ایئرپورٹ کے انتظار گاہ پہ بیٹھا جمال وقت گزاری کے لیے ہر آتی جاتی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
کوئی بھی لڑکی اس کے معیار کے مطابق نا تھی وہ جس حسن کا متلاشی تھا وہ اسے اب تک کہیں بھی نظر نا آیا تھا ۔۔
بیزارگی سے وہ منہ میں ببل چباتا پاس پڑے رسالے کی ورق گردانی کرنے لگا کہ اس کی سماعت نے کسی کی سسکی کی آواز سنی ۔۔
“اف یہ کون اتنے قریب بیٹھ کے رو رہا ہے ؟ اس نے بڑبڑاتے ہوئے نظر اٹھائی تو اس کی نظر اس حسن افسردہ پہ جم کے رہ گئیں۔۔
اتنا مکمل حسن وہ باوجود کوشش کے اس سے نظریں نا ہٹا پایا۔
حسینہ کو تھوڑی دیر میں ہی کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوگیا اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسو خشک کیے اور جمال پہ ایک سخت نظر ڈالی ۔۔
اس کا دل غم سے پھٹا جارہا تھا اور وہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا اس کی سخت گھوری کا بھی اس پہ کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔۔
اس کا دل تو کیا کہ وہ اٹھ کر اسے سخت بات کہے لیکن وہ اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کر دینے کی عادی تھی ۔۔۔
اپنی کالی چادر کو مزید خود سے لپیٹے وہ حتی الامکان جمال سے رخ موڑے بیٹھ گئی ۔۔
تھوڑی دیر میں وہ دونوں کراچی جانے والی فلائٹ میں سوار تھے ۔ حسینہ نے کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی اور جمال اپنی سیٹ ڈھونڈتا ہوا جب آیا تو اپنی قسمت پہ حیران ہوگیا ۔۔
اس کی سیٹ اس ہی پری وش کے ساتھ تھی ۔ حسینہ تو اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کے بدک ہی گئی ۔ اس نے فوری بطور پہ فضائی میزبان کو بلایا اور اپنی نشست تبدیل کرنے کی گزارش کی ۔۔
جس پہ اس نے فی الحال معذرت کرلی ۔۔
” دبئی سے کراچی تک کس طرح برداشت کروں گی اس چغد کو ” وہ دل ہی دل میں بولی
ادھر جمال اس حسین اتفاق پہ دل ہی دل میں بے تحاشہ خوش ہورہا تھا لیکن اس کے سختی لیے تاثرات کی وجہ سے خاموش بیٹھا تھا ۔۔
تھوڑی دیر میں جہاز محو پرواز تھا اور جمال اپنے ہینڈ بیگ سے اسکیچ بک نکالے اس پہ لکیریں کھیچنے لگا ۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ جمال نے ایک کاغذ اس کی طرف بڑھایا ۔۔
اس کاغذ پہ بنی اپنی آنکھیں دیکھ کے چونک گئی کیونکہ وہ ہوبہو اس کی آنکھیں تھی حزن و ملال میں ڈوبی ہوئی ۔۔۔
وہ نے خاموشی سے نظر گھما کے باہر دیکھنے لگی اور دل ہی دل میں سفر جلد ختم ہونے کی دعا کرنے لگی۔۔
جمال اس کو اپنے اتنے قریب پا کے خود کو بے دست پا محسوس کر رہا تھا حسینہ کے تاثرات اسے ںے چین کر رہے تھے ۔۔۔
جہاز نے جیسے ہی زمین کو چھوا سب اپنی منزلوں کی طرف بڑھ گئے ۔۔
جمال نے اسے اپنی نگاہوں میں لے رکھا تھا کسی بھی قیمت پہ وہ اسے کھونے کے لیے تیار نا تھا۔۔
جمال اب اس کی ٹیکسی کا پیچھا کررہا تھا وہ اسے دیکھنے کے بعد مکمل طور پہ اپنے حال سے بے خبر ہوچکا تھا ۔
ایک طلسم سا تھا جو اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا اور وہ کشاں کشاں اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ٹیکسی اب ایک متوسط علاقے کی طرف بڑھ رہی تھی وہ ایک محتاط فاصلہ رکھ کر اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔۔۔
ٹیکسی ایک گھر کے سامنے آ کر رک گئی اور وہاں ٹینٹ لگا ہوا تھا اور اس میں زمین پہ دری بچھی ہوئی تھی جس پہ بچے قرآن خوانی کر رہے تھے ۔۔۔
جمال کو اس منظر سے شدید قسم کی بے چینی ہورہی تھی وہ جس طبقے سے تعلق رکھتا تھا وہ صرف نام کی حد تک ہی مسلمان تھا۔۔
“کس سے پوچھوں ؟؟ کس سے سوال کروں ؟؟ وہ بڑبڑانے لگا
اس ہی پل ایک ایمبولینس وہاں آکے رکی اور اس میں سے میت نکالی گئی اور اسے لوگ گھر کے اندر لے کر جانے لگے۔۔
جمال نے موقع غنیمت جانا اور ان لوگوں کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوگیا۔۔
وہ اس کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر دوڑانے لگا اور وہ حزن و ملال کا پیکر اس میت کے سامنے لاکر بیٹھا دی گئی اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ۔۔
“آہ !! بیچاری کو بھری جوانی میں بیوگی کا بھوگ کاٹنا پڑے گا” جمال کی سماعتوں نے ان الفاظ کی جلن کو آگ بن کے اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس کیا۔۔۔
اس انجان شخص کے الفاظ اور میت سے کپڑا ہٹنے پہ جمال کے اوپر حقیقتاً قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...