اگلے دن علیشہ کا نکاح تھا۔
دلہن بنی علیشہ اور اسکے ساتھ ہینڈسم سا دولہا داٶد۔۔۔
دونوں کی جوڑی کمال لگ رہی تھی۔
وہ دونوں اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ نظر نہیں ہٹتی تھی۔
ان دونوں کا نکاح ہو چکا تھا۔اب فوٹو سیشن ہو رہا تھا۔
زارا داٶد کو خوب تنگ کر رہی تھی۔
ہنستی مسکراتی یہ شام انکی زندگی میں خوب ہی خوشیاں لے کر آٸ تھی۔
(جاری ہے)
#دھنک_رنگ_زندگی
#از_حیات_خان
#قسط_نمبر_٧
ہیلو گرلز۔۔۔
آج ہمارا شکار کا موڈ ہے تو کیا ارادہ ہے ہمم۔۔۔
وہ تینوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ زرک نے آ کر انکو پلان بتایا۔
نہیں ادا ہمارا اپنی تکہ بوٹی بنوانے کا کوٸ موڈ نہیں ہے۔
ڈفر تمہیں نہیں کھاٸیں گے اب چلو جلدی سے ریڈی ہو جاٶ۔
کیونکہ پرسوں سے پھر ہماری دعوتیں شروع ہو جاٸیں گی۔
میں اس سے پہلے تم دونوں لڑکیوں کو روانہ کرنا چاہتا ہوں۔
ادااا….. زارا اور علیشہ ایک ساتھ چلاٸ تھیں۔
مجھے بہرہ کر دو گی کیا؟؟؟ میری مسز مجھے پھر کیسے کہے گی۔۔۔۔۔۔
اجی سنتے ہو۔۔۔۔۔
ندا شرم سے لال ہو گٸ تھی۔
اوہو بھابھی ویسے یہاں شرمانا نہیں بنتا تھا مگر چلو نٸ نویلی دلہنیں کہیں بھی کبھی بھی شرما سکتی ہیں۔
علیشہ نے اسے دھموکہ جڑا۔
تمہیں تو دلہن بن کر بھی شرم نہیں آنے والی۔
ہاں تو کیا ہو گیا۔۔۔ شرمانے میں ٹاٸم ویسٹ کرنے سے بہتر ہے بندہ تسلی سے بیٹھا رہے اور پوری بات سنے۔۔۔
مسز آپ ان دونوں چڑیلوں کو ذیادہ منہ مت لگانا ورنہ منہ کو آ جاٸیں گی۔
زرک نے دونوں کو چڑایا۔
اچانک سے زرک کو پیچھے سے ہاتھ پڑا تھا۔
کچھ کہہ رہے تھے آپ میری مسز کے بارے میں۔ داٶد نے زرک کو دبوچا۔
واہ واہ واہ مطلب میری ساٸیڈ لینے کے لیے ہی کوٸ نہیں ہے۔
اوکے اوکے پھر میں بھی بابا کو کہوں گی کہ مجھے بھی دولہا لا کر دیں تاکہ وہ آپ دونوں کی پٹاٸ کرے۔
اوہ اچھا تو زارا میڈم کو دولہا چاہیے۔۔۔۔
زرک سے اسے لتاڑا..
نہیں میں تو کہہ رہی ہوں کہ دیر ہو رہی ہے پھر یہ شادی شدہ عورتیں ٹاٸم بھی تو بہت لگاتی ہیں نہ۔
زارا کی بچی۔۔۔
علیشہ اسکے پیچھے بھاگی۔ مگر وہ بھاگ کے کمرے میں گھس گٸ..
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ادا ہم شکار کس کا کریں گے؟؟؟
زارا ادھر اُدھر دیکھتے ہوۓ بولی۔
مرغابی۔۔
معاذ نے گاگلز اتارتے جواب دیا۔
مگر کیوں؟؟؟
ظاہر ہے اب شکار کے لیے آۓ ہیں تو شکار ہی کریں گے نہ۔
مگر کسی معصوم کو مارنا اچھی بات نہیں۔
زارا پریشانی سے بولی۔
تو ٹھیک ہے پھر تم دوڑ لگاٶ میں نشانہ لگاتا ہوں۔اور ہاں تیز دوڑنا کیونکہ میرا نشانہ بہت اچھا ہے۔
ہونہہ نشانہ اچھا ہے اس کو تو میں واپس جا کر سیدھا کرتی ہوں۔
زارا منہ بناۓ سوچ رہی تھی۔
تینوں لڑکوں نے اپنے پوزیشنز سیٹ کر لیں۔ جبکہ ندا اور علیشہ باربی کیو کا انتظام کرنے لگیں۔
زارووو تم بھی ہماری ہیلپ کرا دو۔۔۔
اوہ پلیز عالی میں نہیں کروانے والی۔ اس نے صاف انکار کیا۔
علیشہ اسے فٹے منہ کر کے کام میں مصروف ہو گٸ۔
جبکہ زارا ان تینوں کو شوٹنگ کرتے دیکھنے لگی۔
زرک اور داٶد شکار کیے مرغابی اٹھانے چلے گۓ۔
تم نے نشانہ نہیں لگانا کیا؟؟
نو تھینکس مجھے کوٸ ضرورت نہیں۔
یہ کہو نہ ڈر لگتا ہے…
میں نہیں ڈرتی۔۔۔
تو یہ لو۔۔
معاذ نے اپنی گلاسز اور راٸفل زارا کے ہاتھ میں تھماٸ۔
لگاٶ نشانہ۔
مم میں کیسے۔۔۔
اسے دانتوں پسینہ آیا۔۔
مطلب تم ڈر رہی ہو۔
میں نہیں ڈرتی۔۔
زارا نے اسکی طرف گھور کر جواب دیا۔
راٸفل پکڑے اسکے ہاتھ لرز رہے تھے۔
شوٹنگ اسے آتی تھی مگر سواۓ ٹریننگ کے اس نے کبھی گن چلاٸ نہیں تھی۔
اور پھر کسی معصوم کی جان لینا۔
یہ سوچ کر ہی اسکے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔
اگر نہیں کر سکتی تو بتا دو۔
معاذ مذاق اڑاتے ہوۓ بولا۔
زارا نے خود کو نارمل کیا مگر ابھی بھی وہ کسی کو مارنے پہ خود کو آمادہ نہ کر پاٸ تھی۔
اوپر سے یہ ڈھیٹ انسان اسکو چیلنج کر رہا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
داٶد تم خوش ہو نہ..
آٸ مین تمہیں ایسا تو نہیں لگا کہ میں نے دوستی میں تم کو اپنی بہن۔۔۔
زرک کے دل میں یہ سوال چبھ رہا تھا مگر وہ ہمت نہیں کر پا رہا تھا پوچھنے کی۔ آج اس نے پوچھنے کی ٹھانی۔
اگر ایسا ہوتا تو میں دو سال انتظار نہیں کرتا۔
میں نے ان دو سالوں میں کبھی اسکے بارے میں نہیں سوچا۔
مگر اب جب میں نے اسے دیکھا تو دل نے اسکی خواہش کی۔
میں بہت خوش ہوں کہ علیشہ میری ہمسفر ہے۔
ہاں بس تھوڑی سی پاگل ہے۔ گھبرا جاتی ہے مگر بہت اچھی ہے۔
سافٹ سی دھیما بولتی۔۔
داٶد کے لہجے میں اپنی بیوی کے لیے محبت تھی۔
اسکے بارے میں بات کرتے وہ محبت سے مسکرایا تھا۔
اللہ تمہیں ایسے ہی مسکراتا رکھے۔
ویسے تم لکی ہو عالی پولاٸیٹ ہے زری کی طرح پٹاخہ ہوتی تو تم آج میرے آگے ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوتے۔
وہ دونوں ہنستے ہوۓ واپسی کی راہ ہو لیے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا نشانہ باندھے کھڑی تھی۔
وہ دعا کر رہی تھی کہ اسکے نشانے سے کوٸ معصوم جان سے نہ جاۓ۔
اب لگاٶ بھی نشانہ۔۔۔
شوٹ۔۔۔
وہ اسے کنفیوز کر رہا تھا۔
اسی کنفیوژن میں اس نے آنکھیں مِیچ کر فاٸر کر دیا۔
ٹھاہ کی آواز سے پرندوں کا شور اٹھا تھا۔
اس نے آنکھیں کھولنے کی زحمت نہیں کی کہ اچانک کسی نے اسے اپنے طرف کھینچا تھا۔
اس نے ناریل کے پیڑ پہ نشانہ لگایا تھا۔
اور ایک ناریل ٹوٹ کے گرا تھا وہ تو اچھا ہوا معاذ نے دیکھ لیا اور اسے پیچھے کھینچ لیا ورنہ ناریل زارا کا سر پھوڑ چکا ہوتا۔
معاذ کے بازو پہ ناریل لگا تھا۔
اسکے بازو سے خون بہنے لگا تھا۔۔۔
زرک اور داٶد بھاگ کر آۓ تھے۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔؟؟؟
زارا نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔
معاذ کا بازو خون سے بھر گیا تھا۔
علیشہ اور ندا بھی فوراٍ آ گٸ۔
کیا ہوا یی یہ چوٹ کیسے لگی؟؟؟
علیشہ تو خون دیکھ کر ہی ڈر گٸ تھی اور ڈر تو زارا بھی گٸ تھی۔
ام ام سو سوری مجھے پتا نہیں چلا کہ۔۔۔
اٹس اوکے معمولی سی چوٹ ہے میں ٹھیک ہوں۔
معاذ اسے شرمندہ نہ کرنا چاہتا تھا۔
اور پھر کہا بھی تو اسی نے ہی تھا۔
زری تمہیں کیا ضرورت تھی ہممم۔۔۔
آٸ ایم سوری ادا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔
وہ رو دینے کو تھی۔
جو بھی تھا غلطی تو ہوٸ تھی اور معاذ کو چوٹ بھی اسی کی وجہ سے ہی لگی تھی۔
اٹس اوکے یار اور ویسے بھی میں نے ہی اسکو کہا تھا کہ یہ بھی نشانہ لگا لے۔
معاذ کی غلطی بھی تو تھی ہی۔
چلو آٶ میں تمہاری بینڈیج کر دیتا ہوں۔
چلو۔۔ اور داٶد تم لوگ ذرا باربی کیو کر دو بھوک لگ رہی ہے۔
معاذ زرک کے ساتھ بینڈیج کروانے چلا گیا۔
وہ سب باربی کیو کرنے لگے۔
زارا کو بھی زوروں کی بھوک لگ رہی تھی۔
اب یا تو وہ بھوکی رہ سکتی تھی یا پھر شرمندہ۔۔۔
تو اس نے بھوک کا انتظام کیا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا اور علیشہ داٶد کے ساتھ واپس چلی گٸ تھیں جبکہ معاذ ایک دن رکا تھا۔
زارا کو معاذ نے کال کر کے بلایا تھا۔
ہیلو سر ہاٶ آر یو۔۔۔
ام فاٸن تم بتاٶ کیسی رہی بھاٸ کی شادی۔۔۔
بہت اچھی رہی۔
ہممم گڈ۔
آج میری نتاشا سے میٹنگ ہے شام پانچ بجے۔ حماد چھٹی پر ہے تو تم پھر ساتھ ساتھ ہی رہنا۔
اوکے سر۔۔۔
وہ دونوں میٹنگ کے لیے نکلے تھے۔
ہاۓ معاذ۔۔۔
نتاشا اسکے گال سے گال مس کرتے بولی۔
زارا نے غصے سے مٹھیاں بھنچی تھیں۔
اسے بے تکلفی کے یہ مظاہرے سخت کَھلتے تھے۔
تو کس لیے میٹنگ کے لیے بلایا کچھ خاص بات تھی کیا۔۔۔
معاذ سیدھا کام کی بات پر آیا۔
ہمم ویسے انسان کو ہر وقت اتنا پروفیشنل نہیں رہنا چاہیے۔
زارا کا دل چاہ رہا تھا رکھ کر اس عورت کو تھپڑ لگاۓ۔
معاذ اسکے بیٹے کی عمر کا تھا اور وہ اس سے اس طرح فری ہو رہی تھی۔
تم اس باڈی گارڈ کو ہر جگہ کیوں لیے پھرتے ہو ہممم۔ کیا تمہیں مجھ پر بھی اعتبار نہیں۔
مجھے تو اپنے ساۓ پر بھی اعتبار نہیں مس نتاشا ویل کام کی بات کریں۔
اوہ یس ایکچوٸلی بات یہ ہے کہ تمہارے لیے انڈیا سے آفر آٸ ہے۔
مہیش درانی کی فلم کے لیے البم بنانا ہے۔
اور پھر تم ہو بھی اتنے چارمنگ تمہیں دیکھنا فلم میں رول مل جاۓ گا۔
اور پھر لوگ تو مرے جاتے ہیں بالی وڈ میں کام کرنے کے لیے اور تمہیں تو خود کام مل رہا ہے۔
نتاشا نے کہہ کر سگریٹ سلگایا۔
زارا کو کھانسی شروع ہو گٸ۔ اسے دھوٸیں سے الرجی تھی۔
کھانس کھانس کر اسکا برا حال ہو گیا۔
معاذ نے فوراً اسے پانی پکڑایا تھا وہ گلاس لیے باہر نکل گٸ۔
یہ کیسے لوگ رکھے ہوۓ ہیں تم نے۔ بالکل تمیز نہیں ہے۔
نتاشا نے ناگواری سے کہا۔
نتاشا سموکنگ ہر کسی کے سامنے بھی تمیز کے داٸرےمیں نہیں آتی۔
معاذ نے اپنی ناگواری چھپانے کی زحمت نہ کی۔
سوری سر۔۔۔
زارا نے واپس آ کر معذرت کی۔
اٹس اوکے تم ٹھیک ہو۔۔۔
معاذ نے پریشانی سے پوچھا۔
جی سر میں ٹھیک ہوں۔
نتاشا نے منہ بنا کر سگریٹ مسلا۔
اور مس نتاشا جہاں تک بات رہی بالی وڈ کی تو میں بالکل بھی انڈیا نہیں جانا چاہوں گا۔
معاذ تم پاگل ہو کیا۔ پتا بھی ہے وہ کروڑوں دیں گے تمہیں۔ تمہاری لاٸف بن جاۓ گی۔
نتاشا کو اسکے انکار پہ جھٹکا لگا تھا۔ وہ ہر صورت اسے منانا چاہتی تھی۔ آخر کو اسے بھی تو لاکھوں کا فاٸدہ ہونا تھا۔
مگر اب معاذ کے انکار سے اسے اپنا نقصان نظر آ رہا تھا۔
معاذ ڈٸیر۔۔۔
نو مس نتاشا۔ اسے نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
میں پیسوں کے لیے اپنا ضمیر نہیں بیچ سکتا۔
میرے لوگ انکی قید میں ہیں اور آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ میں انہی لوگوں کے درمیان میں جاٶں اور انہیں کروڑوں کا فاٸدہ پہنچاٶں۔
تو ایسا نہیں ہو گا۔ میں اگر روڈ پر بھی آ جاٶں تو بھی میں انڈیا نہیں جاٶں گا۔
اوہ کم آن معاذ یہ پولیٹیکل باتیں کب سے کرنے لگے تم۔
تم ایک آرٹسٹ ہو اور آرٹسٹ کے لیے سرحدیں معنی نہیں رکھتیں۔
مگر میرے لیے رکھتی ہیں میں بے ضمیر نہیں ہوں۔ بہت شکریہ آپکا۔
وہ کہتے ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
اور زارا کا تو خوشی سے لڈیاں ڈالنے کا دل چاہ رہا تھا۔
اسے آج معاذ چوہدری اچھا لگا تھا۔ کم از کم وہ ملک سے محبت تو رکھتا تھا۔ اور ملک سے محبت کرنے والے لوگوں سے بغض نہیں رکھا جاتا۔
سر۔۔۔۔
ہممم۔ معاذ گاڑی سے اترتے ہوۓ مڑا۔
آپ اچھے ہیں۔
زارا جذبات سے پُر لہجے میں بولی۔
اچھا۔۔۔
معاذ حیرانی سے مسکرایا۔
ویسے ایسی تعریف تو لڑکیاں کرتی ہیں۔ پھر بھی تھینکس۔۔۔
گڈ ناٸیٹ سی یو۔۔
وہ گاڑی سے اتر گیا۔ اور زارا نے خود کو تھپڑ لگایا۔
زارا اپنے ایموشنز پہ قابو رکھو ایسا نہ ہو کہ بھانڈہ پھوٹ جاۓ۔
خود کو سرزنش کرتی وہ گاڑی سے اتری اور باٸیک کی جانب بڑھ گٸ۔
زارا گھر آٸ تو علیشہ داٶد سے بات کر رہی تھی۔ سو وہ چینج کر کے باہر نکل آٸ۔
آج رہ رہ کے اسے معاذ کا خیال آ رہا تھا۔
وہ سچ میں ایک اچھا اور کٸیرنگ انسان تھا۔
جس طرح اس نے نتاشا کو اسکی وجہ سے ڈپٹا اور پھر اپنے ملک کے لیے محبت وہ اس سے امپریس ہوٸ تھی۔
ہممم تھوڑا سا کھڑوس ہے مگر اچھا ہے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*