"کیا ہے آپکے ماضی میں؟؟؟؟”
ہاتھ ابھی بھی بازل کی گرفت میں تھا جبکہ اب وہ چھڑوانے کی تکودو چھوڑ کر تجسس سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی
"میں۔ چاہتا ہوں تم اپنے ذہن کو تیار رکھو ۔۔۔۔۔اکثر ماضی کرب ناک ہُوا کرتے ہیں ”
ہاتھ کی پست سہلاتے ہوئے بولا تو مایا فقط ہاں میں سر ہلا سکی
رات کی سیاہی پھیل رہی تھی فضاء میں ہلکی ہلکی سرگوشیاں تخلیل ہورہیں تھیں بازل کی اذیت پر آنکھیں برس رہیں تھیں
"اُس کرب ناک رات کے بعد میں اپنے آپ کو دوسری بہن کی زمہ داری کے قابل نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔۔نہ ہی ہمت باقی تھی ۔۔۔وہ بہت چھوٹی تھی ہمارے گھر کی جان ہوا کرتی تھی لیکن قسمت کو اُس پر بھی رحم نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔سب کے ساتھ اُسے بھی برباد ہونا پڑا ”
بولتے ہوۓ روکا پاس ہی نیند میں نور کودیکھا جو سکون کی نیند میں تھی ۔۔۔چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سوتے ہوئے قائم تھی
سر جھٹک کر مایا کی طرف دیکھا جو سر جھکائے آنسو بہنے میں مصروف تھی اُسے پتہ تھا کتنا مُشکل ہوتا ہے ایک بھائی کے لیے اپنی بہن کی بربادی بیان کرنا اُسکے ساتھ ہُوا ظُلم اپنے لفظوں میں بیان کرنا ۔۔۔۔۔وہ اُس کے درد كو محسوس کررہی تھی ۔۔۔۔۔
احمد مشتاق
آخر تمام داغ مِٹے، زخم بَھر گئے
باتیں کِسی کی یاد رہیں، دِن گُذر گئے
کِس کو خبر طلب کی اَندھیری رُتوں سے دُور
غم کے سفید پُھول کِھلے اور بکھر گئے
گوشوں میں دِل کے اَب کوئی خواہش نہیں رہی
ان ٹہنیوں سے سارے پرندے اُتر گئے
جو ساحلِ مُراد کے لمبے سفر پہ تھے
بول! اے ہَوائے غم، وہ سَفینے کِدھر گئے
اپنی نظر کو اور مَناظر بھی تھے پسند
ہم رَفتہ رَفتہ اُس کی گَلی سے گُذر گئے
وہ میرے ہمصفیر تو تھے، ہمسفر نہ تھے
جو تھوڑی دُور ساتھ چلے پھر بکھر گئے
اِک تُہمتِ سِتم بھی اُٹھانے نہ دی اُسے
کیا لوگ تھے کہ ایک ہی دَھمکی میں مَر گئے
"ایک رات کِسی کے گھر کے سامنے روتی ہوئی بہن کو چھوڑ کر آگیا ۔۔۔۔۔مجھے آگے جانا تھا ۔۔۔۔مجھے تب یہی فیصلہ درست لگا تھا ۔۔۔۔۔کسی گاؤں میں تھا کوئی گھر ۔۔۔گاؤں کے لوگ مخلص ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔تب لگا تھا کہ اُسے ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہوگی ”
آنکھوں کے سامنے وہ منظر گزرا جب چار سال کی مہر ماہی بے آب کی طرح ٹرپ رہی تھی آسان کہاں تھا اپنے ماں باپ کی نشانی چھوڑنے کو ۔۔۔ کسی کے رحم پر چھوڑنے کو ۔۔۔۔لیکن دوسری بہن کا بدلہ لینا تھا جو اُسے پتھر دل کر گیا تھا
"چار سال لوگوں کو بدلتے روئیے دیکھے ۔۔۔۔۔جو اپنے تھے سب نے اپنا آپ دیکھا دیا ۔۔۔۔۔۔ہمیں لگتا ہے کہ بظاھر نظر آنے والی محبتیں ۔۔۔۔۔ھمارے ساتھ مخلص ہیں۔۔۔۔۔لیکن جب ہم پریکٹیکلی لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں تو پتہ چلتا ہمارے اپنے وجود کے سوائے کوئی بھی ہمارا نہیں ہوتا ۔۔۔سب دکھلاوا ہوتا ہے نظر کا دھوکا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ایک فریب ہوتا ہے جو سامنے آتے ہی ایک بیہانک حقیقت میں بدل جاتا ہے ”
ایک سانس لینے کو روکا تو اب اُسکی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک رہے تھے ۔۔۔۔ہاتھوں پر گرفت کمزور ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔رات کا آخری پہر میں خاموشی کا سکوت جاری تھا ۔۔۔۔۔۔اب تہجد کی اذانوں کی آواز ہولے ہولے سے کانوں میں پڑھ رہی تھی
دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے ۔۔۔۔۔
"مجھے اندازہ ہوگیا تھا جو کچھ کرنا ہے اپنے بل بوتے پر کرنا ہے ۔۔۔تب سفر شروع ہوا تھا ۔۔۔میری کامیابیوں کا ۔۔کہتے ہیں خُدا جب چاہتا ہے اُسکا بندہ ظُلم کے خلاف آواز اٹھائے تو کوئی وسیلہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔میرے بھی بنتے گئے اپنا سب کچھ بیچ کر نئے سرے سے بزنس اسٹارٹ کیا ۔۔۔جلد ہی بزنس ٹائیکون کے طور پر سامنے آگیا لوگ بازل شاہ کو جاننے لگے بین الاقوامی تجارت میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوا ”
سانس لینے کا وقفہ دونوں میں حائل ہوا دوسری طرف سے کوئی جواب سوال نہیں ہُوا تھا گھٹنوں میں سر دیا سن رہی یہ رو رہی تھی یہ معلوم نہیں تھا
"میری زندگی خوشیوں سے بہت دور جاچکی تھی ۔۔۔۔بس ایک ہی مقصد تھا اپنی بیمار بہن کی عزت و آبرو کا بدلہ سود سمیت واپس کرنا تھا ۔۔۔۔۔اُسی دورانیہ میں خوشیوں کا جھونکا میری زندگی میں آیا ۔۔۔۔۔خوشیاں لانے والی تم تھی جس کی وجہ سے میں ہنس پڑتا تھا جس کی وجہ سے میری کُچھ راتیں سکون سے گزر جاتی تھیں ۔۔۔فقط ایک ملاقات کے بعد مجھے لگا تم ضروری ہو میری سانسوں کے لیے ۔۔۔۔تم بھی اُسی یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھی جس میں گناہوں سے گوندہ ہُوا انسان پڑھتا تھا۔۔۔۔۔۔کوئی اور نہیں منان مغل تھا وہ۔۔۔۔۔۔”
ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں سر گھٹنوں سے اُٹھایا بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ب۔۔۔۔۔۔با۔۔۔۔۔۔۔بازل ”
اُسے لگا تھا اُسکی آواز آج گلے میں اٹک جائے گی دونوں کی آنکھیں شعلے برسا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
"مایا میں جانتا ہوں ”
وہ اُسکے ذہن میں آنے والے سوالوں کو پڑھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
” ہاں جس کی فائلز تمہارے پاس تھیں وہ میرا بھی مجرم تھا ”
تھوڑا آگے ہوکر اُسے اپنے سینے سے لگایا بے سُود سی نظریں جُھکا گئی ۔۔۔ضرورت تو اُسے تھی سہارے کی وہ اُسے سہارا دے رہا تھا
"آپ جانتے تھے سب ؟؟؟”
"تم” کی جگہ پر "آپ” نے لی تھی
"ہاں جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔”
بے یقینی سے دیکھ رہی تھی سب کُچھ سے باہر تھا
"میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے تمھیں کوئی ایک بھی تکلیف ہو ۔۔۔۔۔میری دشمنیاں بڑھ گئیں تم مجھے پہلے سے بھی زیادہ عزیز ہوگی ۔۔۔۔۔۔زندگی کا اہم موڑ آگیا مجھے ایک کو چُننا تھا مایا کو یہ اپنے ماں باپ بہن کا بدلہ ۔۔۔۔۔۔میری غیرت نے گوارہ نہیں کیا تھا کے اپنی زندگی کی خاطر اپنی خوشیوں کی خاطر ۔۔۔۔اپنا ماضی بھول جاؤں ۔۔۔۔تمھیں چھوڑنا پڑا مجھے ۔۔۔۔خوشیوں سے ایک بار پھر رُخ موڑ گئی ”
اُسے اپنا آپ معتبر لگا تھا اُس شخص کے حصے میں آئی تھی جو خود غرض نہیں تھا ۔۔ جس نے اپنے ماں باپ کو ایک لڑکی کی خاطر نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔اپنی بہن کو فراموش نہیں کیا تھا ۔۔۔اُسے آج بچتاوا ہُوا تھا کتنی بد دعائوں دیں تھی اُس انسان کو جس نے اپنی زندگی میں تلخیوں کے سواء کُچھ دیکھا ہی نہیں تھا
"بازل ”
ہلکی سی سرگوشی کانوں میں پڑی تو اُسکے تھوڑا سا جُھک اور اُسکی پیشانی پر لب رکھے ۔۔۔مایا نے سرشاری نظریں جھکائیں
"عائشہ کی عزت بھی اُسی انسان کے ہاتھوں میں برباد ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ بازل میں بھی اُسکی قید میں رہی تھی لیکن ۔۔۔”
وہ اپنے کردار کی گواہی دینے لگی تھی جب بازل کا بھاری ہاتھ اُسکے لبوں پر رکھا
"مجھے یقین ہے تمہارا کردار پر۔۔۔۔۔۔۔آئندہ کبھی مجھے اپنے کردار کی گواہی نہیں دینا ”
تھوڑی سختی تھی اُسکی آواز میں آئی
"مہر کہاں ہے اب ؟؟؟”
اُسکے غُصہ سے ڈرتی بات بدل گئی
"آزمائش کے بعد خوشخبری کا وعدہ ہے میرے خدا کی طرف سے ۔۔۔۔اُسنے بھی تکلیفیں سہیں ہیں ۔۔۔۔۔
آنکھوں کے آگے ایک مرتبہ پھر سے ماضی کی جھلک دکھائی دی
آج اُس دن سے آٹھ سال بعد اُسی دروازہ کے آگے کھڑا تھا یہاں پر اپنی بہن کی زمہ داری اُتار کر رکھ گیا تھا ذہن میں کئی وسوسے تھے ایک اُمید کی ڈور تھی جِس کے ٹوٹنے کا خدشہ لاحق تھا کہیں دور اپنے فیصلے پر ندامت تھی خود عیش و عشرت کی زندگی جی رہا تھا دُنیا اُس کا نام جانتی تھی اور اُسکی بہن ایک کچے مکان میں تھی اُس کے ساتھ قسمت نہ کیا کھیل کھیلا تھا اُسے معلوم نہیں تھا
ہاتھ بار بار دروازہ پر جاکر رک جاتا اندھیر نگری میں حوصلے پست ہوگئے تھے
ہمت کرکے لکڑی پر لگی ایک چھوٹی سی ہتھنی کو ہلایا
"جی بھائی امی گھر پر نہیں ہیں ”
اندر سے پانچ منٹ بعد آواز ائی لیکن کوئی باہر نہیں آیا
آواز اُسے ساکت کر گئی تھی اُسکی ماں کی آواز سے ملتی جلتی آواز یقیناََ اُسکی بہن ہی تھی وہ اُسکی دید کے لیے ہی تو آیا تھا لیکن شاید خدا ابھی مہربان نہیں ہوا تھا ابھی امتحان ختم نہیں ہوئے تھے
اُس کے۔ بھائی کہنے پر جسم میں کو سکون کی لہر دوڑی تھی اُسکا نیمل بدل کوئی چیز نہیں تھی
"میں یہ دینے آیا تھا”
ہاتھ میں پکڑا ہوا کریڈٹ کارڈ آگے کیا اور کوئی بہنا نہیں ملا تھا
"کیا؟”
"یہ کارڈ ملا مجھے باہر سے ”
اُمید کے مطابق دروازہ تھوڑا سا کھولا تو مہر تھوڑا سا باہر آئی اُسکی منہ کی ایک سائڈ نظر آرہی تھی سانولی رنگت نین نقش بلکل اُسکی ماں پر تھے ۔۔۔۔۔آنکھیں بلا شبہ بازل کی دوسری کاپی ۔۔۔۔براؤن رنگ کی بڑی سی ۔۔۔۔
"یہ ہمارا نہیں ہے ”
مہر نے ایک نظر اُس پُر وقار شخص کو دیکھا جو بلیک پنٹ کوٹ میں مبلوس تھا کہیں سے بھی گاؤں کا معلوم نہیں ہورہا تھا وہ کوئی شہزادہ تھا ۔۔۔۔جو اپنا سا لگا تھا لیکن مہر جلد ہی دروازہ کی اوٹ میں چھپ گئی
منظر مبھم ہُوا تو مایا ابھی بھی اُسکے سینے سے سر اٹکائے آنکھیں موندے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
"مہر اب مہر شاہ نہیں ہے مہر ابراہیم ہوچکی ہے …. اور مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے اُسے اچھا ہم سفر ملا ہے ". شاید یہ آخری بات تھی یہ ماضی سناتے ہوئے تھک گیا تھا ویسے ہی بیٹھے ہوئے آنکھیں بند کر گیا ۔۔۔۔۔۔تو مایا نے بھی اُسکے سکون میں خلل ڈالنے کی کوشش نہیں کی دونوں کافی عرصے بعد سکون میں آئے تھے ۔۔۔۔لیکن ابھی ایک سوال تھا جو باقی رہا تھا ۔۔۔۔جو شاید پوچھنے کی ہمت بھی نہیں تھی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
کُچھ گھنٹے پہلے …..
مہر کو ہسپتال سے لے آئے تھے کیوں کے زخم اتنا گہرا نہیں تھا ۔۔۔۔۔اور تالش دیب کو سنبھلنے میں مُشکل ہورہا تھا کیوں کہ اُسے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو اپنے بچے سے ملی تھی نو ماہ کتنا مُشکل سے گزرے تھے وہی جانتی تھی ۔۔۔۔کبھی سکون سے سو نہیں پائی تھی ۔۔۔۔اور اب بچہ گود میں آتے ہی پھر محروم ہوگئی تھی
"بھابھی آپ ہمت کریں نہ ۔۔۔۔انشاء اللّٰہ ہمارے عدن کو کُچھ نہیں ہوگا”
مہر اُسکے پاس بیٹھی تھی جبکہ تالش اُسے اپنے ساتھ لگائے اُسکے بال سہلا رہا تھا جو مسلسل رو رہی تھی
اچانک باہر دروازہ پر دستک ہوئی تو پولیس انسپکٹر سے بات کرتے دامل نے فون کان سے اُتارا اور باہر کی طرف گیا
"عدن چاچو کی جان ۔۔۔۔۔”
بغیر اگلے انسان کو دیکھے جلدی سے عدن کو اپنے بازوں میں بھرا
"السلام وعلیکم ”
بازل چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا تو دمل کو شرمندگی ہوئی
کُچھ دیر بعد مہر بازل کے سینے سے لگی زارو قطار رو تھی دیب اپنے بچے کو سینے سے لگائے بھیگی آنکھوں سے اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی کہیں اپنے بھائی کو اپنے تصور میں تھی
"مہر مجھے ۔۔۔معاف کردو تمہارا بھائی مجبور تھا ”
نم آنکھوں سے بولا تو مہر بازل کے ہاتھ عقیدت سے چوم گئی
"بھائی قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے ۔۔۔۔۔یہ میرے اور آپکے بس کی بات نہیں تھی لکھا ایسے گیا جسے ہر قیمت پر پورا ہونا تھا ۔۔۔۔۔مجھے فخر ہے اپنے بھائی پر جس نے اپنا ماضی فراموش نہیں ہونے دیا ”
اُسکے سینے سے لگی سرگوشی سے بولی
"بھائی ۔۔۔۔۔۔میرا بچہ لانے کے لئے بھی شکریہ ”
دیب نے آنسو سے بھیگے لہجے میں کہا تو بازل نے اپنی باہیں پھیلا دیں
"اللہ نے مجھے دونوں بہنے لوٹا دیں ۔۔۔۔۔۔تم مجھے مرحا( بازل کی بڑی بہن جس کے ساتھ زیاتی ہوئی تھی)
کی طرح ہو ”
دونوں اُسکے گرد بازو پھیلے رونے میں مصروف تھیں ۔۔۔۔۔”بھائی بہنوں کا مان ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔بھائیوں کے بغیر بہنے ۔۔۔بے آسرا ہوتی ہیں ”
بازل اُنھیں بتا چکا تھا کے اُس دن ہسپتال کا بل اپنی بہن کا اُسنے خود ادہ کیا تھا ۔۔۔۔۔اور آج وہ مہر کو دیکھنے آیا تھا جب ملیحہ کِسی بچے کو لیے بھاگ رہی تھی تھوڑی سی بات چیت کے بات پتہ چلا تھا کے بچہ اُنکا کا ہے جنہوں نے اُسکی بہن کو چھت اور عزت دی تھی ۔۔۔۔۔اُنکا قرض تھا جسے اتارنا فرض تھا بازل پر
اور بہن سے ملنے اور اتنی دیر کی قائم رکاوٹیں دور کرنی تھیں
زندگی پرسکون ہوگئی تھی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
صبح آنکھ کھلی تو بازل اپنی جگہ پر نہیں تھا بلکہ اب اُسکی جگہ بدلی ہوئی تھی ۔۔اب وہ نور کے ساتھ دوسری طرف لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔نور ابھی بھی نیند میں تھی فجر کی اذانیں ہوچکی تھی کارٹن ابھی گرے ہوئے تھے مطلب ابھی باہر اندھیرا تھا
نور کو اپنے بازو سے اُٹھا تکیہ پر لیٹایا تو اچانک نظر بازل پر پڑی جو نماز کی نیت کیے دونوں ہاتھ سینے پر بندھ کر عجازی سے کھڑا تھا
سر پر دستی رومل بندھا ہُوا تھا کشادہ پیشانی پر پانی کے چند قطرے چمک رہے تھے
مایا ہنہور بیٹھی بنا پلک جھپکے اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اُسے پتہ نہیں چلا جب بازل سلام پھیر کر اُسکی طرف متوجہ ہوا
"تم نے نہیں پڑھنی کیا ؟؟”
اُسے ساکت بیٹھے دیکھ کر سوال کیا تو مایا اُچھل کر بیڈ سے اُٹھی ۔۔۔۔۔
"پ۔۔۔پڑھنی ہے”
با مُشکل جواب دے کر واش روم میں بند ہوگی ۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد حجاب کیے باہر آئی چہرہ شفاف موتی کی طرح چمک رہا تھا جبکہ بازل کا دل اُسے حجاب پر اٹکا ہوا تھا کتنا اچھا لگا تھا اُسے اپنی بیوی یوں حجاب میں ہونا ۔۔۔۔۔۔
اور مایا کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے اُسکے سامنے نماز کیسے ادہ کرے اُسکی نظریں پہلے ہی کنفیوز کر رہیں تھیں
بازل اُسے کھڑا دیکھ کر پریشانی سمجھ گیا تھا ۔۔۔سائڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اُٹھاتا باہر کی طرف جانے لگا تھا جب رک کر اُسکی طرف دیکھ جو اُنگلیاں چٹخار رہی تھی
"نور ۔۔۔۔۔عائشہ کی طرح کسی بے قصور کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔لیکن مجھے اپنے وجود سے کبھی جدا نہیں لگی ۔۔۔۔۔اِس کے پہلے سانس سے پہلے ماں جیسی نعمت سے محروم ہوگئی تھی ۔۔۔۔کیوں کے زیاتی کرنے والے کو اُسکی حالت اور رحم نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں چاہتا یہ ٹاپک آج کے بعد کبھی کھلے ۔۔۔۔۔۔۔نور ہمارے لیے ہمارے اپنے بچوں سے بھی زیادہ اہمیت رکھے گئی ۔۔۔۔۔کیوں کے ہم دونوں یتیم کے معاملے میں جواب دے ہونگے”
سانسوں کے وقفے سے نور کی نہ قابل بیاں حقیقت بتائی اور بغیر مایا کی طرف دیکھے باہر کی طرف بڑھ گیا
ہاتھوں میں لرزش آئی ۔۔۔۔۔آنکھیں ایک مرتبہ پھر بھر گئیں ۔۔۔۔۔وہ اُسے پُر سکون کرنے کے لئے کتنی بيهانک حقیت بتا کر گیا تھا
جائے نماز ہاتھ سے پھسل گیا اور لڑکھڑاتے قدموں سے نور تک گئی
ایک جھٹکے سے اُسے خود میں بھینچا
"وہ کہاں کہاں اُس شخص کے لیے تکلیف کا باعث بنی تھی ۔۔۔۔۔کتنی نہ شکری تھی ۔”
نور کی آنکھ اُسے با آواز روتا سن کر کھلی تو خود کو اُس میں بھینچا ہوا پایا
"مام ”
نور نِ نیند میں ہی اُسے تکلیف میں دیکھ کر بولی
"نور مجھے معاف کردو میری جان ۔۔۔۔۔۔میں بھٹک گئی تھی ”
روتے ہوئے بولی
"مام ۔۔۔نور مام بیسٹ ”
نور جواباً اُسکا منہ چوم کر بولی تو مایا اُسکے نرم چھوٹے چھوٹے سے ہاتھ عقیدت سے چوم گئی ۔۔۔۔۔
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
بازل گھر واپس شام میں آیا تو آتے ہی ٹی وی آن کیا ۔۔۔۔دونوں ماں بیٹی نظر نہیں آئیں تھی تو خود کو مصروف ظاہر کرتا خبریں سننے لگا
"جی تو ناظرین ۔۔۔آپکو بتاتے چلیں کے حنان مغل ۔۔پاکستان تجارت کا ایک بڑا نام ۔۔۔غیر ملکی سمگلنگ میں ملوث پایا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔اُنکے خلاف ثبوت گواہوں کے ناموں سمیت عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔اُنکے چھوٹے بھائی کُچھ روز قبل اُنہیں کی پرانی حویلی میں پُر اسرار حالت میں مردہ پائے گے تھے۔۔۔۔جس کے جسم کو مختلف حصوں میں کاٹا گیا تھا ”
خبریں سنتے ہوئے ایک اچھوتی سے مسکراہٹ اُسکے چہرے پر تھی
دس سال کی مسافت ختم ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اپنی منزل اور مقصد دونوں پا لیے تھے
بے شک منان کے خون سے ہاتھ رنگے تھے لیکن وہ برحق تھا
زمین میں فساد پھیلانے والوں۔ کا یہی انجام ہوتا ہے
"سر مایا کدھر ہے ”
نوین دروازہ پر کھڑی اُس سے مخاطب تھی
"خود ڈھونڈھ لو”
مسکراتے ہوئے گویا ۔۔۔۔۔۔نوین اثبات میں سر ہلا کر آگے بڑھ گئی
"نوین ۔۔۔۔۔۔اللّٰہ ۔۔۔۔۔نوین”
مایا کچن میں کھڑی حیرت سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی
"بہن مل بھی لو یہ ایسے ہی نوین کی تسبیح کرو گی”
نّوین خود ہی آگے آئی اور اُسکے گلے لگ گی جبکہ نور جو شلف پر بیٹھی فیڈر پیتے ہوئے دونوں کو دیکھ رھی تھی
"اپنے شوہر کو سیدھا کر لو پورے دو ماہ مجھے ملک سے باہر رکھا ہے ۔۔۔۔”
مایا حیران تھی وہ کیسے جانتی ہے سب کچھ ۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد معاملہ يا تھا کے بازل معصوم سی شکل بنا کر بیٹھا ہُوا تھا جبکہ مایا نوین کے جانے کا انتظار کر رہی تھی کے کب وہ اُسکے ہاتھ ائے
نوین چھ سال سے مایا کی حفاظت کے لیے بازل کے کہنے پر اُسکے ساتھ تھی اُسکے ہر عمل کی خبر سب سے پہلے بازل کو ملتی تھی اور اُسکے مطابق اگلا حکم صادر کیا جاتا تھا
یہ بات تو قابلِ معافی تھی لیکن محد بازل کا دوسرا روپ تھا یہ بات نہ قابلِ یقین تھی
"پتہ ہے تمھارے جانے کے بعد ساری صفائی میں کیا کرتی تھی اور نام سر اپنا لگاتے تھے ۔۔۔۔۔اور تمہارا لیپ ٹاپ خود خراب کیا تھا انہوں نے ۔۔۔۔پتہ ہے اپنی آنکھوں کے بارے مجھ سے خود مشکوک باتیں کرواتے تھے”
مایا کا سہارا ملتے ہی بازل کے خلاف ڈاٹ گئی اور مایا تو پہلے ہی بپھری بیٹھی تھی کب بازل اُسکے ہاتھ آئے
نوف عبداللہ ہی تھا وہ ایک فائل اصل کرنے کے لیے اُنکے روپ تھے کے کوئی شک نہ کر سکے
مایا کے ذہن کی ساری کٹھلیاں سلج گیں
"تبی خود ہی الججریہ چلا جاتا تھا اور آجاتا تھا ۔۔۔۔وہ بھی غیر قانونی طریقے سے ۔۔۔۔۔میں اتنی پاگل کیوں تھی”
مایا با آواز بولی
تھوڑی بہت شرمندگی بھی شامل تھی کیوں کے اتنی بار وہ محد کو مار چُکی تھی ۔۔۔۔۔وہی بازل تھا ۔۔۔۔کتنا بڑا کھیل تھا ااُس کے ساتھ
"بابا مام ڈرٹی ہے ”
نور نے مایا کے تاثرات دیکھ کر باپ کی سائڈ لی اور اُسکی گود میں بیٹھ گئی
جبکہ تینوں کے قہقہے بیک وقت فضا میں گونجے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...