درراب کی آنکھ کا آنسو نکل کر عنایہ کہ ہاتھ کی پشت پر ٹپکتا وہ سرعت سے اٹھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کچن سے نکل گیا۔۔۔۔۔
عنایہ اس کا بدلتا رویہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔…
وہ جلدی جلدی رائتہ بنانے لگی اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر برنر بند کیا ۔۔۔ بریانی مکمل طور پر دم ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
رائتہ بنا کر فارغ ہوئی تو ٹیبل سیٹ کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔
اتنی دیر میں درراب فریش نکھرا نکھرا سا۔ کچن میں ہی چلا آیا ۔۔۔۔۔۔۔
اسے آتا دیکھ کر عنایہ نے بریانی ڈش آوٹ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرم گرم بریانی دیکھ کر درراب کی بھوک چمک اٹھی۔۔۔۔۔۔
عنایہ ہاتھ پہ ہاتھ جمائے اس کہ تاثرات کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے نہیں کھانا کیا ؟
“کھا رہی ہوں۔۔۔۔”
نگاہیں پھیر کر پلیٹ میں چاول نکالنے لگی۔۔۔۔
ابھی وہ چمچ منہ میں لیتی کہ درراب کی آواز پر ٹھر گئی۔۔۔۔
یہ تم نے بنائی ہے ؟؟؟
کیوں کیا ہوا صحیح نہیں بنی کیا ؟
عنایہ نے سوال کرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھا:
“مجھے یقین نہیں آرہا تم کوکنگ بھی کرتی ہو بہت اچھی بنائی ہے ۔۔۔۔”
درراب نے خلوص دل سے اس کی تعریف کی ۔
اسکا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔۔۔۔۔
اپنی پلیٹ پر جھک گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________