“اے اللہ! مجھے اس مصیبت سے بچا لے۔ مالک تیرا نافرمان بندہ تیرے آکے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ پلیز مجھے اس بلا سے بچا لیں جو میری ماما میرے سر پہ ڈالنا چاہتی ہیں۔اگر آپ نے مجھے نہ بچایا تو میری تین سال کی محنت ہو جاۓ گی، یا خدا! پورے تین سال کی۔۔۔”
وہ بڑی معصومیت سے دعا مانگ رہا تھا اور ماما جان جو چوکھٹ پہ کھڑی تھیں، اس کے اس انداز پہ مسکراۓ بنا نہ رہ سکیں۔
x———-x
وہ چہرے کے گرد نفاست سے دوپٹہ لپیٹے جاۓ نماز پہ بیٹھی تھی۔دونوں ہاتھ ملا کر دعا میں مصروف، وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ چہرے پہ ڈھیروں پریشانی سمیٹے،وہ اپنے رب سے اپنی مشکل کا ذکر کر رہی تھی۔
“اے اللہ! مجھے سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔ امی کے مشورے کے بغیر میں نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ آج وہ میرے ساتھ نہیں ہیں یا رب! میں کس سے مشورہ مانگوں،کون مجھے تسلی دے؟ تیرے در پہ سوالی بن کے آئی ہوں،مجھے کسی مشکل میں مت ڈالیۓ گا۔ابو بہت خوش ہیں اور یہ شاید ان کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ یا اللہ، میں ان کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی مگر اپنے دل کا کیا کروں؟ ماں کے ساۓ سے محروم آپ کی بندی آپ کے آگے ہاتھ پھیلاۓ بیٹھی ہے، اس امید پر کہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی اس کو بے آسرا نہیں چھوڑے گی۔”
x———-x
آج گھر میں بڑی خاموشی تھی۔محمد احمد یونیورسٹی کے لئے نکلنے والا تھا اور اس کے چھوٹے بھائی علی حیدر کا کالج میں پہلا دن تھا۔ شہر کی مشہور و معروف شخصیت، ڈاکٹر یوسف کے چار بچے تھے۔ احمد، علی، حرا اور وریشہ۔ حرا علی سے ایک سال بڑی تھی جبکہ وریشہ ابھی نویں جماعت کی طالبہ تھی۔
کھانے کی میز پر بیٹھے تمام لوگ بڑے غور سے علی کودیکھ رہے تھے جو آج خلاف معمول چپ چاپ کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ بنا کچھ بولے اٹھا اور سب پر ایک طائرانہ نظر ڈال کے باہر نکل گیا۔ احمد مسکرایا، “حرا! جاؤ بھئ اپنے بھلکڑ بھائی صاحب کو ان کا بیگ دے آؤ، ایسا نہ ہو خالی ہاتھ بس میں بیٹھ جاۓ۔”
“او ہاں! شکر ہے میرے ہی کالج میں ہے ورنہ تو اللہ جانے اس کا کیا حال ہونا تھا۔” یہ کہتے ہوۓ وہ تیزی سے دروازہ کی طرف بھاگی۔
“کیوں میرے معصوم بچے کا مذاق اڑا رہے ہو؟ پہلا دن ہے، تھوڑا تو نروس ہوگا ناں وہ۔ ” ماما نے فورا علی کی سائیڈ لی، مگر وہ کون سا چپ رہنے والا تھا۔ اب ایسی بھی کیا نروسنس کہ بندہ بولنا ہی بند کر دے۔ ویسے تو بڑی زبان چلتی ہے اس کی۔”
“ہاہاہا۔۔۔ میں بتاؤں گی علی بھائی کو کہ آپ ان کی الٹی سیدھی باتوں کو مس کر رہے تھے۔۔۔” وریشہ جلدی سے بولی اور وین کی آواز پہ بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔
x———-x
بلیک جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس، سن گلاسز لگاۓ، کسی ڈان کے سے اندز میں چلتے ہوۓ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ عمر پاس ہی کھڑا تھا، اس کو آتے دیکھ کر بولا، “اف! لوگوں کے ٹشن ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ یونیورسٹی تو ایسے آتے ہیں کہ جیسے۔۔۔” “اچھا یار بس کر! سب تو نے ہی سکھایا ہے، اتنا معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے۔” احمد کی بات سن کر وہ زور سے ہنسا۔
احمد، عمر، شجاع اور معیز کا گروپ یونیورسٹی میں سب سے زیادہ بدنام تھا۔ کون سی بری عادت تھی جو ان میں نہ تھی۔ یونیورسٹی کا ہر بچہ ان سے دور رہتا۔اگر کوئی غلطی سے بھی ان کے راستے میں آ جاتا تو سمجھو اس کی خیر نہيں۔ ان کے منہ لگنا تو دور کی بات، کوئی ان کے قریب آنا تک گوارا نہیں کرتا تھا۔سگریٹ، شیشہ، غرض کہ ہر ناپسندیدہ چیز ان کے نزدیک محبوب ترین شے تھی۔ طاقت کے نشے میں چور، “امیر گھرانوں کے بگڑے ہوۓ لڑکے۔”
x———-x
“بابا! بس کا کرایہ دے دیں اور لنچ کے لئے تھوڑے سے پیسے بھی۔” علیزہ ہچکچاتے ہوۓ بولی۔ شیخ ہادی نے اپنا بٹوہ نکالا اور سو کا نوٹ ایے تھما دیا۔
پروفیسر ہادی یونیورسٹی میں لیکچرار تھے۔ان کی آمدنی معقول تھی مگر کافی عرصہ سے ان کی بیگم کا مرض بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ان کو دل کی بیماری تھی جس کے علاج کے لئے پروفیسر کی تنحواہ کا بڑا حصہ صرف ہو جاتا۔ علیزہ کے تعلیمی اخراجات بھی تھے،گھر کا کرایہ،پانی اور گیس کے بل بہی ہر مہینے منہ چرانے آ جاتے۔ ان حالات میں بھی وہ ہر ممکن کوشش کرتے کہ اپنی اکلوتی اولاد کی تمام خواہشات پوری کریں۔
علیزہ شیخ ایک سمجھ دار لڑکی تھی۔ حالات کے مدنظر اس نے اپنی بے جا ڈیمانڈز پر قابو پا لیا تھا۔ کل اس کی دوستوں نے اس سے برتھ ڈے کی ٹریٹ مانگ لی اور اس کے سارے پیسے خرچ ہو گئے، اس لئے وہ آج پیسے مانگتے ہوۓ کافی شرمندہ تھی۔
x———-x
“یار عالیہ! میرے یہ شوق کافی مہنگے پڑ رہے ہیں مجھے۔ ٹریٹ کے چکر میں تم لوگ میری پاکٹ منی کھا گئے، حد ہے!” وہ خفا خفا سی بولی۔
“تو میری جان! اب ہم سارہ حسن تو ہیں نہیں کہ زندگی کو بغیر انجواۓ منٹ کے گزار دیں، اور دوستوں کو تھوڑا خوش کر دینے میں کیا موت آ رہی ہے تمہیں؟” عالیہ کی بات سن کر وہ بے دلی سے ہنس دی۔
سارہ حسن کلاس کی سب سے ہونہار مگر سنجیدہ لڑکی تھی۔خود کو سیاہ عبایا میں ڈھانپے، چہرے کے گرد اسکارف لپیٹے وہ خاصی پر وقار لگتی تھی۔ پڑھائی پہ زیادہ توجہ دیتی تھی اور عالیہ کے گروپ کی طرح الٹے سیدھے مشاغل میں دلچسپی نہیں لیتی تھی۔۔۔
x———-x
ڈاکٹر یوسف آج بھی بڑے مصروف تھے۔ مریضوں کی ایک نہ ختم ہونے والی لسٹ تھی اور وہ پوری دل جمعی کے ساتھ معائنہ کر رہے تھے۔ ان کی ساری اولاد بہت لائق اور فرمانبردار تھی، سواۓ بڑے بیٹے محمد احمد کے۔ اس کی وجہ سے وہ اور ان کی بیگم عائشہ یوسف بڑی پریشان رہتی تھیں۔ روز یونی میں کوئی نہ کوئی گل کھلاتا تھا۔ چونکہ وہ شھر کے سب سے اچھے ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی سو احمد کے تو قدم زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ گھر والوں کے ساتھ وہ پھر بھی تمیز سے رہتا تھامگر باہر جو جو اچھے کام وہ کرتا، ان کی ساری رپورٹ ڈاکٹر صاحب کو مل جاتی۔ کہتے ہیں بیٹے باپ کا نام روشن کرتے ہیں، مگر ان کے ساتھ تو معاملہ بالکل الٹ تھا۔
x———-x
آج وہ بڑی تھکی تھکی گھر آئی۔ منہ ہاتھ دھو کر، فریش ہو کر کھانا پکایا اور بستر پر نیم دراز ہو گئی۔ پورا واقعہ کسی فلم کی طرح اس کے ذہن میں گھومنے لگا۔
فورتھ ایئر کے لڑکوں کا وہ گروپ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا۔ گلے میں چینز، ہاتھوں میں کڑے، سن گلاسز پہنے وہ کیسے ساری یونیورسٹی میں چکر کاٹ رہے تھے گویا وہ ان کے ابا جی کی جاگیر ہو۔ اف! کتنی نفرت تھی جو اسے ان امیر لڑکوں سے ہو رہی تھی۔ سمجھتے کیا ہیں وہ خود کو؟ ذرا سا پیسہ کیا آ گیا،ہواؤں میں اڑنا شروع ہو گئے۔۔۔ ہونہہ! سب کتنا ڈر رہے تھے ان سے،کسی کے اندر ہمت نہ تھی ان کے سامنے جانے کی اور وہ لڑکی، کتنی بدتمیزی کی ان کمینوں نے اس کے ساتھ۔ میں ہوتی تو منہ توڑ دیتی ایک ایک کا!
x———-x
“ماما بات تو سنیں۔” وہ ماما کو منانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ تھیں کہ اس کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کر رہی تھیں۔ ان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کا بیٹا ایسے کیسے کر سکتا ہے۔ ساری حرکتیں ایک طرف، لیکن عورت ذات سے بدتمیزی، نا قابل یقین!
“ماما میں نے کیا کیا ہے؟ لڑکیاں خود ہی ایسے کپڑے پہن کر آتی ہیں۔ ہم نے تو نہیں کہا ان سے کہ بغیر دوپٹے کے، اپنی خوبصورتی کی نمائش کرتی پھریں۔ وہ خود ہی چاہتی ہیں کہ ہم جیسے لڑکے ان کو دیکھیں اور تعریف کریں تو ہم نے کر دی اس کی خواہش پوری۔” وہ ڈھٹائی سے بولا۔ ماما نے افسوس سے سر ہلایا۔ “بیٹا ان کا عمل ان کے ساتھ۔۔۔ غض بصر کا حکم یونہی تو نہیں دے دیا ناں اللہ نے۔”
“تو ماما ہم کتنا قابو کریں؟ ویسے بھی صرف فن کے لئے کیا تھا۔”
“احمد بس کر دو! مزید کتنا دکھ دو گے اپنے والدین کو؟ یہ شیطان تو ہمیشہ ہمارے نفس پر ایسے ہی وار کرتا ہے۔ ہر غلط کام میں لذت ہوتی ہے لیکن یہی تو ہمارا امتحان ہے کہ اس مزے کو چھوڑ کر اللہ کے طریقے پر چلیں، صراط مستقیم پر۔”
اچھا ماما سوری! آئندہ نہیں ہو گا۔ اب مان جائیں ناں!” وہ ہر صورت ان کو منانا چاہتا تھا۔ وہ اس کی زندگی کی سب سے اہم شخصیت تھیں جن کی ناراضگی وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
“پکا پرامس ہے تو پھر ٹھیک ہے۔” وہ بھی آخر ماں تھیں، مان گئیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...