اس نے کمرے میں جا کر زوہیب کو کال ملائی اور فلحال رشتہ رد ہونے کی خوشخبری سنائی۔ زوہیب جوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اس کی خوشی دیکھ کر مسکان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
زندگی ایک دفعہ پھر معمول پر آگئی لیکن زوہیب نے فیصلہ کر لیا تھا اگلی سردیوں کی چھٹیوں میں پاکستان جا کر اپنے گھر والوں سے لازمی اپنے اور مسکان کی رشتے کی بات کرے گا وہ دوبارہ کسی ایسی کیفیت سے دو چار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
***************
اس رات وہ جم سے واپس آیا اور مسکان کو کال ملائی۔ فون بند جارہا تھا اسے شاک سا لگا۔ اس نے گھڑی کو دیکھ کر وقت کا تعین کیا۔
زوہیب:” آج تو ستارہ کی منگنی ہے اسی میں لگی ہوگی۔ بسیٹ فرینڈ کے فنکشن کے آگے موبائل کہاں یاد رہے گا اسے۔۔۔۔۔ چلو صبح بات کرتا ہوں۔” اس نے سوچتے ہوئے موبائل رکھا اور نہانے چلا گیا۔
اگلے روز اسے جلدی یونیورسٹی جانا تھا۔ کیرل کے ساتھ مل کر بنا ہوا اس کا پروجیکٹ بہت پسند کیا گیا تھا۔ وہ اگلے مرحلے کے لیے انتخاب ہو چکا تھا۔
وہ اس وقت دوستوں سے اور پروفیسرز سے داد بٹورتا کیرل کے پاس آیا۔
زوہیب:” بہت شکریہ کیرل یہ سب تمہاری مدد سے ہو پایا ہے۔” اس نے کیرل سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
کیرل:” یہ سب تمہارے ہی محنت کا نتیجہ ہے سارا نظریہ تو تمہارا ہی ہے” اس نے زوہیب کے ہاتھ کو جنبش دے کر کہا اور دونوں اپنے اپنے جماعت کے جانب بڑھ گئے۔
اس دن وہ لائبریری نہیں گیا۔
وہ سیدھا گھر آگیا تھا۔ اس پہر فاروق کا گھر خالی پڑا تھا۔ فاروق نوکری پر گیا ہوا تھا اور شیزا بچوں کو سکول سے لانے گئی تھی۔
اس نے شکر ادا کرتے ہوئے فون نکالا اور پھر مسکان کو کال ملائی جو اب بھی بند تھا۔ اسے کچھ کھٹک محسوس ہوئی۔
“اس سے پہلے تو کھبی اتنی دیر موبائل بند نہیں رہا ہے” اس نے فکرمندی سے لب کاٹتے سوچا۔
کسی خیال سے اس نے عرفان بھائی کا نمبر ملایا انہوں نے بھی نہیں اٹھا۔
زوہیب:” ھممم ہوسکتا ہے مہمانوں کے ساتھ مصروف ہو۔”
اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
وہ مسکان کے خیریت سے ہونے کی دعائیں کرتا باہر چلا گیا۔
اگلی رات کو ڈیوڈ اور باقی دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے جانے کو رد کرتا وہ گھر آیا اور سیدھا بیڈروم میں چلا گیا۔ اب اس کی پریشانی حد سے بڑھ رہی تھی وہ کال پر کال کرتا رہا مسکان کا نمبر بند تھا اور عرفان اٹھا نہیں رہا تھا۔ اسے وسوسوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔
زوہیب:” کہی اس کے گھر پر ہمارے بارے میں پتہ تو نہیں چل گیا” اس کا دل ڈوبنے لگا اسے مسکان کی شدید فکر ہونے لگی۔
” کہی ستارہ کے ساتھ ہی حارث انکل نے مسکان کا رشتہ بھی تو نہیں کروا دیا” اسے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا۔ اس نے پریشانی سے سر پکڑ لیا۔ اس کے سر میں درد اٹھ رہا تھا۔ وہ اب دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہا تھا۔
اس نے اضطراب میں کومل کو فون لگایا۔
کومل:” کیسے ہو زوہیب” کومل نے کال اٹھا کر مصروف انداز میں کہا۔
زوہیب:” میں ٹھیک ہوں آپ سب کیسے ہیں ” اسے کومل سے مسکان کے بارے میں پوچھتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی اس لئے گھما پھیرا کر بات کر رہا تھا۔ سب کے حال احوال پوچھ کر آخر میں اس نے سوال کیا۔
“حارث انکل اور ان کی فیملی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ دراصل میں نے عرفان بھائی کو کال کی تھی لیکن انہوں نے اٹھایا نہیں” اس نے سر جھکائے ہوئے وضاحت میں کہا۔
کومل:” ٹھیک ہی ہونگے میری بھی بات نہیں ہوئی۔۔۔ ہم تو ستارہ کی منگنی کے صبح ہی اسلام آباد آگئے تھے مریم باجی کے دیور کی شادی ہے نا۔۔۔۔ اچھا زوہیب میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں ماہی رو رہی ہے” انہوں نے اپنی 2 ماہ کی بیٹی کو روتے ہوئے سن کر کہا۔
زوہیب نے خدا حافظ کہتے فون بند کر دیا۔
جس معلومات کی تلاش کے لیے اس نے کومل کو کال کی تھی وہ اب تک پتہ نہیں چل سکی تھی اور وہ پریشانی سے پکڑ کر بیٹھ گیا۔
****************
# 1 ہفتے بعد#
آج ایک ہفتہ ہوگیا تھا اسے اب تک کسی بھی گوشہ سے مسکان کا پتہ نہیں لگ سکا تھا۔ رابطہ نا ہونے کے جس کرب اور تکلیف کو وہ ایک ہفتے سے اپنے اندر دفنا رہا تھا اب وہ اس کے چڑچڑاپن اور غصے کی شکل اختیار کر کے باہر آجاتا ۔ دوستوں کے بیچ بھی چپ رہتا۔ لائبریری میں غائب دماغی سے بیٹھا ہوتا۔ بات بات پر اپنے ارد گرد لوگوں سے جھگڑا کرنا اس کا معمول بنتا جا رہا تھا۔ یونیورسٹی میں بھی اس کی کارکردگی بد تر ہوتی جارہی تھی۔
اس کی یہ حالت دوستوں میں بھی نمایاں ظاہر ہوچکی تھی۔
وہ اس وقت کیفے میں بیٹھا کافی پی رہا تھا جب ڈیوڈ اس کے پاس آیا۔
ڈیوڈ:” کیا ہوا ہے تم بہت بدل گیے ہو۔ ٹھیک سے پڑھ بھی نہیں رہے ہر وقت گم سم رہتے ہو اور اب یہ۔۔۔” اس نے زوہیب کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا
” سیگریٹ نوشی کرنے لگے ہو” وہ اس کے جواب کے منتظر تھا۔ زوہیب اسے نظر انداز کرتا ہوا سیگریٹ کے کش بھرتا رہا۔
ڈیوڈ:” کیا گرل فرینڈ سے بریک اپ ہوگیا ہے” اس نے متفکر انداز میں پوچھا۔ اس سوال پر زوہیب نے مڑ کر ڈیوڈ کو دیکھا اور بنا کچھ کہے واپس رخ موڑ کر سیگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑا۔
ڈیوڈ اس کی سرخ پڑھتی ناک اور سیگریٹ پکڑے ہاتھ میں لرزش کو دیکھ کر سمجھ گیا اس کا اندازہ صحیح نکلا۔ اس کے مسلسل خاموش رہنے پر وہ اٹھ گیا اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔
***************
# 2 ہفتے بعد #
آج رات کیرل کے کسی دوست کی بیچلر پارٹی تھی۔ ڈیوڈ اور جنیفر بھی ساتھ جارہے تھے اور وہ اس وقت زوہیب کے ساتھ کھڑی اس کا ہاتھ جھنجوڑتے ہوئے اسے ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کیرل:” پلیز زوہیب چلو نا بہت مزا آئے گا میرے ساری فرینڈز آئے گے۔۔۔۔۔ ” وہ اب بھی بے حس کھڑا سیگریٹ کا دھواں اندر کھینچ رہا تھا۔ کیرل نے مایوسی سے ایک اور کوشش کی۔
“سب کپل بن کر جارہے ہیں اور میرا کوئی نہیں ہے تم میرے کپل بن کر ساتھ چلو” اس نے زوہیب کے کندھے پر سر ٹکا کر معصوم شکل بنائی۔
زوہیب اس کے بچگانی حرکتوں سے اکتا گیا اور اسے جھڑکتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
ڈیوڈ:” اس کی باتوں کا برا مت منانا دراصل اس کی گرل فرینڈ چھوڑ کر چلی گئی ہے اس لئے چڑچڑا ہوگیا ہے۔” اس نے کیرل کا منہ بنتے دیکھ کر کہا۔
یہ بات سن کر جہاں کیرل شاک ہوئی وہی جنیفر کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئی۔
جنیفر:” مطلب اب وہ سنگل ہے اب اس کی کیرل کے ساتھ سیٹنگ ہوسکتی ہے۔” اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔ کیرل اب بھی بے یقینی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
ڈیوڈ:” ہاں کوشش کر سکتے ہیں۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
کیرل کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ جنیفر کے تجویز پر محظوظ ہو رہی تھی۔
جنیفر:” ہاں بلکل کر سکتے ہیں۔ اس وقت وہ اکیلا ہے ٹوٹا ہوا ہے ایسے حالات میں ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیرل آسانی سے اسے ترغیب دے سکتی ہے۔” جنیفر اپنے دیئے ہوئے ترکیب پر فخریہ ہنسی۔
ڈیوڈ اب بھی سوچ میں تھا اور کیرل کو اپنے اور زوہیب کے بارے میں سوچ کر ہی لطف آرہا تھا۔
*****************
اگلے چند روز وہ زوہیب کے مزاج کا معاینہ کرتے رہے جب ان کو یہ پکا ہوگیا کہ اس کی گرل فرینڈ واقعی چھوڑ گئی ہے تو انہوں نے کیرل اور زوہیب کی ڈیٹ نصب کرنے کا پلان بنایا۔
وہ تینوں اس وقت کیفے کے گول میز کے گرد بیٹھے آگے کا لائحہ عمل طے کر رہے تھے۔
ڈیوڈ:”ایسا کرتے ہیں میں زوہیب کو اپنے گھر بلاتا ہوں۔ ایک ڈنر رکھتے ہے ساتھ میں پھر درمیان میں تم دونوں کو اکیلا چھوڑ کر میں اور جینی باہر آجائے گے۔” وہ دونوں خوشی سے ڈیوڈ کے پلان کو سنتی سر ہلا رہی تھی۔
جنیفر:” ہاں آج کل وہ سموکنگ تو کرتا ہی ہے تم پلاو گی تو ڈرنک بھی کر لیں گا۔ اور پھر ساری رات مزے کرنا” اس نے کیرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور کیرل خاموشی سے ان کا پلان سنتی مسرور ہو رہی تھی۔
***********
پلان کے مطابق رات کے ملنے پر زوہیب مان گیا تھا۔ اس وقت وہ ڈیوڈ کے گھر سب کے ساتھ موجود تھا۔ سب اپنی ڈرنک اور زوہیب کولڈرنک پیتے باتیں کر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ڈیوڈ اور جنیفر ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے۔ زوہیب کے پوچھنے پر انہوں نے پاس کی دکان سے اور ڈرنکس لانے کا بہانہ کیا اور تیزی سے باہر نکل گئے۔
ان کے جانے کے بعد وہ موبائل نکال کر دیکھنے لگا۔ اس وقت وہ مایوسی سے ستارہ کے سوشل اکاونٹس دیکھ رہا تھا جہاں اتنے دنوں سے وہ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیسے تیسے کر کے اس نے عثمان بھائی سے ستارہ کا نمبر منگوا لیا تھا۔ ایک ستارہ سے ہی وہ اپنی کیفیت دل کھول کر بیان کر سکتا تھا اور ایک اسی سے زوہیب کو امید تھی کہ وہ اسے سچ بتا دے گی۔
پر اب وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا ستارہ نے اس کے میسجز دیکھ اور سن کر بھی اسے جواب دئیے بغیر بلاک کر دیا ہے۔ مسکان سے بات کرنے کی اس کی آخری امید چور چور ہوگئی تھی۔ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اور موبائل صوفے پر پٹخ دیا۔
کیرل موقع کا فائدہ اٹھاتے اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔
زوہیب نے جیب سے سیگریٹ کا ڈبہ نکالا اور سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر جالایا۔
کیرل:” زوہیب میں جانتی ہوں دل ٹوٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔۔۔ پر تم فکر مت کرو میں ہوں نا تمہارے ساتھ” وہ اب زوہیب کے چہرے اور گردن پر دل فریبی سے ہاتھ پھیر رہی تھی۔ زوہیب بنا کسی رد عمل اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبائے رکھنے کی کوشش میں لگا تھا۔
“تم مجھے اپنا ہی سمجھو میں بھی تو تم سے پیار کرتی ہوں” وہ اب زوہیب کا گریبان پکڑ کر اس کے گال اور گردن کو چومنے لگی۔ زوہیب نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لی اس کی یاد میں مسکان کا چہرہ ابھرا اس نے آنکھیں کھولی اور اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ اسے وہاں گھٹن ہونے لگی تھی اس کی سانسیں بے ترتیب ہورہی تھی۔
کیرل بھی اس کے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی اور پھر سے اسے بانہوں میں لے لیا۔
کیرل:” کیا ہوا زوہیب بیٹھ کر کرنا اچھا نہیں لگ رہا ٹھیک ہے کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔” وہ زوہیب کے ہونٹوں کو چومنے لگی تھی کہ زوہیب نے ایک جھٹکے سے اس کا جبڑا دبوچ لیا۔ کیرل کے منہ سے چیخ نکلی اور ہاتھ ہوا میں جھولتے رہ گئے۔ زوہیب کی انگارہ بنی سرخ آنکھوں سے اسے وحشت ہونے لگی۔
زوہیب:” پتہ ہے کیرل مجھے کیسا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر میں 2 سیکنڈ اور یہاں رہا تو میرے ہاتھوں تمہارا قتل ہوجائے گا۔” اس نے شدید غصے میں تند و تیز آواز میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا اور پوری قوت سے کیرل کو پرے دھکیلا۔ وہ کراہتی ہوئی میز کے ساتھ جا گری۔ تکلیف سے اس کے آنسو نکل آئے پر آج زوہیب کے اندر ابلتا لاوا پھٹ چکا تھا آج اسے کسی کا درد کسی کی تکلیف نظر نہیں آرہی تھی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا موبائل اور سگریٹ کا ڈبہ اٹھایا۔ گھر کا دروازہ زور سے پٹختا وہاں سے باہر نکل گیا اور کیرل وہی زمین پر گری روتی رہ گئی۔ اس نے پہلے کبھی زوہیب کو ایسے دہشت میں نہیں دیکھا تھا۔
زوہیب نے تیز قدموں سے چلتے ماتھے پر آتے پسینے کو صاف کیا۔ سانس اب بھی بے ترتیب تھی وہ خود نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تیز رفتار سے چلتا اب وہ بھاگنے لگا ایک سڑک سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے وہ بلاوجہ بھاگتا رہا۔ لندن کے پل کے پاس پہنچ کر اس کی سانس پھولنے لگی وہ ایک جگہ کھڑا ہوگیا اور زور زور سے چلانے لگا اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھی اس کی ہمت جواب دے گئی تھی چلاتے چلاتے وہ آہستہ آہستہ بیٹھتا چلا گیا اور رو دیا۔ وہ اپنی پوری طاقت سے چلاتا ہوا مسکان کو پکار رہا تھا
” کیوں کیا تم نے ایسا۔۔۔۔۔۔ کیوں دھوکہ دیا۔۔۔۔۔۔ کیا غلطی تھی میری۔۔۔۔۔۔ صرف تم سے پیار کرنا۔۔۔۔۔۔ صرف تم سے دور جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹی۔۔۔۔۔۔ دھوکہ باز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانا تھا تو بتا کے جاتی۔۔۔۔۔۔۔ زندگی تباہ کر دی میری۔۔۔۔۔۔۔ کیوں چلی گئی چھوڑ کر۔۔۔۔۔ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔۔۔۔۔۔ کہاں غائب ہوگئی۔۔۔۔۔۔ کیوں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
وہ بھیگی آنکھوں سے آسمان کو دیکھتا اپنے تکلیف کو بیان کر رہا تھا۔ آنسو تھمنے کے ساتھ اسے اپنا دماغ مفلوج ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی سانس اپنی رفتار پر آئی تو وہ اٹھا اور بےبسی سے لڑکھڑاتے قدم گھر کے جانب بڑھا دئیے۔
******************
صبح کا آفتاب اپنی اسی تپش کے ساتھ لندن کے شہر پر طلوع ہوا۔ شیزا بچوں کو سکول کے لیے تیار کر رہی تھی اور فاروق ناشتہ کر رہا تھا جب شیزا نے اسے مخاطب کیا ۔
شیزا:” آپ کا شہزادہ اب تک سو رہا ہے۔۔۔۔۔ یونیورسٹی نہیں جانا کیا۔۔۔ میں بتا رہی ہوں آپ کو اس کی حرکتیں دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔۔۔۔ اگر ایسی چلتا رہا میں نہیں رہنے دونگی اسے اپنے گھر میں۔” اس نے بچوں کو ناشتہ دیتے ہوئے خفت سے تردید کی۔
فاروق اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے زوہیب کے کمرے تک آیا اور اسے پکارتے ہوئے دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں تک دستک دینے کے بعد بھی اندر سے کوئی آہٹ تک نہ ہوئی تو وہ گھبرا گیا اور تیزی سے الماری کے دراز سے چابی نکالی اور زوہیب کے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ شیزا بھی پریشانی کے عالم میں فاروق کے پاس آگئی۔ زوہیب اب بھی بے حس و حرکت جوتوں سمیت اوندھے منہ بیڈ پر لیٹا تھا۔ فاروق کے کئی بار پکارنے پر بھی اس میں حرکت نہیں ہوئی تو فاروق نے اسے جنبش دی اور سیدھا کیا۔
فاروق:”یہ تو بخار سے تپ رہا ہے۔” اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کی بوتل اٹھائی اور زوہیب کو تھپکتے ہوئے اس کے چہرے پر پانی کی چھینٹے ڈالی۔
شیزا:” جلدی کچھ کریں کہیں مر ور گیا تو الزام ہم پہ آجائے گا۔” اس نے بیزاری سے کہا۔
فاروق:” کیا کچھ بھی بولتی ہو کبھی تو موقع کی نزاکت کو سمجھو۔۔۔ جلدی سے ایمبولنس کو فون کرو۔” انہوں نے اضطراب سے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
*******************
ہسپتال میں بیمار ہونے کی وجہ پڑھائی کا دباؤ بتایا۔ ڈیڈ اور عثمان بھائی بھی متواتر اسے فون کرتے رہیں۔ مما کو فلحال اس کے ہسپتال میں داخل ہونے سے انجان رکھا گیا تھا۔ تین دن ہسپتال میں رہنے کے بعد طبیعت کچھ بہتر ہوئی اور رخصت ہو کر گھر آگیا۔
نہا کے تیار ہو کر وہ یونیورسٹی کے لئے نکل گیا۔
فاروق بھائی پہلے ہی اس کی بیماری کا درخواست کلاس میں جمع کر آئے تھے۔ آج اس کے یونیورسٹی آنے پر سب ہم جماعتوں نے اس کی خیر خبر پوچھی اور وہ ” اب ٹھیک ہوں شکریہ ” کہتا کلاس میں جا کر بیٹھ گیا۔
کلاس کے بعد وہ کوریڈور میں کھڑا سیگریٹ جلا رہا تھا جب ڈیوڈ او جنیفر اس کے پاس آئے حسب توقع کیرل ان کے ساتھ نہیں تھی اور اس دفعہ زوہیب کا بھی کیرل کو جا کر منانے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ اسی سپاٹ انداز میں سموکنگ کرتا رہا۔
ڈیوڈ نے پہلے اس کی عیادت کی اور پھر کیرل کے موضوع پر آیا۔
ڈیوڈ:” ویسے تم نے کیرل کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔” اس نے سنجیدگی سے کہا
جنیفر:” ہاں وہ تو صرف تمہارے دُکھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ تمہاری مدد کر رہی تھی۔” اس نے بھی گفتگو میں اضافہ کیا۔
زوہیب:” میں نے نہیں کہا تھا اسے۔۔۔۔۔ ایسا کرنے کے لیے” اس نے اسی بے رخی سے کہا۔
ڈیوڈ:” اتنا زور کا گرایا اسے، ہاتھ پر نیل پڑھ گیا ہے اس کے۔” اس نے خفگی بھرے افسوس سے کہا۔
زوہیب نے جواب دئیے بغیر سگریٹ پھینکی اور جوتے سے مسل دی اور گھڑی دیکھے لگا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر جنیفر کو غصہ آنے لگا۔
جنیفر:” اگر اس کا سر پھٹ جاتا تو” غصہ سے اس کا سفید رنگ سرخ پڑ گیا۔
زوہیب:” یہ سب اسے بہکانے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔” زوہیب اب سپاٹ انداز میں سامنے دیکھ رہا تھا۔
ڈیوڈ:” اچھا بس کروں تم دونوں” اس نے ہاتھ اٹھا کر دونوں کو خاموش کروانا چاہا۔
جنیفر:” ہم تمہارے خلاف تشدد کا کیس کر دیں گے۔” اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کیا۔
زوہیب:” میں بھی تمہارے خلاف ہراسمنٹ کا کیس کر دوں گا” اس نے جنیفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
ڈیوڈ ان دونوں کی بڑھتی لڑائی سے پریشان ہوگیا۔
جنیفر:”سمجھتے کیا ہو خود کو بہت بڑے ہیرو ہو لڑکیاں مرتی ہے تم پر۔۔۔۔ اپنے اوقات میں رہو تمہاری یہاں حثیت ہی کیا ہے دو کوڑی کے پاکستانی۔” اس کا غصہ پورا شدت اختیار کر گئی تھی۔
زوہیب جو اب تک نارمل انداز میں زبانی جواب دیں رہا تھا اپنے قومیت کے بارے میں سن کر طیش میں آگیا۔ اس کے آبرو تن گئے۔ وہ جنیفر پر پھٹ پڑنے والا تھا کہ ڈیوڈ جنیفر کے آگے آگیا اور زوہیب کو پکڑ لیا۔
ڈیوڈ:”بس بہت ہوگیا بس کرو تم دونوں۔۔۔ اور تم زوہیب۔۔۔ کیرل کے معاملے میں، میں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا لیکن جینی میری گرل فرینڈ ہے اس کے معاملے میں، میں ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا” ڈیوڈ نے تیز آواز میں اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔ زوہیب نے جنیفر کو گھور کے دیکھا جو اب ڈیوڈ کے اوٹ میں سہم کے کھڑی تھی۔ اس نے ایک نظر ڈیوڈ پر ڈالی اور غصے میں وہاں سے چلا گیا۔
******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...