علی گڑھ میرے گھر سے دو سو میل کے فاصلے پر تھا، جب ہم علی گڑھ پہنچے تو اسی وقت تار پہنچ گیا، لہذا اسی وقت بر لب سڑک پولیس نے آکر ہمیں گھیر لیا اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ علی گڑھ کے بنگلے پر لے گئے، اس نے ہمیں مجسٹریٹ صاحب کے پاس بھیج دیا، جہاں مجھے اور میرے دونوں ساتھیوں کو تار کے جواب ثانی آنے تک حوالات میں بند کردیا گیا، اسی دن شام کو جب میں تیمم کرکے نماز پڑھ رہا تھا، پارسن صاحب وہاں پہنچ گئے اور مجھے قید میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ “اس کو پھانسی گھر میں نہایت حفاظت کے ساتھ بند کردو”۔ حکم کی فوراً تعمیل کی گئی اور مجھے ایک بڑی تنگ و تاریک اور کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا، اور گرد دو تین پہرے دار متعین کر دیے گئے۔
پھانسی گھر میں بند ہو کر مجھے عقل آئی کہ اس فرار اور تدبیر پر فخر خداوند تعالی کی مرضی کے خلاف تھا، اس فرار سے یہ مقدمہ بہت بھاری ہوگیا اور پھر مجھے یا میرے عزیزوں اور دوستوں کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، وہ اسی فرار نابکار کا ثمرہ تھا، آزمائش کے وقت بھاگ جانا سچّے عاشقوں کا کام نہیں ہوتا۔ بقول حافظ
بیگانہ را چہ کار بود در بلائے غم
آں را رسد کہ خاص بود آشنائے ما
علی گڑھ کے پھانسی گھر میں قید تھا کہ ایک رات پہرے دار پوچھنے لگے : “پھانسی والے مجرم پر بھی صرف ایک پہرہ ہوتا ہے، تم ایسا کیا قصور کرکے آئے ہو کہ جس سے تم پر تین پہرے لگائے گئے ہیں؟ ”
میں نے جواب دیا: “میں جس آقا کا غلام تھا، اس کے حکم کے بغیر بھاگ نکلا؛ لہذا وہ ناراض ہو گیا اور مجھے راستے ہی سے پکڑوادیا”۔