(Last Updated On: )
یہ بات بلاشبہ باعثِ مسرت ہے کہ حکومتِ ہند نے علی سردار جعفری کو ہندستان کے سب سے قابلِ فخر ادبی انعام ’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس وقت ہندستان کے اردو ادب کے افق پر ایسے کئی نام ہیں جو اس جیسے ایوارڈ اور اعزاز کے مستحق ہیں مثلاً کیفی اعظمی، عصمت چغتائی، جگن ناتھ آزاد، مجروح سلطان پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، اختر الایمان مرحوم وغیرہ۔ جن کی اپنی اپنی ادبی عظمتیں ناقابلِ تردید ہیں۔ بلاشبہ اربابِ انتخاب کے لیے یہ ایک دشوار عمل رہا ہو گا۔ مگر جب علی سردار جعفری کے نام کا اعلان ہوا تو بے حد اچھا لگا۔ اگر چشم استحسان سے دیکھیں توا صل میں یہ ایوارڈ ایک شخصیت ہی کو نہیں بلکہ ترقی پسند ادب کے اختتامی مراحل میں سب سے اہم شاعر و ادیب کو دیا گیا ہے جو خالصتاً شاعر رہا ہے، خواب انگیز و خواب فروش جس نے عوامی جذبات اور مسائل کو ان کے متوازن تناظر میں پیش کیا بلکہ منشرح کیا ہے۔ بے سنجیدہ انداز میں۔۔۔!
آج جب مارکسی کمیونزم برے انتظامیہ، بدنیت آمرانہ نظام اور شاطر سامراج کے سامنے پسپا ہو کر رہ گیا ہے۔ تو ترقی پسند ادب بھی ماضی کی طرف مائل نظر آتا ہے۔
اب دیکھیں تو خود سردار جعفری کا ذکر ہی بڑی حد تک دیر آمدہ سا لگتا ہے۔ سردار جعفری کی عمر آج تقریباً ۸۶ سال کے آس پاس ہے (تاریخِ پیدائش ۱۹۱۴ء) وہ اپنے تخلیقی سفر کے سنہرے عہد سے ۲۰، ۲۰ برس پہلے ہی گزر چکے ہیں۔ ہم خدائے کریم سے (جس پر ہمارا ایمانِ واثق ہے) دعا کرتے ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ عمر عطا فرمائے، کہ وہ اردو ادب میں اپنے زورِ قلم سے بیش قیمت اضافے کرتے رہیں۔ سردار جعفری کی شاعری آزادی کی جد و جہد اور آزادی کے ابتدائی برسوں میں ایک تحریکِ دلی پیدا کر دیتی تھی۔ اب وہ بات نہیں کہ نیا استعمار پرانے استعمار سے کافی جدا پرتو رکھتا ہے۔
سردار جعفری کی اہم نظمیں جو ادبی دنیا میں اپنا نام نمایاں کر چکی ہیں، وہ ہیں:
نئی دنیا کو سلام، لہو پکارتا ہے، خون کی لکیر، ایشیا جاگ اٹھا، ایک خواب اور، پتھر کی دیوار، اودھ کی خاکِ حسیں، امن کے ستارے، پیرہن شرر وغیرہ۔
اس کے علاوہ نثر میں ان کی کتاب ترقی پسند ادب، ان کا رپورتاژ، لکھنو کی پانچ راتیں، ان کے میرؔ، میراؔ اور کبیرؔ پر مضامین، ان کے غالبؔ اور اقبالؔ پر تقاریر اور تحریریں سب ہی اپنی نکیلی طرزِ فکر کے لیے مخصوص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا ادبی مطالعہ باریک بینی اور نظریاتی عمق سے مالا مال ہے۔
مجھے ذاتی طور پر سردار ایک منطقی طرزِ شعر کے شاعر لگے جو اپنے منتخب شدہ کلیہ کو ثابت کرنے کے لیے مفروضات اور بحوث کی تخلیق کرتے رہتے ہیں۔۔ ۔ یہ رویہ بہت سے ترقی پسند شاعروں کی شاعری میں رائج ہے ان کی منظر نگاری، اشارات، تراکیب سب مقالات کے عناصر کی طرح ایک خاص نتیجہ کو اخذ کرنے کے لیے آلہ کار کی طرح ہیں۔ ان کا ایک شعر تو برسوں میرے ذہن میں گونجتا رہا ہے:
در بہ در ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھرتے ہیں سوال
اور چوروں کی طرح ان سے گریزاں ہیں جواب
نئے زمانے میں ایسے کئی سوالات و استفسارات ہیں جوا بھی تک تشفی بخش وضاحتوں کے منتظر ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان سوالات کا جواب اگر کسی کے پاس ہو گا تو وہ شاعر ہی بذاتِ خود ہو گا جو زمان و مکان کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا آئے گا اور ہر رازِ سربستہ کوا پنی کلید سے کھول دے گا، اس کی نشان دہی سردار جعفری نے اپنی نظم ’’میرا سفر‘‘ میں کی ہے:
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے ذہن سے بولوں گا!
چڑیوں کی زبان سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی کلی کلی۔۔ ۔
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا۔ !
ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی قوت مستقبل سے امید رہی ہے، اسے ایقانِ کامل ہے کہ آنے والا کل خوش آئند ہے جس میں آج کی کلفتوں اور اذیتوں کے داغ دہل جائیں گے گویا اس شبِ تار کی صبح روشن اور تازہ ہو گی۔
۱۹۶۰ء اوراس کے اطراف جب نئی شاعری (عرفِ عام میں جدے دیت) رائج ہونے لگی۔ ترقی پسند شعرا نے بہ شمول سردار جعفری نے اس کا بڑی شد و مد سے مقابلہ کیا۔ مختلف رسائل، جرائد اور مناظروں میں بحث و تمیص، رد و اعلان بڑھتے ہوئے گرم گفتاری کی حد تک آئے کچھ ترقی پسند شاعروں نے صورتِ حالات کی موافقت میں اپنے رویہ میں تبدیلی بھی پیدا کر لی لیکن سردار جعفری اسی طرح غالی ترقی پسند ہی رہے، انھوں نے اپنا محاذ کبھی نہیں بدلا۔ اس کے باوجود یہ محسوس کیا گیا ہے کہ وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے تحت کچھ نہ کچھ تو شعری رویہ میں اس چھاؤں دھوپ کا اثر تو آنا ہی تھا۔ بہ قول خلیل الرحمن اعظمی:
’’سردار جعفری نے ابتدائی نظموں میں کہیں کہیں اقبال سے اثر قبول کیا تھا، لیکن خطیبانہ مزاج انھیں بھی جوش کی طرف لے گیا، جعفری کی شاعری میں ایک صلابت کا احساس ہوتا ہے، مگر ان کی بہت سی نظمیں بے جا طوالت، تکرارِ خیال و تکرار بیان، لفاظی اور جذباتیت کے ابال کی وجہ سے فنی اعتبار سے خام رہ گئیں۔ ابتدا میں وہ بھی آزاد نظم کے مخالف تھے مگر آزادی کے بعد انھوں نے اس فارم کو قبول کر لیا اور اس طرز میں مائیکافکی، لوئی آراگاں اور پابلو نرودا وغیرہ کے اثرات کو ملا کر آزاد نظم کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی۔۔ ۔‘‘
(’’نئی نظم کا سفر‘‘: ابتدائیہ)
اور بہ قول ڈاکٹر وحید اختر:
’’لیکن ایک خواب اور‘‘ جو سردار کے پند سولہ شعری ارتقا کا آئینہ دار ہے، بعض حیثیتوں سے خود ان کے اسلوب، لہجے اور طرزِ فکر میں تبدیلی کے شواہد بہم پہنچاتا ہے، اس مجموعہ کی اچھی نظموں میں خطابت کم ہوئی ہے اور فکری عنصر بڑھا ہے، جو سیاسی نعروں کی جگہ ذاتی تجربہ سے پیدا ہوا ہے، اس کے ساتھ لہجے میں ترقی اور کہیں کہیں خود کلامی کا اثر بھی ہے، اسی کے ساتھ انھوں نے جدید دور میں ان مسائل کو بھی چھوا ہے جو آزادی کے بعد پیدا ہوئے۔۔ ۔ ‘‘
(مضمون شائع شدہ: شب خون الہ آباد، اکتوبر: ۱۹۷۰ء)
ان تمام مباحث اور نظریاتی اختلافات کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ سردار جعفری ایک مستقل ادیب و شاعر ہیں اور ان کی تخلیقی فکر (آمد و آورد کا آمیزہ ہی سہی) مضبوط ادبی صلاحیت اور عبقریت کی علم بردار ہے۔ سردار جعفری کی شاعری اس طرح منفرد اور واضح طور سے جدا جدا سی نظر آتی ہے اپنی شناخت آپ۔!!
سردار جعفری اپنی شاعری میں ایک معتبر اور با وقار متکلم کی طرح ابھرتے ہیں، ان کی شاعری شعری آہنگ میں گفتگو کا روپ دھار لیتی ہے، جس میں کبھی حدودِ قواعد و ضوابط سے انحراف نہیں کیا گیا ہے، یہ گفتگو عموماً بالراست ہے جو استعارات اور کنایات سے کم تر آلودہ سہی، شہری زبان میں ہوتی ہے۔ ایسی شہری زبان جس میں عمومی روزمرہ کا استعمال ہوا ہے، نئے پیکر، نئی لفظیات و ترکیبات کی تشکیل و تخلیق سے اجتناب برتا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں پس منظر عام زندگی سے منتخب ہوتا ہے کسی ما بعد الطبیعاتی، تصوراتی یا سری ماحول کا استعمال کبھی نہیں ہوا ہے، وہی گھر، شہر، گاؤں، کمرہ، دیواریں، کارخانہ، سڑک، دکان، کھیت اور ایسے ہی ابعادی ظروف کا ذکر ملتا ہے۔ جب شاعر جوش یا غصہ کی کیفیت دکھانا چاہتا ہے تو آتش، شعلہ، شر ر، گولی، بجلی، آندھی ایسے الفاظ کو اشارت کے لیے استعمال کرتا ہے جو کہ زور مستعملہ اور از کار رفتہ قسم کے ہیں۔
سردار نے جہاں اپنی نظموں میں شعریت کے ارتکاز کی کوشش کی ہے تو ایسی تراکیب استعمال کی ہیں جو قدرے استعاراتی ہیں لیکن عوام کے فہم سے بعید تر نہیں ہیں مثلاً دھوپ کی سنہری زلف، فروزاں انگلیاں، گھٹاؤں کی اپرائیں، اندھی تقدیر کا بھنور، ہاتھوں کے کنول وغیرہ۔
ان کی شاعری میں رجزیہ آہنگ صوتی زیر و بم کی مرتب تکرار سے معنون ہے، یہ زیر و بم کبھی کبھی گھن گرج سے قریب تر ہوتا ہے تو کبھی کبھی بہتے پانی کے ہلکورے کی طرح رواں دواں۔ یہی صوتی آہنگ قافیوں اور بحور کو اس طرح سنبھالے رکھتا ہے کہ نثری بیان بھی شعری اسلوب سے قریب تر لگنے لگتا ہے۔ سردار جعفری کی شاعری میں رومانی عنصر کم تر ہی نہیں عنقا سا ہے۔ وہ قریب سے پاک دامنی کے ساتھ گزر جاتے ہیں غالباً وہ غزلیہ کیفیت کو تزئینی ضرورت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کا شاید سبب یہ ہے کہ انھوں نے مزدور، کام گار، ستم زدہ و ستم بردار اور نبرد آزما انسانیت کے جذبات کے اظہار کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ ’’غمِ جاناں‘‘ تو شاید داستان کو رنگین بنانے کا ایک بہانہ ہے اور بس۔ اس طرح جب وہ اپنی معشوقہ (بلکہ بیوی) کا ذکر بھی کرتے ہیں تو یوں:
سوکھے ہوئے پتوں سے میرے
ہنسنے کی صدائیں آئیں گی
دھرتی کی سنہری سب ندیاں
آکاش کی نیلی سب جھیلیں
ہستی سے مری بھر جائیں گی
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ مرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
(میرا سفر)
ترقی پسند شاعر ہمیشہ مشعل بردار کا روپ دھارے، محنت کش اور ستم خوردہ سماج کو ایک روشن مستقبل اور اس کے جلو میں ایک تابناک زندگی کی طرف لے جانے کا دعویٰ دار رہا ہے، وہ ہمیشہ اس زعم میں رہا ہے کہ اس نے سارے اقتصادی، سماجی اور عقائدی مسائل کی گتھی سلجھا لی ہے، اس کے پاس جو اشتراکی کلید ہے وہ تمام افعالِ زنگ خوردہ کو فتح کر سکتی ہے کھول سکتی ہے۔ ہر ترقی پسند شاعر اپنے مخاطب راہ روکو، راستہ میں ٹھہر ٹھہر کر آدابِ جنوں اور رسوماتِ انقلاب سے واقف کراتا رہتا ہے کہ کہیں سامراج کی چال بازی اور جعل سازی (بزعمِ خود) کے سامنے یہ رہ رواں رہِ طلب بہک یا بھٹک نہ جائیں۔ بڑی ذمہ داری ان شاعروں نے سنبھالی تھی۔ سردار جعفری بھی اس رہبرانہ جذبہ سے ہمیشہ سرشار رہے ہیں۔ وہ اپنے اطراف و اکناف کو ان ہی تشبیہات و علامات کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو ان کے مفروضہ نظریات سے میل کھا سکیں۔ وہ جیل کی پتھر کی دیوار میں ان بھوکے پیاسے مزدوروں کی سسکیاں سن لیتے ہیں جو ان کی تعمیر میں یا ان کے اندر حبس کی دکھ بھری صورتِ حال سے گزر چکے ہیں، وہ ان دیواروں میں ان حوصلوں کی پسپائی کے کرب کو محسوس کر سکتے ہیں جو قیدیوں کی جائز امیدوں اور مثبت امنگوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ دیواریں ان کے لیے زندہ، دیکھتی اور بولتی ہوئی بن جاتی ہیں۔ وہ الفاظ کے واسطے متحرک تصویروں کی طرح اس تجربہ کے مختلف کردار، مناظر اور ان کی جزئیات کا ایک انجمادی اظہار پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اسلوب بیانیہ، سپاٹ، سہلِ ترسیل قسم کا ہے، جو پتھر کی دیوار میں کھل کر واضح ہوتا ہے۔ وہی چھوٹے چھوٹے جملے، وہی جستہ جستہ تشبیہاتی وقوع و تنقید و تنقیص و تحسین بتائے ہوئے صفات شناس اشارے، ایک اقتباس دیکھیے:
پتھروں کی دیواریں
جو کبھی نہیں روتیں
جو کبھی نہیں ہنستیں!
ان کے سخت چہرے پر
رنگ ہے نہ غازہ ہے
کھردرے لبوں پر صرف
بے حسی کی مہریں ہیں
اس کریہہ دل آزار پتھروں کی دیواریں کے ماحول میں شاعر ایک امید کا روشن دان کھولتا ہے، انقلاب کی آہٹ محسوس کرتا ہے اور نویدِ صبحِ آزادی سناتا ہے اور۔
ابروؤں کی جنبش میں
عزم مسکراتے ہیں۔۔ ۔
اور نگہ کی لرزش میں
حوصلے مچلتے ہیں
تیوریوں کی شکنوں میں
نقشِ پا بغاوت کے!
اور نظم کے آخری حصہ تک آتے آتے شاعر پھر اپنی اس امکانی کیفیت کی طرف لوٹ جاتا ہے کہ:
کوئی کہہ نہیں سکتا
کون سا شرارہ کب
بے قرار ہو جائے
شعلہ بار ہو جائے
انقلاب آ جائے
یہ انقلاب کے لیے جوش و خروش کو قرار کی حدوں سے باہر لے جانے کی تمنا یہ انقلاب کے لیے شعلہ باری کی آرزو، ترقی پسند شاعر کی نظر میں علاج غمِ ناداری و ستم زدگی ہے۔ وہ اس طرح ایسے نظام کی بنیاد ڈال رہا ہے، جو مروجہ نظام کو تاراج اور تہس نہس کر دے، وہ ایسے خوابوں کا سوداگر ہے، جو سماج کی بنی بنائی تعبیروں اور تقدیروں کی شکست، زوال اور برخواستگی سے مستویِ فکر پر آئیں۔
ترقی پسند شاعر نے نئی راہ کی تعین کرتے ہوئے، تمام مروجہ عقائد و مسالک کو سامراج کا آلہ کار قرار دیا اور اپنی سمتِ فکر کو شد و مد سے قبول کروانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کی زنبیل میں بہ قول مخدوم علاج و مداوا ضرور تھے۔ سردار جعفری مروجہ اقدار کی نفی کا عمل تو زور و شور سے نہیں کرتے لیکن اپنے عقائدِ اشتراکی کی تبلیغ و ترسیل میں جٹے رہتے ہیں۔ انسانیت دوستی اور دردمندی کی ایک اہم مثال ہے ان کی نظم ’’نوالہ‘‘ جو ایک ایسے نو زائیدہ بچے کی دردناک صورتِ حال پیش کرتی ہے جس کے ماں اور باپ دونوں ہی محنت کش مزدور ہیں اور کارخانہ میں ہمہ وقتی طور پر مصروف ہیں اور اس وجہ سے اس نوزائدہ کو نہ تو متوقع توجہ مل سکتی ہے نہ ہی تعلیم و تربیت۔ گویا اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں کہ وہ خود بھی بڑا ہو کر ایک مظلوم، محنت کش مزدور بن چکے جو سرمایہ داروں کے سرمایہ کے فروغ کے لیے ایندھن کی طرح ہو اور اس طرح نظم کے آخری مصرعے کچھ یوں ہیں:
یہ جو ننھا ہے بھولا بھالا ہے
خونیں سرمائے کا نوالا ہے
پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی
کوئی مجھ کو بچانے والا ہے؟
سردار جعفری کی نظموں میں سب سے جداگانہ اور اپنے مخصوص لب و لہجہ کے سبب قابلِ ذکر نظموں میں ’’اودھ کی خاکِ حسیں‘‘ ممتاز نظر آتی ہے۔ یہ نظم آزاد فارم میں ہے، بلاوجہ کی قافیہ گوئی اور بے سبب وزن کے میزان سے معرا ہے۔ اسلوبیاتی طور پر یہ نظم افسانوی منظر نگاری بلکہ منظر کشی پر مشتمل ہے جس میں یادوں اور احساسات کے خلط خلط سے اہلِ وطن کے لیے ایک تمثیلی کیفیت خلق کی گئی ہے۔ یہ نظم ان کے طرف سے (جو قید کی حالت میں ہیں) اہلِ وطن کے لیے پیغام ہے، ان کی محنت کش اور انقلابی روح کو سلام ہے اور ان سے ایفائے عہد کا ایک پیمان بھی ہے منظر کشی بھی کچھ یوں ہے کہ بیرونی مناظر اور بصری اور مادی علامتوں میں داخلی فکر کے کچھ پرتو رنگ دیے گئے ہیں تاکہ حرکیاتی بیم و رجا سے یہ رنگ مخاطب کے ذہن پر وہ پس منظر پیدا کریں جس سے شاعر کا مقصود کھل کر سامنے آ جائے۔ سردار جعفری چوں کہ ترسیل کی کامیابی کو اولیت دیتے ہیں اس لیے اس پورے کمپوزیشن میں وہ جا بجا ایسے قابلِ شناخت الفاظ اور تشبیہاتی عناصر چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کا مقصود کسی ابہام یا کسی اسرار کے بغیر واضح ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں سردار نے لب و لہجہ میں ملائمت بھی پیدا کی ہے اور ارتکازِ تصورات کی کوشش بھی۔
نظم یوں شروع ہوتی ہے کہ:
گزرتی برسات، آتے جاڑوں کے نرم لمحے
ہواؤں میں تتلیوں کی مانند اڑ رہے ہیں
میں اپنے سینے میں دل کی آواز سن رہا ہوں
رگوں کے اندر لہو کی بوندیں مچل رہی ہیں
نظم اس بنیادی منظر سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے قید خانے کی چہار دیواری میں اپنی نجی زندگی کا لمس پیدا کر کے، اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ ایک ایسے ذہنی سفر سے بھی گزرتا ہے جو ملک کے شمال و جنوب بلکہ سارے عالم کی بساطت میں اپنی زندگی کے چھوٹے موٹے واقعات اور اہم و غیر اہم علامات کو ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے وہ سارے سیدھے سادے نیک غریبوں کو ’’محنتوں کے خدا‘‘ اور ’’تخلیق کے پیمبر‘‘ جیسے خطابات سے نوازتا ہے اور اپنی دلیل اور رد و قدح سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سارا نظام زندگی انہی محنت کش عوام کی ستم زدگی اور رنج و محن کے اطراف رقصاں ہے بلکہ مرہونِ منت ہے۔ شاعر کو جوش آ جاتا ہے وہ یہ سب کہتے ہوئے پکار اٹھتا ہے:
صداقتو! آؤ جھوٹ کے سانپ کو کچل دو
حیات کی تیز و تند موجو! فنا کے خاشاک کو بہا دو
سحر کی کرنو، اندھیری راتوں کے سر پہ برسو
عوام کے دشمنوں کا نام و نشاں مٹا دو
ان تیز و تند نعروں بلکہ ان انقلابی ہدایات کو جاری کرتے ہوئے شاعر کو اپنے قید ہونے کا احساس ستاتا ہے اسے احساس ہے کہ وہ اس جہد میں عملاً شریک نہیں ہو پا رہا ہے، وہ باغی انقلابیوں کو نظم کے آخر میں یوں دلاسہ دیتا ہے:
ابلتے جوالا مکھی کو کوئی دبا سکا ہے؟
میں آج مجبور ہوں تو کیا ہے!
وطن سے کچھ دور ہوں تو کیا ہے!
مگر میں اس کے مجاہدوں کی صفوں سے باہر نہیں گیا ہوں!
سردار جعفری ایک صاحبِ طرز شاعر ہیں اور تنقید ادب میں بھی ویسی ہی عمیق نظر رکھتے ہیں جیسی شاعری میں۔ ان کی شاعری ہمارے عہد کے ساتھ ساتھ چلی ہے، اس کی آئینہ دار ہے اور ہم زبان بھی ہے۔ حکومتِ ہند نے ان کا انتخاب کر کے ایک دیانت دارانہ فیصلہ کیا ہے۔
ہم سردار جعفری صاحب کو، ان کے چاہنے والوں اور تمام اہلِ اردو زبان کو اس موقع پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
٭٭٭