سکندرِ اَعظم نے ۳۳۴ قبل اَز مسیح میں یہ شہر دَریا کے کنارے پایا۔بعد میں اِس شہر سے لوگ نقلِ مکانی کر کے دَوسرے شہروں کو چلے گئے۔ اُنیسویں صدی میں جب رَوس نے اِس جگہ کو فتح کیا تو اِس شہر کو دَوبارہ آباد کیا اَور اِس کا نام اَ لیکسندرا پولس رَکھا۔ آجکل یہ EVROS پرفیکچر کا دارالحکومت ہے۔
٭
وہ سب آکرکے پارکنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ تھکن اَور بھو ک سے اِن سب کا برا حال تھا۔ کپڑے اَدھ گیلے اَور سب کے جسم سے اَیسی بو آرَہی تھی جیسے بہت ساری مچھلیاں ٹوکرے میں پڑی ہوں۔ آدم کا خیال اِیک دَم کشمیر روڈ پے گوشت وَالی مارکیٹ کی طرف گیا۔ اِس طرح کی بو و ُ ہاں سے آیا کرتی تھی۔ سب اِیک دَوسرے کا منہ دِیکھنے لگے کہ اَب کیا کریں۔سب سے پہلے بنگالیوں نے جوتے اُتارے اَور اِن میں سے گیلے اَور بدبودار ڈالر نکالے۔ اِس کے بعد ملک نے بھی اَپنے جوتے کی نہ جانے کون سی تہہ سے ، چڑ مڑ، گیلا اَور بدبودار سو ڈالر کا نوٹ نکالا۔ شاید یہ و ُ ہی نوٹ تھاجو’’ لالے ہوراں ‘‘نے خرچ کرنے سے منع کیا تھا۔آدم اَور داؤد دَونوں اِیک دَوسرے کی شکل دِیکھنے لگے۔ آدم نے داؤد کو تھپکی دِی،’’ فکر نہ کرو میرے پاس بھی رَقم ہے‘‘۔اِس نے یونانی کرنسی داؤد کو دِکھائی۔’’دَراخمے‘‘۔ آدم نے سب کو یہیں بیٹھنے کو کہا اَور خود چلا گیا۔ وہ گیس سٹیشن (پٹرول پمپ) کی تلاش میں تھا۔ جہاں سے اِسے ٹیلی فون کارڈ مل جاتا۔تھوڑی دَوڑ دَھوپ کے بعد اِسے اِیک گیس سٹیشن نظر آیا۔اِس نے اَنگریزی میں بات چیت کرکے ٹیلیفون کارڈ خرید لیا اَور فون باکس کا پوچھنے لگا۔ گیس سٹیشن وَالے نے ہاتھ کے اِشارے سے سمجھایا۔وہ تمام معلومات حاصل کر کے وَاپس آگیا۔ سب کی قسمت اَچھی تھی کہ پولیس کا گزر اِس طرف سے نہیں ہوا تھا۔ وَرنہ اِن کی حالت اِس بات کا ثبوت تھی کہ اَبھی اَبھی کہیں سے وَارد ہوئے ہیں۔اِنھیں اِتنا خوف موت کا نہیں تھا جتنا ڈِیپورٹ ہونے کا تھا۔ آدم نے فون کارڈ بنگالیوں کو تھما دِیا۔ کیونکہ آدم یونان میں کسی کو نہیں جانتا تھا،سوائے یونانی فلسفیوں کے۔ داؤد کی پہچان وَالا کوئی تھا۔خیر بنگالیوں نے اَپنے کسی عزیز کو فون کیا۔ اِس کے بعد داؤد نے اَپنے جگری دَوست اَعظم چَن کو فون کیا۔تو اُس نے صاف اِنکار کردِیا۔ وہ کہنے لگا، ’’یار مَیں خود کسی کے پاس رَہتا ہوں۔ اَگر صرف اَکیلے تم ہوتے تو بات بن جاتی۔ اَب دَو بندوں کا اِنتظام مَیں کہاں سے کروں۔ اَب تم خود سوچو دَو افراد کا کھانا، پینا، رَہنا، سہنا۔ یہ تمام چیزیں ۔پاکستان تو ہے نہیں‘‘۔
داؤد نے کہا،’’لیکن ، جب تم پاکستان آئے تھے ،تم نے کہا تھا کہ تم پہنچ کر فون کردِینا۔ باقی مَیںسب سنبھال لوں گا۔ اُس وَقت تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے۔ تمہاری مَیں نے کتنی خاطر تواضح کی تھی۔ سب بھول گئے۔ تمہیںذرا بھی دِید لحاظ نہیں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ مَیں تو وَاپس چلا جاؤنگا۔ خدا کوئی نا کوئی رَاستہ دِکھا دِے گا۔ لیکن تمہاری بات یاد رَہے گی۔ زندگی کے کسی موڑ پے ملاقات تو ضرور ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر داؤد نے فون بند کردِیا۔منہ لٹکائے ہوئے آدم کے پاس آیا اور کہنے لگا،’’یار کام نہیں بنا‘‘۔آدم کہنے لگا، ’’کوئی بات نہیں۔کوئی نا کوئی صورت نکل آئے گی‘‘۔ داؤد نے ٹیلیفون کارڈ ملک کو تھما دِیا۔ اُس نے جاکے اَپنے’’ کمیوں دِے منڈے ‘‘کو فون کیا۔تو اُس نے اِنتظار کرنے کو کہا۔
٭
بنگالی ،اَپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ چلے گئے اَور مَلکوں کو بھی اِن کا عزیز آکرلے گیا۔ آدم اَور داؤد کو لینے کوئی نہ آیا۔ آتا بھی کیسے، کوئی تھا ہی نہیں۔ اَعظم چَن نے تو صاف اِنکار کردِیا تھا۔دَونوں بھوکے پیاسے، تھکے ماندے پارکنگ کی سیڑھیوں پے اَپنی قسمت کو رَورَہے تھے۔ جن کا مذاق اُڑا رَہے تھے وہ لوگ تو اَپنی اَپنی منزلِ مقصود پے پہنچ چکے تھے۔اِنھوں نے کھا یا بھی کچھ نہیں تھا۔اَچانک داؤد کی نظر اِیک شخص پے پڑی۔ داؤد نے سوچا پاکستانی لگتا ہے۔اُس نے پاس جاکر ،’’السلام و علیکم‘‘ کہا، اُس شخص نے کوئی جواب نہ دِیا۔ داؤد نے کہا، ’’پاکستانی‘‘۔ اُس نے صرف اِتنا جواب دِیا،’’ہنگری‘‘ اَور چلتا بنا۔پھر اِیک شخص گزرا۔ آدم نے اَنگریزی میں پوچھا، "Excuse me, do you know any Pakistani around here” (معاف کیجئے گا، کیا یہاں کسی پاکستانی کو جانتے ہیں) اُس نے جواب دِیا، ’’جی مَیں پاکستانی ہوں۔ فرمایئے‘‘۔دَونوں یک زبان ہوکر بولے، ’’جی ہم بھی پاکستانی ہیں‘‘۔ اَور پھر ساری رَام کہانی سُناڈالی۔
اُس نے کہا، ’’آپ کے پاس پیسے ہیں‘‘۔ اِنھوں نے جواب دِیا، ’’نہیں‘‘۔ تو کہنے لگا،’’اِس طرح کریں میرے ساتھ چلیں۔مَیں سلونیکو رَہتا ہوں‘‘۔ دَونوں اِس کے ساتھ ہولیئے۔ اِنھیں اَیسا لگا جیسے خدا نے کوئی فرشتہ بھیج دِیا ہو۔ وہ شخص ٹوٹی پھوٹی یونانی زبان جانتا تھا۔ اِس نے اَپنی اَور اِن دَونوں کی ٹرین کی ٹکٹیں خریدیں۔ ٹرین میں سوار ہوتے ہی اِن کو تھوڑا سا سکون ملا۔ اِن کا بھوک سے برا حال تھا لیکن اِس وَقت سب کچھ بھولے ہوئے تھے۔ ٹرین چلی توآدم کھڑکی سے باہر دِیکھنے لگا۔ پہلا سٹاپ کاموتینی تھا۔ پھر زینتھی، کوالا، اَیسپراوَالا آیا اَور آخر میں ٹرین سلونیکو آکر رُکی۔
دَونوں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ جیسے ہی ٹرین سے نکلے وہ شخص اِنھیں ٹیکسی میں بٹھا کر نہ جانے کہاں لے آیا۔ اِنھیں پتا بھی نہ چلا اَور ٹیکسی آکر اِیک بڑی عمارت کی پارکنگ میں جاکر کھڑی ہوگئی۔ اِس شخص نے ٹیکسی وَالے کو پیسے اَدا کیئے اَور اِن دَونوں کو ساتھ لے کر لفٹ کی طرف آیا۔ اَب یہ تینو ںاِس عمارت کی اُس جگہ کھڑے تھے جہاں لفٹ لگی ہوئی تھی۔ چند لمحوں میں لفٹ آگئی ۔ تینوں لفٹ میں دَاخل ہوئے اَور اْس شخص نے آٹھ نمبر کا بٹن دَبادِیا۔ آٹھویں منزل پے لفٹ اِیک جھٹکے کے ساتھ رُکی۔لفٹ سے باہر نکلتے ہی وہ شخص اِنھیں اِیک فلیٹ میںلے گیا۔ اَبھی اِنھوں نے فلیٹ میں قدم رَکھا ہی تھا کہ اَندر سے آواز آئی، ’’ لو جی نوے پرونھڑیں آگئے۔ پہلے ہی جگہ کم ہے ،یہ دَو اَور لے آیا ہے‘‘۔ آدم اور داؤد کی حالت اَیسی تھی، جیسے کسی نے بیدردی سے پیٹا ہو اَور اِن کا جسم دَرد سے ٹوٹ رَہا تھا ۔ تھکن ، بھوک اَور پریشانی سے اِن کے کانوں میں گھنٹیاں بج رَہی تھیں۔ وہ سوچنے لگے۔ کس د ُ نیا میں آگئے ہیں۔ لیکن اِن کے پاس اَور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ جو شخص اِنہیںساتھ لایا تھا اِن کی کیفیت بھانپتے ہوئے کہنے لگا،’ ’اِن صاحب کی باتوں کا برا نہ ما نئے گا۔دِل کے اَچھے اِنسان ہیں۔ پہلے آپ دَونوں نہا لیجئے۔ یہ دَو پاجامے ہیں،پہن لیجئے۔ مَیں کھانے کا اِنتظام کرتا ہوں‘‘۔ دَونوں بڑے حیران تھے۔ جیسے کوئی معجزہ ہوگیا ہو۔یا اِن کی کوئی نیکی کام آگئی ہو۔دَونوں نہا دَھوکر تازہ دَم ہو ئے تو کھانا تیا ر تھا۔ تین کمروں کے اِس فلیٹ میں، ہر کمرے میںتین تین آدمی تھے۔ اِن دَونوں کے لیئے ٹی وی وَالے کمرے میں سونے کا اِنتظام کیا گیا۔ کھانے کے بعد وڈیو پر پنجابی سٹیج شو دِیکھا گیا۔آدم اَور داؤد کا تھکن سے برا حال تھا۔ دَونوں اِتنے شور کے باوجود سو گئے۔
صبح سات بجے کسی نے بتی جلائی اَور باورچی خانے میں کھڑ کھڑ کی آواز آنے لگی۔ چند لمحوں کے لیئے دَونوں کی آنکھ کھلی اَور پھر سوگئے۔ دَوپہر میں اِن کی آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔سب غائب تھے۔ سب شاید کام پر گئے ہوئے تھے۔
٭
آدم اَور داؤد دَونوں بڑے خوش تھے کہ یونان پہنچ گئے ہیں۔وہ اَب یورپ میں دَاخل ہوچکے ہیں۔ دَونوں کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہ تھا اَور یہ فرشتہ سیرت اِنسان اِنھیںگھر لے آیا تھا۔ دَونوں اَبھی سوچ ہی رَہے تھے کے آگے کیا ہوگا۔ دَروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ دَونوں جھینپ گئے۔ اِیک لمبا تڑنگا شخص دَروازے سے دَاخل ہوا۔ یہ و ُہی شخص تھا جو رَات کو شور کررَہا تھا۔ دَونوں ذِہنی طور پے تیار تھے کہ کچھ بھی کہہ دِے گا۔ لیکن اَیسا کچھ نہیں ہوا۔آہستہ آہستہ باقی لوگ بھی وَارد ہونا شروع ہوئے۔ اِن دَونوں کو کچھ حوصلہ ہوگیا۔ اِتنے میں وہ شخص ،جو اِنھیں پارکنگ سے اُٹھا کر لایا تھا، آیا اور اَور کہنے لگا،’’سُنئے بھائی صاحب آپ دَونوں کو گجر صاحب نے بُلایا ہے‘‘۔ دَونوں مجرموں کی طرح سہمے ہوئے کمرے میں دَاخل ہوئے۔
’’آجاؤ ۔۔۔۔۔۔آجاؤ ۔۔۔۔میرا نام اَسلم گجر ہے‘‘۔
آدم نے آگے بڑھ کے ہاتھ ملانا چاہا لیکن اُس نے جواب میں ہاتھ آگے نہ بڑھایا۔ آدم کھسیانہ سا ہوگیا۔ لیکن خفت اَور شرمندگی وہ اَندر ہی اَندر محسوس کررَہا تھا۔
’’کیا نام ہے تمہارا‘‘؟اُس نے آدم کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔
آدم،’’جی میرا نام آدم خان چغتائی ہے‘‘۔
گجر،’’اَور تمہارا باؤ‘‘۔
داؤد۔’’جی دَاؤد اَنصاری‘‘۔
گجر،’’تم دَونوں کدھر کے ہو‘‘۔
دَونوں یک زبان ہوکر بولے،’’جی پنڈی کے ہیں‘‘۔
گجر،’’اَو پنڈی کے تو ۔۔۔بندے ہی بڑے چول (چبل) ہوتے ہیں۔پہلے بھی دَو بندے رَہ کر گئے ہیں۔کرایہ اَور کھانے کے پیسے بھی نہیں دِے کر گئے۔ خیر جائیں گے کدھر، اَگر یونان میں ہیں تو وَصول کرلونگا‘‘۔
آدم یہ تو نہیں جانتا تھا کہ داؤد کیا محسوس کررَہا تھا۔ لیکن وہ بالکل اَیسے محسوس کررَہا تھا جیسے کسی نے جلتا ہوا اَنگارَہ اِس کے دِل پے رَکھ دیا ہو۔ جیسے اِسے کسی نے ہزار منزلہ عمارت سے نیچے گرا دِیا ہو۔ دِل میں آیا کہ کھری کھری سُنادِے۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رَہا کہ اِتنی تکلیفیں سہہ کر یہاں تک آئے ہیں، تو اَب یہ یورپ کا ڈرامہ دِیکھ کر ہی جائیں گے۔ وہ اَب سمجھ رَہا تھا کہ یہ تمام مراحل اِسے اَفسانوی د ُ نیا سے نکال کر حقیقی د ُ نیا کی طرف لا رَہے تھے۔
داؤد جھٹ سے بولا پڑا،’’جی ہم اَیسے نہیں ہیں‘‘۔
گجر،’’اَؤئے سب اَیسے ہی کہتے ہیں۔ تم دَونوں کے نام ہم نے کاپی پر چڑھا دِیئے ہیں۔ دَو دِن کا کرایہ اَو ر کھانا پینا ، یہ ہماری طرف سے۔ لیکن اَگلہ مہینہ چڑھتے ہی تم لوگوں کو خرچہ دِینا ہوگا۔ اَگر کام نہ ملا تو پاکستان کا پتہ دِے دِینا۔ میرا آدمی تمہارے گھر سے پیسے وَصول کرلیا کرے گا اَور چند ضروری باتیں ذہن میں بٹھا لو۔
۔کسی کو مت بتانا کہ تم لوگ یونان میں اَبھی اَبھی وَارد ہوئے ہو۔ بلکہ دَو سال ہوگئے ہیں ۔پہلے کسی اَور شہر میں تھے۔ اَب اَپنے مسیر (ماسی کا پتر یعنی خالہ کا بیٹا) کے پاس آگئے ہو۔
۔جو بھی پوچھے سب کو یہی بتانا کہ میں تمہارا رِشتہ دَار ہوں۔ بھائی ہوں۔
۔کوشش کرنا کہ پولیس تمہیں چیک نہ کرے۔ وَیسے یونان میں پولیس اُس وَقت تک نہیں پوچھتی جب
تک آپ کوئی غلط کام نہ کریں۔
۔شراب اَورسگرٹ ،اَگر پینا ہے ،تو تمیز کے ساتھ۔ اَگر رَنڈی بازی کرنی ہو تو (گلی کا نام لیتے ہوئے)
و ُہاں چلے جانا۔
۔جب تک کام نہیں ملتا ، کھانا پکانا سیکھو۔
٭
آدم آٹا گوندھ رَہا تھا اَور داؤد پیاز کاٹ رَہا تھا۔ دَونوں سوچ رَہے تھے یہ یورپ ہے۔ جس کے داؤد خواب دِیکھا کرتا تھا۔ جس گھر میں یہ لوگ رَہ رَہے تھے۔ بالکل پاکستان جیسا ماحول تھا۔ گھر میں سب شلوار قمیص پہنتے اَور پنجابی میں گفتگو کرتے۔ داؤد نے پاکستان میں اُردو کے علاوہ کوئی زبان سیکھی ہی نہیں تھی۔ پنجابی وہ سمجھ لیتا تھالیکن جب پنجابی بولنے کی کوشش کرتا تو مضحکہ خیز لگتا۔ اِنھیں اَیسا لگتا، جیسے اِن کا معیارِ زندگی تھوڑا نیچا ہوگیا ہو۔ جیسے گراف اِیک دَم گر گیا ہو۔ اِیک ہفتے کے اَندر اَندر اِنھوں نے کھاناپکانا سیکھ لیا تھا۔ داؤد نے ،نہ ہی آدم نے زندگی میں کبھی کھانا بنایا تھا۔کھانا تو دَور کی بات ،چائے بھی بنانا نہیں جانتے تھے۔ وہ دَونوںاَیسے سوچتے ، جیسے آرمی کی ٹریننگ کر رَہے ہوں۔ داؤد نے آدم کو چھیڑتے ہوئے کہا،’’ہاں بھئی وہ فلسفہ و ادب کہاں گیا‘‘۔
آدم کہنے لگا،’’یار مجھے تو پتا ہی نہیں تھاکہ یہ بھی زِندگی ہے‘‘۔
داؤد نے کہا،’’پیارے یہ یورپ ہے۔ دِیکھا بنگالی ، بنگالیوں کے ساتھ چلے گئے اَور ملک اَپنے کمیوں دِے مُنڈے کے پاس چلے گئے۔ لیکن ہمارے پنڈی وَالے نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ دَھوکا کیا۔یا یوں کہو کہ جو بھی کیا اَچھا نہیں کیا۔ حالانکہ یہ محترم جب پاکستان آئے تھے ،مَیں نے اِن کی کافی مدد کی تھی۔ مجھ سے بڑے وَعدے کر کے آئے تھے۔ بس اِیک فون کردِینا، تمہارا یہ غلام تمہیں لینے آجائے گا۔ گجر صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔ اُن کا پالا بھی یقینا کسی زَنخے سے پڑا ہوگا۔ ہم دَوسرے لوگوں پے ہنستے ہیں۔ کم اَز کم وہ اَپنے علاقے وَالوں کی دِید تو کرتے ہیں۔ گجراتی،سیالکوٹی، سرگودھیئے وَغیرہ‘‘۔ تھوڑے توقف سے موضوع بدلتے ہوئے بولا،’’اَرے آدم یاد آیا، گھر وَالوں کو فون کیا ہے؟‘‘
آدم کہنے لگا، ’’ مَیں کس کو فون کروں، گھر میں ہے کون۔ اَبا۔۔۔ اَور شاید وہ نئی بیوی بھی لے آئیں ہوں‘‘۔
داؤد نے کہا، ’’اِس طرح نہیں کہتے‘‘۔
آدم نے جواب دِیا، ’’تم نہیں جانتے مَیں کس کرب سے گزرا ہوں‘‘۔
داؤد نے کہا،’’خیر چھوڑو اِن باتوں کو، چلو میرے ساتھ ‘‘۔ اَور وہ اِسے ساتھ لے گیا۔ جس عمارت میںاِن کا گھر تھا۔ اِسی گلی کی نکڑ پے اِیک پاکستانی کا پبلک کال آفس تھا، جہاں سے فون سستا ہوتا تھا۔داؤد نے نمبر لکھ کر دِیا۔ اُس آدمی نے جھٹ سے نمبر ملا دِیا۔ داؤد کو تقریباً دَوہفتے ہو چلے تھے کے اِس نے گھر وَالوں سے بات نہیں کی تھی۔داؤد کیبن میں دَاخل ہوا اَور رَسیور کان سے لگا کر اِنتظار کرنے لگا کیونکہ رِنگ جا رَہی تھی لیکن دَوسری طرف سے کوئی نہیں اُٹھا رَہا تھا۔ہیلو! کی آواز سنائی دِی ۔ داؤد جواب میں بولا، ’’ہیلو! اَماں۔۔۔ مَیں داؤد بول رَہا ہوں‘‘۔ دَوسری طرف سے آواز نہ آئی، داؤد سمجھا لائن کٹ گئی ہے۔ اِس نے رَسیور، چونگے پے رَکھا اَور کیبن سے باہر آگیا۔ اُس شخص کو نمبر پھر ملانے کو کہا۔دَوبارہ نمبر مل گیا۔ داؤد پھر کیبن میںدَاخل ہوا اَور رَسیور ہاتھ میں لیئے اِنتظار کرنے لگا۔ اِیک دَفعہ پھر ہیلو کی آواز سنائی دِی۔داؤد بولا، ’’ہیلو! مَیں داؤد بول رَہا ہوں‘‘ ۔
آواز پہچانتے ہوئے،’’کون اَبا‘‘۔’’ہاں بیٹا کیا حال ہیں، کہاں ہو؟ٹھیک ہو؟تمہاری اَماں تو تمہاری آواز سنتے ہی بے ہوش ہوگئی تھیں۔ بیٹا اَگر تم چاہو تو وَاپس آجاؤ۔ بلکہ وَاپس ہی آجاؤ، یہ چاہنے وَاہنے کو چھوڑو۔ رِیڑھی کے بجائے کوئی اَور کام کرلینا، اَپنی پسند کا۔ چاہو تو تمہاری شادی کردِیں گے، ببلی سے، مَیں اَپنے چھوٹے بھائی کے پاؤں پڑ جاؤنگا‘‘۔
داؤد رَونے لگا اَور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا،’’نہیں اَبا، آپ کو جھکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اَب مَیں کچھ بن کر ہی وَاپس آؤنگا۔ آپ لوگوں کی د ُ عاؤں سے مَیں یونان پہنچ چکا ہوں۔ آپ لوگوں کو فون اِس لیئے نہیں کیا کیونکہ مَیں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا‘‘۔
’’اَور تمہارے ساتھ جو لڑکا تھا اُس کا کیا بنا‘‘۔
’’جی وہ میرے ساتھ ہی ہے۔ بڑا اَچھا لڑکا ہے۔ اُس کی وَجہ سے سفر بڑا اَچھا کٹا اَور میری حوصلہ اَفزائی بھی کرتا رَہا‘‘۔
’’بیٹا اَللہ کا دِیا بہت کچھ ہے۔گھر کی فکر مت کرنا۔ اَپنا مستقبل بناؤ، اَگر زیادہ پریشانی ہو تو وَاپس آجاؤ۔ اَپنے ملک کی آدھی رَوٹی ،پردیس کی دَو رَوٹیوں سے بہتر ہے‘‘۔
داؤد نے کبھی اَپنے باپ کے سامنے بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھا یا تھا۔اِسے پتا ہی نہیں تھا کہ اِس کا باپ، جسے وہ کنجوس اَور ضدی سمجھتا تھا ۔وہ اِس سے اِتنا پیار کرتا ہے۔ ’
’اَچھا اَبا خدا حافظ، اَپنا، اَمی کا اَور چھوٹوںکا خیال رَکھیئے گا۔ مَیں پھر فون کروں گا‘‘۔
داؤد آنسو پونچھتا ہوا کیبن سے باہرآگیا۔ آدم نے بھی اَپنا نمبر پرچی پر لکھ کر دِیا۔ جلدی لائن مل گئی۔ آدم رَسیور ہاتھ میں لیئے کیبن میں کھڑا تھا۔ بَیل جارَہی تھی ۔ سکوت ٹوٹا، دَوسری طرف سے کوئی نسوانی آواز آئی، ’’ہیلو!‘‘۔
آدم نے جواب دِیا،’’ہیلو! جی مَیں آدم بول رَہا ہوں۔ خاقان صاحب کہاں ہیں‘‘۔
اِن محترمہ نے جواب دِیا،’’جی مَیں اُن کی بیوی بول رَہی ہوں، اَبھی بلاتی ہوں۔آپ کون‘‘ ۔
’’جی مَیں اُن کا بیٹا ہوں، یونان سے بول رَہا ہوں‘‘۔
آدم کے لیئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ دَوسری طرف سے آواز آئی،’’ہاں پتر، کیا حال ہے‘‘۔
’’جی اَبو ٹھیک ہوں۔آپ کی د ُعاؤں سے یونان پہنچ گیا ہوں‘‘۔
’’بس پتر اَپنا مستقبل بنا۔ وَاپس مت آنا۔ یہاں کچھ نہیں رَکھا۔ تمہیںتو پتا ہے پاکستان کے حالات کا اَور ہاں آجکل میرا کام بھی ٹھیک نہیں چل رَہا۔ گھر کا کرایہ اَور خرچہ ضرور بھیجنا۔ میرا اکاؤنٹ نمبر لکھ لو‘‘۔ ’’جی اَچھا‘‘آدم نے بس اِتنا کہا اَور فون بند کر دِیا۔ اِس کے وَالد صاحب نے بالکل نہ پوچھا کیسے ہو؟ کس طرح یونان پہنچے؟کیا کھاتے ہو؟کیا پیتے ہو؟ رَاستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟
٭
جو آدمی اِن دَونوں کو لایا تھا۔ آج اِیک اَور شخص کو لے آیا۔ آدم اَور داؤد تو چپ رَہے لیکن گجر صاحب نے اِس کا خوب اِنٹرویو لیا۔ پھر و ُ ہی خطبہ دِیا جو اِن دَونوں کو دِیا تھا۔ اِس کے بعد کاپی میں اُس کا نام بھی لکھ لیا گیا۔ وہ فراغت حاصل کرنے کے بعد سیدھا آدم اَور داؤد کے پاس آیا۔
’’سلاما لیکم، جی میرا نام عبدالمید (عبدالحمید) ہے‘‘۔آدم اَور داؤد نے باری باری ہاتھ ملا کر جواب دِیا، ’’وعلیکم السلام‘‘۔ اَ بھی وہ بمشکل سلام کا جواب ہی دِے پائے تھے کہ ْاس نے اَگلا سوال کردِیا، ’’تمہارا نام کیاہے‘‘؟ آدم اَور داؤد کسمسا کر رَہ گئے۔ یہ شخص پہلی دَفعہ مل رَہا تھا اَور عمر میں بھی شاید اِن سے چھوٹا تھا لیکن تم کہہ کر مخاطب کررَہا تھا۔ تمہارا نام کیا ہے ، حالانکہ آپ کہنا چاہئے تھا۔ خیر اَب تک دَونوں تھوڑے تھوڑے عادِی ہوگئے تھے۔
آدم نے بولنے میں پہل کی، ’’جی میرا نام آدم خان چغتائی ہے‘‘ پھر داؤد بولا،’’اَور میرا نام داؤد اَنصاری ہے ‘‘۔
عبدالحمید، ’’تم دَونوں بھائی ہو؟ تمہاری شادِیاں ہوئی ہیں؟
آدم اَور داؤد اُوپر تلے سوالوں سے بوکھلا گئے۔
؎داؤد بولا،’’آدم یہ نئی اَیٹم ہے‘‘۔آدم کو پھر شرارت سوجھی، ’’عبدالحمید صاحب میری شادی ہوچکی ہے۔ تین بچے ہیں۔ پاکستان چھوڑے تین سال ہوچکے ہیں۔ جب آیا تھا تو اِیک بیٹا تھا۔ دَو بچے بعد میں پیدا ہوئے ہیں ‘‘۔
عبدالحمید نے تجسس کے ساتھ پوچھا، ’’وہ کیسے ‘‘۔
آدم،’’جی کبھی کبھی خط لکھ دِیا کرتا ہوں۔ اَللہ کرم کردِیتا ہے‘‘۔
عبدالحمید،’’وَاقعی خدا بڑا کارساز ہے اَور داؤد تمہاری شادی ہوئی ہے؟‘‘
داؤد، ’’میری تو کہانی ہی بڑی دَردناک ہے‘‘۔
عبدالحمید، ’’وہ کیسے‘‘ ؟
داؤد،’’ مَیں نے اَپنی پسند کی شادی کی تھی۔ لڑکی سے پاگلوں کی طرح عشق کرتا تھا۔ اُس کے لیئے ماں باپ ، بہن بھائی چھوڑ دِیئے۔ حتیٰ کہ ملک چھوڑ دِیا۔ جیسے ہی میں یہاں پہنچا ، میری بیوی میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی، یہ میری کہانی ہے۔ آپ نے عبدالحمید صاحب شادی کی ہے یا اَبھی تک غیرشادی شدہ ہیں‘‘۔
عبدالحمید،’’جی اِیک لڑکی سے پیار کرتا ہوں۔ فوٹو دِکھاؤں تم کو‘‘ ۔
دَونوں نے بڑی مشکل سے اَپنی ہنسی رَوکتے ہوئے کہا، ’’دِکھائیں‘‘۔
اُس نے جلدی سے اَپنی جیب سے تصویر نکالی اَور آدم کو تھمادِی۔ لڑکی وَاقعی ہی بڑی خوبصورت تھی آدم نے تصویر کو دِیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا لڑکی کی نظر کمزورہے‘‘۔
عبدالحمید، ’’جی نہیں‘‘۔
داؤد، ’’دِماغی طور پے ٹھیک ہے‘‘ ۔
عبدالحمید،’’جی بالکل ٹھیک ہے‘‘۔
آدم،’’پھر بے چاری کی قسمت پھوٹ گئی ہے‘‘۔
عبدالحمید،’’جی بالکل ٹھیک کہا تم نے۔ مَیں یہاں جو آگیا ہوں‘‘۔
آدم اَور داؤد یک زبان ہوکر بولے، ’’بالکل درست فرمایا آپ نے‘‘۔ عبدالحمید صاحب کچھ نہ سمجھے۔
٭
آدم اَور داؤد بڑے حیران ہوئے۔ باتھ روم میں اِیک دَانتوں کا برش تھا۔اِیک ڈِسپوز اِیبل رِیزر اَور اِیک ہی تولیہ مستقل پڑا رَہتا ۔ وہ دَونوں کئی دِنوں تک یہی سمجھتے رَہے کہ آخری دَفعہ جو باتھ روم جاتا ہے ، وہ اَپنی چیزیں و ُہیں بھول جاتا ہے۔ یہ اَپنا سامان تو جٹلہ صاحب کے گھر ہی چھوڑ آئے تھے لیکن اِنھوں نے بڑی مشکل سے اَپنے اَپنے ٹوتھ برش خرید لیئے تھے۔ لیکن اِن کے پاس رِیزرز اَور تولیئے نہیں تھے۔ اِنھوں نے گجر صاحب سے بات کی کہ،’’ ہمیں تولیئے اَور ڈِسپوز اِیبل رِیزرز خریدنے ہیں۔کچھ پیسے اُدھار دِے دِیں‘‘۔
تو اُس نے جواب دِیا،’’اِس کی کیا ضرورت ہے۔ غسل خانے میں دَانتوں کا برش بھی پڑا ہوا ہے اَور رِیزر بھی اَور اِیک عدد تولیہ بھی۔ سب و ُہی اِستعمال کرتے ہیں۔ تم لوگ بھی و ُہی اِستعمال کرلیا کرو۔ وَیسے مَیں تو مسواک اِستعمال کرتا ہوں‘‘۔
آدم اَور داؤد نے کہا، ’’جی ٹھیک ہے‘‘ ۔
’’اَور ہاں تم دَونوں کل کام پر جاؤ گے۔ تم دَونوں کی قسمت اَچھی ہے کہ تم لوگ گرمیوں کے موسم میں آئے ہو۔ یہ کھیتی باڑی اَور پھولوں کا موسم ہوتا ہے۔ صبح پانچ بجے تیار رَہنا‘‘۔ داؤد اَور آدم کو اِس سے پہلے کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ سوچ رَہے تھے کہ کیا کام ہوگا۔ اِس لیئے تجسس بھرے لہجے میں پوچھنے لگے، ’’جی کام کیا ہے؟‘‘۔
’’تم دَونوں کو یونان کی صدارت سنبھالنی ہے۔ اِیک بادشاہ اَور دَوسرا وزیر‘‘ ۔
دَونوں نے یک زبان ہوکر کہا ، ’’جی‘‘۔
گجر گرجا، ’’جی کے بچے، جمعہ جمعہ آٹھ دِن ہوئے ہیں آئے ہوئے اَور پوچھتے ہیںکام کیا کرنا ہوگا۔ نہ تمہارے پاس کاغذ ہیں، نہ کوئی ہنر جانتے ہو، نہ تمہیں زبان آتی ہے اَور پوچھتے ہو ، کام کیا کرنا ہوگا۔ کل تمہیں سڑک سے اُٹھا کر لائیں ہیں۔ تمہیںرَوٹی دِی، کپڑا دِیا، رَہنے کو جگہ دِی۔ اَب پوچھتے ہو کام کیا کرنا ہوگا۔ یہ یورپ ہے۔ یہاں کاغذات وَالوں کو کام نہیں ملتا، تمہارے پاس تو کچھ بھی نہیں‘‘۔
گجر صاحب کہتے تو بالکل ٹھیک تھے۔ اِن کی باتیں تھیں کڑوی لیکن سچ پر مبنی تھیں۔ اِن دَونوں نے پاکستان میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ قانونی اَور غیر قانونی کیا ہوتا ہے؟کاغذ کیا ہوتے ہیں؟پاکستان میں جب شناختی کاڑد کا آغاز ہوا تو یہ لوگ بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ شناختی کارڈ کا اَصل مقصد اَب اِنھیںسمجھ آرَہا تھا۔ لیکن پاکستان میںلاکھوں کی تعداد میں اَفغانی غیر قانونی طور پے گھومتے ہیں۔ اِن کے کاروبار ہیں، گھر ہیں، دَوکانیں ہیں، گاڑیاں،بنگلے ہیں۔ و ُہاں کوئی نہیں پوچھتا۔ کراچی اَور کئی بڑے بڑے شہروں میںبنگالی، سری لنکن اَور نیپالی کام کرتے ہیں۔کبھی کسی کا دِھیان اُس طرف نہیں گیا۔راولپنڈی شہر میں چینیوں کی جوتوں کی دَوکانیں ہیں۔
٭
اَگلے دِن دَونوں کو کام پے جانا تھا۔ داؤد کو لکڑی کی فیکٹری میں کام مل گیااَور آدم کو پھولوں کے کھیتوں میں ۔ آدم صبح پانچ بجے اُٹھا اَور بنا چائے پیئے اُن لڑکوں کے ساتھ چل نکلا جو کھیتوں میں کام کرنے جارَہے تھے۔ اِن کے ساتھ عبدالحمید کھگا بھی تھا۔ صبح سویرے جب سارے کھیتوں میں پہنچے تو بڈھا یونانی اِن کا انتظار کررَہا تھا۔اِس نے یونانی زبان میں اِیک کو بلاکر کہا، ’’دَو نئے بندے لائے ہو‘‘۔ تو اُس نے جواب دِیا،’’جی لایا ہوں۔اِیک کا نام ٹونی ہے اَور دَوسرے کا نام جمی ہے‘‘ ۔
جیسے ہی اُس نے آدم کی طرف اِشارہ کرکے کہا ،یہ جمی ہے۔آدم فوراً بول پڑا، "No my name is ADAM KHAN CHUGHTAI” (نہیں میرا نام آدم خان چغتائی ہے)۔ جس لڑکے نے تعارف کروایا تھا اُسے بہت برا لگا، کیونکہ آج اِن دَونوں کا پہلا دِن تھا اَور اِس نے اُسے ٹوک دِیا تھا حالانکہ اِسے زبان بھی نہیںآتی تھی۔عبدالحمید کھگے کو کوئی فرق نہ پڑا اِسے کسی نے ٹونی کہا یا ٹمی کہا۔
سب نے اِیک اِیک رِیڑھی پکڑلی۔ اِس میں خاص قسم کی ٹوکریاں رَکھی ہوئیں تھیں۔ وہ بڈھے آدمی کی بتائی ہوئی ہدایات پے عمل کرتے ہوئے، پھولوں کی کیاریوں سے گزرتے گئے اَور پھول توڑتے گئے۔ اِیک کیاری میں کم اَز کم اِیک گھنٹہ لگ جاتا۔ آدم نے زِندگی میں کبھی کام نہیں کیا تھااَور اِس طرح کا کام تو اِس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اِسے بڑی دِقت پیش آرہی تھی۔ لیکن جو تکلیف اِسے ٹیلی فون کر کے ہوئی تھی، یہ تکلیف اُس سے کہیں زیادہ کم تھی۔ یہ جسمانی تکلیف تھی جو آرام کر کے یا سو کے کم ہوسکتی تھی لیکن وہ رَوح کو زَخمی کرنے وَالی تکلیف تھی۔ اُس کا کوئی علاج نہیں تھا۔
بارہ بجے جب اِنھوں نے کام ختم کیا تو آدم کو اَیسا لگا، جیسے اِس کا نچلادَھڑساتھ ہی نہیں۔ وہ کھیتوں میں جھک کر کام کر رَہے تھے۔ اَب کافی گرمی ہوچکی تھی۔ آدم پسینے سے شرابور تھا۔ اِس کا گرمی سے برا حال تھا۔ اِسے چائے کی طلب محسوس ہوئی،لیکن اِن کھیتوں میں وہ چائے کا اِنتظام کیوں کر
کرپاتا۔ آدم ،حمید، اَور حسین تینوں رَات کا بچا کھچا سالن اَور رَوٹیاں ساتھ لائے تھے۔ پلاسٹک کا ڈبہ کھولا اَور کھانے لگے۔ سالن ٹھنڈا تھا اَور رَوٹیاں بھی نمی کی وَجہ سے گیلی ہوگئی تھیں۔ لیکن بھوک کے مارے اِتنا برا حال تھا کہ سب نے نہ آؤ دِیکھا نہ تاؤ، کھانے لگے۔ کھانے کے دَوران حسین بول پڑا، ’’آدم ، تم نے اَچھا نہیں کیا۔مَیں اُسے نام بتا رَہا تھا اَور تم بیچ میں اَنگریزی میں بول پڑے‘‘۔
آدم کو بڑی حیرت ہوئی ۔وہ سب کو آپ کہہ کر بلا تا ہے اَور جواب میں اُسے تم سننا پڑتا ہے۔ خیر وہ چپ رَہا۔ حسین پھر بول پڑا، ’’اَبھی تمہیںآئے ہو ئے اِیک ہفتہ ہوا ہے۔ نہ تمہارے پاس کاغذ ہیں۔ نہ رَہنے کو جگہ۔ یہ تو گجر صاحب کا شکریہ ادا کرو کہ اُنھوں نے تمہیں اَپنے پاس رَکھ لیا۔ وَرنہ تمہیں پولیس پکڑ کر لے گئی ہوتی۔ جب تم نے پلٹ کر جواب دِیا ۔میرا دِل کرتا تھا کہ تمہیںوَاپس بھیج دَوں۔ لیکن گجرصاحب کا خیال آگیا۔ کیونکہ اُن کے حکم سے مَیں تمہیںساتھ لایا ہوں‘‘۔
آدم کے حلق سے نوالے اَیسے اُتر رَہے تھے جیسے اَبھی اُگل دِے گا۔ آدم نے بہت سوچا کہ نہ بولے اَور بات دَب جائے لیکن حسین چُپ ہونے کانام ہی نہیں لے رَہا تھا۔ کھگا تو کھانے میں مگن تھااَور آدم سُنتا جارَہا تھا۔ آخر آدم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اَور پھٹ پڑا، ’’حسین صاحب، مَیں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے بیچ میں بولنا نہیں چاہئے تھا، لیکن مجھے یہ کتے بلیوں وَالے نام بالکل پسند نہیں،ٹونی، جمی‘‘ ۔
کھگا اِس کی بازو کھینچ کر چپ کرا رَہا تھا، ’’آد م چپ کرو، کام چھوٹ جائے گا‘‘۔
حسین پھر بولا،’’ٹھیک ہے یہ کتے بلیوں وَالے نام ہیں لیکن یونانیوں کو پاکستانی نام نہیں بولنے آتے اَور نہ ہی یاد رَہتے ہیں‘‘۔
آدم نے پھر جواب دیا، ’’تو اِس کامطلب ہے کہ ہم اَپنے نام بدل لیں۔ اَپنی شناخت کھو دِیں۔ اِس کا تو یہ مطلب ہوا کہ ہم اِحساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ یہ تو بالکل اِسی طرح ہے، جیسے پاکستان میں عیسائی اَپنے نام ،بجائے اَنگریزی میں رَکھنے کے یعقوب اَور پرویز رَکھ لیتے ہیں، حالانکہ اِن کے نام جیکب یا
پارو ک ہو نے چاہیئیں‘‘۔
حسین طنز بھرے لہجے میں بولا، ’’باوا جی تم بڑی بحث کرتے ہو۔نئے نئے آئے ہو۔ اَگر اَپنے ملک اَور نام پے اِتنا ہی مان تھا تو پاکستان کیوں چھوڑا۔ یہاں تو اَیسے ہی چلتا ہے اَور فرق بھی کیا پڑا ہے۔ اَبھی تمہارے پاس کاغذ بھی نہیں۔ جب مل گئے تو من مانی کرنا۔ اَبھی کاغذ نہیں تو یہ حال ہے۔ اَگر مل گئے تو کیا تیور ہونگے‘‘۔
’’ حسین صاحب مَیں پھر بھی اَیسا ہی رَہوںگا۔ اَگر کچھ ذَاتی وَجوہات کی بنا پر پاکستان چھوڑ آیا ہوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی یونانی کو خوش کرنے کے لیئے یا کام کی خاطر میں اَپنا نام بدل لوں۔ اَگر کام کرونگا تو اُسے میرا نام یاد کرنا ہی ہوگا۔ اَگر آج نام چھوڑ دَونگا تو شاید کل کچھ اَور چھوڑنا پڑجائے۔ ہم لوگ معاشی طور پے کمزور ہیں غیرت اَور شرم کے لحاظ سے نہیں‘‘۔
حسین بہت غصے میں تھا وہ مزید غصیلے لہجے میں بولا،’’مَیں دِیکھوں گا یہ اَکڑ کب تک قائم رَہتی ہے۔ تمہاری حب الوطنی اُس وَقت ختم ہوجائے گی جب پاکستان ایمبسی میں پاسپورٹ بنوانے جاؤ گے۔ تمہیں اِس بے دَردی سے دْھتکاریںگے۔ تمہیں لگ پتا جائے گا‘‘ ۔آدم نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن حسین مسلسل بولتا رَہا۔ کھگے کے کان پر جو تک نہ رِینگی۔
٭
آدم بلا ناغہ کام پے جاتا۔ اِس کے برعکس داؤد کی ہر اِتوار کو چھٹی ہوتی۔ آدم کی چھٹی اُس صورت میں ہوتی اَگر موسم خراب ہوتا یا مالک نے دَوائیں وَغیرہ چھڑکنی ہوتیں۔ شروع شروع میں آدم کے پاؤں سوج جاتے اَور سارا جسم پھوڑے کی طرح دْکھتا، لیکن آہستہ آہستہ اِس کا جسم عادِی ہوگیا تھا۔دَوسری طرف داؤد کا برا حال تھا۔ جہاں وہ کام کرتا تھا و ُہاں لکڑی کے دَروازے اَور کھڑکیاں بنتی تھیں۔ رَندا چلا چلا کے داؤد کے ہاتھ بری طرح زَخمی ہوچکے تھے۔ لیکن دَونوںدُھن کے پکے تھے۔ دَونوں نے ہمت نہ ہاری۔ دَونوں اِیک دَوسرے کا سہارا اَیسے تھا جیسے کڑی دھوپ میں چھاؤں۔
٭
اَیسا پہلی دَفعہ ہوا تھا کہ داؤد اَور آدم کو اِیک ساتھ چھٹی ملی تھی۔ داؤد کی تو وَیسے بھی اتوار کو فیکٹری بند ہوتی اَور اِتفاقاً آدم کو بھی اتوار کو چھٹی مل گئی۔ دَونوں نے پروگرام بنایا کیوں نہ سلونیکو شہر کی سیر کی جائے۔ اَب وہ تھوڑی تھوڑی یونانی زبان بھی سمجھنے لگے تھے۔
سلونیکو کا اَصل نام تھیسالونکی ہے۔ اِس کی بنیاد ۳۱۵ قبل اَز مسیح میں مقدونیہ کے جنرل کساندرو نے اَپنی بیوی تھیسالونکی کے نام پر رَکھی۔ یہ شہر دَو حصوں پر منقسم ہے۔ اُونچا شہر اَور نیچا شہر۔نچلے شہر میں بہت بڑا سکوائر ہے ۔جس کانام ہے Platia Aristotelous (پلاتی آ ارستوتیلس)۔اِس پے چلتے چلیں جائیں تو یہLeofòros Nikis (لیو فوروس نکس) سڑک تک جاتا ہے ۔اِس کے بعد دَریا شروع ہوجا تا ہے۔ یہاں بہت سارے کیفیز اَور مہنگے رَیستوران ہیں۔ یہاں پر بھی آگیہ صوفیہ (ہاگیہ صوفیہ) نام کا گرجا ہے۔ اِس کے علاوہ نچلے شہر میںحمزہ بے دَزامی نامی مسجد بھی یہیں وَاقع ہے۔ یہ یہاں کہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ اُونچے شہر میںAgios Dimitrios (اگیوس دیمیتریس)نامی مشہور گرجا گھر ہے۔ اِس کے علاوہ Dodeka Apostoli(دودیکا اپوستلی) اَور Agia Ekaterini (آگیا ایکاتیرینی) بھی مشہور مقامات ہیں۔ لیوفوروس نیکس سڑک دریا کے ساتھ
ساتھ چلتی ہے۔ اَگر اِس سڑک پے آپ چلتے جائیں تو آپ کو اِیک سفید مینا ر نظر آئے گا۔ اِس کو یونانی زبان میں تورے بی آکا کہتے ہیں۔ یہ Lefros Pyrgos (لیفروس پائرگوس) کے نام سے بھی مشہور ہے۔
آدم سلونیکو کا نقشہ اَور تاریخ بڑے شوق سے پڑھ رَہا تھا۔ اِسے بڑ ی حیرت ہوئی کہ یہاں بھی آگیہ صوفیہ (ہاگیہ صوفیہ)تھا۔ لیکن اِسے سب سے زیادہ قابل دِید چیز سفید مینار لگی۔
دَونوں پروگرام کے مطابق سیر کو نکلے۔ آدم نے داؤد سے دَرخواست کی کہ،’’ سفید مینا ر دِیکھنے چلتے ہیں‘‘۔
داؤد نے کہا، ’’اُس کا ٹکٹ ہوگا‘‘۔
آدم نے کہا،’’اَگر ٹکٹ ہوا تو باہر سے ہی دِیکھ لیں گے۔ اَگر دَاخلہ مفت ہوا تو اَندر سے دِیکھ لیں گے‘‘۔ دَونوں نے لیوفوروس نیکس روڈ پر چلنا شروع کردِیا۔ مینار کے قریب پہنچے تو اِنھیں کوئی خاص نہ لگا۔ جتنا خوبصورت اِس کتابچے میں تھا ،اُتنا حقیقت میں نہ تھا۔
داؤد نے کہا،’’کیو ں نا کچھ پیاء جائے‘‘۔
آدم نے کہا،’’کافی پیتے ہیں، لیکن جو کرسیاںباہر رَکھی ہیں اُن پر بیٹھ کر نہیں۔ یہ صرف اُن سیاحوں کے لیئے ہیں جو فرانس، جرمنی، اَمریکہ یا جاپان سے آتے ہیں۔ یہاں کافی کی قیمت کم اَور بیٹھنے کی زیادہ ہوتی ہے۔ میرے ساتھ یہ حادثہ ترکی میں پیش آچکا ہے اَور بقول تمہارے ہم لوگ یہاں مزدوری کرنے آئے ہیں، عیاشی کرنے نہیں‘‘۔ آدم اِیک چھوٹی سی بار نُما کیفیٹریامیں گھس گیا۔ اِس نے اَنگریزی میں اِیک ڈِسپوز ایبل کافی اَور داؤد کے لیئے اِیک بیئر کا کین آرڈر کیا۔ بارمین نے جان چھڑانے کے لیئے تیزی سے ڈِسپوزاِیبل کافی کاؤنٹر پے رَکھ دِی اَور بیئر کے لیئے کہا فرج سے نکال لو۔آدم نے کئی قسم کے دراخمے اُس کو پیش کیئے۔ وہ اَبھی اَچھی طرح یونانی کرنسی سے وَاقف نہیں ہوا تھا۔ کیفے چونکہ سیاحتی مقام پے تھی اِس لیئے بار مین اِن چیزوں کا عاد ی تھا۔ اُس نے مطلوبہ رَقم لی اَور باقی پیسے وَاپس کردِیئے۔ دَونوں کافی اَور بیئر لے کر پارک میں آگئے۔خوش بھی تھے اَور اُداس بھی۔ خوش اِس لیئے کہ یورپ میں تھے اَور اُداس اِس لیئے کہ جس طرح کا یورپ کا تصور اِن کے ذِہن میں تھا اِنھوں نے اُس طرح کا نہ پایا۔ یہاں آکر آدم کو Auden (آڈن) کی نظمRefugee blues (ریفیوجی بلوز) بڑی یاد آئی۔
Say this city has ten million souls
Some are living in mansions
Some are living in holes
Yet there’s no place for us, my dear
Yet there is no place for us
( آپ کہہ سکتے ہیں کہ اِس شہر میں اِیک کروڑ اِنسان بستے ہیں
کچھ بڑی بڑی عمارات میں رَہتے ہیں
کچھ جھونپڑیوں ،یا گندی نالیوں میں رَہتے ہیں
لیکن ہمارے لیئے کوئی جگہ نہیں میرے پیارے
لیکن ہمارے لیئے کوئی جگہ نہیں
اَگر آپ کے پاس پاسپورٹ نہیں ، کوئی شناخت نہیںتوآپ اِس د ُنیا میں وَجود نہیں رَکھتے، حالانکہ آپ وَجود رَکھتے ہیں۔ Auden نے یہ نظم یہودِیوں کے لیئے لکھی تھی، لیکن صرف یہودِی ہی نہیںبلکہ
کوئی بھی شخص جو معاشی، اِقتصادی یا سیاسی مسائل سے دَوچا ر ہو، بھلے وہ یہودِی ہو یا مسلمان، ہندو ہو کرسٹان یا کسی بھی طبقہء ِفکر سے تعلق رَکھتا ہو۔ وہ قابلِ رَحم ہے۔ یہ نظم ہر اُس شخص کے لیئے لکھی گئی ہے ،جو ہے تو سہی لیکن چند ناگزیر وَجوہات کی بنا پر وہ نہیں ہے۔ جبکہ وہ ہے۔اِس ہونے کو Shakespeare (شیکپیئرنے "to be” (ہونا) کا نام دِیا ہے۔ اِسی لیئے Shakespeare (شیکسپیئر )کے ڈرامے Hamlet (ہیملٹ) کا ہیرو کہتا ہے "to be or not to be that is the question” (ہونا یا نہ ہونا،یہی اَصل سوال ہے) جس کو آگے چل کر فرنچ Existentialist(وجودیت کے فلسفے کا ماہر) Jean Paul Sartre, (یاں پال ساخت) نے "etre et rien” (ہونا اور بالکل نہیں)کہہ کر پیش کیا ہے۔ یونان کا مشہور فلسفی ، سکندرِاعظم کا اُستاد ارسطو کہتا ہے، بہترین لوگ وہ ہے جو نہیں ہیں۔ہندواِزم نے ارسطوسے
پہلے اِس نظریئے کو پیش کیا۔ اَجنما، اَننت، آکال۔ یعنی نہ پیدا ہوں، نہ اِختتام ہو، نہ وَقت سے آپ گزریں۔ اِسی لیئے سکھوں میں آداب و تسلیمات کے لیئے ست سری آکال کہا جاتا ہے۔یعنی سچائی وَقت کا نہ ہونا ہے۔ اِس طرح اِیک مقام پے جاکے فزکس اَور فلاسفی کا ملاپ ہوتا ہے۔ فزکس بھی time and space (وَقت اَور خلاء)کی بات کرتی ہے۔ waves and oscillation (لہریں اور حرکت) اَور atoms and particles (اَیٹم اَور ذَرے) کی بات کرتی ہے۔ اَگر ہم وَقت سے گزر رَہے ہیں تو وَقت کا ہونا ضروری ہے۔ اَگر ہم وَقت سے گزر رَہے ہیں ۔اِس کا مطلب ہے ،ہم ہیں تو وَقت سے گزر رَہے ہیں۔ اَگر ہمارا ہونا ضروری ہے تو ہونے کے لیئے اِس د ُنیا میں آنا ضروری ہے۔ پیدا ہونا ضروری ہے۔ اَگر پیدا ہونا ضروری ہے تو جو چیز جنم لیتی ہے وہ اَنت کی طرف بھی جاتی ہے۔ میرے خیال میں تو ہونا نہ ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ نہ ہونا بزدلی ہے کیونکہ جو مزہ ہونے میں ہے وہ نہ ہونے میں نہیںاَور جب آپ ہوتے ہیں۔ تو تکالیف بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہیں اَور خوشیاںبھی۔جو تکالیف اِن کو سہن کرنی پڑ رَہی تھیں وہ جسمانی تھیںیا رَوحانی، ظاہراً تھیں یا باطناً، اِخلاقی یا سماجی یہ صرف ہونے کی وَجہ سے تھیںاَور رَہیں گی۔ اَب وہ سب کو کیسے سمجھاتا کہ ، ’’اَصل میں جو ہوتا ہے ، وہ وہ نہیں ہوتا جو وہ ہوتا ہے۔ بلکہ وہ وہ ہوتا ہے جو وہ نہیں ہوتا‘‘۔ اَب سب کو وہ کیسے سمجھاتا Martin Heidegger (مارٹن ہیڈگر) اَور Kierkegard (کیرخ گارد) کے فلسفیانہ نظریات کیا ہیں۔ کہاں وہ فلسفے کے فائنل اِیئر میں تھا اَور کہاں وہ کھیتوں میں پھول توڑ رَہا تھا۔ لیکن اِیک بات آدم اَچھی طرح جانتا تھا کہ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اِس لیئے وہ اَپنے ہونے کے بوجھ کو اُٹھا رَہا تھا۔ اَپنے ہونے کی وَجہ سے تمام تکالیف سہن کررَہا تھا۔
داؤد نے آدم کو جھنجوڑا، ’’کیا سوچ رَہے ہو‘‘۔
آدم نے جواب دِیا،’’ذَرا فلسفے کی د ُ نیا میں چلا گیا تھا۔ جب سے آیا ہوں، پڑھنا لکھنا بھول ہی گیا ہوں اَور تم کیا کررَہے تھے‘‘۔
داؤد نے جھینپ کر کہا،’’مَیں ! ۔۔۔۔۔۔۔مَیں اُس گوری کی ٹانگیں دِیکھ رَہا تھا۔ اْس کی دَونوں ٹانگیںکھلی تھیں اَور اُس کی چڈی صاف نظر آرَہی تھی۔ میرے مسلسل دِیکھنے پر اُس نے ٹانگیں سُکیڑلیں۔ یار آدم اِن میموں کی ٹانگیں کتنی ملائم ہوتی ہیں۔اَور اِن کی بھری بھری چھاتیاں دِیکھی ہیں‘‘۔
آدم نے کہا،’’میرا خیال ہے داؤد تمہیںاِیک بیئر ہی چڑھ گئی ہے‘‘ ۔
آدم کا ضمیر ملامت کررَہا تھا۔ وہ محترمہ کیا سوچتی ہوگی۔ اِن کو کتنی بھوک ہے۔ وہ جانتا تھا۔ دِیکھنے دِیکھنے میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ اَگر اَزرَاہِ تفنن دِیکھیں یا عورت کو اُس کی خوبصورتی کی وَجہ سے دِیکھیں تو اُنھیں اِتنا برا نہیں لگتا، لیکن آپ کی آنکھوں میں جنسی بھوک کی جھلک ہو تو اُنھیںبہت برا لگتا ہے۔ آدم نے داؤد کو مخاطب کیا،’’دِیکھو داؤد تمہیں اِس طرح نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اَب وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔ تمہیں پتا ہے جب ہم اِیک محلّے سے دَوسرے محلّے میں
جاتے ہیں تو ہم اَپنے پورے محلّے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اَگر اِیک شہر سے دَوسرے شہر جاتے ہیںتو اَپنے شہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اَگر اِیک صوبے سے دَوسرے صوبے میں جاتے ہیںتو اَپنے صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اِیک ملک سے دَوسرے ملک جاتے ہیںتو اَپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیںاَور اِیک برِ اعظم سے دَوسرے برِاعظم میں جاتے ہیں تو اَپنے برِاعظم کی نمائندگی کرتے ہیں۔اِس طرح ہم لوگ اَپنے محلّے،شہر،صوبے،ملک اَور برِاعظم کے سفیر ہوتے ہیں۔ ہماری ذَراسی غلط حرکت نہ صرف ہمارے ملک وبرِاعظم کو بدنام کردِیتی ہے بلکہ مذھب و قوم کو بھی۔ اَگر اُسے پتا چل گیا کہ ہم اِیشین ہیں۔پاکستانی ہیں۔تو نہ صرف پاکستان کی بلکہ اِیشیائی ممالک کے تمام باشندوں کی بدنامی ہوگی‘‘۔ داؤد پر اِس خطبے کا کوئی اَثر نہ ہوا کیونکہ وہ تھوڑا سا مدہوش تھا۔ آدم سے رَہا نہ گیااَور اُس محترمہ کے پاس چلا گیا۔
آدم،’’ہائے، مَیں آپ سے معذرت کرنے آیا ہوں۔ اَصل میں میرا دَوست ذرا نشے میں ہے۔اِس لیئے وہ آپ کی طرف ٹکٹکی باندھے دِیکھ رَہا تھا‘‘۔
محترمہ،’’نہیں، نہیں، اَیسی کوئی بات نہیں‘‘۔
آدم،’’آپ اِنگلینڈکی ہیں یا‘‘ اَبھی آدم اَپنا جملہ مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ وہ بول پڑی ۔’’نہیں مَیںجرمن ہوں‘‘۔
آدم،’’یونان کیسے آنا ہوا۔سیاحت کی غرض سے آئی ہیں یا پڑھتی ہیں‘‘۔
محترمہ،’’اِس وَقت سیر و تفریح کی غرض سے نکلی ہوں۔وَیسے مَیں تحقیق کی غرض سے آئی ہوں۔ مَیںسائنسدان ہوں‘‘۔
آدم،’’آپ نیوکلیئر فزکس پے کام کررَہی ہیں‘‘۔
محترمہ،’’نہیں، نہیں،آپ غلط سمجھے ہیں۔ مَیں وہ وَالی سائنسدان نہیں ہوں۔مَیں cognitive scientist (گیا ن و وقوف کی سائنسدان)ہوں‘‘۔
آدم،’’معاف کیجئے گا۔مجھے پہلے اَپنا تعارف کروانا چاہئے تھا‘‘ ۔ آدم نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا،’’میرا نام آدم خان چغتائی ہے۔مَیںپاکستانی ہوں‘‘۔
اُس محترمہ نے اَپنا گُداز ہاتھ اِس کے کھردرے ہاتھ میں تھما دِیاجو کہ یورپ میں آنے سے پہلے نرم تھا اَور اَپنی مترنم آواز میں بولی،’’مجھے Friedrika Herzlich (فریدرکا ہرزلش)کہتے ہیں‘‘۔
اِس نے جواب کے ساتھ ہی سوال بھی کر ڈالا۔’’آپ آدم صاحب یہاں کیا کررَہے ہیں۔ آپ سیاحت کی غرض سے آئے ہیں یا میری طرح محقق ہیں‘‘۔
آدم،’’جی مَیں پاکستان میں فلاسفی پڑھ رَہا ہوں۔ میرا آخری سال ہے۔ میرے اَندر یونانی فلسفیوں کے بارے میں جاننے کا جنون تھا۔مَیںسوچتا تھا، جس ملک نے اِتنے بڑے بڑے فلسفی پیدا کیئے ہیں، وہ کیسا ہوگا۔ اِس لیئے یہاں آنے کاقصد کیا‘‘۔
آدم جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رَہا تھا۔ لیکن فلسفے کا طالب ِعلم تو وہ تھا ہی اَور یونانی فلسفیوں کے فلسفے پر تو فلسفے کی بنیاد رَکھی گئی ہے ۔ اِس لیئے اِس کے اَندر جوش و وَلولہ تھا۔ اِس کی بات میں آدھا سچ تھا اَور آدھا جھوٹ۔ یہ آدھا جھوٹ اِسے کھائے جا رَہا تھا۔
؎ ہیرزلش نے سکوت توڑا،’’آپ کیا سوچ رَہے ہیں‘‘۔
آدم،’’نہیں۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔وَیسے cognitive scientist (گیان ووَقوف کے سائنسدان)کس چیز پے تحقیق کرتے ہیں اَور cognitive science گیان و وَقوف کی سائنس)کیا چیز ہے‘‘۔
ہیرزلش،’’آدم صاحب، آپ نے دَو سوال اِیک ساتھ کرڈَالے۔اَصل میں تو مَیںPhilology)علم السانیات کی ماہر ہوںلیکن (cognitive science)گیا ن و وقوف کی سائنس میں بھی مہارت حاصل کررَہی ہوں۔ جس کی بنیاد ہی علم و عقل پے رَکھی جاتی ہے‘‘۔
آدم،’’(philologist) ماہرِلسانیات اَور (cognitive scientist) ماہرِگیا ن و وَقوف کیا کام کرتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آپ کس چیز پے تحقیق کررَہی ہیں‘‘۔
ہیرزلش، ’’اَصل میں ،میری تحقیق مشتشرق زبانوں پر اَور indo-european (انڈو یورپیئن) پر تھی۔میرا مقالہ اِن دَونوں زبانوں کے گمشدہ سِروں ملانے پر تھا۔جیسا کہ آپ کو پتا ہے indo-european (انڈو یورپیئن) زبانیں اَور indo-aryanانڈو آرین) زبانیں ، اِن کا اَصل ماخذ اِیک ہی ہے۔علم اللسان آگے چل کر دَو حصوں میں منقسم ہوجاتا ہے۔ جیسے philology (فلولوجی)زبانوں پے تحقیق کرنے کا علم ہے اَور etymology (ایٹیمولوجی)کسی بھی زبان کے لفظوں کے پر تحقیق کرنے کا علم ہے۔ مثال کے طور پے دَو لفظ ہیں۔assassin (اسیسن)اَور murder (مَر ڈَر)۔ دَونوں کا مطلب اِیک ہی ہے۔ کسی کی جان لینا۔ کسی کو ختم کرنا یا قتل کرنا لیکن etymology (ایٹیمولوجی)کی رُو سے دَونوں لفظوںکے پیچھے اِیک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ murder (مَرڈَر)لفظ پرانی اَنگریزی میں morther (مورتھر) اَور پرانی فرنچ
میںmordre (موردرے)تھا۔اَب یہ morthor (مورتھور) سے murder (مَرڈَر) بن گیا ہے۔اِس کا مطلب ہے غیر قانونی طور پے کسی کی جان لینا۔ assassin (اسیسن) اِس کے برعکس اَپنے اَندر اِیک تاریخ چھپائے بیٹھا ہے۔ assasin (اسیسن) عربی کے لفظ حشیشین سے assassin (اسیسن)بن گیا۔ سب سے پہلے حشیشین لفظ Spanish Dictionary (ہسپانوی لغط) دَاخل ہواو ُ ہاں سے فرنچ اَور اَنگریزی زبان کا حصہ بن گیا۔ جیسے قندیل ، candle (کینڈل)بن گیا۔اِس طرح کے بے شمار لفظ ہیں۔ تو مَیں بتا رَہی تھی۔ حشیشین کا عربی میں لفظی مطلب ہے حشیش پینے وَالا۔چونکہ حشیش عربی میں اُس پودے کا نام ہے جسے ہم hash, grass and weed (ہیش، گراس اور ویڈ) کہتے ہیں۔ یعنی حشیش پینے وَالا اَور حشیش پی کر دَوسروں کو تنگ کرنے وَالا، مارنے وَالا۔ کسی سیاسی ، مذہبی یا مشہور شخصیت کو قتل کرناassassin (اسیسن)کہلاتا ہے۔ جیسے اَمریکہ کے صدر J.F.Kennedy (جے اَیف کینیڈی)کو قتل نہیں کیا گیا۔ بلکہ assassinate (اسیسینیٹ)کیا گیا تھا۔ اَب مَیں آپ کو بتاتی ہوںاَصل میں حشیشین کون تھے۔ حسن بن صباح نے، فرقہ باطنیہ (اِسماعیلی فرقہ) کو دَوسرا جنم دِیا۔ وہ اَپنے غلاموں کو حشیش پلاتا تھا۔ جب وہ پوری طرح نشے کے عادِی ہوجاتے، پھر اُن سے بڑی بڑی سیاسی و مذہبی طور پے مشہور شخصیات کو قتل کروَایا کرتا۔ جو بھی اُس کی رَاہ میں رکاوٹ بنتا۔اُس نے طوس کے گورنر ،نظام ء الملک طوسی کو بھی مروادِیا۔ اُس نے عمر خیام کو بھی مروَانا چاہا لیکن جانے کیوں چھوڑ دِیا۔
یورپیئن لوگ کافی عرصے تک حشیشین کو اَساسین سے ملاتے رَہے ہیں۔بلکہ اَب بھی بہت سے لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ لفظ اَساسین لفظ حشیشین سے نکلا ہے۔ فرانس کے اِیک لبنانی نژاد تاریخی ناول نگار اَور فلاسفر اَمین مالوف کا کہنا ہے کہ یہ لفظ اَساسین لفظ حشیشین سے نہیں نکلا بلکہ لفظ اَساس سے نکلا ہے۔ یعنی اَساسین بعد میں اَسیسن بن گیا۔ اَمین مالوف کی بات زیادہ منطقی ہے اَور دِل کو لگتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اُس دَور میں لوگ ذِہنی سکون کی خاطر حشیش کا اِستعمال کیا کرتے تھے ۔اَور یہ اُس دَور میں ممنوع نہیں تھی۔ اِس لیئے اَساس پرست لوگ اَساسین کہلائے اَور یہی لفظ جب یورپ میں متعارف ہوا تو اَسیسن کہلایا۔
حسن بن صباح، نظام ء الملک طوسی اَور عمر خیام ، یہ تینوں اِیک ہی اُستاد کے شاگرد تھے۔ امام موافق نیشاپوری کے۔ etymological philology (ایٹیمولوجیکل فلولوجی) کی بے شمار مثالیںہیں۔ اَور علمِ گیان کا تعلق عقل و علم سے ہے۔ جبکہ مَیں phonetics (صوتیات کا ماہر جو زبان اَور لفظوں کے بارے میں ہو)اَور linguistics (لسانیات) پر بھی کام کررَہی ہوں۔ زبانیں کیا ہیں؟ pigdin (پجنز، یعنی کسی بھی زبان کی بگڑی ہوئی شکل)اَور creole (کریے اَول)پر بھی۔
آدم،’’آپ کا زبانوں کے بارے میں کافی گہرا علم ہے۔ مجھے تو etymology (ایٹیمولوجی)اَور philology (فلولوجی) بڑے دلچسپ مضامین لگے ہیں‘‘۔
ہیرزلش،’’آپ نے بالکل درست فرمایا۔ جتنا آپ سیکھیں گے اُتنا ہی آپ کا تجسس بڑھتا جائے گا۔ کیونکہ تجسس علم کا باپ ہے۔ جیسے ضرورت اِیجاد کی ماں ہے۔اِنسان کا چہرہ اُس کا آئینہ ہوتا ہے اَور اُس کی آنکھیں اُس کے دِل کی کھڑکیاں ہوتی ہیں‘‘۔
آدم،’’آپ کب تک یہاں رُکیں گی‘‘؟
ہیرزلش،’’اَصل میںمَیںآجکل بائیبل کے اَصل مخطوطے پر تحقیق کر رَہی ہوں۔ اَصلی بائیبل عبرانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ پھر اِس کا یونانی زبان میں ترجمہ ہوا۔اِس طرح لاطینی، اطالوی، فرانسیسی اَور اَنگریزی میں ترجمہ ہوا۔اِس کا مستند و مربو ط ترجمہ پہلی دَفعہ اَنگریزی میں ہوا۔ یہ پندرھویں صدی کے آواخر کی بات ہے۔ مَیں نے لسانیات کو مضمون کے طور پے پڑھا ہے۔ جن میں عبرانی، یونانی اَور لاطینی زبانے سیکھنی میرے لیئے لازمی تھیں۔ جرمن میری مادری اَور قومی زبان ہے۔ مجھے یہ کام اَچھا لگتا اِس لیئے مَیںنے تحقیق کو چُنا ہے۔یونان کے بعد میں رَوس جاؤں گی۔ پھر اِسرائیل ۔ بائیبل کے کچھ قدیم نُسخے رَوس کے عجاعب گھر میں محفوظ ہیں اَور اِیک اِنتہائی نایاب نُسخہ لنڈن کے برٹش میوزم میں محفوظ ہے۔ بس آپ د ُعا کریں کہ مَیں لوگوں کو بائیبل کی اَصل عبارت و تحریر پیش کرنے میں کامیاب ہوجاؤں۔ اَب اِس میں مَیںکامیاب ہوتی ہوں کے نہیں،یہ مَیں نہیں جانتی‘‘۔
آدم،’’کیا آپ مجھے کسی اَچھی کتاب کا نام بتا سکتی ہیں۔ جو زبانوں کے متعلق ہو۔ یا علم اللسان پر مبنی ہو‘‘۔
ہیرزلش،’’کیوں نہیں۔۔۔۔STEVEN PINKER (سٹیون پِنکَر) کی کتاب THE LANGUAGE INSTINCT (دِی لینگوج اِنسٹنکٹ) بہت اَچھی کتاب ہے‘‘۔
آدم نے کاغذ و قلم پیش کیا، ’’کیا آپ مجھے لکھ کے دِے سکتی ہیں‘‘۔
ہیرزلش،’’یقینا، یقینا‘‘۔ اُس نے کاغذ و قلم لے کر کتاب کا نام لکھ دِیا۔ اِسی اَثناء داؤد بھی پاس آگیا۔
آدم نے تعارف کروَایا،’’یہ داؤد ہے۔میرا دَوست۔ مَیں اِس کے رَویئے کی وَجہ سے اِنتہائی شرمندہ ہوں اَور معذرت خواہ بھی‘‘۔
ہیرزلش،’’نہیں، آدم صاحب۔اَیسی کوئی بات نہیں۔آپ خواہ مخواہ بار بار ذِکر کرکے مجھے شرمندہ کر رَہے ہیں۔ مَیں اِس سے پہلے اِیران اَور ترکی کا سفر کرچکی ہوں۔چند اِیک اَفریقی ممالک میں بھی جانے کا اِتفاق ہوا ہے۔ یہ رَہن سہن کا فرق ہے۔ تہذیب و ثقافت کا فرق ہے‘‘۔
آدم،’’یہ میرا پتہ ہے۔ میرے پاس فون نمبر نہیں۔لیکن آپ کا جب بھی مصالحے دَار کھانا کھانے کو جی کرے تو ہمارا گھر ہر وَقت حاضر ہے‘‘۔
ہیرزلش نے پتہ پرس میں رَکھتے ہوئے کہا،’’شکریہ‘‘۔
آدم نے کہا،’’اَب ہمیں بھی جانا چاہئے کیونکہ صبح کے نکلے ہوئے ہیں‘‘۔
دَونوں نے فریدرکا ہیرزلش سے باری باری ہاتھ ملایا۔ داؤد ہاتھ ملاتے ہوئے تھوڑی تھوڑی شرمندگی محسوس کررَہا تھا۔
آدم کو سو فیصد یقین تھا کہ وہ نہیں آئے گی۔ اِسی لیئے اُسے پتہ دِینے میں اِسے کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی۔ وہ اِس بات سے اَچھی طرح وَاقف تھا کہ جس پتے پر وہ رَہ رَہا تھا۔ و ُہاں اَپنی مرضی سے مہمان تو کیا کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتا تھا۔
٭
اَسلم گجر نے دَونوں کااِ ستقبال بڑے تپاک سے کیا۔ جیسے اِنہی کے اِنتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِنتہائی طنزیہ و کٹیلے لہجے میں بولا، ’’آگئے شہزادِے، کِتھے دِی سیراں کر کے آئے ہو‘‘۔
دَونوں اِیک ساتھ بول پڑے ، ’’جی ہم دَونوں سلونیکو کی سیر کرنے گئے تھے۔ ہم نے سوچا آج ہمیں چھٹی ہے تو چلو گھوم پھر لیتے ہیں۔ موسم بھی اَچھا تھا‘‘۔
اَسلم گجر مزید طنزیہ لہجے میں کہنے لگا، ’’اَچھا جی سیر کرنے گئے تھے‘‘۔ وہ پھر گرج کر بولا، ’’سچ سچ بتاؤ ، ایجنٹ ڈھونڈنے گئے تھے یا سیر کرنے ۔ مجھے یہاںاِیک عرصہ گزر گیا ہے۔ تم جیسے کئی آئے اَور کئی گئے۔ کل تمہیںسڑک سے اُٹھا کر لائے ہیں اَور آج تم پَر پُرزے نکال رَہے ہو‘‘۔
آدم اَور داؤد نے اُسے بالکل جواب نہ دِیا کیونکہ جو وہ کہہ رَہا تھا کہ وہ اُنھیں سڑک سے اُٹھا کر لایا تھا بالکل درست تھا۔لیکن دَوسری بات بالکل درست نہیں تھی۔وہ کسی ایجنٹ کو ڈھونڈنے نہیں گئے تھے اَور تھوڑا تھوڑا خوف بھی تھا۔
آدم نے کہا،’’اَسلم صاحب ہم سچ کہہ رَہے ہیں۔ آپ ہماری بات کا یقین کیجئے‘‘۔
اَسلم گجر جانے کیوں تھوڑا نرم پڑ گیا، ’’چلو چلو روٹی کا اِنتظام کرو‘‘۔ دَونوں نے خدا کا شکر ادا کیا چلو بات ٹل گئی۔
٭
یہاں جتنے بھی لوگ رَہ رَہے تھے۔ سب اِن سے مختلف تھے۔ کام ختم کر کے جب گھر آتے توآتے ہی شلوار قمیص پہن لیتے۔ مراتب علی ، منصور ملنگی اَور عطا اللہ عیسا خیلوی کے گانے سُنتے۔ گھر کی زِیب و نمائش کے لیئے دِیواروں پر بڑی بڑی قرانی آیات لگی ہوئی تھیں۔ چھٹی وَالے دِن سب تاش کھیلتے ، کبھی کبھی جوا بھی چلتا۔ اِس کے علاوہ اِنڈین فلمیں، پنجابی سٹیج ڈرامے اَور پنجابی گانے وڈیو پر دِیکھتے ۔ پنجابی سٹیج ڈراموں اَور پنجابی گانوں سے داؤد کا دَور دَور تک کوئی علاقہ نہ تھا۔لیکن اِنڈین فلمیں دِیکھنے کا وہ بھی شوقین تھا۔پنجابی زبان داؤد کی سمجھ سے بالا تھی۔ آدم دِکھاوے کی حد تک اِن کا ساتھ دِیتا۔ موسیقی میں بھی اِس کا ذَوق اِن سب سے اَلگ تھا۔آدم تو غزلیں بھی بڑی منتخب کر کے سُنتا۔ جن میں شعریت ہوتی۔ اِس کے علاوہ اُسے اَنگریزی گانوں سے بھی شغف تھا لیکن اِس شوق کو وہ دِل میں ہی دَبائے رَکھتا۔ اِن دَونوں کو یونان کے ماحول کے مقابلے میں گھر کا ماحول زیادہ عجیب لگتا۔ دَونوں چپ کرکے سب کچھ بردَاشت کرتے کہ شاید یورپ اَیسا ہی ہوتا ہے۔لیکن اِیک تبدیلی غسل خانے ضرور آئی۔ اَب اِیک دَانتوں کے برش کی جگہ تین ہوگئے تھے اَور شیونگ مشینیں بھی تین۔اِن کی دِیکھا دِیکھی دَوسروں کو بھی اِحساس ہوا کہ یہ چیزیں ہر کسی کی ذَاتی ہونی چاہیئیں۔آدم اَور داؤد اَپنا اَپنا برش،رِیزر اَور تولیہ علیحدہ رَکھتے۔ اَپنے اَپنے سوٹ کیس میں۔ سب اِن کا مذاق اُڑاتے کہ دَونوں فضول خرچ ہیں۔ اَسلم گجر اِن کو اِسی طرح کئی دَفعہ ذَلیل کرتا۔ پھر اِیک دَو دِن بعد حالات معمول پر آجاتے۔ اَب یہ دَونوں عادِی ہوچکے تھے۔
٭
اِیک آدمی بڑا عجیب تھا۔ محمد نواز۔اِس کے پاس خاکی رَنگ کی اِیک ہی پتلون تھی اَور کالے رَنگ کے فوجیوں وَالے لانگ بوٹ۔ سارا ہفتہ اِنھیں کپڑوں میں کام کرتا۔ اِس کی پتلون اَور اِس کے جوتے اِس کے ساتھی تھے۔اَلبتہ ٹی شرٹ کبھی کبھی بدل لیا کرتا۔ اِتوار کو اِس کی چھٹی ہوتی۔ اِس دِن وہ بستر کی چادر کو دَھوتی کے طور پے اِستعمال کرتا اَور اَپنی اَکلوتی پتلون کو دَھو لیا کرتا۔لیکن اِس نے اَپنے لانگ بوٹ کبھی بھی صاف کرنے کی زَحمت نہ کی۔آدم اَور داؤد تو ڈر کے مارے اِس سے زیادہ بات بھی نہ کرتے۔کیونکہ بقول گجر کے ،نہ اِنھیں زبان آتی تھی، نہ اِن کے پاس کاغذتھے اَور سونے پے سہاگہ ،تھے بھی راولپنڈی کے۔اِن کے علاقے کا کوئی بندہ بھی نہیں تھا۔
محمد نواز کے بارے میںاِنھوں نے اِتنا سُنا تھا کہ آرمی میںنان کمشنڈ آفسر تھا۔و ُ ہاں پے پندرہ سا ل نوکری پوری کرنے کے بعد کچھ عرصہ اَپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کرتا رَہا۔ پھر ایجنٹ کے ذَریعے براستہ ترکی ،یونان آگیا۔یہ پتلون اَور جوتے اِس کے آرمی کے دِنوں کی یاد تازہ کرتے۔ جو پیسے کماتا اَپنے گھر وَالوں کو بھیج دِیتا۔ اِس کے چار بچے تھے۔ اِیک بیٹی جوان تھی۔جس کی شادی کرنی تھی۔ باقی تینوں بچے سکول جاتے ۔ اِیک دِن اِتفاق سے محمد نواز کی مڈ بھیڑ آدم سے ہوگئی۔
آدم نے پوچھا،’’نواز صاحب آپ سے اِیک بات پوچھوں، آپ بُرا تو نہ مانئے گا‘‘۔
نواز نے کہا،’’پُچھو باؤ آدم‘‘۔
آدم نے خوف اَور تجسس کے ملے جلے لہجے میں پوچھا۔،’’مَیں آپ کو کئی مہینوں سے دِیکھ رَہا ہوں،آپ یہی اِیک پتلون اَور جوتے پہنتے ہیں۔ آپ کام بھی کرتے ہیں اَور پیسے بھی کماتے ہیں۔ کبھی اِیک آدھ پتلون اَور جوتوں کا جوڑا ہی خرید لیں‘‘۔
اُس نے اِیک لمبی آہ بھرتے ہوے کہا،’’آدم باؤ تم ٹھیک کہتے ہو۔ تمہاری اَبھی شادِی نہیں ہوئی۔ بیوی بچے نہیں ہیں۔جب تمہاری شادی ہوگی، بیوی بچے ہوںگے۔پھر مَیں پوچھوں گا۔مجھے اَپنے بچوںکے بہتر مستقبل کی زیادہ فکر ہے۔ کھانے پینے کی بچت مَیں نہیں کرسکتا۔ لیکن اِس کے علاوہ جو بھی بچت کرسکتا ہوں کرتا ہوں۔اِنشا ء اَللہ میرے پروردگار نے چاہا تو اِس سال اَپنا چھوٹا سا گھر بنا لوں گا۔ پھر کچھ پیسہ جمع کرکے اَپنے ملک میں چھوٹا موٹا کاروبار کرلونگا۔ بس میری اِیک ہی خواہش ہے۔میرے بچے اَچھی تعلیم حاصل کرلیں۔ آدم باؤ تمہیںکیا پتا، خود کو تکلیف دِے کر بچوں کو پالنا اِیک نشہ ہے۔ اَگر مجھے اَپنے بچوں کے لیئے بھیک بھی مانگنا پڑے ، ٹھیلہ بھی لگانا پڑے تو مجھے کوئی عار نہیں۔ شادِی کے بعد اِنسان کو اَپنی بیوی سے لگاؤ ہوتا ہے۔ پھر یہی پیار بچوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے‘‘۔
آدم کو نواز کی باتیں بڑی دِلچسپ لگیں اَور وہ سوچنے لگا۔ وہ بھی کسی کا بیٹا ہے۔لیکن اِس نے شفقت اَور محبت کبھی دِیکھی ہی نہ تھی۔
آدم نے پوچھا،’’آپ پاکستان میںکیا کام کرتے تھے؟‘‘
نواز نے جواب دِیا،’’آدم باؤ، مَیںپاکستان آرمی میں تھا۔ پندرہ سال سروس پوری کرنے کے بعد مَیں نے خود ہی رِیٹائرمنٹ لے لی۔چند سال اَپنی زَمینوں پے ہل چلایا۔ پھر ترکی کے رَاستے یونان چلا آیا‘‘۔
آدم نے پوچھا،’’آپ نے جلدی رِیٹائرمنٹ کیوں لے لی۔ آپ مزید نوکری بھی تو کر سکتے تھے‘‘۔
نواز نے اِیک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’آدم باؤ ، یہ مت پوچھو۔ تمہیں پتا ہے ، نان کمشنڈ اَفسر اَور کمشنڈ اَفسر میں کیا فرق ہوتا ہے۔اَنگریز جب ہندوستان میں تھا تو وہ تمام ہندوستانیوں کو اَین سی اَو(نان کمشنڈ اَفسر)ہی بھرتی کیا کرتا تھا۔برِصغیر پاک و ہند میں کوئی بھی صوبیدار کے عہدے سے آگے نہ جاتا۔ بھلے وہ خوبیوں میں اَنگریز فوجیوں سے کتنا ہی اَعلیٰ کیوں نہ ہو۔ جب تک اَین سی اَوز کی ضرورت رَہی، پورے برِصغیرپاک و ہند سے ہنگامی بنیادَوں پر اَین سی اَوزبھرتی کرتے رَہے۔پہلے، پہلی عالمی جنگ میں پھر دَوسری عالمی جنگ میں ہمیں چارے کے طور پے اِستعمال کیا گیا ۔ ہمار ے بزرگ اِس لالچ میں محاذپر لڑتے رَہے کہ اَنگریز، خلافتِ عثمانیہ کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اُنھوں نے اِس طرح کے وَعدے نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ کیئے بلکہ ہندوؤں اَور سکھوں کو بھی اُنھوں نے کئی طرح کے لالچ دِیئے۔ غلامی کے دِنوںمیں فوج میں بھرتی ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔لیکن سب اَیسا نہیں سوچتے تھے۔ اُن دِنوں فوج میں بڑی کشش ہوا کرتی تھی۔ اِیک وَجہ یہ تھی ، بنیادی ضروریات پوری ہوتیں۔دَوسرا اَنگریزوں کی وَفاداری کی صورت میں کئی ضروری کام نکل آتے۔ یہ پاکستان میں تم جتنے بھی بڑے بڑے جاگیر دار دِیکھتے ہو۔ اِن میں زیادہ تر اَنگریز کے نوازے ہوئے ہیں۔ وہ سندھی ہو یا بلوچی، پنجابی ہو یا پٹھان۔ مَیں نے جب ہوش سنبھالا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ لیکن جان جُسا ٹھیک تھا، اِس لیئے تمام مراحل آسانی سے طے کرلیئے۔ لیکن بھرتی ہونے کے بعد پتا چلا کہ کمشنڈ اَفسر اَور نان کمشنڈ افسر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اَگر آپ کتے ہیں۔ آپ کی پھر بھی عزت ہے لیکن نان کمشنڈ اَفسر ہیں تو کوئی عزت نہیں۔ آرمی میں عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری نہ صرف عزت نفس مجروح کی جاتی ہے بلکہ تضحیک و تذلیل بھی کی جاتی ہے۔اَنگریزنے جاتے جاتے اَیسا مربوط نظام بنایا ہے کہ ہم اِس نظام کے چنگل سے ہزار سال تک نہیں نکل سکیں گے۔تمہیں پتا ہے باؤ آدم مَیں نے آرمی میںصرف اَپنی عزت بچائی ہے۔وَرنہ بہت مشکل ہے کہ آپ بچ کے نکل آئیں۔جن اَفسروںکی بیویاںخوبصورت نہیں ہوتیں وہ میجر سے آگے ترقی نہیں کرتے یا جو اِن کی کوک ٹیل پارٹیوں میں شامل نہیں ہوتے یا اِجتناب فرماتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے چند نوازے ہوئے لوگوں کے بچے اِنگلستان کی Sandhurst Academy (سینڈہرسٹ اکیڈمی)میں ٹریننگ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ آگے چل کے اِنھیں لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ یوں سمجھ لو کہ گورے اَنگریز گئے تو کالے اَنگریز آگئے اَور اِن کی آپس میں کھینچا تانی میں پاکستان آرمی کو آج تک شرمندگی اُٹھانی پڑرَہی ہے۔نوے ہزار فوج نے بنگلہ دیش میں ہتھیار پھینک دِیئے اَور پاکستانی فوج کا جرنیل رَنگ رَلیاں مناتا رَہا۔ جب اُس کو آکر بتایاکہ ،ہم جنگ ہار رَہے ہیں تو اُس نے کہا ، ہتھیار پھینک دَو۔ مجھے تنگ مت کرو۔جب اَسلم گجر تمہاری تذلیل و تضحیک کرتا ہے۔تمہیں یقینا بُرا لگتا ہوگا۔ لیکن جو تذلیل و تضحیک آرمی میں نان کمشنڈ اَفسر کی ہوتی ہے۔ اَگر تم دِیکھ لو تو مرنا ہی پسند کرو۔ مجھے تو ہنسی آتی ہے کہ پاکستان کا نام اِسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جہاں نہ مکمل طور پے اِسلامی نظام رَائج ہے ۔نہ ہی صحیح معنوں میںجمہوریت پائی جاتی ہے۔ اَگر یہی کچھ کرنا تھا تو دَو قومی نظریہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ نواز بولتے بولتے چپ کرگیا۔ پھر باورچی خانے میں چلا گیا۔ شاید پانی پینے گیا تھا کیونکہ کافی دِیر سے بول رَہا تھا۔ شاید اِس کا گلہ خشک ہوگیا تھا۔ آدم ، محمد نواز کی باتیں سُن کر ہکا بکا رَہ گیا۔ یہ خاکی پتلون وَالا شخص اَپنے اَندر کتنے رَاز چھپائے بیٹھاتھا۔ آدم کا اَندازہ صحیح نکلا، وہ پانی پینے گیا تھا۔اَپنے ہاتھ منہ پونچتے ہوئے اِس نے آدم سے سوال کیا،’’باؤآدم، تم اِدھر کیسے آگئے‘‘؟
آدم کو نواز کی باتوں میں سچائی نظر آئی اِس لیئے اِس نے اُسے سچ سچ بتا نا مناسب سمجھا،’’جی مَیں پاکستان اَیم اَے کر رَہا تھا۔ فلسفے کا طالب علم تھا، اِیک سال رَہ گیا تھا۔ تعلیم اَدھور ی چھوڑ کر اِدھر آگیاہوں‘‘۔ نواز حیرت سے آدم کا منہ تکنے لگا۔اِس نے متحیر و مستعجب ہو کر کہا،’’باؤ آدم، اَیم اَے کرکے تمہیںاَچھی نوکری مل سکتی تھی۔ اِدھر کیا کرنے آئے ہو۔ یہاں کا تو ماحول ہی تمہیںپسند نہیں آیا ہوگا۔ ہمارے پنڈ میں تو وہ لڑکا یا شخص باہر جانے کا سوچتا ہے جو تعلیم کی طرف دِھیان نہ دِیتا ہواَور نہ ہی کوئی ہنر سیکھنے میں دِلچسپی لے۔ وہ خود یا اُس کے ماں باپ ایجنٹ کے ذَریعے اُسے باہر بھیج دِیتے ہیں۔ پہلے پہل لوگ عرب ممالک میں جایا کرتے تھے۔ اَب یورپ کا رخ اِختیار کرلیا ہے۔و ُہاں جانے میں اَور یہاں یورپ میں آنے میں فرق صرف اِتنا ہے۔ و ُ ہاں سے آپ پاکستان آ، جا سکتے ہیںبشرطیکہ آپ باقاعدہ کام کے وِیزے پر گئے ہوں۔ اِس کے برعکس یورپ سے بھی آپ جب چاہیںوَاپس جاسکتے ہیں لیکن وَاپس آنا چاہیں تو مشکل ہے۔ لڑکے لاکھوں رَوپیہ دِے کر یورپ آتے ہیںبنا پیپروں کے وَاپس جانا کم ہی پسند کرتے ہیں۔ ہاں اَگر یہ ڈِیپورٹ کر دِیں تو علیحدہ بات ہے۔ میرا تو مشورہ ہے باؤ آدم، اَگر یہاں مستقل رَہنا ہے یا تو کسی گوری سے شادی کرلو یا سیاسی پناہ کی دَرخواست دِے دَو۔ کیونکہ یونان میں اِمیگریشن کھلنے کے چانس کم ہی ہیں۔ شادی کرکے تمہیںپاسپورٹ مل جائے گا لیکن تمہیں اَپنا مذہب بدلنا پڑے گا۔ یہ یونان کا قانون ہے۔ اِیک دَو لڑکوںنے شادِیاں کرکے پاسپورٹ لیئے ہیں۔کرسچن بھی ہوگئے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ہم صرف پاسپورٹ کے لیئے ظاہراًکرسچن بنے ہیں۔ اَندر سے تو مسلمان ہیں۔ خیر یہ اُن کا اَپنا دِین اِیمان ہے۔ ہاں اِیک چانس اَور ہے۔ اِٹلی۔ اْنھوں نے ۱۹۹۰ میں بھی کافی لوگوں کو کاغذ دِیئے تھے۔ مَیں نے سُنا ہے کہ وہ شاید پھر اِمیگریشن کھولنے وَالے ہیں‘‘۔
آدم نے کہا،’’لیکن ہم و ُہاں جائیں کے کیسے‘‘؟
نواز نے برجستہ جواب دِیا، جیسے وہ اِس سوال کے تیار تھا، ’’جس طرح اِدھر آئے ہو۔اِیک دَفعہ پھر ڈَنکی لگانی پڑے گی‘‘۔
آدم نے نواز سے پوچھا،’’اَگر اِٹلی نے اِمیگریشن کھولی تو آپ اِٹلی جائیں گے‘‘۔
اِس نے جواب دِیا،’’نہیں باؤ آدم،مَیں جاکر کیا کروں گا۔ یہاں یونان میںتین چار سال کام کرکے وَاپس چلا جاؤنگا۔ پہلے فوج میں پندرہ سال اِدھر اُدھر بھٹکتے گزار ے ہیں اَور اَب یہاں۔ مَیں چاہتا ہوں کچھ وَقت اَپنے ماں باپ اَور بیوی بچوں کے پاس گزاروں‘‘۔
٭
آدم کھیتوں میں کام کر رَہا تھا اَور داؤد لکڑی کی فیکٹری میں۔دَونوں کے مالی حالات بہتر ہوگئے تھے۔ اِس دَوران اسلم گجر اُن کی کسی نہ کسی بہانے بے عزتی کردِیا کرتا۔لیکن اَب اِنھیں اِتنا محسوس نہ ہوتا۔ اِک عادَت سی بن چکی تھی۔ اَب اَگر وہ بے عزتی نہ کرتا ۔ تذلیل و تضحیک نہ کرتا تو اِنھیں عجیب سا لگتا۔ آدم اَور داؤد اِسی اِنتظار میں تھے کہ اِٹلی کی اِمیگریشن کھلے تو وہ ڈَنکی کے ذَریعے و ُ ہاں چلے جائیں کیونکہ پیپر میرج کا کوئی چانس نہیں تھا۔اَصلی شادِی کر کے وہ مذہب کی قربانی دِینا نہیں چاہتے تھے۔سیاسی پناہ کا کیس بھی زیادہ عرصہ نہ چلتا۔ بہتر یہی تھا کہ وہ غیرقانونی طور پے رَہتے ۔ وَیسے بھی سیاسی پناہ کی دَرخواست دِینے سے اِن کی اُنگلیوں کے نشان لے لیئے جاتے۔ اَگر اِیک دَفعہ فنگر پرنٹس لے لیئے جائیںتو پورے یورپ میں سیاسی پناہ کی دَرخواست دِینے کے چانس کم ہوجاتے ہیں۔کیونکہ جہاں بھی آپ جائیں گے وہ آپ کو جس ملک میں پہلی دَفعہ سیاسی پناہ کی درخواست دِی تھی۔و ُہاں بھیج دِیں گے۔ اِس کا فائدہ یہ بھی تھا۔ اَگر ڈَنکی کے دَوران پکڑے گئے، تو دَو صورتیں ہوسکتی تھیں۔ اِیک توسیاسی پناہ کی دَرخواست دِے سکتے تھے دَوسرا ڈِیپورٹ ۔اَگر ڈَنکی کامیاب ہوجاتی ہے تو آپ اِٹلی کی حدود میں سیاسی پناہ کی دَرخواست دِے سکتے ہیں۔
٭
داؤد گاہے بگاہے گھر وَالوں کو رَقم بھیجتا رَہتا لیکن آدم کو ہر ماہ رَقم بھیجنی پڑتی۔اَب وہ سوچ رَہا تھا کہ اَگر اِٹلی جانا پڑگیا تو اِسے ڈَنکی کے لیئے کم اَز کم ہزار ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ پھر و ُ ہاں رَہنے کا خرچہ۔ خیر اَبھی وہ کونسا جارَہا تھا۔ نہ ہی اِمیگریشن کھلنے کے کوئی آثار نظر آ رَہے تھے۔ اِس لیئے اِس بارے میں اِس نے سوچنا ہی چھوڑ دِیا ۔
٭
آدم کو اِیک دِن جانے کیا سوجھی۔ اَسلم گجر سے پیپر میرج کا پوچھ بیٹھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اَسلم گجر کو یہ باتیں پسند نہیں۔تو اَسلم گجر نے اِس کی حسبِ معمول بہت بے عزتی کی۔کہنے لگا، ’’کل کے چھوکرے ہیں اَور اِن کی سپیڈ دِیکھو۔ہمیں چھ چھ سال ہوگئے ہیں،اَبھی تک ہمیں اِن باتوں کا پتا ہی نہیں اَور اِن کو دِیکھو۔۔۔۔۔رَقم لگتی ہے پُتر۔ اَگر کیس خراب ہوجائے تو لینے کے دِینے پڑجاتے ہیں‘‘۔ آدم کو پتا نہیں تھا پیپر میرج کیا بلا ہے۔ بس اِتنا سُن رَکھا تھا ،پیپر میرج بھی کاغذ بنانے کا اِیک طریقہ ہے۔
اَسلم گجر پھر بولا، ’’اِس کے لیئے اِیک عدد لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے اَور تمہیں زبان بھی تو نہیں آتی۔ اِس کے علاوہ برتھ سرٹیفیکیٹ، اَن میرڈ سرٹیفیکیٹ اَور سب سے بڑھ کے گھر کا پتا۔ اَگر تم باقی چیزوں کا اِنتظام کر بھی لولیکن ڈَومیسائل کا اِنتظام کرنا بہت مشکل ہے۔ کم از کم مَیں تو تمہیںکبھی بھی نہ دَونگا‘‘۔
محمد نواز بیچ میں بول پڑا، ’’اَسلم صاحب بس بھی کریں اُس نے صرف پوچھا ہی ہے ۔کون سا لڑکی ساتھ لے آیا ہے‘‘۔
اَسلم گرجا،کیونکہ جب وہ بول رَہا ہو تو کبھی بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ کوئی اِسے دَورانِ گفتگو ٹوکے، ’’اُو تو بیچ میںمت بولو اُؤئے فوجی‘‘۔
محمد نواز اَگر چاہتا تو اَسلم گجر کے سارے کس بل نکال دِیتا لیکن اِسے اَپنے بیوی بچوں کا خیال آگیا اَور وہ چپ رَہا۔
آدم کو ایک بات کی سمجھ نہ آئی۔ وہ جب بھی اِمیگریشن یا پیپر میرج کی بات کرتا تو اَسلم گجر کو بہت بُری لگتی۔
٭
اَسلم گجر آج پھر عیاشی کا پروگرام بنا رَہا تھا۔اَپنے دَوستوں سے مشورہ کررَہا تھا۔ وہ اِس بات سے بالکل بے خبر تھا کہ آدم سُن رَہا ہے۔
’’یار وہ اُزبکستان کی سلمیٰ ہے نا۔۔۔آج اُسے لے کر آؤ،اَور ہاں بلیک لیبل بھی ۔دَو بوتلیں لانا‘‘۔
اَسلم کے دَوستوں نے پوچھا، ’’یار تم لڑکوں پے اِتنی سختی کیوں کرتے ہو‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’تمہیں پتا نہیں۔ میرا بندہ اِس طرح کے ڈَنکی لگا کر آنے وَالوں لڑکوں کو ، جو ترکی کے رَاستے آتے ہیںوہ اِنھیں گھر لے آتا ہے۔ مَیں اِن کو کام دِلاتا ہوں۔یہ گھر مَیں نے بینک سے قرضہ لے کر خریدا ہے۔ یہ لوگ جو کرایہ دِیتے ہیںاِس سے بینک کی قسط اَدا ہوجاتی ہے اَور کچھ بچ بھی جاتے ہیں۔ اَگر نرمی سے پیش آؤں تو پَر پُرزے نکال لیں گے۔ اِیک دَو لڑکوں نے اِٹلی جاکر کاغذات بنا لیئے۔
ُ و ُہاں جاکر مجھے دَھمکیاں دِیتے ہیں۔ اِیک پنڈی کالڑکا تھا۔ اُس نے یونانی لڑکی سے شادِی کرلی۔ اَب اُسے پاسپورٹ مل گیا ہے۔ ما۔۔۔۔(گالی دِیتے ہوئے) نے مذھب بھی بدل لیا ہے۔کیونکہ یہ یونان وَالے بنا مذھب بدلے اَپنا پاسپورٹ نہیں دِیتے۔ کہتا ہے مَیں کون سا دِل سے کرسچن ہوا ہوں۔ کاغذات کی خاطر اِیمان تو گیا نا۔ اَب اُس میں بڑی اَکڑ آگئی ہے۔ حالانکہ میرا آدمی جب اُسے اَ لیکسندراپولس سے اُٹھا کر لایا تھا، تو تین دِن کا بھوکا تھا۔ اَور تو اَور میرا گھر کا کرایہ اَور کھانے پینے کا خرچہ بھی نہیں دِیکر گیا۔ اُس کا حساب کاپی پر لکھا ہوا ہے۔ مَیں اُس پے مقدمہ اِس لیئے نہیں کرسکتا کیونکہ مَیں قانوناً کرایہ دار نہیں رَکھ سکتا۔ اَور اَگر اِٹلی کی اِمیگریشن کھل جاتی ہے تو اِن لڑکوں کی ڈَنکی کا اِنتظام بھی مَیںہی کرونگا۔ اِس میں مجھے ٹھیک ٹھاک کمشن ملے گا۔ اِس لیئے تو شہزادیو ہم نے پاکستان میں پلازہ خرید لیا ہے۔ وَرنہ محنت مزدوری کرو، گوروں کو ٹیکس اَدا کرو اَور بالکل خالی ہاتھ رَہو‘‘۔
٭
مقدس شاعری کا منفرد شاعر ضیغمؔ زیدی
شاعری ایک خدا داد ملکہ ہے۔یہ خاص الخاص غیبی امداد کی عطا کردہ نعمتِ مترقبہ ہے۔جس کو یہ فن ملتا...