یہ تحریر لفظ یا زبان کے وارثوں کے ذریعے کسی بھی عہد میں قائم کیے جانے والے اُس ڈسکورس سے متعلق ہے جو عصری سماجی اور سیاسی نظام کو حسب حالات Reinforceبھی کر سکتا ہے اور Subvert بھی۔ اس کا وقتی محرک ’’ اردو ادب دہلی۔مئی ، جون ۲۰۰۹ء ‘‘ کے ڈاکٹر اسلم پرویز کے اداریے (پہلا ورق) کا ابتدائی حصہ ہے جہاں انہوں نے لفظ اور لسا ن کے بارے میں مختصر مگر پُر مغز گفتگو کی ہے۔ اُسے جہاں پر لا کر انہوں نے چھوڑا ہے وہاں سے آگے بڑھا کر میں نے اُسے اُس کے منتقی اختتام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
جب کبھی رائج نظام حکومت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھنے لگتا ہے تو اُس کی مزاحمت میں عوامی تحریکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ محض حکام کے ذریعے قوانین و اختیارات کا بے جا اور غیر منصفانہ استعمال ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس معاشرے میں موجود اُن ذہن سازوں کا اقتدار کی مخالفت میں سرگرم عمل ہو جانا ہوتا ہے جو الفاظ کے وارث ہوتے ہیں۔اِن کی غیر موجودگی یا خاموشی کی صورت میں بدترین نظام حکومت بھی عوام پر طویل عرصے تک مسلط رہ سکتا ہے تا آں کہ اُس میں موجود داخلی تضادات ہی رفتہ رفتہ اسے اُس کے زوال کے منطقی منازل تک نہ لے جائیں۔ اسی طرح کوئی نظام کتنا بھی قابل ستائش کیوں نہ ہو اُس کے استحکام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ الفاظ کے یہ وارث اُس کے حق میں اپنا منہ نہ کھولیں اور اُس کی حمایت میں بولتے اور لکھتے نہ رہیں … یعنی کہ ایک ایسے ستائشی ڈسکورس کا قائم رکھناجس پر اہل اقتدار کے ساتھ ساتھ الفاظ کے وارثوں کی بھی مہر ہو۔
کسی عوامی تحریک کی شروعات اور پھر اُس کے تیز تر ہونے کے پس پشت ایک قسم کی قوت ہوتی ہے۔ ایک ایسی سفاک قوت جس کی باگ ڈور عموماً انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ طاقت کے ذریعے بنائی گئی رائے عامہ فطری معلوم ہو۔ لیکن ایسے انتہا پسندوں کے لیے بھی رہبری کے لیے فضا تب تک سازگار نہیں ہوتی جب تک کہ رائج نظام کی خامیاں پوری طرح سامنے نہ آ جائیں اور وہ عوام کی نظروں سے گرنے نہ لگے … ایسی فضا تیار کرنے اور عوام کو تبدیلی کے فوری اور ناگزیر ہونے کا احساس دلانے والے یہی الفاظ کے وارث ہوتے ہیں جنہیں ادیب، شاعر، خطیب ، مولوی ، مُلا ، پادری یا دانشور اور آرٹسٹ وغیرہ کے نام دیے گئے ہیں اور جن کے اس Subversive رول کو مثبت کے بجائے منفی مان کر زمانہ قدیم میں ہی افلاطون نے انہیں ایک مثالی جمہوریت (Ideal Republic) سے باہر رکھنے کی بات کی تھی۔
کسی رائج نظام کے طمانیت بخش رہنے تک بنیادی طور پر مصالحت پسند اور روایت پرست عوام اُس کی مخالفت کی طرف بہ آسانی راغب نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں وہ بڑے سے بڑے عوامی لیڈر یا خطیب کو بھی باغی، ملک دشمن، یا دیوانہ سمجھنے لگتے ہیں جن کی باتوں میں آنا اُنہیں خطرے سے خالی نہیں لگتا۔ چنانچہ عام حالات میں وہ اپنی تمام تر قوتِ گفتار یا جادوئے خطابت کے باوجود اُنہیں اپنا ہمنوا نہیں بنا پاتے۔ جیسا کہ Leninنے اعتراف کیا ہے کہ ’’ جہاں اشتراکیت کے لیے زمین پہلے سے ہموار نہ تھی وہاں عوام کو اپنا ہمنوا بنانا ہمارے لیے دشوار رہا‘‘۔
الفاظ کے وارثوں کا معاملہ مختلف رہا ہے۔ عوام کو اُن کی باتیں سننے اور اُن پر غور کرنے میں یوں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی باتیں کتنی ہی قابل توجہ اور ذہنوں کو تبدیل کرنے والی کیوں نہ ہوں فوری طور عمل اور ی یا نتیجہ خیزی کی متقاضی نہیں ہوتیں۔ اہل اقتدار بھی یا تو انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان کے منہ کو لگام دینے کے نرم رو طریقے اختیار کرتے ہیں۔ مگر یہی وہ صورت حال ہوتی ہے جس کے دوران الفاظ کے یہ وارث رفتہ رفتہ عوام کے ذہنوں میں رائج نظام کی بے وقعتی اور نا کردگی کا احساس کچھ اس طرح جگا دیتے ہیں کہ اُس کو بے دخل کرنا ان کا اپنا مشن بن جاتا ہے اور یوں ایک عوامی تحریک کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔
الفاظ کے وارثوں ، انتہا پسندوں ، یا پریکٹیکل یا عملی انسانوں کی پوری طرح الگ الگ خانوں میں تقسیم ممکن نہیں۔ گاندھی اور ٹرائسکی کی طرح کے افراد ابتدا میں الفاظ کے عام وارثوں کی ہی طرح اُبھرے مگر آگے چل کر قوت ارادی اور رہبری کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بل پر تاریخ ساز اشخاص میں شامل ہو گئے۔ اوتاروں اور پیمبروں کی بھی ابتدائی زندگی اسی قسم کی رہی گو کہ بعد میں وہ عوامی ذہن سازی کے اپنے غیر معمولی عمل کو آفاق کی بلندیوں تک لے گئے۔ لینن جیسا انتہا پسند الفاظ کے غیر معمولی وارثوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی مثالی طور پر کامیاب رہا۔ گاندھی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ تو واضح یہ کرنا ہے کہ انسانوں کی ان تین Categoriesکا کسی عوامی تحریک میں اپنے اپنے وقت پر اپنا اپنا منفرد رول ہوتا ہے۔ الفاظ کے وارث اس کے لیے ذہنی فضا تیار کرتے ہیں ، انتہا پسند موافق فضا تیار ہو جانے پر رہبری کے لیے سامنے آ جاتے ہیں اور عملی انسان اُسے مستحکم کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کا کام کرتے ہیں۔
جس معاشرے میں الفاظ کے وارث نہیں پائے جاتے وہاں ان کا کبھی ایک قابل لحاظ تعداد میں وجود میں آ جانا ایک انقلابی صورت حال پیدا ہو جانے کی ضمانت ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے جو ایک مخصوص قسم کی برٹش کالونیاں تھیں۔ یہاں غلامی کی ہتک یا اجنبیوں کے اقتدار سے نفرت سے زیادہ جس چیز نے مزاحمت اور بغاوت کی فضا تیار کرنے میں مدد کی وہ دیسی لوگوں کے لیے خود حاکموں کا رائج کیا ہوا نیا اور لبرل تعلیمی نظام تھا جس نے الفاظ کے کتنے ہی وارث پیدا کر دیے اور اس طرح اقتدار کے خلاف جد و جہد کے لیے اسٹیج سیٹ ہو گیا۔ ہندوستان، چین اور انڈونیشیا وغیرہ کے بیشتر اہم لیڈر وہی رہے تھے جنہوں نے مغربی نظام تعلیم سے استفادہ کیا تھا۔
الفاظ کے وارث مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں مولوی ،مُلّا ، مبلّغ ، معلّم ، پادری ، ادیب، شاعر آرٹسٹ اور دانشور وغیرہ۔ مختلف قوموں اور علاقوں کے حالات بھی اس سلسلہ میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ چین میں جہاں لکھنا پڑھنا ایک دشوار کام تھا تھوڑی بہت بنیادی تعلیم ہی کسی فرد کو الفاظ کا وارث بنا دینے کے لیے کافی تھی۔ اسی طرح قدیم مصر وغیرہ میں جہاں تصویری تحریر گِنے چُنے لوگوں کا ہی ورثہ مانی جاتی تھی۔ ہندوستان کے ذات پات میں بٹے معاشرے میں بھی لکھنے پڑھنے پر ایک مخصوص قسم کی اونچی ذات کی ہی اجارہ داری مانی جاتی رہی ہے۔
بہر حال الفاظ کے یہ وارث جس قسم کے بھی ہوں اقتدار کے تئیں ان کا رویہ ان کی ایک مخصوص قسم کی نفسیات ہی طے کرتی ہے۔ ان میں عام انسانوں سے ہٹ کر اپنی ایک الگ منفرد شناخت بنانے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ ’’ اَنا یا تمکنت انقلابات کا باعث ہے آزادی کا حصول تو ظاہری بہانہ ہوتا ہے ‘‘۔ نِیپولین نے کہا تھا۔ ہر دانشور کے اندر کہیں غیر محفوظ یا ناکام ہونے کا خوف پوشیدہ ہوتا ہے چاہے وہ تخلیقی یا غیر تخلیقی کیسی بھی زندگی جیتا ہو۔ کامیاب ترین یا تخلیقی طور پر حد درجہ فعال اور خدا داد صلاحیتوں سے مالامال ادیب یا آرٹسٹ بھی اپنی صلاحیتوں کے تعلق سے عموماً شبہات میں مبتلا رہے ہیں اور اُنہیں اُسے ثابت کرنے کی فکر ستاتی رہی ہے۔ اُن کا بڑ بولا پن بھی در اصل ان کی اِسی مخصوص نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے سامنے اپنی مادی ضرورتوں اور دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ اپنی اَنا کو Intactرکھنے کا ہوتا ہے۔ اِسی لیے با حکمت اہل اقتدار اِن سے مشاورت کا دم بھر کر اِن کی اَنا کی تسکین کا سامان تو فراہم کر دیتے ہیں مگر عموماً وہی سب کرتے رہتے ہیں جو ان کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے … تھوڑی بہت خوش کلامی اور عزت و وقعت انہیں ان کا موافق بنا سکتی ہے اور یہ رویہ طویل عرصے تک قائم رہے تو وہ مصاحب یا درباری بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ کارل مارکس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ اگر اُنہیں بر وقت کوئی خطاب یا بڑا سرکاری عہدہ دے دیا جاتا تو شائد وہ اپنی کہی Ideologyکی تشکیل کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔ اِسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہی الفاظ کے وارث جب کسی نظریے یا نظام فکر کی بنیاد رکھ دیتے ہیں تو پھر انہیں عہدوں یا خطابات کے ذریعے دی جانے والی ترغیبات بھی اپنے چُنے ہوئے راستے سے نہیں ہٹا پاتیں۔
اگر کوئی ناقص نظام اپنی اہلیت کے بہ مقابلہ زیادہ عرصے تک ٹِکا رہتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو اُس میں الفاظ کے وارثوں کا کال ہے یا پھر ان کے اور اہل اقتدار کے درمیان ساز باز ہے۔ اسی طرح جس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد نہ صرف کافی ہے بلکہ وہ اقتدار میں حصہ دار بھی ہیں وہاں عوامی تحریکوں کے پنپنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انگریزوں نے ہندوستان میں نوابوں ، راجاؤں اور جاگیر داروں کی ناز بر داری کرنے کی بجائے یہاں کے دانشوروں ، معلموں ، ادیبوں اور مبلغوں کی اَنا کی تسکین کے سامان کیے ہوتے ، انہیں برابری کا درجہ دیا ہوتا اور اقتدار میں شامل کرنے کا کھیل رچایا ہوتا تو شائد انہیں ہندوستان میں ٹِکے رہنے کا مزید موقع مل سکتا تھا۔ مگر اپنی نسلی برتری کے شدید احساس کے باعث وہ یہ چال نہ چل سکے۔
اٹھارویں صدی کے فرانس کے انقلاب میں الفاظ کے وارثوں کا نمایاں رول رہا ہے۔ یورپ میں Reformationکی مذہبی تحریک کے دوران بھی رومن کیتھولک چرچ اور پادریوں کی تضحیک کے پس پُشت اسی طبقے کے ذریعے وضع کیے گئے پمفلٹس اور لٹریچر کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ رومن دنیا میں مسیحیت کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ بھی ایسے ہی الفاظ کے وارثوں کی تخلیقیت تھی جس نے سابق یونانی (Pagan) تہذیب و اقتدار کو باہر کا راستہ دکھانے میں سُرعت سے کامیابی حاصل کی۔
عہد جدید کی زیادہ تر عوامی تحریکوں کی باگ ڈور چاہے وہ قومی رہی ہو یا اشتراکی ایسے افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے جو ، ادیب، شاعر، دانشور، تاریخ داں اور عالم رہے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ یہاں عمل سے پہلے تنقید یا محاسبہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعہ رائج نظام کو discreditکیا جاتا ہے۔ مفاہمت کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ اہل ثروت ، تاجر، فنکار، اور فوجی وغیرہ جو قوم کے ستون سمجھے جاتے ہیں اس میں بعد میں شامل ہوتے ہیں جب انہیں تبدیلی کے لیے چلائی جانے والی اُس تحریک کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔چیک قومی تحریک سے وابستہ معروف تاریخ داں Palackyکا کہنا تھا کہ اگر اُس کمرے کی چھت کسی دن بیٹھ جاتی جس میں جمع ہو کر وہ اور اُس کے چند ساتھی عوامی تحریک کا نقشہ بنایا کرتے تھے تو شاید چیک قومی تحریک وجود ہی میں نہ آتی … غالباً اسی طرح مٹھی بھر الفاظ کے وارثوں نے بیشتر قومی تحریکوں کو جنم دیا ہو گا جس سے بعد میں دیگر اقسام کے افراد بھی جڑتے چلے گئے۔ جرمن دانشور جرمنی کی قومی تحریک کے بانی تھے تو یہودی دانشور Zionismکی تحریک کے جب کہ فرنچ دانشوروں نے چرچ اور تخت و تاج دونوں کو کم وقعت بنا دیا تھا۔ شخصی اور فکری آزادی کی جو تحریک یورپ میں سب سے پہلے اور سب سے اہم انقلاب کا باعث بنی اُس کی جڑیں فرانس میں آج بھی اتنی ہی مضبوط معلوم ہوتی ہیں۔ مارکس اور اس کے حلیفوں نے مذہب ، قومیت اور سرمایہ داری ان تینوں کو رد کر کے سوشلزم اور کمیونزم کے ایک انتہا پسند عالمِ گیر نظام کے حق میں ذہن سازی کی… ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کسی مخصوص انتہا پسند عقیدے یا آئیڈیلوجی کو رد کرتے ہیں یا اُس کے خلاف فضا بناتے ہیں تو وہ ایک محدود عمل ہوتا ہے یعنی کہ ہم انتہا پسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں بس ایک مخصوص عقیدے کو ختم کر کے دوسرے کے لیے جگہ بنا رہے ہوتے ہیں … اس طرح الفاظ کے وارث جانے انجانے میں عوام کے خالی اور منتشر ذہنوں میں کسی دوسرے عقیدے کی بھوک جگا رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگ اپنی لا حاصل بنجر اور بے مایہ زندگیوں کا بوجھ کسی یقین یا عقیدے کی روشنی کے بغیر نہیں ڈھو پاتے۔ انہیں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور چاہئے ہوتا ہے جو ٹھوس اور قابل بھروسہ ہو اور اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے بری الذمّہ قرار پانے کے لیے وہ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر سکیں۔ دوسری طرف الفاظ کے وارث اپنی زندگیوں میں ایسی قطعی صداقتوں کی غیر موجودگی میں بھی آسانی سے جی لیتے ہیں۔ وہ ان صداقتوں کی پُر زور جستجو کو ہی جس میں وہ اپنے آپ کو لگا ہوا تصور کرتے ہیں اُس کا متبادل مان لیتے ہیں۔ متضاد اور متنازعہ افکارو تصورات کے درمیان گھرا ہونا ہی ان کے لیے ایک فطری اور پُر لطف صورت حال ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی نظریے یا فکری نظام کی تشکیل کی جانب بھی مائل نظر آتے ہیں تو بھی وہ کسی عملی پروگرام کے طور پر یا کسی مقصد کے حصول کے لیے کم اور اپنے ذہن و ادراک کی برتری کے مظاہرے کے طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ اُن کی اَنا اُن سے اُس کی تشہیر اور اُسکا دفاع بھی بڑھ چڑھ کر کرواتی ہے۔ یہ چیزیں گو کہ ابتدا میں عموماً عقل کے لیے ہی پُر کشش ہوتی ہیں قلب و روح کے لیے نہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ عوام یقین و عقیدے کی اپنی خود کی ضرورت کے تحت اسے بھی تقدیس کے درجے تک لے جاتے ہیں اور یوں ایک نئے مسلک کی داغ بیل پڑجاتی ہے۔
بیسویں صدی کے معروف انگریزی شاعرW.B. Yeatsنے اپنی نظم ” The Second Coming” میں غالباً ایسی ہی صورت حال کی ترجمانی کی ہے۔
” The best lack all conviction, while the worst
Are full of passionate intensity.
Surely some revelation is at hand
Surely the second coming is at hand.”
یہ تصور بھی کہ ہر دور میں سماجی ڈھانچے یا سیاسی اقتدار کو عوامی مزاحمت کے ذریعے ہی بدلا گیا ہے دانشوروں اور عصری نظام کے درمیان مسلسل زور آزمائی کی صورت حال سے متعلق Rhetoricکا ہی پروردہ ہے۔ عوام کا تو ہمیشہ استعمال یا استحصال ہی ہوتا آیا ہے۔ در اصل اقتدار کے بھوکے گروہ ایسی تحریکات کو ایک مخصوص اسٹیج پر اپنے حکم کا تابع بنا لیتے ہیں ، اُسے ہائی جیک کر لیتے ہیں اِس سے بہت قبل کہ عوام اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکیں۔ یہ تحریکیں عوامی ضرور کہلاتی رہی ہیں مگر انہیں جن عوام سے وابستہ کیا جاتا رہا ہے وہ ہمیشہ ہی فریب کھاتے رہے ہیں۔ کم و بیش یہی حال اُن الفاظ کے وارثوں کا بھی رہا ہے جو ابتدا میں ایسی تحریکات کے لیے فضا بناتے ہیں ان کی آبیاری کرتے ہیں اور انہیں حرکت و قوت عطا کرتے ہیں۔ اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ یہ بھی اپنے آپ کو Margins پر پاتے ہیں … مگر یہاں دلچسپ بات یہی ہے کہ اہل اقتدار کے ذریعے ان دونوں کو پس پُشت ڈال دیے جانے کے باوجود اِن کی ذہنی و جذباتی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے … عوام فریب کھاتے ہیں مگر انہیں اُس کا کچھ زیادہ احساس نہیں ہوتا کیوں کہ دانشوروں کی طرح انفرادی آزادی یا آزادی اظہار وغیرہ اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اُن کا مسئلہ ہوتا ہے خود اختیاری، انفرادی فیصلہ یا انفرادی ذمہ داری کے بوجھ سے نجات حاصل کر کے اپنے آپ کو ایک اجتماعی سماجی و معاشرتی وجود میں گم کر دینا جس کے مواقع نیا ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ اپنے کم وقعت اور بظاہر بے کار وجود کو معاشرے کے اجتماعی وجود میں کھو دینا چاہتے ہیں جو اقدار کی تبدیلی کے بعد بھی اسی طرح ممکن ہوتا ہے جیسا پہلے تھا … انہیں آزادی نہیں کسی مستحکم نظام، اقتدار یا عقیدے کی اطاعت کی جستجو ہوتی ہے۔ وہ پرانے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں ایک نسبتاً زیادہ آزاد معاشرے کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کے حصول کی خاطر جس میں تمام محکوم ایک ہی عقیدے سے جڑے اور ایک ہی سی سماجی حیثیت کا حصہ ہوں۔ در اصل وہ جس چیز سے خوف زدہ ہوتے ہیں وہ انفرادی فیصلہ کا مسئلہ اور انفرادی ذمہ داری یا جواب دہی کا معاملہ ہے۔ وہ سماجی Uniformity کی صورت حال کے خواہاں ہوتے ہیں جس میں انہیں شخصی Anonymity مل سکے … غالباً ایک اجتماعی وجود میں ضم ہو کر حاصل ہوئی بے نامی اور نا شناخت ہی ان کے لیے سُکون کی بہترین صورت ہوتی ہے۔
جب کہ الفاظ کے وارثوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اُن کا المیہ یہ ہے کہ وہ عوامی تحریک اور اجتماعی عمل کی چاہے جتنی بھی بات کریں بنیادی طور سے وہ انفرادیت یا انفرادی آزادی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ آزادی رائے ، آزادی اظہار یہاں تک کہ معاشرے کے عمومی قوانین اور رسم و رواج سے آزادانہ انحراف … مگر کوئی بھی عوامی تحریک کامیابی کے قریب پہنچتے پہنچتے جن انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اُن کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ Conformکرنے والوں کو قریب رکھنا چاہتے ہیں اور Non-Conformistکو دور…… ادیبوں شاعروں آرٹسٹوں اور دانشوروں سے تو وہ ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جو عوام کے ذہنوں میں ایک نئے انقلاب کے بیج بو سکتا ہے۔ وہ عموماً نہیں جانتے کہ ان سے کس طرح نپٹا جائے۔ وہ کبھی ان سے مشاورت کر کے ان کی اَنا کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں ، کبھی انعام و اکرام سے نواز کر اُنہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی بغاوت کی بُو سونگھ کر ان کی سرزنش کرتے ہیں۔ بہر حال الفاظ کے ان وارثوں کا مقدر جنہیں انقلابات کا نقیب اور عوامی تحریکوں کی مِڈ وائف کہا جاتا رہا ہے۔ تبدیلیوں سے پہلے اور تبدیلیوں کے بعد یکساں طور پر المیہ ہی رہتا ہے۔ بے اطمینانی ، اضطراب ، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا جنوں ، انفرادی شناخت اور آزادی مطلق کی جستجو، تنہائی اور اجتماعی معاشرتی زندگی میں ضم نہ ہو پانے اور ہر دور میں Marginalisedکر دیے جانے کا کرب … غرض کہ بہ ہر صورت اپنی مخصوص نفسیات کے باعث اُنہیں زیادہ تر اکیلے پن (Alienation) کا شکار ہونا پڑتا ہے اور وہ سماج میں ایک Outsiderبن کر ہی جیتے ہیں۔
دنیا کی دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں بھی کتنے ہی ایسے اشعار مل جائیں گے جو الفاظ کے وارثوں کے اس مخصوص اور مستقل Dilemmaکی تفسیر کہے جا سکتے ہیں …
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
یا
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری
یا پھر مطلق العنان حکمرانوں کے دور اقتدار میں پائی جانے والی انتہائی صورتوں کے خلاف مزاحمتی عمل کے علامتی اظہار کے لیے ’’ فصیل دار پہ رکھے ہوئے سروں کے چراغ ‘‘ ،’’ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں ‘‘ ،’’ خونِ دل میں ڈبوئی ہوئی انگلیاں ‘‘ اور ’’خونچکاں خامہ‘‘ کی Morbidامیجری …… یہاں تک کہ اقبال تو بعد از مرگ مملکت آسمانی میں بھی شاعر یا آرٹسٹ کی شناخت اُس کے جنوں و خود سری سے ہی کرواتے ہیں ……
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
۱۹۳۶ء کی لکھنؤ کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے پریم چند نے ’’ ترقی پسند مصنفین ‘‘ کے نام میں ’’ ترقی پسند‘‘ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ایک ادیب یا آرٹسٹ کی جس صفت کی نشان دہی کی تھی غور کیا جائے تو کم و بیش وہی ہمیشہ سے ہی الفاظ کے ان وارثوں کا شناخت نامہ رہا ہے …
’’ ترقی پسند مصنفین ‘‘ میرے خیال میں ناقص ہے … ادیب یا آرٹسٹ طبعاً اور خلقاً ترقی پسند ہوتا ہے … اگر یہ اُس کی فطرت نہ ہوتی تو شاید وہ ادیب نہ ہوتا۔ اُسے اپنے اندر بھی ایک کمی محسوس ہوتی ہے اور اپنے باہر بھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اُس کی روح بے قرار رہتی ہے۔ وہ اپنے تخیل میں فرد اور جماعت کو مسرت اور آزادی کی جس حالت میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اُسے نظر نہیں آتی اس لیے موجودہ ذہنی و اجتماعی حالتوں سے اُس کا دل بیزار رہتا ہے۔ وہ ان ناگوار حالتوں کا خاتمہ کر دینا چاہتا ہے کہ دنیا جینے اور مرنے کے لیے بہتر ہو جائے ……
٭٭٭