شفیق انجم(اسلام آباد)
مجھے جُز سے نہیں کُل سے غرض ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں! اپنا آپ سامنے پھیلے ہاتھ کی لکیروں کی طرح سب کا سب میری نظر کے دائروں میں دے مارو۔ تشفی کی سیپ کے بند کھل جائیں گے۔ پھر میں تم سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ خداوند خدا کی قسم۔۔۔ یہ مت کہنا کہ پہلے تم۔ فیصلہ کر دو، بس حکم سنا دو، پھر جو ہو گا یکبارگی۔ کیا تم‘ کیا میں۔ سنتے ہو میں نے کیا کہا؟؟۔۔۔ چپ کا زناٹا ہوا میں لہرایا اور گم ہو گیا۔ سامنے پڑی چائے کی دوسری پیالی کے اس پار کا ہیولا کوندے کی طرح لپکا اور ہال کے صدر دروازے سے یہ جا وہ جا۔ اب وہ اکیلا تھا۔ اپنے آپ کو چائے کے آخری گھونٹ میں اچھی طرح گھول کر حلق میں انڈیلتے ہوئے ا س نے سوچا:یقینا جُز، جُز ہے اور کُل، کُل۔
دوسرے دن فلسفے کے لیکچر میں وہ پھر ساتھ ساتھ تھے۔ پروفیسر نے نصابی گفتگو کے بعد وائٹ بورڈ کے درمیان مارکر سے نقطہ ڈالا اور اوپر سوالیہ نشان کی ہُک بنا دی۔ یہ آج کے لیکچر کا اختتامیہ ہے۔ ہمارا پہلا اور آخری مسئلہ بس یہی ایک منحنی سا نشان۔ ہم اس نشان کو پاٹنے میں لمحہ لمحہ گھلتے ہیں۔ پاٹ چکتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ شاید ہم نے کچھ کسر باقی رکھ چھوڑی۔ سو ہم کھوجتے ہیں، پاٹتے ہیں، تھک کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں مگر ازلوں کی رہی کسر ہمیں ہٹنے نہیں دیتی۔ ہم سب اس منحنی صورت والے بُھتنے کی قید میں ہیں۔ ہم جُزجُز کریدنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ کیا آپ میری اس بات سے متفق ہیں؟ آئندہ لیکچر میں اس حوالے سے آپ کے خیالات جاننے کا مجھے اشتیاق رہے گا۔ پریڈ ختم ہوا تو وہ دونوں وہاں نہیں تھے۔
جِم میں ورزش سے پہلے وارم اپ ہونے کے لیے دو ہیولے اچھل رہے تھے۔ باقیوں سے زیادہ خوبصورت، زیادہ چاق و چوبند اور زیادہ توانا۔ پھول پنکھڑیوں سے رنگ اور رس ٹپکاتی بھر پور جوانی۔ شارٹ ڈریس پہنے وہ ورزش کرتے رہے اور کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ مسلسل تنتے نرم ہوتے مسلز میں سورج کا سا جوبن لہریے کھا رہا تھا۔ چہروں پر سرخی امڈی پڑی تھی اور عرق عرق ہوتے وجود کا رُواں رُواں گو یا تھپیڑے مارتا محسوس ہوتا تھا۔ آج رات کھانا اکٹھے کھائیں گے، ٹھیک ہے؟ دوسری طرف ذرا دیر کو چپ اور پھر۔۔ اوکے، ٹھیک ہے۔
بات سنو تو سناؤں؟ رات ملاقات پر ایک، دوسرے سے گویا ہوا۔ ہاں سناؤ۔ دل کی ورق ورق کتاب پر لکھا ہے کہ وجود کی بھوک لمس کی حدت ہے۔ وجود کو وجود سے مس کرو تو کچھ ہونے کا احساس ہمکتا ہے۔ حاصل اس کا لذت ہے، تشفی ہے۔ اخلاق، ضابطے، قانون سب ہیچ ہیں۔ اندر کی آواز دھرم ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بیج کے اندر بالا۔ موجود ہوتا ہے مگر دکھائی نہیں پڑتا۔ بیج اس کی پکار سن لے، اس کے لیے اپنا سینہ کھول دے تو دھرتی ایک نئی شے سے آشنا ہو جاتی ہے۔ پکار اندر ہی گھٹ جائے تو سڑاند بن جاتی ہے۔۔ تم سمجھ رہے ہو ناں میری بات؟؟۔۔ ہاں ہاں، بولو۔۔ سنو! میرے اور تمہارے وجود میں، جب سے ہم شناسا ہوئے ہیں، اندر کی آواز ایک ہے۔ اسے سڑاند مت بننے دو۔ لمس کی حدت سے لذت کی پنکھڑیاں کھلا دینا اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ آؤ فیصلے کے اضطراب سے ہاتھ کھینچ کر اندر دھرم کے اندھے دھندلکوں میں کود جائیں۔
دوسرے نے کندھے اچکائے اور بولا۔ اے مجھ جیسے! جو تُو سوچ رہا ہے وہی میں سوچ رہا ہوں لیکن۔۔۔ لیکن ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ تُو تو جانتا ہی ہے کہ ہمارا سماج۔۔ مذہب۔۔ اچھا چھوڑو اس ٹاپک کو، بتاؤ کھانے میں کیا لو گے۔ فرائیڈ مٹن۔۔ مختصر جواب ملا اور اس کے بعد کھانے کے دوران دونوں مسلسل چپ رہے۔ سکوت ایک پر دابے دیر تک اپنے اصیل ہونے کا ناٹک کرتا رہا کہ اچانک پہلے نے اس کے سر پر آواز کا مُکا مارا۔۔ مجھے تمہارے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا ڈئیر۔ میں دیکھتا ہوں، سنتا ہوں، بولتا ہوں، ہر بات کی گہرائیوں میں اتر کر کھرچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہوں لیکن ہر طرف تم ہی تم ہو۔ جذب کی آخری حدوں کی قسم۔’ آئی لو یو۔ آئی رئیلی لو یو اینڈ مِس یو ایور‘۔کیا کہتے ہوں تم۔ پلیز کچھ بولو کہ قرار ملے۔ ’سَیم ٹو یو‘۔ ایک جملے میں گویا کہنے والے نے پوری کائنات سمیٹ دی۔ مسکراہٹوں نے دھمال ڈالی اور دونوں کے بیچ اکڑوں بیٹھ سلامی لی۔ کھانے کے بعد پہلے ایک ہیولا تحلیل ہوا اور پھر دوسرا۔ بڑے ہال میں موجود فانوس نے ادھر ادھر جھانک کر دیکھا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
سر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سوال نہیں، سوچ ہے۔ ہم سوچتے ہیں تو الجھ جاتے ہیں۔ الجھ جاتے ہیں تو سوال کی بیساکھی سے اپنا آپ سہارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا میرے ساتھی اس کی تائید کریں گے۔ ایک نے کلاس میں بحث کا آغاز کیا اور آنکھ دباتے ہوئے پاس بیٹھے دوسرے کو دیکھا۔ باقی سب ادھر متوجہ ہو گئے۔ جی سر میں اس کی تائید کرتا ہوں اور اضافہ یہ کہ ہم اجزا کو اپنے اوپر اس طور پر اوڑھ لیتے ہیں کہ کُل کا عمل ساکت ہو جاتا ہے۔ کُل کیا ہے؟۔ نیچر۔۔ نیچر سوچتی نہیں، اپنے آپ کو محسوس کرتی ہے اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے عمل میں کوئی الجھاؤ نہیں۔ ہم نیچر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو محسوس کریں تو یقینا ہماری روانی میں خلل واقع نہ ہو گا۔ اندر کی آواز دھرم ہے۔ باقی سب ہیچ ہے۔ بحث اس کے بعد بہت دیر تک جاری رہی لیکن وہ دونوں وہاں نہیں تھے۔
۔۔۔بہار موسم میں شام سہانے سمے، جنگل پرندوں کے جھرمٹ میں بیٹھا چہک رہا تھا۔ درختوں کے بیچوں بیچ کھدے رستے پر دو ہیولے رواں دواں تھے۔ محو گفتگو۔ خراماں خراماں۔ بڑھے چلے جا رہے تھے۔ نیچر اچک لیتی ہے، فعلیت کی تمام حِسیں بیدار کر دیتی ہے، اپنے گھماؤ میں لا کر ہر شے پر جذب کی چاشنی کا روغن ڈال دیتی ہے۔۔ آؤ ڈئیر ذرا پل یہاں بیٹھتے ہیں۔۔ خمار کے اندر خمار ہونے کو، سوچ کے کتے کو دھتکار دو۔ میرے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دو کہ بے قراری کی چھاگل چھلکی پڑی ہے۔ آؤ فطرت کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر بھولپن کا جھولا جھولو۔ رس نچڑنے دو، اتنا کہ پیاس کے کٹورے لبا لب بھر جائیں۔ قریب آؤ یوں کہ جیسے پھول کے ماتھے پر شبنم نقش ہو جائے۔۔ پہلی بار ہونٹوں نے ہونٹوں کو چھوا تو سارے جنگل کو گویا آگ لگ گئی۔ لذت بل کھا کھا کرہلکان ہوئی جاتی تھی مگر دونوں نے تند گھماؤ کی بے بہرہ فعلیت کو کہیں دور ٹھہرائے رکھا۔ بس پاکیزہ لمس کی مہک تھی اور وہ۔
برسوں پہلے کسی نے کہا تھا کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے۔ غلاظت کو غلیظ تر کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ عورت کا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی قابل نفرت شے ہے تو وہ ہے عورت۔ دونوں کو وہ شخص پسند تھا۔ کیا خوب بات کتنی خوبی سے کہہ گیا۔ گھنٹوں بحثتے وہ اکثر اس کوموضوع بناتے لیکن اس کی منحنی صورت۔۔۔ دونوں کو قے سی آ جاتی۔ ڈئیر اس نے عورت کو خوب لتاڑا ہے بس یہی اس کا احسان کافی ہے، باقی سب باتوں کو چھوڑ دو۔۔۔ حرام زادیاں کہیں کی۔ اور یہ۔۔ یہ سماج اور مذہب کی طوائفیں!!۔ کیا کہوں میں ان کو۔ کاش کوئی ان کو بھی جذب کی آخری حد تک جا روندے۔۔ ہاں ہاں روندا ہے، بہت سوں نے روندا ہے لیکن ڈئیر اب کوئی بُلہا تو آنے سے رہا۔۔ لیکن شاید ہم۔۔۔ ہاں ہم روندیں گے۔ جذب کی آخری حد تک جا روندیں گے۔ بس ہمیں فیصلہ کرنا ہے، حکم سنانا ہے ، ا پنا آپ ایک دوسرے کو سونپنا ہے۔ تو کیا تم تیار ہو؟؟ ّنو نو ڈئیرپلیز جلدی نہ کرو۔آئی ہیو سم کنفیوژن سٹِل نَو۔
کنفیوژن! اف کنفیوژن۔ یہ تمہاری خرابی نہیں، یہ سب اس دور کا ابتلا ہے۔ لیکن شاید دور تو سب ایک سے ہوتے ہیں اور کنفیوژنز بھی ایک سی۔ پھر میں اسے کیا نام دوں۔ میں اپنے اور تمہارے اندر کی آواز کو بھی تو کوئی نام نہیں دے سکتا۔ نام تو بس طفل تسلیاں ہیں۔ شاید تمہارا ذہن فطری اور غیر فطری کی گتھی میں الجھا پڑا ہے۔ عورت کا عورت سے تعلق، مرد کا مرد سے تعلق اور مرد اور عورت کا تعلق۔۔ سب وجود کی بھوک ہے۔ ناموں کے گھماؤ سے ذرا نکل کر دیکھو تو سہی۔ تم یہاں مذہب کا نام میرے سامنے مت لینا۔ مذہب کی حیثیت میرے نزدیک اس لونڈیا سے زیادہ کچھ نہیں جس پر جو ہاتھ رکھ دے وہ ا سی کی ہو جاتی ہے۔ فطرت، تشفی کا عمل ہے۔ جیسے بھی ملے، جہاں سے ملے، اچک لو۔ یہی تشفی ہے، یہی فطرت ہے۔
آخری رات سے ایک دن پہلے کالج لان میں وہ بیٹھے ڈر اور خوف کو موضوع بنائے ہوئے تھے۔ یار جو تم چاہتے ہو وہ میں بھی چاہتا ہوں لیکن۔۔ لیکن مجھے خوف آ رہا ہے۔ تم نے سنا تو ہو گا قصہ ان لوگوں کا جو دھتکارے گئے۔ آسمان سے پتھر برسے اور پھر ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا، یا ان کا کہ جنہیں چنگھاڑنے آ گھیر ا اور پھر جو جہاں تھا وہیں جم کے رہ گیا۔ خوف کی چادر تلے جذب کی آخری حد تک جانا محال ہے۔ کچھ ایسا کہو کہ تشفی ہو۔۔۔ دوسرے نے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ یار بودے نہ بنو۔ یہ سب واہمے ہیں۔ جُز جُز میں بٹ جانے اور بکھر کر رہ جانے والوں کے واہمے۔ ہم ایک بڑے کُل کا حصہ ہیں۔ جو سب کے ساتھ ہونا ہے وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ یہ تو اٹل ہے کہ ہم نے ہمیشہ کو یہاں اسی حالت میں نہیں رہنا۔ کوئی چِیں کرے یا مِیں۔ تو پھر بھاڑ میں جائے یہ خوف۔ سِسک سِسک کر مرنے سے بہتر ہے کہ اپنی مرضی جیو اور سینہ تان چل بسو۔ زندگی کون سی ہمارے باوا کی جاگیر ہے۔ یا ہم نے اپنی کمائی سے ذرہ ذرہ جمع کی ہے۔ جس چیز میں ذرا پل سکون ملے، اچک لو۔ اٹھو چلیں۔
جِم میں دونوں کے درمیان اس دن مستی ڈولتی رہی۔ آج ادھر خوب دل لگ رہا تھا۔ ایک نئی طرز کا احساس ابلا پڑا تھا۔ یار ذرا ٹونی کو دیکھو۔۔ ایک نے سرگوشی کی۔ دوسرا مسکرایا۔ ہاں اچھا ہے مگر تم سے اچھا نہیں۔ سنا ہے جیکی کے ساتھ اس کی بڑی لگتی ہے۔ کوئی۔۔۔ دونوں کھکھلا اٹھے۔ بھئی تم ٹونی اور جیکی کی بات کرتے ہو یہاں تو سارا شہر پِٹا پڑا ہے۔ ایک سے ایک ٹونی، ایک سے ایک جیکی کو دبوچے بیٹھا ہے۔ شیدے مکینک سے مولوی مستان تک، چاچے نانبائی سے پروفیسر ذاکر تک۔ کس کس کا نام گنواؤں۔ بس آج ہم بھی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ کہو کیا کہتے ہو!۔۔ ٹھیک ہے، بلکہ بہت ہی ٹھیک۔ دونوں کی باچھیں کھل اٹھیں۔ شام کو بازار چلیں گے، کچھ ضروری چیزیں خریدنی ہیں۔ رات تم ہوسٹل نہیں جاؤ گے، میرے ساتھ گھر چلو گے، سمجھے؟۔۔ بالکل۔ کوئی اور حکم!۔۔ نہیں نہیں کچھ نہیں، بس ذرا سوچ کو گرہ لگا کر ادھر جِم ہی میں ڈال جانا۔
رات دونوں نے لمس کی حدت تلے پھیلی ملگجی روشنی میں اکڑوں بیٹھے گزار دی۔ سامنے پھیلے ہاتھ کی طرح دونوں نے اپنا آپ ایک دوسرے کی نظر کے دائروں میں دے مارا۔ لذت اچھل اچھل اپنا رس نچوڑتی رہی اور دونوں اس کے دائروں میں گم ہلکورے کھاتے رہے۔ سب کچھ یکبارگی ہوا۔ وقت قریب ہو ہو داد دیتا رہا۔ تشفی کی سیپ کے سارے بند کھل گئے۔۔۔۔ صبح دم کُل سے واپس پلٹتے ہوئے جُز جُز بکھرے واہموں پر دونوں نے نظر کی تو وہ جوں کے توں تھے۔ گمان گزرا کہ اب پتھر برسیں گے یا کہیں سے کوئی چنگھاڑ انہیں آ گھیرے گی۔ سو وہ سینہ تانے منتظر رہے۔ مگر عجب تھا کہ نہ کوئی چنگھاڑ ابھری اور نہ کہیں سے پتھر برسے۔