اختر اس آدمی کے کمرے میں تھا۔ وہ آدمی رائٹنگ ٹیبل پر لیمپ کی روشنی میں کچھ لکھ رہا تھا۔ اس ٹیبل پر ٹیلی فون بھی رکھا ہوا تھا۔ اختر نہایت غور سے اسے لکھتا دیکھ رہا تھا۔ اچانک نہ جانے کیا ہوا ۔۔۔وہ لکھنا چھوڑ کر کچھ سوچنے میں مشغول ہو گیا۔ لیمپ کی روشنی میں اس کے چہرے پر فکر مندی کے آثار واضح نظر آ رہے تھے۔ معاً فون کی گھنٹی نے اسے بری طرح چونکا دیا۔ وہ وحشت زدہ نظروں سے ٹیلی فون کو دیکھنے لگا ہے جیسے وہ کوئی خوفناک جانور ہے۔ پھر اس نے اپنے اعصاب جمع کیے اور فون کا ریسیور اٹھایا۔ اس نے آہستگی سے کچھ کہا، مگر اختر نے سن ہی لیا۔
’’ہیلو۔۔۔ جمال بول رہا ہوں۔‘‘
پھر وہ دوسری جانب کی آواز سنتا رہا۔ اس کے چہرے کے نقوش تبدیل ہو گئے۔
’’کیا۔۔۔؟ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟ علی کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے ۔۔۔؟ لیکن ۔۔۔ کک ۔۔۔ کیسے؟ او۔۔۔ مائی گاڈ۔۔۔ ٹرک سے ۔۔۔ اب کیسی حالت۔۔۔ کیا۔۔۔ بہت خراب۔۔۔ سیریس ۔۔۔ کون سے اسپتال میں ہے ۔۔۔؟ ہاں ۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھا ٹھیک۔۔۔ میں ۔۔۔ میں آتا ہوں۔‘‘
اس نے ریسور رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کے منہ سے ایک تیز سسکی نکل گئی۔ وہ اپنا سینہ تھام کر آگے جھک گیا۔ ریسیور ٹیلی فون کے برابر ہی گر پڑا۔ جمال دل کا مریض تھا۔ ایکسی ڈنٹ کی خبر سن کر اس پر دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔ اس نے تکلیف کے مارے ہاتھ چلائے تو لیمپ ہاتھ کی ٹکر لگنے سے نیچے کارپٹ پر گر گیا، لیکن اتفاق سے گر کر بھی وہ روشن ہی رہا۔ اس کی روشنی کا دائرہ سامنے والی سفید دیوار پر پڑ رہا تھا۔ اختر اور ہیرا اپنی جگہ سے نکل کر گرے ہوئے لیمپ کے قریب آ گئے تھے۔ جمال نے تکلیف کے عالم میں دیوار کی جانب دیکھا تو اس کا دم لبوں پر آ گیا۔
اسے دیوار پر ایک انسان کا بڑا سا ہیولہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے ساتھ ایک کتے کا بڑا سا عکس بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بھلا کمرے میں انسان اور کتا کہاں سے آ گئے۔ وہ تو کمرے میں اکیلا ہی تھا۔ اس سے زیادہ جمال میں قوت برداشت نہیں تھی۔ اس پراسرار منظر نے اس کی حرکت قلب کو بالکل ہی بند کر دیا۔ وہ کرسی پر ہی ڈھیلا پڑ گیا اور اس کے دونوں ہاتھ پہلوؤں پر سے نیچے کی طرف جھول گئے۔
اختر کی ترکیب کار گر ثابت ہوئی تھی۔ وہ جان بوجھ کر لیمپ کی روشنی کے سامنے آیا تھا۔ ایک مجرم سے تو اس نے نمٹ لیا تھا۔ وہ آدمی بھی پروفیسر کے قاتلوں میں سے تھا، اس لیے اختر کو اس کے مرنے کا ذرا بھی ملال نہیں ہوا۔ اختر نے نیچے سے ہی دیکھ لیا تھا کہ وہ آدمی ریسیور کو فون پر رکھ نہیں سکا تھا۔ اختر نے سوچا، کیوں نا ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسے پولیس کا نمبر بھی معلوم تھا۔ چناں چہ ہیرا کو اُدھر ہی روک کر وہ آگے بڑھا اور ٹیبل سے نیچے لٹکتے ہوئے ٹیلی فون کے تار کو پکڑ کر کسی ماہر کوہ پیما کی طرح اوپر چڑھنے لگا۔ اس نے دونوں پیر ٹیبل کی ایک ٹانگ پر جمائے ہوئے تھے۔ اسے اونچائی کافی زیادہ لگ رہی تھی، لیکن اختر نے ہمت نہیں ہاری اور جان توڑ کوشش کر کے اوپر چڑھ ہی گیا۔ ٹیبل کی سطح پر آتے ہی وہ چت لیٹ کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اس مشقت نے اسے بری طرح تھکا مارا تھا۔ اس کا ننھا منا سا سینہ بری طرح پھول پچک رہا تھا۔ دل ہی دل میں وہ پروفیسر نجیب کی مغفرت کی دعائیں بھی کرتا جا رہا تھا، جس کی دریافت کردہ شعاع کی بدولت اسے ایسے حالات سے گزرنا پڑ رہا تھا۔
کچھ دیر سانسیں استوار کرنے کے بعد اختر اُٹھا اور ٹیلی فون کے پاس آ گیا۔ ٹیلی فون اسے کسی بڑے سے اسٹیج کی طرح لگ رہا تھا۔ یک بارگی اختر کی نظر کھلی ہوئی ڈائری پر پڑی، جس میں وہ آدمی کچھ لکھ رہا تھا۔ اختر ڈائری کا تازہ ترین صفحہ دیکھنے لگا۔ اسے معلوم ہوا کہ اس آدمی کا نام جمال ہے اور وہ کسی اسٹینلے نامی غیر ملکی کے لیے کام کرتا تھا۔ اس کے ساتھ دو اور مقامی بھی تھے۔ ایک کا نام علی اور دوسرے کا ہمدانی تھا۔ اختر کو یاد آیا فون پر باتیں کرتے ہوئے اس آدمی کے منہ سے علی کا نام بھی نکلا تھا۔ اختر ڈائری پر چڑھ کر اسے پڑھ رہا تھا۔ پھر اس نے الگ ہٹ کر دونوں ہاتھوں سے اس کے کئی ورق پلٹ کر پڑھ ڈالے۔ تب اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسٹینلے در اصل پروفیسر سراج خان سے فائل حاصل کرنے ہی آیا تھا، لیکن سراج خان خطرے کو بھانپ گیا اور فائل پروفیسر نجیب کے پاس امانت کے طور پر رکھوا کر خود پراسرار طور پر روپوش ہو گیا۔ کسی طرح مجرموں کو علم ہو گیا کہ وہ فائل پروفیسر نجیب کے پاس ہے، چناں چہ انہوں نے پروفیسر نجیب کو قتل کر ڈالا اور فائل لے اُڑے۔ اختر یہ سب کچھ جانتا تھا۔ اسے ڈائری سے جو کام کی معلومات ہوئیں، وہ کچھ فون نمبر اور ایڈریس تھے۔ اس نے وہ ایڈریس اور فون نمبر ذہن نشین کر لیے۔ پھر وہ فون پر چڑھ گیا اور وہ اپنے پیروں کی مدد سے بٹن دبانے لگا۔ پولیس کا نمبر اسے ازبر تھا۔ نمبر ڈائل کر کے وہ جلدی سے ریسیور کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور دعا کرنے لگا کہ کوئی فون اٹھا لے۔ بیل جانے کی آواز اسے واضح طور پر سنائی دے رہی تھی۔ پھر اختر ایک دم ڈگمگا گیا۔
دوسری جانب سے کسی نے پولیس اسٹیشن کا حوالہ دے کر ہیلو کہا تھا۔ وہ آواز اختر کو اتنی گرج دار اور گونجیلی لگی تھی، جیسے اس کے جسم سے ہوا کا انتہائی تیز جھکڑ آ کر ٹکرایا ہو۔ اختر جلدی سے ماؤتھ پیس کی طرف منہ کر کے چلا کر بولا۔ ’’ہیلو۔۔۔ کون۔۔۔؟‘‘
’’میں انسپکٹر عاصم بات کر رہا ہوں ۔۔۔ آپ کون؟‘‘
’’انسپکٹر صاحب۔۔۔ میں اختر بول رہا ہوں۔‘‘
’’اختر۔۔۔؟ کون اختر۔۔۔؟ ذرا وضاحت کریں؟‘‘
’’جناب میں پروفیسر نجیب کا اسسٹنٹ اختر بات کر رہا ہوں۔ آپ کو یقیناً پروفیسر کے بارے میں اب تک بہت کچھ معلوم ہو گیا ہو گا۔‘‘
دوسری طرف سے انسپکٹر عاصم ایک دم اچھل کر کھڑے ہو گئے۔‘‘ ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ میں جانتا ہوں۔ میں ہی اس کیس کو ڈیل کر رہا ہوں ۔۔۔ تم کہاں ہو۔۔۔؟ ہم تو تمہیں تلاش کر رہے تھے۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب۔۔۔ میں پروفیسر کے قاتلوں کو جانتا ہوں ۔۔۔ ان میں سے ایک تو میرے سامنے ہی مرا پڑا ہے، لیکن یہ تو محض ایک مہرہ ہے اصل مجرم کا نام اسٹینلے ہے۔‘‘ اختر نے ایک ہی سانس میں بتایا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم کے منہ سے نکلا ’’آخر میرا خدشہ درست ہی ثابت ہوا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ کیا آپ کو اسٹینلے کے بارے میں علم ہے؟‘‘ اختر نے حیرت سے پوچھا۔
’’بہت اچھی طرح۔۔۔ میری اس سے مڈبھیڑ ہو چکی ہے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن تم قاتلوں سے بچے کیسے ۔۔۔؟ اور اب تک کہاں غائب رہے۔‘‘ انسپکٹر عاصم تذبذب کا شکار تھا۔
جواب میں اختر نے سارے حالات و واقعات ان کے گوش گزار کر دئیے۔ انسپکٹر عاصم بے یقینی کے عالم میں یہ انوکھی داستان سن رہے تھے۔
اختر کے چپ ہونے پر وہ بولے۔ ’’یعنی تمہارا یہ کہنا ہے کہ تم اور تمہارا کتا۔۔۔ انگلی سے بھی چھوٹے ہو گئے ہو۔۔۔؟ یہی بتایا تھا نا۔۔۔ تم نے؟‘‘ وہ دوبارہ سننا چاہ رہے تھے۔
’’جی ہاں انسپکٹر صاحب۔۔۔ بدقسمتی سے یہ درست ہے ۔۔۔ انسپکٹر صاحب چند فون نمبرز اور ایڈریس نوٹ کر لیں ۔۔۔ یہ اس مجرم کی ڈائری میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘ پھر اختر نے وہ انہیں نوٹ کرا دئیے۔
’’کیا تم اس جگہ کا ایڈریس بتا سکتے ہو، جہاں سے تم بات کر رہے ہو؟‘‘
’’ایڈریس کا تو علم نہیں ہے، البتہ ٹیلی فون نمبر کی چٹ لگی نظر آ رہی ہے، وہ نوٹ کر لیں ۔۔۔‘‘
’’فون نمبر ہی بہت ہے ۔۔۔ بتاؤ؟‘‘ پھر انہوں نے فون نمبر بھی نوٹ کر لیا اور بولے ’’ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں ۔۔۔ تم اسی کمرے میں رہنا، جہاں وہ آدمی مرا پڑا ہے، تاکہ تمہیں تلاش کرنے میں مجھے مشکل نہ ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر انسپکٹر عاصم نے فون بند کر دیا اور آپریٹر کا نمبر لگا کر کہا۔ ’’ابھی جس جگہ سے مجھے فون کیا گیا ہے اس کا ایڈریس فوراً نوٹ کراؤ۔۔۔ فوراً۔۔۔‘‘
’’او کے سر۔۔۔‘‘ آپریٹر نے کہا اور جلد ہی انہیں ایڈریس سے آگاہ کر دیا۔ اسی وقت آپریٹر نے انسپکٹر عاصم سے رابطہ منقطع کر کے ایک اور نمبر ملایا۔ دوسری جانب رابطہ ملتے ہی اس نے کہا۔
’’ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ سر میں مختار بول رہا ہوں ۔۔۔ ایک اہم خبر ہے۔‘‘
’’بتاؤ۔۔۔؟‘‘ دوسری جانب اسٹینلے تھا۔
مختار نے فون پر ہونے والی گفتگو من و عن دُہرا دی۔ اسٹینلے خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کے لبوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ رقص کرنے لگی تھی۔ مختار اس کا زر خرید غلام تھا، جو پولیس کی شہہ رگ میں بیٹھا تھا۔
وہ بولا ’’اب آئے گا مزا۔۔۔ انسپکٹر بہت بے چین ہو رہا ہے۔ اسے چین کی ضرورت ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ تم اچھے جا رہے ہو۔۔۔ مختار۔۔۔ ویلڈن۔۔۔‘‘
’’تھینک یو سر۔۔۔‘‘ مختار نے خوشی سے لبریز لہجے میں کہا۔
اسٹینلے نے فون رکھا اور پھرتی سے باہر نکل گیا۔ اس نے اپنے چند آدمیوں کو کچھ ہدایات دیں۔ اب وہ اکیلا ہی انسپکٹر عاصم کو قابو کرنے جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے بہت شان دار انتظام کر رکھا تھا۔ ادھر انسپکٹر عاصم اپنے ساتھ ایک ایس آئی، یعنی سب انسپکٹر کو لے کر جیپ میں روانہ ہو گئے تھے۔ راستہ کافی طویل تھا، اس لیے وہ نہایت برق رفتاری سے جیپ کو دوڑا رہے تھے۔ ایس آئی خالد فرنٹ سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا تھا۔ راستے میں ہی انسپکٹر عاصم اسے مختصراً ساری بات بتا رہے تھے۔ ابھی زیادہ رات نہیں ہوئی تھی۔ شاید ساڑھے دس بجے ہوں گے، لیکن سڑکیں ابھی سے ویران ہو گئی تھیں۔ اس کی وجہ ایک تو خونخوار چوہوں کے بے باکانہ اور ہول ناک حملے تھے، جو وہ لوگوں پر کسی وقت بھی کر ڈالتے تھے۔ دوسرا اس عفریت کا خوف بھی تھا، جو شہر میں ہونے والی کئی وحشیانہ اموات کی ذمہ دار تھی۔
اس وقت جیپ ایک ویران سڑک سے گزر رہی تھی۔ انسپکٹر عاصم نے آگے ایک بڑے سے ٹرک کو جاتے دیکھا۔ ٹرک کے عقبی حصے میں ایک بہت بڑا کنٹینر لگا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں وہ کسی آئس کریم کمپنی کا ٹرک نظر آیا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے ہیڈ لائٹس کا اشارہ دیا کہ انہیں آگے نکلنے کا راستہ دیا جائے، کیوں کہ ٹرک تقریباً پوری سڑک گھیر کر عین درمیان میں چل رہا تھا اور اس کی رفتار بھی زیادہ تیز نہیں تھی، مگر ٹرک ڈرائیور پر کسی قسم کی کوئی اثر نہیں ہوا وہ بدستور اپنی دھن میں ٹرک اسی طرح چلائے جا رہا تھا۔ انسپکٹر عاصم کے ماتھے پر بل پڑ گئے ان کا ایک ایک لمحہ بے حد قیمتی تھا، جو وہ احمق ٹرک ڈرائیور اپنی بے پروائی سے ضائع کر رہا تھا۔ انہوں نے ہارن پہ ہارن بجانا شروع کر دئیے۔ اچانک انہوں نے دیکھا۔ کنٹینر کا عقبی حصہ اوپر سے خود بخود کسی خود کار نظام کے تحت کھل گیا اور آہستہ آہستہ وہ نیچے ہوتا ہوا سڑک سے جا لگا۔ جیپ کی روشنی کنٹینر کے اندر پہنچ رہی تھیں، پورا خالی تھا، البتہ آخری سرے پر کیبن کی دیوار کے ساتھ کوئی عجیب سے مشین رکھی نظر آ رہی تھی۔ انسپکٹر عاصم جان نہ سکے کہ یہ کیسی مشین ہے۔ انہیں یک بیک بے حد خطرے کا ٹھنڈا سا احساس ہوا۔ اس سے قبل وہ کچھ کرتے۔ ایک دھماکا ہوا۔
کنٹینر کے اندر رکھی چرخی نما مشین میں سے ایک بڑا سا آہنی نیزہ کسی تیر کی طرح اُڑتا ہوا آیا اور جیپ کے اگلے حصے میں انجن میں پیوست ہو گیا۔ پوری جیپ جھٹکے سے لرز کر رہ گئی۔ انسپکٹر عاصم نے بروقت اسٹیرنگ سنبھال کر جیپ کو اُلٹنے سے بچایا۔ ایس آئی خالد کا ما تھا ونڈ اسکرین سے ٹکرایا تھا، لیکن وہ اسے زخمی ہونے سے بچ گیا۔ لوہے کے موٹے نیزے نے انجن کو بالکل توڑ پھوڑ ڈالا تھا۔ انجن گھڑ گھڑ کر بند ہو گیا۔ ادھر ٹرک کی رفتار میں یک لخت اضافہ ہو گیا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے پوری قوت سے بریک لگائے۔ فضا ٹائروں کی چیخوں سے گونج اٹھی، لیکن یہ دیکھ کر ان کے ہوش اُڑ گئے۔ جیپ اب تک اسی رفتار سی دوڑ رہی تھی۔
اگلے ہی لمحے انسپکٹر عاصم نے اس کی وجہ جان لی۔ نیزے میں ایک مضبوط زنجیر بندھی ہوئی تھی، جو کنٹینر میں رکھی مشین سے نکل رہی تھی۔ معاً مشین کی بڑی سی چرخی گھومنا شروع ہو گئی تھی۔ زنجیر چرخی میں لپٹ رہی تھی۔ اس طرح جیپ آہستہ آہستہ کنٹینر کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی۔ انسپکٹر عاصم نے بریکوں پر سے پیر نہیں اٹھایا۔ ٹائروں سے دھواں نکلنے لگا، لیکن جیپ کنٹینر کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کا کھلا ہوا دروازہ سڑک پر لگا ہوا تھا۔ اب انسپکٹر عاصم جیپ سے کود بھی نہیں سکتے تھے، کیوں کہ اس کی رفتار بہت زیادہ تھی۔ کودنے کا مطلب واضح طور پر یہ ہوتا کہ شوق سے اپنی کئی ہڈیاں تڑوا لی جائیں۔
جیپ دروازے پر چڑھ گئی اور اندر آ کر رک گئی۔ اس کے اندر آتے ہی دروازہ اٹھا کر دوبارہ بند ہو گیا۔ انسپکٹر عاصم کو جیپ سمیت اغوا کر لیا گیا تھا۔ اسٹینلے اکیلا ہی ٹرک ڈرائیور کر رہا تھا۔ یہ کام اس نے تنہا ہی کر لیا تھا۔ وہ ٹرک چلاتے ہوئے سیٹی بجا رہا تھا۔ پھر اس نے ایک اور بٹن دبا دیا۔ کنٹینر میں سفید گاڑھا دھواں بھرنا شروع ہو گیا تھا۔ انسپکٹر عاصم اور ایس آئی خالد بری طرح کھانسنے لگے، مگر کب تک دھوئیں کی یلغار سے خود کو محفوظ رکھتے۔ آخر دونوں بے ہوش ہو کر لڑھک گئے۔ ان کی پستول ہاتھوں سے چھوٹ گئے تھے۔ اسٹینلے عرف مسٹر اسٹیل بڑے اطمینان سے سیٹی بجاتا ہوا ٹرک چلاتا رہا۔