آدم گھر کے Holographic Lounge میں بیٹھی اپناسیلفی ویڈیو دیکھ رہی تھی اور مسکرائے جارہی تھی۔ بیل بجا۔ وہ اٹھا اور دروازی کھولی ۔ اپنے سامنے آدم کو کھڑا دیکھ کر وہ حیران ہوا اور خوشی سے چل کر اس کے گلے لگ گیا۔
” شیلوم (عبرانی سلام ) ۔ تم اسرائیل سٹی سے کب آئی ؟ کوئی اطلاع نہیں دی ! ”
آدم نے آدم کو بھینچتے ہوئے کہا۔
“وعلیکم السّلام ۔ ۔ ۔ بس تمھاری یاد آئی تو پاکستان سِٹی چلا آیا۔”
آدم نے آدم کو گلے سے ہٹا کر اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ ” آ جاؤ اندر۔”
آدم نے آدم کا بیگیج اٹھاتے ہوئے کہا۔ دونوں لاؤنج میں آ کر صوفوں پر بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگ گئے ۔
” اور سناؤ۔۔۔سفر کیسی گزری؟۔۔۔۔ اور وہ تمہاری Genetical Mutation Centerکہاں تک پہنچی؟”
“ارے کیا بتاؤں ۔۔ فلائٹ کا Transit سعودیہ سِٹی سے تھا۔ وہاں دو گھنٹوں کا stay تھا۔ سو چاہا باہر گھوم آؤں۔ بازار میں اُس انڈیا سٹی والی آدم سے ملاقات ہوگئی جو چائناسِٹی کے ہوسٹل میں اپنی رُوم میٹ تھی ۔۔ یاد ہے ناں!”
“اوه! یا دآیا ،وہی ہم دونوں کا ہم شکل مگر ذرا لمبے قد والا ؟”
” ہاں وہی! اس کے ساتھ بار میں جا کر ٹائم پاس کیا۔ ۔ بہت مزہ آئی .. اس نے انڈ یاسِٹی میں میری Genetical Mutation Center کی ایجنسی چلانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ۔ دوگھنٹوں میں اچھی development ہوگئی !”
“واؤ ۔۔۔۔very good۔۔۔خدا جوکرتی ہے اچھاہی کرتی ہے۔۔ تم آرام کر لو۔”
“نہیں! آرام کی ضرورت نہیں! fresh ہوں ۔ رات کو سولوں گا۔ آدم کہاں ہے؟ کہیں باہرگئی ہوئی ہے کیا؟”
“جاب پر ۔ بس ابھی وہ آنے والا ہی ہو گا تمہیں اچانک دیکھ کر وہ بہت خوش ہوگی۔”
“بڑی ہوگئی ہو گی ناں۔۔۔ یہ بتاؤ تمہیں اپنی دوسری کلوننگ کا پرمٹ ملا Ministry of Reproduction سے؟”
” نہیں سُننے میں آرہا ہے حکومت اب ہرآدم کو بس ایک ہی آدم Reproduce کرنے کی پابندی کا قانون بنارہی ہے۔ وحدت کو بچانے کیلئے ۔ ورنہ یہ وحدت پھر وہی پرانے Age of Discrimination میں لوٹ کر کثرت میں پارہ پارہ ہوسکتی ہے۔”
” اُف !!سوچ کر ہول اٹھنے لگتا ہے ۔۔ کیا جہالت کا زمانہ تھا۔۔ وہ آخری حیوان مختلف رنگوں نسلوں ، قوموں اور فرقوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ ۔ اور تو اور ۔ ۔ دوجِنسوں میں ٹوٹے ہوئے تھے! سُنا ہے ایک دوسرے سے پیار کرتے کرتے ، بوسے بھرتے بھرتے اچانک کپڑے اتار کرلڑ نا شروع کر دیتے تھے اور اس لڑائی سے اپنی مشتر کہ cloning تیار کیا کرتے تھے !”
“ہاں! بالکل ۔ ۔ دوسرے حیوانوں کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سُنا ہے یہ لڑائی وہ زبردستی بھی کرتے تھے جسے اُس زمانے میں rape کہا جاتا تھا۔ عجیب Animal Kingdom کی آخری کڑی تھی جو باقی پچھلی کڑیوں سے خود کو supreme سمجھتی تھی۔”
“ہمممممممممم۔۔۔الف اور چھوٹی “ی” کے فرق پر قائم معاشرہ تھا۔ ”
“ہاں یار کتنا عجیب تھا۔ ۔ وہ الف چھوٹی “ی” کے پیٹ میں گُھپ جایا کرتا تھا! اچھا ہوا۔ ۔ اب نہ رہا بانس نہ بجے بانسری !”
“ہمیں Anthropology کی کلاس میں بتایا گیا تھاناں ۔۔ کہ ان میں ایک عجیب شرم نام کا جذ بہ ہوا کرتا تھا جواس وقت جاگتا تھا جب چوری کا خیال ان کے ذہن پر دستک دیتا تھا۔ ”
اتنے میں پھر بیل بجا۔ آدم جاب سے واپس آ گئی تھی ۔ اندرآ کر اسرائیل سِٹی سے پاکستان سِٹی میں آئے آدم کو دیکھ کر حیران ہوئی اور نمستے نمستے کہتے ہوئے اس سے جا کر چمٹ گیا۔ تینوں آدم باتیں کرنے لگ گئیں۔ کوئی ایک آدھ گھنٹی ہی گزری تھی کہ جاب سے واپس آئے آدم کا موبائیل بجا۔ اس کے آفس سے آدم کی کال تھی۔آدم نے چھ سے سات بار اوکے اوکے کہہ کر کال disconnect کی اور بتانے لگا۔
“سوری! مجھے دوبارہ آفس جاتا ہے۔ emergency call for a reporting ۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ ۔۔ پولیس نے “آخری حیوان” کے خفیہ قبیلے کے ٹھکانے پر raid کیا ہے جس میں الف اور چھوٹی “ی” دونوں گوشت خوری کرتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔ انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہے ۔ ”
اچھاسُنو ! ذرا الف اور چھوٹی “ی” کی video اپنے ہولوگراف پر send کر دینا ،
I want to see the terrifying remains of that old savage culture.”
کوئی ایک گھنٹے بعد ایک آواز ہولوگرافک نیوز لاؤنج میں گونجی جسمیں بتایا جارہا تھا کہ جس آخری حیوان کے بچے کُھچے قبیلے پر raid کیا گیا ہے ان کے ٹھکانے پر ایک انڈرگراؤنڈ لیبارٹری دریافت ہوئی ہے جہاں Operation Apple کے تحت اغوا کئے گئے آدم کو Genetical Re-mutation کے ذریے جنس الف اور جنس چھوٹی “ی” میں تقسیم کیا جاتاتھا ۔
اچانک حوّا کی آنکھ کُھل گئی۔ وہ بستر پر اٹھ بیٹھی اور جُوڑا باندھنے کیلئے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے لے گئی مگر اتنے بال تھے ہی کہاں ۔ تالی بجائی۔ بیڈ روم کی لائٹ جلی ۔ پاس صوفے پر بیٹھے روبوٹ کی آنکھیں چمکیں اور آواز آئی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...