ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی شاہکار تصنیف’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کا ایک مضمون ایک اخبار اور ایک رسالہ میں چھپا تھا،لیکن دو سال کے عرصہ میں اہلِ ادب نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔مجھے اس مضمون کا علم ہوا تو میں نے مضمون نگار سے رابطہ کرکے اس مضمون کو جدید ادب میں چھاپنے کی خواہش ظاہر کی۔اس سے عمران شاہد بھنڈر کو تحریک ملی اور انہوں نے مضمون میں مزید اضافے کرکے مجھے بھیج دیا۔جدید ادب شمارہ نمبر ۹میں یہ مضمون چھپتے ہی ادبی دنیا میں تہلکہ سا مچ گیا۔اس مضمون میں عمران شاہد بھنڈر نے یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی یہ کتاب ان کی تصنیف نہیں بلکہ مغربی کتابوں سے بلا حوالہ ترجمہ ہے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۰میں اس کے جواب میں جاوید حیدر جوئیہ نے نارنگ صاحب کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا دفاع جس کے بعد نارنگ صاحب پر بلا حوالہ ترجمہ کے الزام کی بجائے براہ راست سرقہ کے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔عمران شاہد نے اس مضمون کا بھرپورجواب لکھا۔پھر شمارہ نمبر۱۱میں عمران نے مزید حوالوں کے ساتھ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کیا۔عمران شاہد کے تینوں مضامین چونکہ جدید ادب میں چھپنے کے باعث انڈوپاک میں بڑی سطح پر پڑھے گئے اور ان کا چرچا اتنا عام ہوا کہ کئی اخبارات و رسائل نے ان کی مکرر اشاعت کی۔سرقہ کی نشاندہی کرنے والے ان مضامین کی اشاعت کے ساتھ جدید ادب میں نارنگ صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ خود ان کا جواب لکھیں لیکن نارنگ صاحب نے سرقہ کے الزام سے بریت کے لیے کوئی مدلل جواب دینے کی بجائے جدیدادب کی دہلی سے اشاعت میں رخنہ پیدا کر دیا۔اس کی نہایت افسوسناک اور تفصیلی روداد میرے مضمون’’جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی۔۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی مہربانی در مہربانی‘‘کے عنوان سے ’’اثبات‘‘ ممبئی کے شمارہ نمبر۳میں چھپ چکی ہے۔شمیم طارق نے ’’اثبات‘‘ میں نارنگ کے سرقوں کا دفاع کرنے کی غیر علمی کاش کی تو اشعر نجمی نے اثبات ہی میں اس کا مدلل جواب دے دیا۔
یہ مختصر روداد اس پس منظر کو واضح کرنے کے لیے بیان کی ہے،جس کے نتیجہ میں اب ارشد خالد اور ناصر نظامی کی ادارت میں عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کا شمارہ نمبر ۹بطورگوپی چند نارنگ نمبر شائع ہوا ہے۔اس نمبر میں مذکورہ بالا سارے مضامین کو پورے حوالہ جات کے ساتھ یکجا کردیا گیا ہے۔ان کے علاوہ عمران شاہد بھنڈرکا نیا مضمون’’سرقے کا کوہ ہمالیہ‘‘ بھی شامل کیا گیا ہے۔ان مضامین میں سرقوں کے اتنے اقتباسات دئیے گئے ہیں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی علمی حیثیت کو داغدار کرنے کے لیے وہی کافی ہیں۔لیکن صرف اس پر اکتفا نہیں کیا گیا۔مزید تین بڑے چیلنج بھی دئیے گئے ہیں۔۱۔نارنگ کی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳سے کے کر ۳۳۴تک صرف بیس صفحات بھی ایسے نہیں ہیں جو انگریزی کتابوں کا لفظ بلفظ ترجمہ نہ ہوں۔۲۔رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theoryسے جو سرقہ کیا گیا ہے وہ ساٹھ صفحات سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔۳۔ ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی کتاب میں شامل کر لی ہے۔دو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے لیکن نارنگ صاحب ابھی تک اپنے سرقوں کے بارے میں کھل کر کچھ بھی نہیں کہہ سکے۔بس اتنا کیا کہ میرے پبلشر کو دھمکا کر جدید ادب میں نارنگ کے خلاف کسی خط میں بھی کچھ چھاپنے سے روک دیا۔ارشد خالد نے عکاس میں یہ سارے شواہدمکمل حوالوں کے ساتھ یکجا کر دئیے ہیں،جس سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی حقیقت پوری طرح آشکار ہو گئی ہے۔
گوپی چند نارنگ نمبر کا پہلا حصہ نارنگ صاحب کے فن اور شخصیت سے متعلق ہے۔اس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مسعود حسین خاں،مشفق خواجہ،وسیم مینائی،کمارل انل،فاروق ارگلی،سکندر احمد،ارون کمار،زبیر رضوی،تنہا تماپوری اور محمد احمد سبزواری کے تاثرات و انکشافات شامل ہیں۔پروفیسر مسعود حسین خاں کی تحریر میں آدھ گھنٹہ دورانیہ کی ایک ایسی ٹیپ کا ذکر ہے جو نارنگ صاحب کی ایک طالب علم رہتاس کے ساتھ گفتگو پر مشتمل تھی اور جس میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی زبان استعمال کی گئی تھی۔یہ ٹیپ بعد میں جامعہ ملیہ دہلی میں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعہ نشر کی جاتی رہی۔مشفق خواجہ نے انہیں ساختیات ہی کا نہیں خود ساختیات کا بھی ماہر قرار دیا ہے۔انڈیا کے جاننے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ نارنگ صاحب نے اپنی دوسری شادی کے لیے بمبئی فلم انڈسٹری والوں کے معروف طریق کار کے مطابق اسلام قبول کیا،جمیل تابش نام اختیار کیا اور اسلامی طریق کے مطابق دوسری شادی کی سہولت حاصل کرلی۔بعض احباب نے اعدادو شمار کی زبان میں سوال اٹھائے ہیں کہ اردو کے فروغ کے سرکاری اداروں میں نارنگ صاحب کے اقتدار کے دنوں میں اردو زبان کا کیا بھلا ہوا؟
فضیل جعفری کے مضمون’’امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت‘‘کا ایک اہم حصہ بھی اس نمبر میں شامل کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ نصرت ظہیر،ارشد خالد،غفور شاہ قاسم،ڈاکٹر رشید امجد،احمد ہمیش اور منو بھائی کے بعض برجستہ ،دلچسپ اور فکرانگیز اقتباسات بھی اس نمبر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔اس خاص نمبر کا اداریہ پاکستان کے ڈاکٹر نذر خلیق سے لکھوایا گیا ہے اور انہیں بطور مہمان مدیر شامل کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ ڈاکٹر نذر خلیق نے’’اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی کی روایت‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ان کا اداریہ نارنگ کے سرقہ کے پورے منظر کا احاطہ کرتا ہے۔مجموعی طور پر عکاس کے گوپی چند نارنگ نمبر میں ان کے سرقوں سے متعلق سارا میٹر یکجاکردینے کی وجہ سے اس نمبر کو دستاویزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔نانگ صاحب پر غیر جانبدارانہ کام کرنے والے اس نمبر سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نیک علمی و ادبی کام میں میرا بھی تھوڑا بہت حصہ شامل ہے۔
(مطبوعہ ڈیلی جنگ لندن ۲جولائی ۲۰۰۹ء)
عکاس کے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نمبر کو آن لائن پڑھنے کے لیے اس لنک سے ڈاؤڈ کیا جا سکتا ہے۔
http://www.urdudost.com/library/index_mutafarriqat.php