اختر کا دل دھک سے رہ گیا۔
اس نے اپنے اردگرد نظر ڈالی۔ قریب ہی ایک کھلونا کھڑا ہوا تھا۔ یہ جو کر کا نمونہ تھا۔ اختر نے لپک کر اس کے پیروں کے پاس دکھائی دینے والا بٹن آنا کر دیا۔ اگلے ہی لمحے جوکر نے ٹھمکنا شروع کر دیا۔ اس کی گول اور بڑی بڑی آنکھوں کے رنگین بلب تیزی سے جل بجھ رہے تھے۔ کمرے میں اچھا خاصا شور ہو گیا۔ بلی جو کر کی حرکتوں سے گھبرا گئی۔ وہ اسی طرح دوبارہ پتائی پر جا چڑھی۔ جو کر مسلسل ٹیڑھا میڑھا ہو کر ناچ رہا تھا۔ اس کے منہ سے ایک تیز سیٹی جیسی آواز بھی خارج ہو رہی تھی۔ بلی نے مدھم سی آواز میں میاؤں کہا اور سلاخوں والی کھڑکی سے باہر نکل گئی۔ اسے جاتا دیکھ کر اختر نے سکون کی ایک گہری سانس لی تھی۔
ہیرا جو کسی کھلونے کے عقب میں جا چھپا تھا، اس کے پاس آ گیا۔ اختر نے مزید ادھر ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔ کیا معلوم، بلی دوبارہ کسی وقت آ جائے۔ ہیرا اور وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ دونوں طویل راہداری کے صاف و شفاف فرش پر آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک اختر کی نظر ایک آدمی پر پڑھی، وہ مخالف سمت سے چلا آ رہا تھا۔ اپنے حلیے بشرے سے وہ کوئی ملازم ہی لگتا تھا۔ وہ کچھ سوچتا ہوا نیچے دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اختر کو اس کے انداز سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے ہیرا کو تھپکا اور دونوں قریبی دروازے کے نیچے سے دوسرے کمرے میں آ گئے۔ اس کمرے کا منظر پہلے کمرے سے مختلف تھا۔ یہاں نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ پورا کمرہ قیمتی اشیاء سے آراستہ تھا۔ اختر بھر پور نظروں سے کمرے کا جائزہ لیتا رہا۔
اچانک ہیرا نے دھیمی آواز میں اسے متوجہ کیا۔ اختر نے اسے چونک کر دیکھا۔ تو ہیرا منہ سے ایک مخصوص آواز نکالنے لگا، جس کا مطلب تھا کہ اسے بھوک لگ رہی ہے۔ اختر کو بھی یاد آ گیا وہ خود بھی بھوکا ہے۔
اس نے ہیرا سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ۔۔۔ تم ہی اپنی ناک سے کچن کا ایڈریس معلوم کرو۔۔۔‘‘
ہیرا سمجھ گیا۔ وہ اس جگہ سے بھی باہر نکلے۔ ہیرا آگے آگے ہوا میں سونگھتا ہوا چل رہا تھا۔ مختلف جگہوں سے گزر کر آخر وہ ایک بڑے کچن میں آ گئے۔ وہاں ایک باورچی اپنے کاموں میں مصروف ملا۔ اس وقت باورچی پھل کاٹ رہا تھا کہ سیب کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اُچھلا اور نیچے آ گرا۔ اختر اور ہیرا اس کی طرف لپکے۔ دونوں کے لیے یہ کافی تھا۔ وہ سیب کے ٹکڑے پر ٹوٹ پڑے۔ اختر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی اصل جسامت میں ہوتا تو سیب کا یہ معمولی سا ٹکڑا چکھنے کے لیے بھی ناکافی رہتا، لیکن اس وقت صورت حال یہ تھی کہ وہ اور اس کا کتا اسی ٹکڑے سے اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔ کچن کے صاف فرش پر کچھ پانی بھی گرا نظر آ رہا تھا۔ وہاں سے دونوں نے پانی پی لیا۔ مجبوری انسان سے کچھ بھی کروا دیتی ہے۔ اختر کو اس بات کا بھر پور اندازہ ہو گیا تھا۔
ایک مرتبہ پھر وہ دونوں اس کمرے میں آ گئے جہاں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں لگ رہا تھا۔ کافی محفوظ جگہ تھی۔ ہیرا ایک کرسی کے پائے کے ساتھ لگ کر اونگھنے لگا۔ اختر کا دماغ مختلف باتیں سوچ رہا تھا۔ ان چاروں مجرموں میں سے ایک اسی جگہ آیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ اس جگہ رہتا ہے، لیکن وہ کہاں چلا گیا تھا۔ اب تک وہ یہاں نظر نہیں آیا تھا۔ اختر اس کا انتظار کرنے پر مجبور تھا۔ اس جگہ کے علاوہ اور بھلا وہ کہاں جاتا۔ شاید یہاں سے اسے کوئی ایسا سراغمل جائے، جس کی مدد سے وہ باقی مجرموں تک پہنچ سکے۔
پھر اختر بھی ہیرا کے ساتھ پڑ کر سو گیا۔ شدید تھکن اور مسلسل دماغ سوزی کے باعث وہ ایسا دھت ہو کر سویا کہ بہت سا وقت گزر گیا۔ اختر کے پاس وہ زنگ آلود سوئی اب تک تھی، جو اس کے لیے کسی تلوار سے کم نہ تھی۔ اچانک وہ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر بیدار ہو گئے۔ اختر نے متوحش نظروں سے دیکھا تو چونک پڑا۔ یہ مجرموں میں سے ایک تھا۔ گویا یہ گھر اور یہ کمرا اسی کا تھا۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی لائٹس آن کر دیں اور ایک جانب بڑھا، جہاں خوب صورت جھالروں والا پردہ لٹک رہا تھا۔ اس نے پردہ ہٹایا۔ اس کے پیچھے ایک مضبوط لکڑی کی منقش الماری رکھی ہوئی تھی۔ اس آدمی نے جیب سے ایک بڑی سی چابی نکالی اور الماری کھول کر کچھ رکھنے لگا۔ پھر اس نے الماری بند کر دی اور دروازہ کھول کر کسی ملازم کو آواز لگائی۔ ملازم کہیں سے بھاگا چلا آیا۔ تب اس نے ملازم کو وہاں کی صفائی کرنے کا کہا اور چلا گیا۔
اختر نے ہیرا سے کہا ’’چل بیٹا ہیرا۔۔۔ اپنے نصیب میں سکون نہیں ہے۔ ادھر سے نکلو، ورنہ وہ ملازم کا بچہ فرش کے ساتھ ہمیں بھی دھو ڈالے گا۔‘‘
دونوں وہاں سے نکل کر بچے والے کمرے میں آ گئے۔ لگتا تھا، ابھی بچہ ادھر ہو کر گیا ہے، کیوں کہ کھلونوں اور دوسری چیزوں کی ترتیب کچھ بگڑی ہوئی تھی۔ ایک جانب ایک ریموٹ کنٹرول پولیس کار کھڑی ہوئی تھی۔ اختر نے اس کا ریموٹ بھی اُدھر ہی پڑا دیکھا۔ دفعتاً ہیرا زور سے بھونکا۔ اختر نے دیکھا، وہی سفید بلی کھڑکی کے راستے اندر آ گئی تھی۔ اس مرتبہ اس کے تیور بڑے خطرناک لگ رہے تھے۔ اختر بڑی پھرتی سے تپائی کے نیچے گھس گیا۔ تپائی کی نچلی سطح اور فرش کے درمیان بہت معمولی فاصلہ تھا۔ بلی وہاں اپنا پنجہ بھی نہیں ڈال سکتی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ ہیرا بھی اس کے پیچھے آ جائے گا۔ ہیرا۔۔۔؟ اختر پریشان ہو گیا۔ وہ یہاں نہیں تھا۔ کہاں چلا گیا؟
پھر اس نے ایک ہوش اُڑا دینے والا منظر دیکھ لیا۔
ہیرا آگے آگے کسی بے بس چوہے کی طرح بھاگتا پھر رہا تھا اور بلی شیر کی طرح اس کے تعاقب میں بھاگ رہی تھی۔ اختر کو ایک دم ہوش سا آیا، جیسے وہ کسی ہپناٹسٹ کے ٹرانس سے آزاد ہو گیا ہو۔ ہیرا سخت مشکل میں تھا۔ اسے مدد کی فوری ضرورت تھی، ورنہ بلی اسے کسی گوشت کی بوٹی کی طرح نگل جائے گی۔
وہ دنیا کا سب سے حیرت ناک منظر تھا۔
ایک بلی ایک خونخوار کتے کو کھانے کے لیے دوڑ رہی تھی۔ اختر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح ہیرا کی مدد کرے۔ دفعتاً اس کی نظر ریموٹ کنٹرول کار پر پڑی۔ وہ لپک کر اس کے نیچے گرے ہوئے ریموٹ کے پاس پہنچا اور آن کا بٹن دبا دیا۔ کار کی اوپر کی لائٹس فوراً جل پڑیں۔ اس میں سے پولیس کے ہارن کی آواز آنا شروع ہو گئی تھی۔ کار کی چھت پر لال اور نیلی روشنی والا روٹر گھوم رہا تھا۔ اختر جوش سے بھر گیا۔ اس نے ریموٹ کا ہینڈل سنبھال لیا۔ اس کام کے لیے اسے دونوں ہاتھ استعمال کرنا پڑ رہے تھے۔ کار غرا کر آگے بڑھی۔ ہیرا اب تک بلی کو نچا رہا تھا۔ اختر نے کار کا رخ بلی کی طرف کر دیا۔ بلی نے کار کو اپنی جانب آتے دیکھا تو ٹھٹک گئی، لیکن وہ پھر ہیرا کے پیچھے بھاگی۔ بھاگتے بھاگتے ہیرا دو دیواروں کے کونے میں آ گیا۔ وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔ بلی نے اسے پھنستے دیکھا تو اس پر ایک لمبی چھلانگ لگا دی۔
اسی لمحے اختر نے جمپ کے بٹن پر پیر رکھ کر اسے دبا دیا۔ بلی کے ساتھ کار بھی اُچھلی اور ہوا میں ہی بلی سے جا ٹکرائی۔ بلی کا توازن بگڑ گیا اور وہ بری طرح چیختی ہوئی فرش پر گر گئی۔ اختر نے کار بلی پر چڑھا دی۔ اب بلی کے حواس اُڑ چکے تھے۔ وہ کار سے بری طرح خوف زدہ نظر آ رہی تھی۔ بلی ڈر کے پیچھے ہٹ گئی۔ اختر نے کار اس کی طرف بڑھائی تو بلی ایک مرتبہ پھر تپائی پر چڑھ کر کھڑکی کے ذریعے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اختر نے اپنے چہرے کا پسینہ آستین سے صاف کیا اور ہیرا کی طرف لپکا۔ وہ اپنے مالک کے قدموں میں لوٹنے لگا تھا۔
اختر نے ہیرا کے نزدیک بیٹھے ہوئے کہا۔ ’’پیارے ۔۔۔ ابھی تو نہ جانے ہمیں کیسی کیسی مصیبتوں سے نمٹنا پڑے گا اور نامعلوم کب تک یہ خواریاں برداشت کرنا پڑیں گی۔‘‘
انہیں وہاں کافی وقت رہنا پڑا تھا۔ دونوں تپائی کے نیچے گھس کر سو گئے۔ یہاں ابلی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ عمارت میں لوگوں کی چہل پہل اور روز مرہ کے معمولات جاری تھے۔ آخر رات سر پر آ گئی۔ ایک بچہ کمرے میں داخل ہوا اور آتے کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔ کمرے میں تاریکی چھا گئی تھی۔ اختر ہیرا کے ساتھ وہاں سے بڑی احتیاط کے ساتھ نکلا۔ اچانک کوریڈور میں اس نے مجرموں کے ساتھی کو دیکھا، جو اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا۔