۔۔۔۔پاکستان میں مذہبی فسادات کا سلسلہ کب سے شروع ہوا اور کیسے ”طالبان“عہد تک پہنچا۔اس سلسلے میں سامنے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۲ءمیں اینٹی احمدیہ تحریک اس کا نقطۂ آغاز تھی۔اس موقعہ پر جو تحقیقاتی کمیشن حکومت پاکستان کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا اُ س میں بعض بے حد اہم علماءنے اقلیتوں کے تئیں اپنے تعصبات کو کھل کر بیان کر دیا۔مثلاً اس عہد کے ایک مقتدر عالَمِ دین مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سے جب فاضل عدالت نے یہ سوال کیا کہ آپ جو سلوک پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں،اگر ہندوستان میں ہندو اکثریت ویسا ہی سلوک وہاں کی مسلم اقلیت کے ساتھ کرے تو کیا آپ کو کوئی اعتراض ہوگا؟
تب مولانا مودودی نے جواب دیا کے بے شک وہاں کی ہندو اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ملیچھوں اور شودروں جیسا سلوک کرے،مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔مولانا کا یہ ”تاریخی جواب“اپنے اصل الفاظ کے ساتھ منیر انکوائری رپورٹ میں درج ہے۔اب اس بیان کی روشنی میں آج کے ہندوستان کے مسلم کش فسادات کو دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں کو ہمارے انتہا پسندعلماءنے ہی ایسے ہولناک اور خونریز فسادات کرنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا تھا۔جس پر وہ وقتاً فوقتاً عمل کرتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔انڈیا سے قطع نظر اینٹی احمدیہ تحریک کے بعد ایک عرصہ تک پاکستان فرقہ وارانہ لڑائی جھگڑوں سے پاک رہا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں جب مئی ۱۹۷۴ءمیںربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کے ساتھ تصادم ہوا تو اینٹی احمدیہ تحریک ایک بار پھر زور پکڑگئی۔
(عجیب اتفاق ہے کہ انڈیا میں گودھرا ریلوے اسٹیشن سے شروع ہونے والا اینٹی مسلم فساد، ربوہ ریلوے اسٹیشن کے تصادم سے بڑی حد تک مشابہہ ہے۔البتہ انڈیا کے فسادات ۔۔۔۔پاکستان کے ربوہ تصادم سے اپنی ہولناکی اور وحشیانہ بربریت کے لحاظ سے حجم میں کہیں زیادہ ہیں) اس تحریک کے نتیجہ میں بعض علمائے اسلام نے ذوالفقار علی بھٹو کو یقین دلایا کہ احمدیوں کو سرکاری طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دینے سے وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بن جائیں گے۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔لیکن وہ خود ملک کے مقبول ترین لیڈر نہ بن سکے۔جنرل ضیاءالحق نے انہیں تختہءدار تک پہنچایا اور اس ظلم میں وہ بیشتر علماءجنرل ضیاءالحق کے معاون رہے جو اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک اور لبرل سیاستدان کو مقبولیت دوام کا یقین دلا چکے تھے۔
۔۔۔۔جنرل ضیاءالحق کا دور مذہبی دہشت گردی کے فروغ کا دور تھا۔افغانستان کے بدلے ہوئے سیاسی تناظر میں وہ امریکہ کی ضرورت بن گئے تھے اور امریکہ کے لئے بھی اُن حالات میں پاکستان میں مذہبی افکار کی انتہا پسندانہ روش فائدہ مند تھی۔چنانچہ محض اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لئے جنرل ضیاءالحق نے مذہبی انتہا پسندی کوفروغ دیا۔نفرتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرادیا۔کراچی میں ”ایم کیو ایم“کے قیام سے جماعت اسلامی کی قوت کا ایک گڑھ ان سے چھن گیا ۔شیعہ اور سنی فسادات کا نا مختتم سلسلہ جنرل ضیا ءالحق کے عہد میں شروع ہوا۔
۔۔۔۔جنرل ضیاءا لحق نے ایک طرف کلاشنکوف اور ہیروئن کی لعنت ملک میں عام کرادی دوسری طرف فرقہ وارانہ نفرت کو اتنی ہوا دی کہ یہ نفرت اب ہیروئن اور کلاشنکوف دونوں کے مشترکہ اثرات سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہو چکی ہے۔بے شک پاکستان کی داخلی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر کبھی کبھار انڈیا کی ایجنسیوں نے بھی چند دھماکے کرائے ہوں گے۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نفرت کا یہ زہراب ہمارے پورے معاشرے میں ہیروئن کے نشے کی طرح انجیکٹ کر دیا گیا ہے۔چنانچہ ہلاکت اور تباہی کے بیشتر نفرت انگیز مظاہرے ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔”طالبان“نے جب افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو اپنے مسلک کے علاوہ باقی سارے مسلمان مسالک پر عملاً پابندی عائد کردی۔دوسرے مذاہب کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔لیکن جب افغانستان پر امریکی بمباری ہوتی ہے تو وہ بم کسی مسلک کی شناخت نہیں کرتے ۔بلا امتیاز ہر مسلک کے مسلمان کے لئے ہلاکت لارہے ہیں۔اُدھر ہندوستان کے صوبہ گجرات میں ان دنوں میں ہندو مسلم فساد کے نام پر جو ہولناک ظلم ہوا ہے اس میں بھی کسی انتہا پسند ہندو نے کسی مسلمان کو زندہ جلاتے وقت یا شہید کرتے وقت اس سے اس کے مسلک کی بابت کچھ نہیں پوچھا۔اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر گزشتہ پچاس برسوں سے جو ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اس میں وہ کسی مسلک کی تفریق نہیں کر رہا۔جب مسلمانوں پر ظلم کرنے والے مسلک کی کسی تفریق اورتخصیص کے بغیر ظلم کرتے ہیں تو مسلمانوں کو کب ہوش آئے گا کہ وہ بھی اپنے فروعی اختلافات کی سطح سے اوپر اٹھیں اور خود کو فرقوں اور ٹکڑوں میں دیکھنے کے بجائے امت واحدہ بن جائیں۔
کیا آج کی ساری عالمی صورتحال ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟
۔۔۔۔بر صغیر کے مسلمانوں کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ بر صغیر میں اسلام کا فروغ نہ کسی مسلمان بادشاہ کے ذریعے سے ہوا نہ کسی انتہا پسند مولانا کے ذریعے سے ہوا۔جتنا اسلام پھیلا مسلمان ولیوں اور صوفیوں کے ذریعے سے پھیلا۔اولیاءاور صوفیاءنے ہمیشہ محبت کا درس دیا۔صرف مسلمانوں کے آپسی فرقوں ہی کے لئے نہیں،غیرمسلموں کے لئے بھی محبت کا درس دیا۔یہی محبت کا درس تھا جس نے اسلام کو بر صغیر پاک و ہند میں اس حد تک پھیلا دیا جتنا ہمیں آج دکھائی دیتا ہے۔آج بھی لاکھوں ہندو اور سکھ اُن صوفیاءسے،اُن اولیاءسے عقیدت رکھتے ہیں،
ان کے نام آتے ہی ان کی کدورتیں غائب ہو جاتی ہیں۔ لیکن آج بجائے غیرمسلموں کواسلام کی انسان دوست تعلیمات سے متاثر کرنے کے، پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں نے آپس ہی میں لڑنا شروع کردیا ہے۔ مذہبی عدم برداشت،عدم رواداری، اور مذہبی تشدد کے باعث آج ساری دنیا میں پاکستان کی شہرت کسی اور ہی طرح کی ہو کر رہ گئی ہے۔
۔۔۔۔وقت آگیا ہے کہ تمام مسلمان فرقے بدلتے ہوئے عالمی نقشے کاادراک کریں۔عالَمِ اسلام کے حکمرانوں کی مجموعی بے حسی کی المناک صورت حال کو بھی مدّ نظر رکھیں اور آپسی اختلافات کو فروعی اختلاف کی حد تک رکھ کرباہمی نفرتوں کا خاتمہ کرنے اور باہمی محبت کو فروغ دینے کے لئے نیک نیتی کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوں۔یہ اختلافات ختم کرنے کے آخری لمحات ہیں۔اگر ابھی بھی قوم نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر شاید اسے اپنی اب تک کی مذہبی لڑائیوں کی تلافی کرنے کا کوئی موقعہ نہیں مل سکے گا۔کیونکہ آنے والے وقت کی تاریخ اپنے پورے بہاؤکے ساتھ آرہی ہے ۔
وقت قوموں کو ایک حدتک مہلت دیتا ہے۔ اورہم اس حد کے قریب آچکے ہیں!
٭٭٭