رات گئے، شہر کے نیلگوں اندھیرے میں دور کہیں ایک سریلی دل دوز پاٹ دار آواز بلند ہوتی ہے۔ کبھی ہم میں … تم میں بھی راہ تھی… تمہیں یاد ہو … اجی کہ نہ یاد ہو…‘‘ رفتہ رفتہ یہ صدا دور ہوتی ہے اور نجّن میاں اپنے خوب صورت گھر کی آرام دہ خواب گاہ میں پلنگ پر کروٹ بدل لیتے ہیں اور چپ چاپ پڑے دیوار کو تکتے رہتے ہیں۔ نجّن میاں کی چہیتی بیوی رقیّہ بچے کے رنگین گجراتی پنگوڑے کی ڈوری پر ہاتھ رکھے رکھے سو جاتی ہے، کلاک کی ہری سطح پر سفید سوئی آگے سرکتی رہتی ہے۔ رات یوں ہی گزر جائے گی۔
نجّن میاں لیڈر، فلسفی، شاعر، ادیب، انٹلکچوئل، ہیرو، کچھ بھی نہیں ہیں، بے حد معمولی، غیر معروف، سیدھے سادے آدمی ہیں، مگر کیا ایک سیدھا سادا آدمی زندگی کی ناقابل فہم بھول بھلیاں پر غور نہیں کر سکتا؟ نجّن میاں ایک مرنجان مرنج انسان ہیں (ان کا اصلی نام جان کر کیا کیجئے گا) اٹھارہ برس سے بمبئی میں ملازم ہیں۔ ماموں کی بیٹی سے بیاہ ہوا ہے۔ تین بچّے ہیں۔ بڑا لڑکا علی گڑھ میں پڑھ رہا ہے۔ منجھلی لڑکی میٹرک میں ہے۔ چھوٹا بچّہ ابھی شیر خوار ہے۔ نجّن میاں کا بقیہ کنبہ ’’وطن‘‘ یعنی شمالی ہند میں رہتا ہے۔ دو سال میں ایک بار جا کر وہ سب سے مل آتے ہیں۔ زندگی آرام سے کٹ رہی ہے۔۔۔
نجّن میاں ان لاکھوں انسانوں میں سے ہیں جو صبح کو بسوں اور لوکل ٹرینوں میں بیٹھے دفتر جاتے نظر آتے ہیں۔ شام کو سنیما دیکھ لیتے ہیں اور اتوار کے روز بیوی بچّوں کے ساتھ آرے کولونی کی سیر کر آتے ہیں۔ نجّن میاں کی زندگی کی کہانی میں کوئی خاص بات نہیں۔ نجّن میاں جب آج سے اکیس سال پہلے علی گڑھ میں پڑھتے تھے تو ایک بار گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے ماموں کے ہاں رائے بریلی چلے گئے۔ ماموں کی لڑکی رقیّہ سے ان کی ٹھیکرے کی مانگ تھی اور وہ ان سے پردہ کرتی تھی۔ نجن میاں اس رشتے سے بہت خوش تھے، اور آج بھی خوش ہیں، اور وہ بیس سال کی رفیق اس کھڑکی کے نیچے بستر پر لیٹی غنودگی کے عالم میں بچے کا گجراتی پالنا جھلا رہی ہے۔ باہر ناریل کے پتّے سرسرا رہے ہیں۔ دیوالی آنے والی ہے محلے کے بچے ’’ایٹم بم‘‘ چلاتے چلاتے تھک کر اپنے اپنے گھروں میں سو چکے ہیں۔ رات بڑی سنسان ہے۔ اتنے بڑے بھیانک پرچھائیوں کے شہر کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ نجّن میاں کے ماموں کی کوٹھی رائے بریلی کی سول لائنز میں تھی۔ (ماموں سب جج تھے اور حال ہی میں تبدیل ہو کر لکھیم پور کھیری سے رائے بریلی آئے تھے) رقیّہ نے پردہ کر کے بور کر رکھا تھا اور ماموں کے باقی بچے خرد سال تھے۔ نجّن میاں جب گھر میں پڑے پڑے اکتا جاتے تو سائیکل اٹھا کر سایہ دار سڑکوں پر سے گزرتے دیہات کی طرف نکل جاتے اور سنسان راستوں پر پہنچ اونچی آواز میں گانا شروع کر دیتے۔ انہیں موسیقی کی دھت تھی۔ علی گڑھ کی نمائش میں اکثر لاؤڈ اسپیکر پر گایا کرتے تھے۔ کلاسیکل میوزک بھی سیکھ رکھی تھی۔
ایک روز نجّن میاں اسی طرح سائیکل پر ہوا خوری کرتے، بشاش و تر و تازہ، شہر سے بہت دور آموں کے باغ میں پہنچ گئے۔ بادل گھر آئے تھے اور بارش آنے والی تھی نجّن میاں سائیکل سے اتر کر سستانے کے لیے باغ کی سمت بڑھے۔ وہاں انہیں ایک پرانی باؤلی نظر آئی۔ باؤلی کی منڈیر پر ایک بہشتی چپ چاپ اکڑوں بیٹھا چلم پی رہا تھا۔ نزدیک ہی برگد کے نیچے کسی فقیر کا تکیہ تھا اور ایک بزرگ کھاٹ پر بیٹھے کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر نیا پختہ کنواں تھا اور رہٹ چل رہا تھا۔ باؤلی کے قریب پہنچ کر نجّن میاں نے ارادہ کیا کہ بہشتی سے ایک کٹورا پانی مانگیں کہ اچانک آم کے جھنڈ میں سے کوئل کی کوک جیسی ایک آواز بلند ہوئی اور رام پوری چاقو کی طرح سیدھی ان کے دل میں اترتی چلی گئی۔ اور وہ گیت بھی کیا تھا۔۔۔
دقیانوسی۔ ’’چھا رہی کالی گھٹا… اجی ہاں … چھا رہی کالی گھٹا… جیا مورا لہرائے ہے۔‘‘ نجّن میاں نے مبہوت ہو کر چاروں طرف دیکھا۔ سوتے سوتے بھیگے بھیگے سنّاٹے میں باغ کے پتے پتّے کو نیند سی آ رہی تھی۔ نجّن میاں نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ جدھر سے گیت کی آواز بلند ہو رہی تھی۔۔۔
باؤلی اور پگڈنڈی کے درمیان ایک ہری بھری کھائی سی تھی جس میں چولائی کے پودے اگ آئے تھے۔ کھائی کی دوسری طرف سنسان کچی سڑک کے کنارے ایک بھورا مکان کھڑا تھا۔ مکان کے پچھواڑے کی دیوار سڑک کے رخ پر تھی۔ اس دیوار میں کائی لگے پر نالوں کے درمیان چار ہرے روشن دان نظر آ رہے تھے۔ باہر سے صرف یہ روشن دان ہی دکھائی دیتے تھے۔۔۔
جس طرح ہمیں کبھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ دوسرے انسانوں کی زندگیوں کے اندر کیا کچھ گزرتا رہتا ہے۔ گیت اسی روشن دانوں والے کمرے میں گایا جا رہا تھا۔ کمرے کی کھڑکی اور دروازہ پہلو میں ایک شکستہ چبوترے پر کھلتا تھا۔ دروازے پر چق پڑی تھی۔ چبوترے کے برابر آنگن کی اونچی دیوار تھی اور ڈیوڑھی۔ ذرا فاصلے پر احاطے کے کچے، نم صحن کے ایک کونے میں شاگرد پیشہ تھا۔ اس کے صحن کی دیوار پر باہر ایک مشک کھونٹی پر ٹنگی تھی۔ دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا۔ صحن کے اندر بٹول کی نارنگیوں کا پیڑ کھڑا تھا۔ احاطے کے پیچھے آم کا گھنا باغ۔
گیت دفعتاً تھم گیا۔ چند لحظوں بعد گانے والی نے ایک اور دقیانوسی غزل شروع کر دی۔ جو ایک زمانے میں گلی کے لونڈے گاتے پھرتے تھے۔ ’’وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا … اجی تمہیں …‘‘ نجّن میاں ٹھٹھک کر سنا کیے۔ گھٹائیں جھوم کر اٹھیں اور چھما چھم مینہ برسنا شروع ہو گیا۔ نجّن میاں گھبرا کر ایک چھتنار درخت کے نیچے ہولیے۔ ’’سنو ذکر ہے کئی سال کا۔۔۔‘‘
’’حق اللہ!‘‘ درگاہ کی طرف سے ایک جگر پاش نعرہ بلند ہوا نجّن میاں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، اور پھر بھورے مکان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی…‘‘ بھورا مکان، ہرے روشن دان آندھی آنکھوں کے ایسے، بٹول کی نارنگیوں کا پیڑ، آم کے جھنڈ، باؤلی اور تکیہ اور برگد۔۔۔ سب ایک ناقابل برداشت نحوست، ویرانی اور الم کی دھند میں لیٹے پانی میں بھیگا کیے۔۔۔
’’کبھی ہم بھی تم بھی تھے۔۔۔‘‘
بارش کا زور ذرا کم ہوا۔ نجّن میاں سر جھکائے سائیکل کی طرف بڑھے اور سول لائنز روانہ ہو گئے۔ رات بھر وہ آواز نجّن میاں کے حواس پر چھائی رہی۔
دوسرے روز دوپہر کو انہوں نے پھر اس گاؤں کا رخ کیا۔ آدھے راستے میں انہیں بارش نے آ لیا۔ نجّن میاں بھیگتے بھاگتے باؤلی پر پہنچے، سامنے مکان خاموش پڑا تھا۔ نہ بہشتی، نہ کبوتر والے بزرگ، نہ وہ الو ہی کی آواز۔ ہو کا عالم طاری تھا۔ میاں پسینہ پسینہ ہو گئے۔ اب ان پر انکشاف ہوا کہ وہ اس آواز پر عاشق ہو گئے ہیں۔ مغنیہ کون ہے۔ اس سے ان کو کوئی غرض نہ تھی۔ گرہستن؟ پتریا میراثن یا ڈومنی؟۔۔۔
نجّن میاں حیران پریشان باؤلی کی منڈیر پر بیٹھے رہے اور گھنٹہ بھر بعد بے نیل و مرام واپس گھر آ گئے۔
تیسرے روز سہ پہر کو نجن میاں گانا سننے کی امید میں پھر وہاں جا پہنچے۔ جی میں سوچ لیا تھا کہ اگر کسی نے پوچھا کہ روز کیوں آتے ہو تو کہہ دیں گے درگاہ پر منت ماننے آتے ہیں۔ اتنے میں گانے کی آواز پھر بلند ہوئی۔ سنگیت کے سچے رسیا نجن میاں بے اختیار کھنچے ہوئے جا کر مکان کی دیوار کے نیچے کھڑے ہو گئے لڑکی نے انترہ اٹھایا تو نجن میاں جھنجھلا گئے۔۔۔
’’بی بی ماتیبر لگاؤ۔۔۔ تیبر!‘‘ انہوں نے ڈپٹ کر کہا۔
اس ڈانٹ پر کھڑکی کا پٹ ذرا سا کھلا، دو بڑی بڑی سیاہ آنکھوں نے درز میں سے جھانکا اور پٹ زور سے بند ہو گیا۔ خاموشی چھا گئی۔۔۔
نجن میاں نے ذرا نڈر ہو کر آہستہ سے دستک دی۔ ’’بی بی قدرت نے تمہارے گلے میں نور بھر دیا ہے۔ بس ذرا سرگم پر محنت کر ڈالو۔۔۔‘‘
انہوں نے بڑے خلوص سے مشورہ دیا۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ نجن میاں چند منٹ تک دیوار کے نیچے کھڑے رہے، پھر باؤلی کی سمت چل پڑے۔ ایک بار پلٹ کر دیکھا کھڑکی بدستور بند تھی۔
ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر بہشتی شاگرد پیشے سے نکلا اور باؤلی پر آ کر ڈول بھرنے میں مصروف ہو گیا۔ ’’سلام علیکم‘‘ نجن میاں نے کہا۔
’’والے کم سلام‘‘ بہشتی نے جواب دیا۔ اس کی دونوں ہتھیلیاں اور ساری انگلیاں زخمی تھیں اور زخم بہت بھیانک معلوم ہو رہے تھے۔
’’تمہارے ہاتھوں کو کیا ہو گیا ہے میاں بہشتی؟‘‘ نجن میاں نے سگریٹ جلاتے ہوئے پوچھا۔ قریب کے کنویں کا پانی شرر شرر کرتا شفاف نالیوں میں سے گزر کر باغ میں جا رہا تھا۔
’’ساری عمر رسے کی رگڑ لگتی رہی ہے میاں۔‘‘ بہشتی نے چرخی پر سے رسہ کھینچ کر ڈول باہر نکالتے ہوئے بے نیازی سے جواب دیا، اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو غور سے دیکھا۔ گویا پہلی بار اپنے زخم اسے نظر آئے ہوں۔ اس کے بعد اس نے نجن میاں پر نظر ڈالی۔ ’’میاں آپ تو کل پرسوں بھی ادھر آئے تھے۔ کیا کام ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ میں نے سنا تھا یہ۔۔۔ یہاں درگاہ پر ایک شاہ صاحب رہتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں، ہاں۔۔۔ حاجی کبوتر شاہ۔ وہ سامنے بیٹھے ہیں چھپر تلے۔۔۔ چلے جائیے۔ مگر آج کون دن ہے۔۔۔ جمعرات؟ وہ آج کسی سے بولتے چالتے نہیں۔ افطار کے بعد سیدھے مراقبے میں چلے جائیں گے۔۔۔ ‘‘ بہشتی نے مشک بھری۔ اسے پھرتی سے پیٹھ پر لادا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
نجن میاں کی ہمت نہ پڑی کہ اس مکان کے باسیوں کا کچھ اتہ پتہ لگا سکیں۔ بہشتی بھورے مکان کی طرف بڑھ گیا۔
نجن میاں جھنجھلاتے ہوئے تکیے کی طرف بڑھے۔ شاہ صاحب منڈیر پر بیٹھے تسبیح پھیر رہے تھے۔ نجن میاں قریب جا کر بظاہر بڑی عقیدت سے سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ شاہ صاحب تسبیح پھرایا کیے۔ نجن میاں عاجز آ کر کچھ دیر بعد گھر لوٹ آئے۔
چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں۔ دو تین روز بعد نجن میاں پھر آم کے باغ پہنچے (اس گاؤں کا نام کریم گنج تھا) اور مکان کے نیچے جا کر سائیکل کی گھنٹی بجائی۔ کھڑکی ذرا سی کھلی اور پھر بند ہو گئی۔ عجیب بات تھی۔ کیا اس مکان میں بھوت رہتے تھے؟ کوئی آدم زاد نظر ہی نہیں آتا تھا۔۔۔ نجن میاں آخر علی گڑھ کے کھلندڑے تھے۔ کھڑکی کے قریب جا کر کہا۔ ’’بی بی ہم تمہاری آواز کے مرید ہیں۔ ایک گلاس پانی بھجوا دو۔‘‘
’’ادھر دروازے پر آ جائیے۔‘‘ اندر سے جواب ملا۔ نجن میاں گھوم کر دروازے پر پہنچے۔ کواڑ ذرا سا کھلا۔ مراد آبادی کٹورا سرکا کر باہر رکھ گیا۔ نجن میاں ہاتھ تک کی جھلک نہ دیکھ سکے۔ پانی پی کر انہوں نے پوچھا۔ ’’گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟‘‘
’’ابا اماں ہیں۔۔۔ اور کون ہوتا؟‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے بی بی؟‘‘
’’جمال آرا‘‘ ساتھ ہی تلخ سی ہنسی۔ ’’گانا کس سے سیکھتی ہو؟‘‘
’’کسی سے بھی نہیں! مجھے گانا سکھانے کون آئے گا؟‘‘
’’گھر میں گراموفون ہے؟‘‘
’’ہے۔۔۔ ٹوٹا پھوٹا، اللہ مارا۔‘‘
’’تمہیں جو ریکارڈ چاہئے ہوں، بتا دو میں لادوں گا۔‘‘
’’کیا کیجئے گا ریکارڈ لا کر۔‘‘
’’تمہارے ابا کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’ابا۔۔۔؟ ججی میں منصرم تھے۔ فالج گر گیا۔ کھاٹ پر پڑے ہیں۔۔۔‘‘
’’بہن بھائی۔۔۔؟‘‘
’’دو بھائی تھے۔ خدا گنج گئے۔ بہن کوئی نہیں، بس میں ہی ہوں، اللہ ماری۔‘‘ اس ویرانے میں کون جوان لڑکی اپنی زندگی سے نالاں نہ ہو گی۔۔۔
نجن میاں نے دل میں سوچا۔
بارش گھری کھڑی تھی۔ وہ لڑکی کو خدا حافظ کہہ کر اور اس کے چہرے کی ذرا سی جھلک بھی دیکھے بغیر جلدی سے سائیکل سنبھال کر گھر بھاگے۔ دوسرے روز وہ لکھنؤ گئے اور امین آباد سے اپنی پسند کے چند ریکارڈ خرید کر واپس رائے بریلی پہنچے۔۔۔
ریکارڈوں کا ڈبا کیریر سے باندھ کر پہنچے سیدھے کریم گنج۔۔۔ منصرم صاحب کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ ذرا سا کھلا۔ چوڑیوں کی جھنکار سنائی دی۔ نجن میاں نے ریکارڈوں کا ڈبا اندر سرکا دیا۔ جمال آرا بے حد ممنون معلوم ہوئی۔۔۔
نجن میاں کو ایسا لگا جیسے اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں کیوں کہ جب وہ بولی تو اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
’’شکریہ‘‘۔ اس نے کہا۔
’’تمہارے والدین کچھ کہیں گے تو نہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ جمال آرا نے بلا جھجک جواب دیا۔۔۔
اور نجن میاں کو ذرا تعجب ہوا۔ چند لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے پوچھا۔ ’’تم سخت پردہ کرتی ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ جمال آراء نے اسی رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ اب ایسا معلوم ہوا جیسے وہ چپکے چپکے رو رہی ہو۔
’’اچھا تو میں کنویں پر جا کر بیٹھتا ہوں، تم کچھ گاؤ، میں صرف تمہاری آواز سننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا گاؤں؟‘‘ جمال آرا نے فرماں برداری سے پوچھا۔ ’’جو دل چاہے۔‘‘ نجن میاں نے کہا اور سر جھکائے کنویں پر چلے گئے۔
’’تجھے ہو سیر چمن مبارک، مگر یہ راز چمن بھی سن لے
کلی کلی خون ہو چکی تھی شگفتِ گل ہائے تر سے پہلے‘‘ لڑکی نے اسی طرح اچانک گانا شروع کر دیا۔ جیسے گراموفون ریکارڈ پر سوئی رکھ دی۔ جائے برگد تلے کبوتر شاہ آنکھیں بند کر کے جھومنے لگے۔ ان کے دو دیہاتی مرید چولہے پر ان کے افطار کے لیے زردہ تیار کرنے میں مصروف تھے۔ کیوں کہ کبوتر شاہ سال کے بارہ مہینے روزہ رکھتے تھے۔ برسات کی بھیگی فضا میں بھیگا بھیگا دھواں اوپر اٹھتا رہا۔ بہشتی نے اپنے دروازے سے سر نکالا اور پھر اندر غائب ہو گیا۔ باغ میں کوئل زور سے کوکی۔ جمال آرا کی آواز ہرے روشن دانوں والے کمرے سے بلند ہو کر سارے باغ میں پھیل گئی۔ کڑے کمان کے تیر ایسی آواز موسم برشگال کی دھندلی، سیال آوازوں پر حاوی آ گئی۔
’’کہاں کہاں اڑ کے پہنچے شعلے یہ ہوش کس کو یہ کون جانے
ہمیں بس اتنا ہے یاد اب تک لگی تھی آگ اپنے گھر سے پہلے‘‘
مرید چولہا سلگاتے سلگاتے آپس میں باتیں کرنے لگے۔
’’جمالا بٹیا شاہ صاحب کے لیے کھیر دے گئی ہیں۔‘‘ ایک مرید نے تام چینی کی رکابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’سویرے بجار گئی تھیں۔ بندو خاں کے ساتھ لالہ کی دوکان پر کھڑی رو رہی تھیں۔ لالہ نے ان کا طوق بھی مار لیا۔ دے سود پر سود۔ دے سود پر سود۔ اللہ کی سان ہے۔‘‘
’’ہاں چھجو بھائی۔ اللہ کی سان ہے۔‘‘ نجن میاں غور سے سننے لگے۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ سخت پردے میں رہتی ہے۔ اور یہ لالہ کی دوکان اور سود کا کیا قصہ تھا؟
’’یہ نالہ کیوں ہے، یہ نغمہ کیوں ہے یہ آہ کیسی یہ واہ کیسی
یہ پوچھ لے آئینے کے دل سے، نہ پوچھ اپنے جگر سے پہلے‘‘
دفعتہً نجن میاں کا جی بھر آیا وہ جلدی سے سائیکل کی طرف لپکے اور گھر جاتے ہوئے طے کر لیا کہ اب کریم گنج اور اس المناک ماحول کا رخ نہ کریں گے۔ آدمی کے لیے اپنی پریشانیاں ہی کیا کم ہیں جو پرائے دکھ بھی سمیٹ لیے جائیں۔ جانے کیا جھمیلا ہے کیا نہیں۔ مگر یہ آواز ہمیشہ یاد رہے گی۔
دوسرے روز نجن میاں کے والدین شادی کی تاریخ مقرر کرنے علی گڑھ سے رائے بریلی گئے۔ بڑا ہنگامہ اور چہل پہل رہی۔
ہفتہ بھر بعد علی گڑھ روانہ ہونے سے پہلے وہ آخری بار کریم گنج گئے۔ باغ پر حسب معمول سناٹا طاری تھا، جس میں ڈول سے پانی گرنے، رہٹ چلنے اور نالیوں میں پانی بہنے کی مدھم آوازیں سرسرا رہی تھیں۔ بھورے مکان کی ڈیوڑھی پر یکہ کھڑا تھا۔ ایک چار سالہ بچی سرخ غرارہ پہنے بڑے سلیقے سے سر ڈھانپے ڈیوڑھی کے اندر جا رہی تھی۔ بہشتی کے دروازے پر چند عورتیں کھڑی تھیں۔ چند منٹ بعد ایک با ریش بزرگ میلی سی شیروانی پہنے بھورے مکان کے اندر سے نکلے اور یکہ پر بیٹھ گئے۔ یکہ کچی سڑک پر ہچکولے کھاتا ہوا بڑھ گیا۔ تو بہشتی ڈیوڑھی سے برآمد ہوا۔ اس کی نظر نجن میاں پر پڑ گئی جو برگد تلے دل گرفتہ سے کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ بڑبڑاتا ہوا ان کی جانب آیا۔ ’’سلامالے کوم۔‘‘ اس نے درشتی سے کہا۔
’’سلاں علیکم۔‘‘ نجن میاں نے علی گڑھ کے انداز میں جواب دیا۔
’’آئیے بیٹھیے یہاں میاں۔‘‘ بہشتی نے اپنے گھر کے سامنے پڑی ہوئی کھاٹ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
نجن میاں اس کے ہم راہ چلتے ہوئے آ کر کھاٹ پر بیٹھ گئے۔
’’آپ روج روج جمالا بٹیا کا گانا سننے اتنی دور سے آتے ہیں۔‘‘ بہشتی نے چلم سلگاتے ہوئے کہا۔ نجن میاں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ کبوتر شاہ کا ایک مرید سرکھجاتا آ کر کھاٹ کی پائنتی بیٹھ گیا۔ تکیے کے چھپر پر کبوتروں نے غڑ غوں غڑغوں کر کے مار ایک آفت مچا رکھی تھی۔
’’حکیم صاحب کا کہت رہے؟‘‘ مرید نے بہشتی سے پوچھا۔
’’حالت ناجک ہے۔‘‘ بہشتی نے جواب دیا۔
اور سر اٹھا کر بٹول کے سنتروں کی ڈالیوں کو دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ماتھے پر انگلی دو دفعہ بجائی
’’مکدر۔ مکدر کے آگے جمن بھائی کسی کی نہیں چلتی۔‘‘ مرید نے لمبا سانس لے کر زور سے نعرہ لگایا ’’اللہ ہو۔۔۔‘‘
نجن میاں لرز گئے۔ ’ ’’کیا ہوا۔ خیریت؟‘‘ انہوں نے بہشتی سے سوال کیا۔ ’’کھیریت۔۔۔؟ ارے چل چلاؤ ہے۔‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’منصرم صاحب کا۔ اور کس کا۔ اب آگے اللہ کا نام ہے۔‘‘
’’چل چلاؤ ہے۔ سب کا چل چلاؤ ہے۔‘‘ مرید نے آنکھیں بند کر کے ذرا جھومتے ہوئے زیر لب دہرایا۔
بہشتی نے دفعتہً سر اٹھا کر کہا ’’جائیے میاں۔ آپ اپنے گھر جائیے۔‘‘
’’بندو خاں۔‘‘ مکان کے صحن میں سے ایک عورت نے پکارا۔ ’’اے تم پر اللہ کی سنوار۔ سارے گھڑے خالی پڑے ہیں، اور تم بیٹھ گئے مسکوٹ کرنے۔‘‘
بہشتی نے کھاٹ سے اٹھ کر دیوار سے ٹنگی ہوئی مشک اتاری اور نجن میاں پر نظر ڈالے بغیر پھرتی سے باؤلی کی سمت چل دیا۔ نجن میاں نے گھڑی دیکھی ٹرین کا وقت قریب تھا۔ انہوں نے ایک بار بند کھڑکی اور ہرے روشن دانوں پر نظر ڈالی اور سائیکل پر سوار ہو گئے۔۔۔
تم جو کچھ بھی ہو اور جو کوئی بھی ہو، بے چاری بچی۔ اللہ کے حوالے۔ انہوں نے دل میں کہا اور تیزی سے سائیکل چلاتے رائے بریلی جانے والی سڑک پر آ گئے۔
نجّن میاں کو اس وقت یہ احساس اتنی شدت سے نہ ہوا تھا کہ وہ جو کوئی بھی اور جو کچھ تھی اس کی انہوں نے اس سمے کوئی مدد کیوں نہ کی۔ پشیمانی اور جرم کا یہ احساس عمر پختہ ہونے پر، زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد ان کو ستانے والا تھا۔ نجّن میاں کی شادی ہو گئی کچھ عرصے بعد بمبئی میں ملازمت مل گئی اور وہ بیوی سمیت یہاں آ گئے، اور یہ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ انہوں نے کسی سے اپنے اس احساس جرم کا ذکر نہیں کیا۔ رقیّہ سے بھی نہیں۔ شریف اور نیک دل ہونا بھی ایک عذاب ہے۔
اتنے عرصے بعد، ایک ہفتے سے نجّن میاں کو یہ آواز روزانہ رات کو خواب میں سنائی دے رہی تھی۔ آج رات وہ جاگ اٹھے اور چونک کر کھڑکی سے باہر دیکھا، جہاں خاموش سڑک کی نیلی روشنی میں درختوں کے پتے جھلملا رہے تھے۔ دو رویہ عمارتیں خوابیدہ تھیں (گلشن ہند ریستوراں، شیریں کھمباٹا ہاؤس، نور بائی بلڈنگ، چٹ پٹ ڈرائی کلینرز، سارا شہر) لیمپوں کے ان کھمبوں کے نیچے، اکثر رات کو کوچہ گرد گویّے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہارمونیم، دو تارہ یا وائلن بجا بجا کر بھیک مانگتے ہیں۔
نجّن میاں بستر سے اٹھ کر کھڑکی میں آ گئے، مگر سڑک خاموش پڑی تھی۔ یقیناً یہ گانا میں نے خواب ہی میں سنا ہے۔ انہوں نے سوچا اور واپس آ کر پلنگ پر لیٹ رہے۔ کئی مہینے، شاید ایک برس گزر گیا۔ وقت بھی عجب مسخری شے ہے۔ ہم اتنے مزے سے کہتے ہیں وقت گزر گیا، حالانکہ وقت گزرنا اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم قبر کے زیادہ نزدیک پہنچ گئے اور کیسی زندگی گزار کے؟ کتنی بے انصافیاں اور ذلتیں سہہ کے؟ زندگی یا قدرت یا قسمت کی کتنی ستم ظریفیوں کا نشانہ بن کے؟ اور جب مر جائیں تو سب کی قبریں ایک سی معلوم ہوتی ہیں۔ دکھ سہنے کے لیے بھی تو بار بار تھوڑا ہی پیدا ہوں گے۔
ایک روز نجّن میاں دفتر سے لوٹ کر حسب معمول سیدھے اپنے کمرے میں جا کر پلنگ پر لیٹ گئے۔ کیوں کہ دفتر سے گھر تک ٹرین کا سفر شام کے بھیڑ بھڑکے میں ہلکان کر دیتا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے حسب عادت منتظر تھے کہ رقیہ اندر آ کر گرم گرم چائے کی پیالی انہیں تھما دے گی۔ مگر رقیہ پچھلے برآمدے میں دلّی دالی پڑوسن اور دوسری ہمسایوں کے ساتھ مل کر کسی بات پر قہقہے لگانے میں مصروف، شاید یہ بھول ہی گئی تھی کہ میاں دفتر سے آ گئے۔ اچانک قہقہوں کو پچھاڑتی ہوئی ایک بے حد ٹرّی آواز نے للکار کر ’’اے ہائے بیگم۔ نام بڑا اور درشن۔ آخ تھو۔ اتنے بڑے گھر کی رانی اور در پر آئے سوالی کو کیا دیتی ہیں۔ حاتم کی قبر پر لات مارنے والی۔ اے دیکھنا ایک چونی، پاپوش مارتی ہوں تمہاری چونی پر آؤ بندو خاں چلو اٹھو۔‘‘
’’اے توبہ کیا ہوا سے لڑنے والی لگائی ہے!‘‘ بقیہ خواتین نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
کمرے کے اندر نجّن میاں بور ہو کر آنکھیں بند کیے چائے کے منتظر رہے۔ ’’شرم کرو بیگمو۔ تف ہے۔ تف۔ ’’بڑی آواز چیخی‘‘ اب جو یہ بندی ادھر کا رخ کرے تو‘‘
’’اچھا ایک غزل اور سنا دو تو پورا ایک روپیہ دیں گے۔‘‘ دلّی والی کی بھاوج نے کہا۔
’’نہیں غزل نہیں۔ لے گئی دل گڑیا جاپان کی سناؤ۔‘‘ دوسری پڑوسن کی لڑکی نے فرمائش کی۔
بڑا سخت شور مچ رہا تھا۔ محلے کی یہ سب عورتیں اکٹھی ہو جائیں تو کس قدر چائیں چائیں کرتی ہیں۔ نجّن میاں نے کروٹ بدلی۔
جہاں ان کا پلنگ بچھا تھا وہاں دروازے میں سے برآمدے میں جمع عورتیں تو نظر آ رہی تھیں مگرجس عورت سے وہ سب مخاطب تھیں وہ دیوار کی اوٹ کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
’’اچھا وہ گجل سنا دو جو پہلے سنائی تھی ابھی۔ کبھی ہم میں تم میں بھی … اجی راہ تھی…‘‘
نجّن میاں سن سے رہ گئے۔ ان کو لگا جیسے ان کا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ ان پر ایسا سکتہ طاری ہوا کہ وہ لیٹے لیٹے اپنا سر بھی نہ اٹھا سکے۔ گانا ختم ہوا۔ عورتیں ایسا معلوم ہوتا تھا شاید مسحور سی ہو چکی تھیں۔ ایک دم پھر غل مچا۔
’’اب گڑیا جاپان کی۔‘‘ ایک لڑکی چلائی۔
’’اور تم شادی کس سے کرو گی۔ ذرا یہ تو بتاؤ کوئی ہے نظر میں؟‘‘ ایک اور پڑوسن نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے سوال کیا۔
’’اے ہے۔ اللہ کے غضب سے ڈرو لڑکیو کیوں اس غریب کو تنگ کرو ہو‘‘۔ یہ دلّی والی کی بوڑھی ساس کی آواز تھی جو شور و غل سن کر اپنے فلیٹ سے نکل کے صحن میں آ گئی تھیں۔
’’سلام بیوی۔۔۔ سلام‘‘ گانے والی نے ذرا ممنون آواز میں ضعیفہ کو سلام کیا۔
’’سلام۔ سلام۔‘‘ دلّی والی کی ساس مونڈھے پر بیٹھ گئیں۔ ’’اے ہے۔ نگوڑی کم بخت دکھیا ماری۔ اے لڑکیو۔ تم کو اس کا مذاق اڑاتے شرم نہ آئی۔ اے تیری کتنی عمر ہو گی بختوں جلی؟‘‘
’’بیالیس برس، بیگم صاحب‘‘
’’بیالیس برس!‘‘ خواتین کا حیرت زدہ کورس ہوا۔
’’اللہ کی شان ہے!‘‘ رقیّہ نے کہا۔ ’’ہاں
اللہ کی شان ہے۔‘‘ دلی والی نے کہا۔
’’اور نام کیا ہے تمہارا؟‘‘ رقیہ نے پوچھا۔
’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ۔ میرا نام جمال آرا ہے بیگم صاحب۔‘‘
’’بڑا جگرا ہے تمہارا بیوی۔ گلی گلی گھوم کر دنیا بھر کی باتیں سنو ہو۔ مذاق اُڑاؤ ہو اپنا۔‘‘ دلّی والی کی ساس نے کہا۔
’’جب قدرت نے میرے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیا ہے بیگم، تو میں دنیا والوں کے مذاق اڑانے کی کیا پرواہ کروں؟ اور گلی گلی نہ گھوموں تو کھاؤں کیا اپنا سر؟ ذرا یہ تو بتاؤ؟‘‘ عورت نے چمک کر جواب دیا۔
’’کہاں کی رہنے والی ہو۔ ادھر کی تو معلوم نہیں ہوتیں۔‘‘
’’ضلع رائے بریلی تھانہ کریم گنج۔‘‘
’’ماں باپ ہیں، مر گئے؟ کیا کرتے تھے؟‘‘ عورتوں کی عادت ہے کہ ہر بات کی کرید۔
’’مر گئے نگوڑے۔ ذرا زردہ دینا۔ اے ہے، لکھنؤ کا زردہ ہے۔ ابّا منصرم تھے۔ ہمارے۔ مانو نہ مانو۔۔۔ مجھے کون پروا ہے۔ آ جاؤ بندو خاں، چلیں۔‘‘
’’اے ہے۔ ٹھہر تو کم بخت کہاں بھاگی جاتی ہے۔ کون سا تیرے گھر پر تیرا خصم اور بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ ہاں اور بتا اپنے حالات‘‘۔ دلّی والی کی بھاوج نے جن کو افسانے پڑھنے کا بڑا شوق تھا، بڑی دل چسپی سے پوچھا۔
’’کیا بتاؤں؟ اپنا کلیجہ؟ اے بندو خاں، ادھر آ جاؤ، اندر۔ سنا دو رام کہانی۔ یہاں بڑی محفل لگی ہے۔ نقشے جمے ہیں۔‘‘ اب ایک بوڑھے آدمی کی کھنکار کی آواز آئی۔ جو شاید اب تک باہر اپارٹمنٹ بلاک کے پھاٹک پر بیٹھا تھا۔ اس نے صحن میں آ کر گلا صاف کیا اور اس میکانکی انداز سے جیسے سینکڑوں مرتبہ یہ داستان دہرا چکا ہو کہنا شروع کیا۔
’’بیگم صاحب ان کو تین برس کی عمر میں جبر جست بخار آ گیا تھا۔ بخار اتر گیا مگر اس کے بعد قد بڑھنا بند ہو گیا۔ حکیم، بید، اور اس کا نام لیجئے۔۔۔ داگدر۔ اوجھے، سیانے، سب ٹرائی کیے ان کے باپ نے مگر یہ نصیبوں جلی اتنی بڑی ہی رہ گئی۔ کیا کرو۔ مکدّر۔ ابّا دیوانی کی عدالت میں ملازم تھے۔ اپنا ذاتی مکان تھا۔ سب کچھ تھا۔ مل بس قسمت نہیں تھی۔‘‘
’’چچ چچ چچ‘‘۔ سامعین نے کہا۔ ’’پھر بیگم صاحب، ان کے باوا کو لقوہ مار گیا۔ وہ مر گئے۔ پھر مہتاری چل بسیں پھر میں اور میری گھر والی ان کو اپنے ہاں لے آئے۔‘‘
’’تم کون ہو اس کے۔ ان کے۔؟‘‘ رقیہ نے پوچھا۔
’’ان کے گھر کا بہشتی ہوں۔ برسوں ان کا نمک کھایا ہے۔‘‘
’’چچ۔ ہا۔‘‘ دلّی والی کی ساس بولیں۔ ان کے لہجے میں سچّی ہمدردی کی جھلک محسوس کر کے بوڑھے نے داستان جاری رکھی۔
’’مکان بیس روپیہ مہینہ کرائے پر اٹھا دیا۔ میں سقہ ہوں ذات کا۔ میرے لڑکے آوارہ نکل گئے۔ لکھنؤ جا کر وہ تو بن گئے شہدے۔ ادھر میرے ہاتھوں کے زخم بڑھ گئے تو کام چھوٹ گیا۔ سوچا بیٹا کا مکان بکوا دوں تو دو وقت کی روٹی کا بندو بست ہو جائے۔ مہاجن کا کرجہ منصرم صاحب پر پہلے سے چڑھا ہوا تھا۔ پھر آپ جانو ہندوستان پاکستان ہو گیا، مکان کے دام دو کوڑی کے نہیں رہے۔ اجی مکان تو کیا بکتا منصرم صاحب کے مرنے کے بعد مہاجن نے اس کی کرکی ہی کروا لی مجھے اس کے شاگرد پیشے سے نکلنا پڑا۔ اور صاحب‘‘۔ بوڑھا دم لینے کو رکا۔ پھر ہم سب جا کر کبوتر شاہ کے چھپّر تلے پڑ رہے۔ یہ بیٹا جمعرات کی جمعرات نعتیں گاتی تھیں۔ اللہ سے ڈرنے والے چار پیسے دے جاتے تھے۔ پھر صاحب میری گھر والی لڑھک گئی۔ پھر کبوتر شاہ کے تکیے پر جانے کہاں سے آ کر چرسیے مدکیے جمع ہونے لگے۔ تب میں نے کہا۔ بُندو خاں اب یہاں سے کوچ کرو۔ میں نے بیگم صاحب بیٹا کو کندھے پر بٹھالا اور بھیک مانگنے نکل پڑے دونوں جنے۔ مگر جس شہر میں باپ منصرم تھے اس میں بیٹا کو بھیک مانگتے لاج آتی تھی۔ ہم لوگ لکھنؤ چلے آئے۔ وہاں کئی برس بھیک مانگی۔ پھر کسی نے بتایا کہ بمبئی بڑے دھنوانوں کا شہر ہے۔ وہاں چلے جاؤ، تو ٹکٹ کٹا کر یہاں چلے آئے۔ ورلی پر جھگی ڈال لی، وہاں سے میونسپلٹی والوں نے اٹھا دیا تو ادھر اُدھر فٹ پاتھوں پر سونے لگے۔ دن میں دو ڈھائی روپیہ کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ چلو اٹھو بیٹا، کیا یہیں سویرا کر دو گی۔ رات تھوڑی سوانگ بہت۔ آؤ چلیں۔‘‘
خواتین مبہوت بیٹھی تھیں سب نے کچھ سکّے بھکاریوں کی طرف پھینکے جن کے فرش پر گرنے کی آواز نجّن میاں کو اندر سنائی دی۔ دفعتاً عورت نے گانا شروع کر دیا
’’میں نے لاکھوں کے بول سہے۔ میں نے لاکھوں کے بول سہے۔‘‘
گانا ختم ہو گیا تو نجّن میاں نے ڈرتے ڈرتے ذرا سا اٹھ کر کھڑکی میں سے باہر جھانکا۔ ایک بونی بڑا لمبوترا سا چہرہ، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، قد چار برس کی بچّی کے برابر، سفید غرارہ پہنے، گلابی ململ کے دوپٹے سے سلیقے کے ساتھ سر اور ماتھا اس طرح ڈھانپے جیسے عورتیں نماز پڑھتے وقت سر اور ماتھا ڈھانپتی ہیں۔ صحن کے فرش پر سے سکّے چن کر اٹھی۔ لکھنؤا انداز سے جھک کر اس نے بیگمات کو سلام کیا۔ پھر بچوں کی طرح گودی میں اٹھائے جانے کے لیے بوڑھے کی سمت بانہیں پھیلا دیں۔
بوڑھے نے یا دستگیر کا نعرہ لگایا چگی سفید داڑھی والا سیاہ فام دیہاتی سقّہ جس کی ساری عمر مشک اٹھاتے اٹھاتے کمر جھک گئی تھی۔ اب اپنی آقا زادی کا مختصر سا بوجھ کندھوں پر اٹھانے کے لیے سیدھا کھڑا ہو گیا۔ بونی کو اٹھا کر اس نے کندھے پر بٹھایا۔ بونی نے اپنے منے منّے ہاتھوں سے اس کا سر پکڑ لیا۔ بوڑھے نے بیگمات کو سلام کیا اور پھاٹک سے باہر نکل گیا۔ صحن میں چند لمحوں کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔
اب اندھیرا چھا چکا تھا۔ سڑک کی روشنیاں جگمگا اٹھی تھی۔ گھر گھر ریڈیو پر بے حد اونچی آواز میں فلمی گیت گونج رہے تھے۔ دیوالی آنے والی تھی۔ اور بلیک مارکیٹ کرنے والے سیٹھوں کے بچے سڑک پر ’’ایٹم بم‘‘ چھوڑ رہے تھے جن کی بھیانک آواز سے دل بلیوں اچھل پڑتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ساری زندگی میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے، زندہ لاشوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں، انسان اپنی لاشیں خود اپنے کندھوں پر اٹھائے اس جہنم زاد میں سرگرداں ہیں، گلی میں انار چھوٹ رہے تھے۔ پھلجھڑیاں، پٹاخے اور مزید ’’ایٹم بم‘‘۔
آتش بازی کے ان دھماکوں کے بعد چند منٹ کے لیے ذرا خاموشی چھائی اور پھر سڑک کے نکڑ پر سے بونی کی آواز بلند ہوئی۔
’’وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیشتر۔ وہ کرم تھا مرے حال پر۔
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا۔ تمہیں یاد ہوا جی کہ نہ یاد ہو۔‘‘
آواز دور ہوتی چلی گئی اور ’’ایٹم بم‘‘ کے لرزہ خیز دھماکوں میں کھو گئی۔
’’اے ہے! اس نگوڑی خدائی خوار بونی کے چکّر میں دیر ہو گئی۔ میرے ہزبینڈ آفس سے آتے ہی تیز گرم سبز چائے پیتے ہیں۔‘‘ رقیّہ باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے دلّی والی پڑوسن سے کہہ رہی تھی، گجراتن ہمسائی کے لڑکے نے نجّن میاں کی کھڑکی کے عین نیچے ایک اور ’’ایٹم بم‘‘ چھوڑا جس سے کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں لرزنے لگیں۔ پھر سکوت چھا گیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...