آئی فون جیب سے نکالتے ہی اسے ارصم کالنگ لکھا نظر آیا___اسے کافی حیرت ہوئی کہ اس وقت ارصم کی کال___خیر دل میں اچھے خیالات لاتے ہوئے اس نے کال پک کی___
” السلام علیکم__ خیریت صارم اتنی صبح ہی صبح ہم غریبوں کی در کیسے کھڑکائے___؟؟”سوالیہ اور مزاقیہ دونوں انداز کا امتزاج ارصم فوراً تو نہ سمجھ سکا____
“وعلیکم السلام___ہاں ہاں خیریت ہے___ اور تمہیں کتنی بار بولا ہے کہ میرا نام ارصم ہے تو پھر تو کیوں صارم صارم کرتا رہتا ہے___” غصے میں ڈپٹتے ہوئے وه عارش کو بولا___
“وه اصل میں نہ مجھے تیرا یہ نام اچھا لگتا ہے___ارصم سب بولتے تو ہیں تو میں صرف تجھے صارم نہیں بول سکتا___”
“تم نا اپنے بچوں میں پہلے بچے کا نام صارم رکھ دینا بٹ خدارا میرا نام کو نہ الٹ پلٹ کر__” ارصم نے اسے چھیڑنا چاہا___
بچوں کا ذکر آتے ہی اسے اپنی قیمتی متاعِ حیات کا خیال آیا___
ارصم کی بات کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے اس نے بات کو طول دیا___
“تم بتاؤ اتنی صبح آپکی کال کرنے کا مقصد___”عارش سیدھے کام کی بات پہ آیا___
“ہاں _وه سر کی کال آئی تھی__وه بول رہے تھے تم نے گھر آکے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا___بیٹا خیر منا لے اور پھر کال کرلے___ وه سمجھ رہے ہیں کہ تم آغا باران والے کیس کو سرے سے ہی بھول گئے ہوں تبھی ان سے کوئی ڈسکشن نہیں کی____اور پہلے یہ بتا کہ آج تو نے میرے پاس آنا تھا شام کہاں تھا تو____؟؟” ارصم نے اسے صحیح سے آڑے ہاتھوں لیا___
“ہاں یار انہیں کال کرنی تھی___وقت ہی نہیں ملا سچویشن ہی ایسی تھی نہ تیرے پاس آسکا نہ ہی سر کو کال کر سکا___سر کو پتا ہے میں اپنے کام کے کیۓ کتنا ریسپونسیبل ہوں پھر سر نے ایسا بولا____ خیر یار صبح تم میرے گھر آؤں میں سب کچھ تمہیں بتاتا ہوں____”عارش نے اسکی ہاں سننی چاہی___
“از ایوری تھنگ اوکے نہ کیپٹن____ پریشان لگ رہا ہے تو مجھے___” ارصم نے اسکے لہجے کو نظر میں رکھتے ہوئے سوچا___کیونکہ عارش ارصم کے ساتھ کافی چِل رہتا تھا___آفٹر اول وه دونوں تیسری جماعت سے ساتھ تھے__اور نیوی ، سیکریٹ ایجنٹ میں سیلکشن بھی ساتھ ہی ہوا تھا___ شاید قسمت ان کی دوستی پہ کچھ زیاده ہی مہربان تھی___
” نہیں سب ٹھیک ہے تم ملو صبح پھر بات ہوتی ہے___”
” خالی بات نہیں مجھے شوپنگ بھی کرنی ہے اپنی انگیجمنٹ کی تو تمھارے ساتھ جاؤنگا___تیرا ٹیسٹ کافی اچھا ہے___”
“چل ٹھیک ہے ڈن__ ابھی فون رکھتا ہوں___اللّٰه حافظ__خیال رکھنا اپنا___ فی امان الله___” عارش نے نیک دعائوں کے ساتھ کال ڈسکنیٹ کردی_____
پھر وه گاڑی میں موجود وه سامان أٹھانے لگا جو سیمل جلدی میں چھوڑ کر چلی گئ تھی___ اور پھر گاڑی سے نکل کے وه اندر اپنی منزل کی جانب چل پڑا جہاں اسکی منکوحہ اندر کہیں چھپی تھی____
(از_سنبل_کلیم )
اندر جاکر سیمل سیدھی امی کی قدموں میں بیٹھ گئی___اور زاروقطار رونے لگی___بیگم اکرام کی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی تو کچی نیند ہونے کے باعث پاؤں پہ دباؤں محسوس کر کے وه بھی فوراً جاگ گئیں___
سیمل نے جیسے ہی دیکھا وه اٹھ گئیں ہیں تو انکے گلے لگ کے بے اختیار ہچکیاں لینے لگی___ عارش جو کچن کے کاؤنٹر پہ سامان رکھ رہاتھا پانی کی بوتل اور گلاس دکھنے کے باعث اندازے سے ساتھ لے کر سیمل کی امی ابو کے کمرے کی طرف آگیا___اسے پورا یقین تھا وه یہی ہوگی___اور وه اسے دِکھ بھی گئی تھی___ دونوں کے مابین جو رشتہ تھا وه تو مجبور کر رہا تھا کہ جا کے اس دشمن جان کو چپ کروادے مگر بیگم کی اکرام کی موجودگی میں وه ایسا مر کر بھی نہیں کرسکتا تھا___
آگے بڑھ کر وه صرف گلاس میں پانی نکال کر ہی اس کے سامنے کر سکا تھا___ بیگم اکرام نے اسے زبردستی خود سے جدا کر کے پانی کا گلاس عارش سے لے کر پکڑایا___
جس میں سے اس نے چند گھونٹ پانی کے لیۓ اور پھر اپنی امی کی گود میں سر رکھ کر فرش پر ہی نیم دراز ھوگئی___
عارش پانی کا گلاس لے کر واپسی کچن میں جب رکھ کر آیا تو بیگم اکرام اسکے سر میں ہولے ہولے سے ہاتھ پھیر رہیں تھیں اور وه رو رو اپنی آنکھیں سوجا رہی تھی____
اچانک بیگم اکرام کی نظر سیمل کے سوجے ہوئے ہاتھ پہ پڑی تو وه اس سے پوچھنے لگیں مگر جواب ندارد___ انہوں نے جھک کر دیکھا تو وه شاید نہیں یقیناً نیند کی وادی میں اترنے کے لیۓ بے قرار تھی___ عارش جب تک بیڈ کے برابر موجود تھوڑی دور رکھے کاؤچ پہ بیٹھ گیا تھا___
سیمل کے جواب نہ دینے پہ انھوں نے عارش سے اسکے سوجے ہاتھ کی وجہ جاننی چاھی____
” آنٹی___ وه شاید انہوں نے ہاتھ کچھ دیر کے لیۓ الٹا رکھ لیا ہوگا کسی وقت تو اسکی وجہ سے سوجن آگئی___ یہ سوکر اٹھیں تو برف کی ٹکور کردیے گا___ کافی آرام ملے گا____” عارش نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا_____
“بیٹا تم بھی لیٹ جاؤ__ یہاں بیڈ پہ یا سیمل کے کمرے میں چلے جاؤ یہ تو یہاں ہی سو گئی___ اسکو اٹھا کے لیٹا دیتی ہوں اوپر میں___” بیگم اکرام پہلے عارش سے مخاطب تھیں پھر وه خود سے مخاطب ہو کر بولنے لگ گئیں__
“نہیں آنٹی میں گھر جاؤں گا بس اب کافی دیر ہوگئی___ناشتے کا سامان کاؤنٹر پہ رکھ دیا ہے آنٹی آپ لوگ کر لیجیۓ گا___” عارش نے وضاحت دینی چاہی کیونکہ جس کے ساتھ اس نے سامان لیا تھا وه تو سارا سامان چھوڑ چھاڑکر اندر آکر سو گئ تھی___
“زینب بیٹی تم نے اپنا سوٹ درزن نے پاس سے منگوالیا جو الٹر کرنے دیا تھا___” غفور صاحب کو اچانک یاد آیا کیونکہ لینے تو انہیں ہی جانا تھا___
“نہیں ابو___ میں نے فون کرکے پوچھا تھا ابھی نہیں کیا اس نے ٹھیک ___میں نے بولا تھا اسے وه انشاء اللّٰه جلد کردے گی___”
“ابو میرا تو دل بھی نہیں چاه رہا __پتا نہیں سیمل آئے گی یا نہیں ابھی تو دو دن ہی ہوئے ہیں انتقال کو ___”زینب کے بھی دل میں اکرام صاحب کی موت کا غم تازه تھا__
” بیٹا ہماری بھی مجبوری ہے___ارصم کو جانا ہے اپنے مشن پہ اس لیۓ پھر پتا نہیں کب واپسی ہو___خیر تم سیمل کو جا کے لے آنا اس کا دل بھی بھل جائے گا___” غفور صاحب کے دل میں سیمل کے لیۓ نیک تمنائیں تھیں___
“جی ابو دیکھتے ہیں پھر ____” زینب اپنے آگے کی آنے والی زندگی میں کھوتے ھوئے جواب دیا___
اگلی صبح ارصم عارش کے بیڈروم میں کھڑا اسے جگا رہا تھا___ کافی دیر کی جدوجہد کے بعد اب عارش اٹھ گیا تھا اور اب بہت بری طرح اپنے صارم پہ برس رہا تھا___
“یار میں دو دن کا جاگا ہوا تھا ابھی فجر پڑھ کر سویا تھا___اور تو نےگیاره بجے ہی سر پہ سوار ہو کر کسی کافی سخت اماؤں کی طرح اٹھا دیا___” عارش صحیح معنوں میں نیند کے خمار میں ڈوب بھی رہا تھا اور ارصم کی درگت بھی بنا رہا تھا___
“یار تو جاگ کر کیا کر رہا تھا __سب سیٹ ہے نہ کہیں کوئی لڑکی کا تو چکر نہیں___” ارصم نے بس مذاق کیا تھا پر اسے کیا معلوم تھا کہ تھوڑی دیر بعد عارش کوئی دھماکہ کرنے والا ہے___
اگلے ہی لمحے عارش خوب ہنسنے لگا اور خوب دم لگا کر بھارت کی طرح ہنسنے کے بعد گزشتہ دنوں کے سارے واقعات اس کے گوش گزار کیۓ___ سیمل کے ملنے سے لے کر صبح گھر تک چھوڑ نے کی ساری بات بتائیں___
عارش کے لیۓ یہ کافی حیرت کی بات تھی کہ پوری بات ارصم نے بلکل چپ چاپ سنی تھی___ اور اسکے برعکس ارصم پوری طرح کسی شاکڈ میں تھا___
پوری بات سننے کے بعد ارصم نے خوب گالیوں سے عارش کو نوازا___ اتنا کہ عارش کو ہنسی آرہی تھی اور ارصم کا دل چاه رہا تھا کہ اس ایک دن کے دولہے کا گلا گھونٹ دے___
“کوئی اسقدر بے حس ہوتا ہے عارش اپنے بھائی تک کو اپنے نکاح میں نہیں بلایا کمینے تو نے___ اور دعوٰے تم بڑے بڑے کرتے ہو__” ارصم کافی ڈس ہرٹ ہوا تھا مگر کیا کرتا وه تو اسکا دوست سے زیاده بھائی تھا___ کافی دیر کے منانے کے بعد آخر ارصم راضی ہو ہی گیا تھا__ پھر انہوں نے ناشتہ وغیره کرنے کے بعد شاپنگ کرنے کا اراده کیا___ اپنے ارادے کو پورا کرتے ہوئے انہیں دن گزرنے کا پتا ہی نہ چلا اور پھر عارش نے گھر آکر سر کو کال کی اور ان سے خوب ڈسکشن کی اور ان سے کال نا کرنے کے لۓ معافی بھی مانگی___
منگنی کا دن دیکھتے ہی دیکھتے آپہنچا___ سیمل کی والده نے سیمل کو زبردستی تیار کروایا تھا___ اور وه بے دلی سے تیار ہوکر شام میں ہی زینب کے گھر رکشہ لے کر چلی گئ تھی___ڈرائیور کو امی نے کسی کام سے باہر بھیجا تھا تو وه زینب کے جلدی جلدی کرنے پر رکشہ لے کر ہی چلی گئی تھی___ میک اپ کے نام پہ صرف نیچرل لپ گلوس لگایا تھا___ تو کسی کو کافی غور کرنے سے دیکھ رہا تھا___ صبح ہی عارش گھر کا چکر لگا کر گیا تھا البتہ سلمان صاحب روزانہ باقاعدگی کے ساتھ ان سب سے رابطے میں تھے___ بیگم سلمان بھی روز چکر لگاتیں تھیں شام کے وقت___ امی عدت میں تھیں اس وجہ سے سیمل کو اکیلے ہی آنا پڑا تھا___آنکھیں رونے کے باعث بے حد سوجی تھیں جو اسکے چہرے کی رونق کو چار چاند لگا رہے تھیں___
زینب اپنے روم میں تقریباً تیار ہوگئی تھی جب سیمل اسکے پاس جاکے کھڑی ہوگئی__
“ذرا اس کا بھی اسموکی میک اپ کردیں پلیز__” زینب نے پاس کھڑی بیوٹیشن کو کہا__
“سیمی یہاں بیٹھ جاؤ___عزت سے ورنہ میں نے بہت مارنا ہے تمہیں،__”زینب نے اسے ڈرانا چاہا___
کافی دیر کی پیچ و تاب کے بعد بلآخر سیمل تیار ھوگئی تھی___ تھوڑی دیر بعد سب تیار ہوکر ہال پہنچ گیۓ___
تھوڑی ہی دیر بعد لڑکے والے آگئے__ سیمل چونکہ زینب کے پاس تھی تو وه سب کو ریسیوو نہیں کرنے جاسکی___
فنکشن چونکہ کمبائنڈ تھا تو پہلے زینب کی رسم ہونی تھی پھر ارصم کی___ ارصم نے وائٹ کرتا اور اسکے اوپر بلیک واسکٹ پہن رکھی تھی___ زینب نے بھی وائٹ میکسی جس پہ وائٹ پرل کا نہایت نازک مگر دلکش کام ہوا تھا، زیب تن کر رکھی تھی___ سٹیج پہ بیٹھی وه کوئی آسمان سے اتری حور معلوم ہورہی تھی___
عارش نے ابھی تک زینب یا سیمل دونوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا___ لیکن غفور صاحب کو اچانک وہاں دیکھ کر اسے جھٹکا لگا___ ارصم جو اپنی امی اور غفور صاحب سے بات کر رہا تھا___ وه فوراً انکے پاس گیا اور انہیں سلام کیا__ غفور صاحب بھی حیرت میں تھے کہ سیمل عارش کو بھی ساتھ لائی ہے___
“انکل آپ یہاں کیسے___” عارش نے انتہائی بے بیوقوفانہ سوال کیا کم از کم ارصم اور اسکی والده کو تو یہی لگا___
“بیٹا میری بیٹی کی انگیجمنٹ ان کے ساتھ ہے__” یہ کہتے ہی انہوں نے ارصم کی طرف اشاره کیا___ جیسے ہی اس نے ارصم کو دیکھا اس نے شرماکے اپنی بتیسی باہر نکالی___ عارش کا دل چاہا اسے دانت توڑ دے___ مگر حالات کو بہتر بناتے ہوئے مجھے معلوم ہے انکل! کہہ کر جان چھڑانا چاہتا تھا مگر ارصم کی والده نے یہ جو بات بن گئ تھی جاننی چاہی___
ساری بات کلیئر کرکے اب عارش کی نظریں سیمل کی تلاش میں چاروں اطراف گرداں تھیں___
بلآخر وه اسے ڈریسنگ روم سے اپنا ڈوپٹہ صحیح کرکے نکلتی ہوئی دیکھ گئی___
روم سے نکلتے ہوئے وه زینب کے پاس جارہی تھی جب اسے خود پہ کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی___ تھوڑی ہی نظر دوڑائی تھی کہ سامنے عارش کو اپنے آپ پہ نظر مرکوز کیۓ ہوئے دیکھ کر 440 والٹ کا کرنٹ لگا___وه جو اس دن کے بعد سے عارش کے سامنے نہیں آئی تھی اسے نہیں معلوم تھا آج یوں اسکا عارش سے سامنا ہوگا ورنہ وه تو کسی قیمت یہاں نہیں آتی____
سیمل نے بلیک کلر کی نیٹ کی شرٹ اور بلیک ہی چوڑی دار پاجامہ ، اور اسکے ساتھ ہم رنگ ہی ڈوپٹہ اور حجاب لے رکھا تھا___
جو اسکے حسن کو دوبالا کر رہا تھا__
بلیک اسموکی کافی سوجی آئیز اور براؤن نیچرل کلر کی لپ اسٹک اسے کوئی اپسرا لگ رہی تھی جو سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی____
اتفاق سے عارش نے بھی بلیک ہی کرتا زیب تن کیا تھا جس پہ اسکی ہلکی بڑھی شیو ، کہنی تک فولڈڈ آستین اسے حد سے زیاده ڈیشنگ بنا رہی تھی___
عارش نے آگے بڑھ کر سیمل کو سلام کیا پھر باتوں کا سلسلہ ہی چل نکلا وه چاروں آپس میں دوست نکلے تھے ___کافی عجیب سی سرپرائز فیلنگ آرہی تھی___
ڈنر کرنے کے بعد سیمل نے زینب سے اجازت لینی چاہی___
“یار میں چلتی ہوں اب امی گھر میں اکیلی ہیں ___”
“ہاں ٹھیک ہے __ تم جاؤ گی کیسے___؟”اسوقت چاروں ایک ساتھ کھڑے تھے___ سیمل نظریں نیچی کرکے زینب سے بات کررہی تھی کیونکہ عارش مسلسل اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیۓ ہوئے تھا___
“سیمل میں چھوڑ دونگا آپکو__مجھے آنٹی سے بھی ملنا تھا___ آنٹی کو کوئی کام تھا انھوں نے مجھے بلایا بھی تھا___” عارش نے جھوٹ کا سہارا لینا چاہا کیونکہ وه جانتا تھا کہ سیمل ایسے نہیں مانے گی___
“ہاں ٹھیک ہے جیجو تمہیں گھر چھوڑ دیں گیں___” اپنے لۓ سیمل سے منسوب نام سن کر عارش کو ہنسی آگئی___ بدلے میں سیمل نے زینب کو اچھی والی گھوری سے نوازه___
تھوڑی مزید چھیڑخانی کے بعد وه دونوں پارکنگ ایریے کی جانب آگئے___ عارش نے آگے بڑھ کر سیمل کے لیۓ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا___ سیمل محظوظ ہوتی ہوئی اندر بیٹھ گئی___
وه اس بات سے انجان تھی کہ کچھ دیر میں اس کے اوپر کیا قیامت سے بھی بڑی قیامت گرنے والی ہے___
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...