شام میں وہ لوگ ایک پارک میں موجود تھے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران علی نے اسے اپنے گھر کے بارے میں بتایا یشل بہت دلچسپی سے اسے سن رہی تھی کہ علی ایک دم اٹھا وہ چونکی
” آؤ چلیں؟؟؟”
” کہاں؟؟؟”
” مجھ پہ بھروسہ ہے؟؟؟” علی نے اس کا ہاتھ تھام کے پوچھا
” حد سے زیادہ ” وہ دل سے بولی
” تو چلو گی؟؟؟”
” ہاں” وہ علی کا ہاتھ تھامیں اس کے ساتھ چل دی
کچھ دیر بعد وہ ایک گھر میں داخل ہوئی
” علی یہ کس کا گھر ہے ہم کہاں آئیں ہیں ” اس نے علی سے پوچھا وہ مسکرایا اور پھر اس نے اپنی امی بہنوں کو آواز دی اور اسے ساتھ لیے اندر آیا
” یعنی علی اسے اپنے گھر لایا ہے” اس نے دل میں سوچا وہ کنفیوز ہوگئی اس کی امی اور بہنیں آگئی تھیں
” امی دیکھیں کون آیا ہے؟؟؟ ” علی نے اپنی امی اور بہنوں جو دیکھا جو حیرانی سے اسے ایک لڑکی کے ساتھ کھڑا دیکھ رہی تھیں
” امی میں نے یشل کے بارے میں آپ کو بتایا تھا نا” علی نے کہا تو وہ مسکرائیں
” ادھر آؤ بیٹی” وہ کنفیوز سی آگے بڑھی امی نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئیں
” علی نے بتایا تھا تمہارے بارے میں پر تم تو میری توقع سے زیادہ پیاری ہو ” وہ پیار سے بولیں
” بھائی یہ کون ہیں ” فاطمہ علی کے کان میں بولی
” تمہاری بھابی” علی مسکراکے بولا
” رئیلی واؤ” وہ خوش ہوگئی اور اس سے خوش گپیوں میں لگ گئی شہلا بھابی اور لیلٰی سے یہ سب ہضم ہی نہیں ہورہا تھا وہ غصے سے اندر چلی گئیں
کچھ ہی دیر بعد یشل ان سے فری ہو کر بات کرنے لگی تھی اور علی کی بہنوں اور بھائی حیدر سے اس کی اچھی دوستی ہوگئی تھی
———
” دیکھا کہا تھا نا میں نے تم سے کہ علی کے انداز بدلے ہوئے ہیں دیکھ لیا تم نے اب بھگتو” شہلا بہت غصے میں تھیں
” کہا تھا میں نے کہ وہ کوئی چاند ضرور چڑھائے گا پر تم نے ایک نہیں مانی میری دیکھ لیا نتیجہ آج وہ اس لڑکی کو گھر والوں سے ملوا کے بھی لے گیا اب تمہارے پاس کچھ نہیں بچا سوائے ہاتھ ملنے کے”
” اب چپ کیوں ہو بولو بھی” شہلا نے غصے میں اس سے کہا
” کیا کہوں میں آپی یہ علی تو بہت شاطر نکلا ہے مجال ہے جو ذرا سی بھنک بھی پڑنے دی ہو پر میں بھی لیلٰی ہوں اتنی آسانی سے تو علی سے دستبردار نہیں ہوں گی ” وہ اٹھ کے کھڑی ہوئی
” اب کیا کرو گی تم”
” ابھی سوچا نہیں ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے پر دیکھنا آپی علی صرف اور صرف میرا ہو گا ”
” لو کچھ سوچا ہے نہیں اور بول ایسے رہی ہو جیسے سب ہمارے ہاتھ میں ہے”
” ہم نے کچھ بھی نہیں کھویا ہے آپی میں نے کہا ہے نا علی صرف میرا ہے تو بس آپ مطمئن رہیں” لیلٰی نے کہا تو وہ خاموش ہوگئیں۔
———-
وہ گھر آئی تو بے حد خوش تھی گھر میں کوئی تھا نہیں بابا آفس ماما بھی باہر گئی ہوئی تھی اور بہن بھائی ٹیوشن گئے تھے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آئی چینج کرکے بیٹھی ہی تھی کہ علی کی کال آگئی
” ہائے کیسی ہو؟؟؟” اس نے پوچھا تو یشل مسکرائی
” ابھی تھوڑی دیر پہلے دیکھا تو تھا کہ کیسی ہوں”
” ہاں دیکھا تو تھا پر اب بتاؤ اب کیسی ہو”
” اب بالکل ٹھیک بہت خوش بہت بہت بہت علی آپ کے گھر والے بہت اچھے ہیں” وہ خوشی سے بولی
” ارے سچ میں۔۔۔۔۔؟؟؟ مجھے پتا ہوتا کہ تم اتنی خوش ہوگی تو اپنے گھر سے جانے ہی نہیں دیتا میں تمہیں” وہ شوخی سے بولا تو وہ جھینپی
” اب ایسی بھی بات نہیں ہے”
” تو پھر کیسی بات ہے؟؟؟” اس نے الٹا سوال کیا
” اففففف علی” علی ہنسا
” جی علی کی جان” علی پیار سے بولا
” توبہ ہے” وہ بولی تو ہنستا چلا گیا
” علی میرا آپ کے گھر اچانک آنا ۔۔۔۔۔ آئی مین کہ آپ کی امی کو تو برا لگنا چاہیے تھا نا کہ کسی لڑکی کو آپ ایسے منہ اٹھا کہ گھر لے آئے۔۔۔۔۔”
” پہلی بات تم کسی نہیں میری یشل ہو دوسری بات کہ وہ میرا گھر ہی نہیں تمہارا گھر بھی ہے اور تیسری اور آخری بات کہ جیسے تمہاری ماں تمہاری دوست ہیں ویسے ہی میری ماں میری دوست ہے اور میں نے تمہارا ابھی تھوڑی امی کو بتایا ہے امی کو تو تمہارا پچھلے دو سالوں سے پتا ہے جب میں نے پہلی بار تم کو پرپوز کیا تھا اسی شام میں امی کو تمہارا بتا دیا تھا اور آج تمہیں ملوانے لے گیا ” یشل کے دل میں علی کی محبت اور بڑھ گئی تھی کوئی اسے اتنا چاہتا ہے یہ احساس ہی اس کے لیے بہت خوش کن تھا
” تھینک یو علی”
” کس لیے؟؟؟”
” اتنا مان اور اتنی محبت دینے کے لیے ”
” اونہوں ۔۔۔۔۔ تھینک یو تو مجھے تمہارا کرنا چاہیے ”
میری زندگی میں آنے کے لیے” علی نےجذب سے کہا
———
“وقار بھائی تو بالکل ٹھیک تھے آپ فالتو ہم سب وہاں لے کر گئیں” ہاشم تو جب سے آئے تھے تپے ہوئے تھے
” ارےرشتے نبھانے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں کہ نہیں ۔۔۔۔۔ اگر تم نا جاتے تو پھر بات بنتی” رابعہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا
” بننے دیتی بات مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ناحق زحمت ہوئی آپ کو بھی اور ہمیں بھی”
” زرمینہ تم ہی سمجھاؤ اسے” رابعہ کا رخ اب زرمینہ کی طرف تھا
” میں کیا سمجھاؤ آپا۔۔۔۔ ہاشم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم فضول وہاں گئے عطیہ بھابی نے تو ایک دو بار طنز بھی کردیا ہم جو سارے اٹھ کے چلے گئے تھے” زرمینہ نے بھی منہ بنایا اور شوہر کی تائید کی
” یہ تو بھابی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں” کب سے خاموش بیٹھی انعم نے بھی مداخلت کی ” عطیہ بھابی کیسے کہہ رہی تھیں کہ آہی رہے تھے تو بچوں کو بھی لے آتے”
” جب پیسہ آجاتا ہے نا تو بندہ ایسے ہی سب کو حقیر سمجھنے لگتا ہے” احمد بولے
” تم تو بولو ہی مت احمد میاں جب بھی جاتے ہو مجال ہے جو خالی ہاتھ آجاؤ ہمیشہ کوئی تگڑی رقم لے کے ہی آتے ہو” رابعہ بولیں
” ویسے آپا بھائی نے ہمیں بھی تو بہت سے تحفے دیئے ہیں” سمیہ نے تحائف کی طرف اشارہ کی
” ہم کیا کریں ان تحفوں کا۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں تو ہم بھی لے لیں فقیر سمجھا ہوا ہے ہمیں تو” رابعہ نے نخوت سے کہا
” ارے چھوڑیں آپا تحفے تو قیمتی ہی ہیں سارے” زرمینہ بولی اور ایک ایک چیز نکال کے دیکھنے لگی رابعہ نے کن اکھیوں سے دیکھا واقعہ تحفے قیمتی تھے
” ارے ہٹ میرے بھائی نے اتنے پیار سے دیے ہیں میں بھی تو دیکھو” وہ بھی ان چیزوں کو دیکھنے لگیں تو زرمینہ سمیہ اور انعم ایک دوسرے کو دیکھ کے معنی خیزی سے ہنس دیں
واقعی لالچ بڑی بلا ہے
———
سیکنڈائیر بھی ہو چکا تھا علی نے ایم بی اے کے لیے لاہور کی یونیورسٹی میں اپلائے کیا تھا اور یشل نے کراچی میں ہی ایک یونی میں ایڈمیشن لے لیا تھا اس کا ارادہ لاء کا تھا حالانکہ اس نے ایف ایس سی میڈیکل کی تھی
علی کا بھی لاہور کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو گیا تھا اس نے یشل کو یہ بات بتائی تو وہ بہت افسردہ ہوگئی تھی
جانے سے ایک دن پہلے علی نے اسے ڈنر پہ چلنے کو کہا وہ مان گئی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...