وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا، اس کا پہلا تاثر زائل ہو چکا تھا کہ کچھ نہیں ہے، دوسرے تاثر نے اس کے پاؤں جکڑ لیے کہ کچھ ہے۔۔۔ اس نے ایک ننھے سے ہاتھ کو بلند ہو کر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ گھڑی میں صبح کے سات بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔۔۔ کیا میں اب بھی نیند میں ہوں؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ وہ رکا اور واپس مڑا، آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کچرے کے ڈھیر کی طرف آیا جس کے کنارے ایک بڑا سا سفید رنگ کا خون آلود شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اس کے اندر جھانکا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔ شاپنگ بیگ میں خون میں لت پت ایک بچہ آنکھیں بند کیے پڑا تھا وہ الٹے قدموں واپس بھاگا اور بہت دور جا کر رکا۔ وہاں سے پلٹ کر ایک بار پھر کچرے کی طرف دیکھنے لگا۔
اسے یک بہ یک ایسی بہت سی کہانیاں اور فلمیں یاد آ گئیں جو ناجائز بچوں کے متعلق تھیں۔۔ وہ اگلے کچھ پل میں سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ ناجائز بچے کا ہی ہے۔ وہ بچہ رو کیوں نہیں رہا، کیا وہ مر چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اسے یاد آیا کہ اس نے بچے کے ننھے سے ہاتھ کو بلند ہوتے دیکھا تھا۔ گویا وہ زندہ ہے۔۔۔۔ وہ بچہ زندہ ہے تو اسے رونا چاہئیے۔۔۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کیونکہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ بچہ دنیا میں آتے ہی چلانا شروع کر دیتا ہے رو رو کر اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ یہ اپنے ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا؟ کیا یہ نہیں ہے؟ ممکن ہے یہ اپنے ہونے پر شرمسار ہو یا اپنے وجود سے مکر چکا ہو۔ اس نے سوچا جس بچے کی ماں ہی اسے ٹھکرا دے وہ اپنے ہونے کا اعلان کر کے کیا کرے گا۔۔
یکدم اسے بچے پر ترس آ گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ یہ کراچی کا وہ علاقہ تھا جہاں کے لوگ نو دس بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتے تھے اور ابھی صرف سات بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے۔ سورج ایک طرف سے سر نکال کر اسے سوالیہ نظروں سے تکنے لگا۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس بچے کو شاپنگ بیگ سمیت اٹھا لے اور گھر لے جا کر نہلا دھلا کر اچھے اچھے کپڑے پہنائے۔۔۔۔
وہ دو چار قدم آگے بڑھا مگر رک گیا۔ اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے دس بچے ہیں جن کی حالت بھوکے ننگے کچرا چننے والوں جیسی ہو رہی ہے کیونکہ اس کی تنخواہ بہت قلیل تھی اتنی تنخواہ میں تو دو بچے بھی زیادہ تھے۔ مگر نہ تنخواہ دینے والوں کو ہی کبھی شرم آئی نہ اس نے نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے کا سوچا۔ بچے نے ایک بار پھر ہاتھ بلند کیا۔ وہ ننھا سا ہاتھ سفید رنگ کا تھا۔ یقیناً اس کی ماں بہت گوری چٹی ہو گی، جب وہ نو ماہ تک مادر رحم میں رہا ہو گا تو چپکے چپکے اس نے اپنی ماں کی ساری خوبصورتی اور ادائیں خود میں سمو لی ہوں گی۔ یہ سوچ کر کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو ماں اسے دیکھ کر کہے گی کہ میرے لعل تو تو بالکل مجھی پر گیا ہے رے۔۔۔ اور پھر وہ اس کے صدقے واری جائے گی، اس کی بلائیں لے گی، اسے سینے سے لگا کر بھینچ لے گی، اسے اپنی چھاتی کا دودھ پلائے گی۔۔
مگر۔۔۔ ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔ بچے کا ہاتھ ایک بار پھر اٹھا اور گرا۔ کیا اس بچے کو بھوک لگی ہے اور وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر اپنی ماں کو بلا رہا ہے؟ اس نے سوچا۔ تب اسے بچے پر دوسری بار ترس آیا، وہ بھوک کے عذاب سے واقف تھا۔۔۔ اکثر وہ خود بھی بھوکا رہتا تھا۔
وہ ایک نئے عزم کے تحت آگے بڑھا مگر جلد ہی رک گیا اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے بچے کل رات سے بھوکے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ صبح صبح ہی اٹھ گیا تھا اور اب اپنے ایک دوست کے گھر ادھار مانگنے جا رہا تھا اس نے فریاد کی۔ اے خدا تو ان بچوں کو کیوں دنیا میں بھیجتا ہے جو بھوک سے بلکتے ہیں رات کو سونے نہیں دیتے یا پھر علی الصبح کچرے کے ڈھیر پر پائے جاتے ہیں۔۔۔ اس نے ناراض ہو کر خدا سے بہت سارے شکوے کیے اور واپسی کا ارادہ کیا مگر بچہ شاپنگ بیگ میں اس طرح کسمسایا جیسے اپنے زندہ بچ جانے کی آخری امید بھی کھو رہا ہو۔ اس بار اس کا ننھا سا ہاتھ بھی بلند نہیں ہوا۔۔۔ شاید ہر گزرنے والے پل کے ساتھ اس میں گلوکوز کی کمی واقع ہو رہی تھی اور اب اس میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ ہاتھ اٹھا کر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔۔۔
خود غرضی کہہ رہی تھی کہ اپنے بچے زیادہ اہم ہیں جو کل رات سے بھوکے ہیں، اسے فی الفور ان کے لیے ناشتے کا بندوبست کرنا چاہئیے اس نے تھیلی میں رکھے بچے سے منہ پھیر کر اپنا راستہ ناپنا چاہا مگر جیسے زمین نے اس کے پاوں پکڑ لیے ہوں۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا۔ اس نے دیکھا آسمان پر چیلیں جمع ہو رہی ہیں اور بچہ ساکت ہو چکا ہے۔
دور کسی مسجد سے چندے کی اپیلیں شروع ہو چکی تھیں، گنتی کے چند نمازیوں کے لیے قیمتی قالین، سنگ مرمر کے وضو خانے ائیرکنڈیشن اور ہر طرح کی آرائش و زیبائش کے باوجود مولوی کا جی نہیں بھرا تھا اور جانے اب کس سلسلے میں مانگ رہا تھا، اسے بھوک سے بلکتے بچوں یا کچرے کے ڈھیر ہر چیلوں کا ناشتہ بن جانے والے بچے سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اچانک وہ ٹھٹھک کر اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔ اس نے جلدی سے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا، واقعی وہاں چیلیں گردش میں تھیں پھر اس نے غور سے تھیلی کی جانب دیکھا۔ تھیلی ساکت تھی۔ کیا بچہ واقعی مر چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور تب اس کا دل صدمے سے چور چور ہو گیا۔۔۔
جہاں دس بچے پل رہے تھے وہاں گیارہواں بھی شامل ہو جاتا تو کیا تھا، اس نے بالآخر خود کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ جی بھر کر لعنت ملامت کی اور مردہ قدموں سے اپنے راستے پر جانے لگا۔ آگے ایک موڑ مڑنے سے پہلے اس نے آخری بار پلٹ کر دیکھا اور تب وہ جتنی قوت سے بھاگ سکتا تھا کچرے کی سمت بھاگا۔۔ ننھے سے بچے کا اٹھا ہوا ہاتھ اسے اپنی طرف بلا رہا تھا۔۔۔
٭٭٭
صفر کی توہین پر ایک دو باتیں
اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی...