رات کے وقت سونے سے پہلے داسو نے کئی بار نرائن داس سے جےرام کے ناآنے کی وجہ پوچھی لیکن اس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ شہر میں اس کے کئی دوست ہیں۔کسی نے اپنے پاس ٹھہرالیا ہوگا۔داسو کو جےرام کی ہدایت تھی کہ وہ وآپس آنے تک نرائن داس کے گھر سے باہر نا نکلے۔اگلے دن بھی اس نے طوعاً اور کرہاً جےرام کی اس ہدایت پر عمل کیا۔شام سے کچھ دیر پہلے نراہن داس نے آکر یہ خبر دی کہ جےرام کو ایک عرب کے ساتھ پنجرے میں بند کرکے شہر میں گھمایا جارہا ہے اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ان دونوں کو شہر کے چوراہے میں پھانسی دےدی جائے گی۔معلوم ہوا ہے کہ اس نے بھرے دربار میں راجہ کے ساتھ گستاخی کی ہے۔
داسو نے یہ سنتے ہیں شہر کا رخ کیا۔لوگ شہر کے ایک پررونق چوراہے میں ایک بانس کے پنجرے کے گرد جمع ہورہے تھے۔ داسو اپنے مضبوط بازووں سے لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا پنجرے کے قریب پہنچا اور پنجرے کے اندر زبیر اور جےرام کو ایک نظر دیکھنے کے بعد الٹے پاوں لوٹ آیا۔تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہا تھا۔
شہر میں آدھی رات تک چند پہریداروں کے سوا تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔جےرام زبیر کو جنگل میں خالد، ناہید اور مایا سے ملاقات کا واقعہ سنا چکا تھا۔چند پہرےدار سو چکے تھے اور باقی پنجرے کےقریب بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔زبیر نے موقع پاکرکہا۔”وہ رومال کہاں ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ میری کلائی کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن ہم دونوں کے ہاتھ پہچھے کی طرف بندھے ہوئے ہیں۔کاش! داسو کو ہماری خبر ہوجاتی۔زبیر! زبیر! میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں!“
”پوچھو!“
”ہمیں سورج نکلنے سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔تمہیں اس وقت سب سے زیادہ کس بات کا خیال آرہا ہے؟“
”میرے دل میں صرف ایک خیال ہے اور وہ یہ کہ میں اب تک خدا اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کو خوش کرنے کے لیے دنیا میں کوئی مفید کام نہیں کرسکا۔“
”تمہیں مرنے کا خوف تو ضرور ہوگا؟“
”ایک مسلمان کے ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ موت سے نہ ڈرے اور ڈرنے سے فائدہ ہی کیا۔انسان خواہ کچھ ہی کرے۔جو رات قبر میں آنی ہے،قبر میں ہی آئے گی۔اگر میری زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں تو میں آنسو بہا کر انھیں زیادہ نہیں کرسکتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ ایسی موت ایک سپاہی کی شان کے شایاں نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”مجھے ابھی تک یہ خیال آرہا ہے کہ شاید ہم اس سزا سے بچ جائیں۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید ابھی بھونچال کے جھٹکے سے یہ شہر مٹی کا ایک ڈھیر بن جائے گا۔کبھی مجھے ایک خیال آتا ہے کہ شاید بھگوان کا کائی اوتار آسمان سے اتر کر راجہ سے کہے کہ ان بےگناہوں کو چھوڑ دو،ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ کبھی مجھے یہ امید سہارا دیتی ہے کہ شاید دریائے سندھ اپنا راستہ چھوڑ کر دیبل کا رخ کرلے اور لوگ بدحواس ہوکر شہر سے بھاگ نکلیں اور جاتے جاتے ہمیں آزاد کرجائیں۔تمہیں اس قسم کا کوئی خیال نہیں آتا؟“
”نہیں! مجھے یسے خیالات پریشان نہیں کرتے۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر خدا کو میرا زندہ رکھنا منظور ہے تو وہ ہزار طریقوں سے میری جان بچا سکتا اور اگر میری زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں تو میری کوئی تدبیر مجھے موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتی۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! کاش میں تمہاری طرح سوچ سکتا لیکن میں جوان ہوں اور ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔تم بھی جوان ہو لیکن تمہارے سوچنے کا ڈھنگ مجھ سے مختلف ہے۔“
زبیر نے کہا۔”تم بھی اگر میری طرح سوچنے کی کوشش کرو تو دل میں تسکین محسوس کرو گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”یہ میرے بس کی بات نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! میری ایک بات مانو گے؟“
”وہ کیا؟“
”صبح ہونے میں زیاہ دیر نہیں۔میری اور تمہاری زندگی کے شاید تھوڑے سانس باقی ہیں۔میرے دل پر صرف ایک بوجھ ہے اور اگر تم چاہو تو میں موت سے پہلے اس بوجھ کو اپنے دل سے اتار سکتا ہوں!“
جےرام نے کہا۔”میں اس پنجرے میں تمہارے لیے جو کچھ کرسکتا ہوں، اس کے لیے تیار ہوں۔“
”جےرام! ہم نے زندگی کی چند منازل ایک دوسرے کے ساتھ طےکی ہیں اور میں نہیں چاہتا کے مرنے کے بعد ہمارے راستے مختلف ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاو۔اگر تم اس وقت بھی کلمہ توحید پڑھ لو تو میری گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی۔اب اتنا وقت نہیں کے میں تمہیں اسلام کی تمام خوبیوں سے آگاہ کرسکوں۔کاش! میں جہاز پر اس ذمہ داری کو محسوس کرتا لیکن اگر تم میری باتوں پر توجہ دو تو مجھے یقین ہے کہ تم جسیے نیک دل اور صداقت دوست آدمی کو صحیح راستہ دیکھانے کے لیے ایک لمبے عرصے کی ضرورت نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”اگر تمہاری باتیں مجھے موت کے خوف سے نجات دلا سکتی ہیں تو میں سننے کے لیے تیار ہوں۔“
زبیر نے کہا۔”اسلام انسان کے دل میں صرف ایک خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور اسے ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔“ ”سنو!“ یہ کہہ کر زبیر نے نہایت مختصر طور پر اسلام کی تعلیم پر روشنی ڈالی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کے واقعات بیان کیے۔ اختتام پر زبیر اجنادین، یرموک اور قادسیہ کی جنگوں کے واقعات بیان کررہا تھا اور جےرام یہ محسوس کررہا تھا کہ وہ ساری عمر تاریک غار میں بھٹکنے کے بعد ایک ہی جست میں روئے زمین کے بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی جھلک رہی تھی۔
رات کے تیسرے پہر جےرام برسوں کے اعتقادات چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔
زبیر نے پوچھا۔” اب بتاو! تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے یا نہیں؟“
جےرام نے کہا۔”میرے دل میں صرف ایک اضطراب باقی ہے اور وہ یہ کہ میں نے موت کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اسلام قبول کیا ہے۔ کاش میں چند دن اور زندہ رھ کر تمہاری طرح نمازیں اور روزے رکھتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ایک مسلمان کو خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔“
پہرے دار نے کسی کو پنجرے کے قریب آتے دیکھ کر آواز دی۔
”کون ہے؟“
ایک آدمی جواب دیے بغیر پنجرے کے قریب پہنچ کررکا۔چند سپاہی اٹھ کرکھڑے ہوگئے۔پہلے سپاہی نے پھر کہا۔” جواب نہیں دیتے۔تم کون ہو؟“
لیکن اتنی دیر میں چند سپاہی اسے پہچان چکے تھے اور ایک نے پرانے ساتھی کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”گنواروں کی طرح آوازیں دے رہے ہو انھیں پہچانتے نہیں، یہ سردار بھیم سنگھ ہیں۔مہاراج! آپ اس وقت؟“
”میں قیدیوں کو دیکھنے آیا تھا۔“
دوسرے سپاہی نے کہا۔”مہاراج! آپ بےفکر رہیں۔ یہ چند آدمی ابھی سوئے ہیں!“
بھیم سنگھ نے پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج! میرا نام سروپ سنگھ ہے۔“
”تم بہت ہوشیار آدمی معلوم ہوتے ہو. میں برہمن آباد کے حاکم سے بات کروں گا کہ تمہیں ترقی دی جائے۔“
”بھگوان سرکار کا بھلا کرے۔میرے چار بچے ہیں۔آپ کا ہونٹ ہلے گا اور میرا کام بن جائے گا!“
”تم فکر نا کرو۔ہاں، قیدی سورہے ہیں؟“
”مہاراج ابھی باتیں کررہے تھے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بھر کر پنجرے میں جھانک کردیکھا اور بولا۔”مہاراج! یہ جاگ رہے ہیں۔“
”میں جےرام سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
”مہاراج! آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔“ یہ کہہ کر سپاہی نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ پنجرے سے ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
بھیم سنگھ نے پنجرے میں جھانکتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔” جےرام تم بہت بےوقوف ہو۔“ اور پھر اپنا ہاتھ پنجرے میں ڈال کر زبیر کا بازو ٹٹولتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”تم اپنے ہاتھ میری طرف کرو۔“ زبیر نے اپنی پیٹھ پھیر کر اپنے بندھے ہوئے ہاتھ اس کی طرف کردیے۔بھیم سنگھ نے دوبارا بلند آواز میں کہا۔”نمک حرام! تمہیں راجہ کے سامنے اس ملیچھ عرب کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے شرم نہ آئی۔“ اور پھر آہستہ سے کہا۔”جےرام! میں تمہارے ساتھی کی ہاتھوں کی رسیاں کاٹ رہا ہوں۔ کچھ بولو ورنہ سپاہیوں کو شک پڑ جائے گا۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”بھیم سنگھ شرم کرو۔ یہ ایک راجپوت کی شان کے شایان نہیں کہ وہ کسی کو بےبس دیکھ کر گالیاں دے!“
میں تمہارے جیسے بزدل کو گالیاں دینا اپنی بےعزتی سمجھتا ہوں۔میں صرف یہ پوچھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم نے اس لڑکی اور لڑکے کو کہاں چھپایا ہے!“
”مجھے ان کا کوئی علم نہیں۔جاو مجھے تنگ نا کرو۔“
زبیر کے ہاتھ آزاد ہوچکے تھے۔بھیم سنگھ نے اس کے ہاتھ میں خنجر دیتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔تمہارے لیے یہ پنجرہ توڑ کر بھاگ نکلنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی قسمت آزمائی کر دیکھو۔اگر تم آزاد نا بھی ہوسکے تو کم ازکم بہادروں کی موت مرسکو گے۔“
سپاہیوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لیے بھیم سنگھ نے اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ عرب لڑکی کو تم نے کہیں چھپا رکھا ہے۔اچھا تمہاری مرضی،بنا بتاو لیکن یاد رکھو، سورج نکلنے سے پہلے برہمن آباد کے باشندے تمہیں پھانسی کے تختوں پر دیکھ رہے ہوں گے۔“
بھیم سنگھ نے پنجرے سے چند قدم دور جا کر سپاہیوں سے کہا۔”تم ایک طرف کیوں کھڑے ہو۔مجھے ان سے کوئی مخفی بات نہیں کرنی تھی۔ذرا اس جےرام کو دیکھو اس کا غرور ابھی تک نہیں ٹوٹا۔“
سپاہی نے جواب دیا۔”مہاراج! اس کی قسمت بری تھی۔ورنہ ہم نے سنا ہے کہ راجہ اس کی بہت قدر کرتا تھا۔مہاراج! شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ عرب جادوگر ہے۔اس نے جادو کی طاقت سے جےرام کو راجہ کا نافرمان بنا دیا تھا۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”شاید یہی بات ہو۔مجھے بھی اس کے پنجرے کے قریب نہیں جانا چاہیے تھا۔“
”نہیں مہاراج! آپ پر اس کے جادو کا کیا اثر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی آپ گھر جاکر پراتھنا کریں۔“
”تم بہت سمجھ دار ہو۔میں جاتا ہوں، میرا سر چکرا رہا ہے۔شاید یہ جادو کا اثر ہے!“
”مہاراج! اگر حکم ہو تو ہم میں سے کوئی ایک آپ کو گھر چھوڑ آئے؟“
”نہیں! نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔“
بھیم سنگھ چل دیا تو سپاہی نے پیچھے سے آواز دےکر کہا۔”مہاراج! میرا خیال رکھنا۔“
”تم فکر نا کرو!“
”ایشور آپ کا بھلا کرے۔“
بھیم سنگھ کے چلے جانے کے بعد ایک سپاہی نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”دیکھا میں نا کہتا تھا یہ جادوگر ہے، تم نا مانتے تھے۔سروپ سنگھ تمہاری خیر نہیں۔تم کئی بار پنجرے کو ہاتھ لگا چکے ہو۔اب تک تمہارا سر نہیں چکرایا؟“
”میرا سر۔۔۔۔۔؟ ہاں کچھ بوجھل سا ضرور ہے۔“
”فکر نا کرو۔ابھی چکرانے لگ جائے گا۔“
سروپ سنگھ نے فکر مند سا ہوکر کہا۔”لیکن میں نے سنا ہے کہ جادوگر کے مرنے سے جادو کا اثر نہیں رہتا۔“
”ایسے جادوگر مر کر پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔“
ایک اور سپاہی بولا۔”یار میں نے پنجرے کو ہاتھ لگایا تھا۔میرا سر بھی چکرا رہا ہے۔“
سروپ سنگھ بولا۔”بھگوان ایسے جادوگر کو غارت کرے۔اب میرا سر سچ مچ چکرا رہا ہے۔“
ان باتوں کا یہ اثر ہوا کہ سپاہی آٹھ دس قدم ہٹ کر پہرہ دینے لگے۔
زبیر پنجرے کےاندر اپنے پاوں کی رسیاں کاٹنے کے بعد جےرام کے ہاتھ پاوں بھی آزاد کرچکا تھا اور دونوں پنجرے کی سلاخوں کے ساتھ زور آزمائی کررہے تھے۔
ایک سپاہی نے چلا کرکہا۔”ارے وہ پنجرے میں کیا کررہے ہیں؟“
زبیر اور جےرام دبک کر بیٹھ گئے اور آنکھیں بند کرکے خراٹے لینے لگے۔دوسپاہیوں نے پنجرے کے گرد چکر لگایا اور مطمئیں ہوکر اپنے ساتھیوں سے جاملے۔
جےرام نے آہستہ سے کہا۔”زبیر!“
اس نے جواب دیا۔”کیا ہے؟“
”یہ سلاخیں بہت مضبوط ہیں۔قدرت نے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے، کیا تمہیں اب بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی امید ہے؟“
”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا!“
جےرام نے کہا۔” برہمن آباد میں سینکڑوں سپاہیوں پر بھیم سنگ کا اثر ہے۔شاید وہ آخری وقت میں ہماری مدد کرے۔“
”میں صرف خدا سے مدد مانگتا ہوں اور تمہیں بھی اسی کا سہارا لینا چاہیے اگر اسے ہمارا زندہ رکھنا منظور ہے تو ہم بھیم سنگھ کی مدد کے بغیر بھی رہا ہو جائیں گے۔“
”میں تمہارے ایمان کی پختگی کی داد دیتا ہوں لیکن برا نا منانا یہ سلاخیں خودبخود ٹوٹنے والی نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! جہاں عقل کے چراغ گل ہوجاتے ہیں وہاں ایمان کی مشعل کام دیتی ہے۔تم ایک ایسے خدا پر ایمان لاچکے ہو، جس نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا تھا۔“
جےرام کچھ کہنے والا تھا کہ باہر سے ایک سپاہی چلایا۔”کو ہے؟“
ایک شخص نے چند قدم کے فاصلے سے جواب دیا۔”جی میں ماہی گیر ہوں!“
”یہاں کیا کررہے ہو؟“
”جی میں مچھلیاں لایا ہوں۔“
”مچھلیاں! اس وقت؟“
”جی اب دن نکلنے والا ہے۔میرا ارادہ ہے کہ انھیں بیچ کر جلدی وآپس چلا جاوں۔آپ کو کوئی مچھلی چاہیے؟“
ایک سپاہی نے کہا۔”سروپ سنگھ تم لے لو۔تمہارے چار بچے ہیں۔“
مچھیرے نے کہا۔”ہاں سرکار لے لو! بالکل تازہ ہے۔“
سروپ سنگھ نے جواب دیا۔”ہم اس وقت پیسے باندھ کرتھوڑی بیٹھے ہیں۔مفت دینی ہے تو دےجاو۔“
”جی! شہر کے عام لوگ بھی ہم سے مفت چھین لیتے ہیں۔آپ تو سپاہی ہیں، آپ سے کون پیسے مانگ سکتا ہے!“
یہ کہتے ہوئے ماہی گیر نے مچھلیوں کی ٹوکری سپاہی کے آگے رکھ دی۔“
ایک سپاہی نے کہا۔”ارے تمہارے پاس تو کافی مچھلیاں ہیں۔ہمیں بھی دو گے یا نہیں؟“
سروپ سنگھ نے کہا۔”نہیں! نہیں! اس بیچارے پر ظلم نا کرو۔میں تو اس کا روز کا گاہک ہوں۔میں مفت تھوڑا لےرہاں ہوں۔کل پیسے ادا کردوں گا۔“
یہ کہتے ہوئے سروپ سنگھ نے مچھلی اٹھا لی اور شرارت آمیز تبسم کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا اور انھوں نے ہنستے ہوئے آن کی آن میں ساری ٹوکری خالی کردی۔
سروپ نے کہا۔”لو بھئی! تمہارا بوجھ ہلکا ہوگیا۔اب کل اسی جگہ اور اسی وقت پیسے لےلینا۔“
”بہت اچھا سرکار!“
پنجرے کے اندر زبیر جےرام سے کہہ رہا تھا۔”یہ گنگو ہے۔لیکن یہ اکیلا کیوں آیا ہے؟“
گنگو نے سپاہیوں سے کہا۔”مجھے الغوزہ بجانا آتا ہے.آپ کو سناو؟“
سپاہیوں نے یک زبان ہوکر کہا۔”ہاں ہاں سناو!“
گنگو نے الغوزے سے چند دل کش تانیں نکالیں اور اس کے ساتھی عام شہریوں کے لباس میں مختلف گلیوں سے نکل کر سپاہیوں کے گرد جمع ہونے لگے۔ایک سپاہی نے اپنے ساتھی سے کہا۔”ارے اس نے تو خوامخواہ مچھیرے کا ذلیل پیشہ اختیار کررکھا ہے۔یہ تو الغوزہ بجا کے کافی پیسے کماسکتا ہے۔“
گنگو کے ساتھی ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔” مجھے اس کی تانوں نے گہری نیند سے بیدار کیا ہے اور پھر میرا سونے کو جی نا چاہا۔“
”مجھے وسنتی کی ماں کہتی تھی کہ جاو دیکھو۔کوئی فقیر ہوگا۔“۔۔۔۔۔۔۔”ارے میرے محلے کے سارے لوگ پریشان ہیں کہ یہ کون ہے؟“
گنگو الغوزہ بجاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھی اچانک تلواریں سونت کر سپاہیوں پر پل پڑے اور آن کی آن میں ان کا صفایا کردیا۔داسو نے کلہاڑے کی چند ضربوں سے پنجرے کا دروازہ توڑ دیا اور جےرام اور زبیر لپک کر باہر نکل آئے۔
چوک کی آس پاس کی آبادی نے الغوزے کی دلکش تانوں کے بعد حملہ آوروں اور سپاہیوں کی غیر متوقع چیخ وپکار سنی لیکن اپنے گھروں سے باہر نکل کر دیکھنے کی جرات نا کی___زبیر اور جےرام گنگو اور اس کے ساتھیوں کے ہمراہ بھاگتے ہوئے شہر سے باہر نکلے۔گنگو کے چند ساتھی ایک باغ میں گھوڑے لیے کھڑے تھے۔
جس وقت شہر میں اس ہنگامے کا ردِ عمل شروع ہورہا تھا یہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہے تھے۔
ناہید اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور مایا اس کے قریب بیٹھ کر آہستہ آہستہ اس کا سر دبا رہی تھی۔خالد بےقراری کے ساتھ کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتا ہوا بستر کے قریب آکر بولا۔”ناہید بہت دیر ہو گئی ہے۔انھیں اس وقت تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔کاش! میں یہاں ٹھہرنے پر مجبور نا ہوتا۔“
مایا نے خالد کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا کر تسلی آمیز لہجے میں بولی۔”مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ راجہ دہر اس قدر ظالم ہوسکتا ہے، ممکن ہے داسو___!“
خالد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”تمہاری نیک خواہشات ایک بھیڑیے کو انسان نہیں بنا سکتیں۔“
مایا نے جھجکتے ہوئے کہا۔”آپ فکر نا کریں، وہ آجائیں گے۔“
”زبیر پھانسی پر لٹک رہا ہے اور مجھے فکر نا ہو۔کاش! میں گنگو کے ساتھ ہوتا۔“ یہ کہتے ہوئے خالد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور ہونٹ کاٹتا ہوا باہر نکل گیا۔مایا دیوی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ناہید کو دیکھنے لگی اور وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے بولی۔”مایا! اس نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا۔ تم زرا زرا سی بات پررو پڑتی ہو۔“
مایا نے جواب دیا۔”آج ان کے تیور دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔اگر وہ ناکام آئے تو کیا ہوگا؟“
ناہید نے کہا۔”وہ ایک خطرناک مہم پر گئے ہیں اور ان کی کامیابی اور ناکامی میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔“
”اگر گنگو اور اس کے ساتھی لڑائی میں مارے گئے تو آپ اپنے وطن چلیں جائیں گے اور میں۔۔۔۔۔“
ناہید نے جواب دیا۔”میری ننھی بہن! تم اپنے لیے عرب کی زمین تنگ نا پاو گی۔“
”لیکن خالد آج بات بات پر مجھ سے بگڑتے ہیں۔ممکن ہے وہ مجھے یہیں چھوڑ جائیں۔“
”مایا! میرے سامنے خالد نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ہاں تمہارے بھائی اور زبیر کے متعلق یہ المناک خبر سننے کے بعد وہ کچھ بےقرار سا ہے۔خدا کرے وہ زندہ بچ کر آجائیں۔تو پھر خالد کے چہرے پر تمام عمر مسکراہٹیں دیکھا کرو گی۔“
خالد کی مسکراہٹوں کا ذکر مایا کو تھوڑی دیر کے لیے تصورات کی حسین وادی میں لے گیا۔اسے یہ اجڑی ہوئی دنیا مہکتے ہوئے پھولوں کی کیاری دکھائی دینے لگی۔وہ پھولوں سے کھیل رہی تھی۔مہکتی ہوئی ہوا کے جھونکوں سے سرشار ہورہی تھی۔چڑیوں کے چہچے سن رہی تھی۔ وہ ایک عورت تھی جسے محبت تنکوں کا سہارا لینا اور امید دریا کے کنارے مٹی کے گھروندے بنانا سیکھاتی ہے لیکن ایک خیال بادِ سموم کے تیز جھونکوں کی طرح آیا اور مایا کے دامنِ امید میں مہکتے ہوئے پھول مرجھا گئے۔تصور کی نگاہیں عرب کے ریگ زاروں اور نخلستانوں میں گھومنے کے بعد برہمن آباد کے چوراہے میں اپنے بھائی کو پھانسی کے تختے پر لٹکا ہوا دیکھنے لگیں۔وہ ایک بہن تھی۔ایسی بہن جو اپنے گھر میں مسرت کے قہقہے سننے کے باوجود بھائی کی ایک ہلکی سی آہ پر چونک اٹھتی تھی۔مایا نے اپنے دل میں کہا۔”بھیا!! میرے بھیا!!! خدا تمہیں وآپس لائے۔تمہارے بغیر مجھے کسی کی مسکراہٹ خوش نہیں کرسکتی۔“
ناہید نے اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کہا۔”مایا! تمہیں واقعی خالد سے اس قدر محبت ہے۔“
مایا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینے لگی۔
ناہید نے پھر کہا۔”مایا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں مجھ پراعتبار نہیں آتا۔میں خالد کو جانتی ہوں۔وہ۔۔۔۔۔۔“
مایا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”نہیں! نہیں!! میں اپنے بھائی کے متعلق سوچ رہی ہوں۔“
قلعے کا ایک پہریدار بھاگتا ہوا آیا. ناہید نے اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
پہریدار نے کہا۔”خالد گھوڑے پر زین ڈال رہا ہے۔وہ میرا کہا نہیں مانتے۔انھیں برہمن آباد کا راستہ بھی معلوم نہیں۔اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو گنگو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔آپ انھیں منع کریں!“
ایک لمحہ کے لیے مایا کا دل بیٹھ گیا۔پھر زور زور سے دھڑکنے لگا، وہ اٹھی اور بے تحاشا بھاگتی ہوئی قلعے سے باہر نکل آئی۔اس کا دل یہ کہہ رہا تھا۔”خالد مت جاو! مت جاو! میں بھائی کا غم برداشت کرسکتی ہوں لیکن تمہارے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔خالد مجھ پر رحم کر۔خالد!! خالد!!!“
قلعے سے باہر خالد گھوڑے کی لگام تھام کر اپنا ایک پاوں رکاب میں رکھ چکا تھا۔مایا نے بھاگتے ہوئے آواز دی۔”ٹھہرو! خدا کے لیے! ٹھہرو!! اکیلے مت جاو! میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔
خالد نے اپنا پاوں رکاب سے نکال لیا اور پریشان سا ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگا۔اتنی دیر میں ناہید بھی بار آچکی تھی۔مایا ناہید کی طرچ متوجہ ہوکر بولی۔”بہن انھیں روکو! یہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔بھگوان کے لیے! خدا کے لیے! انھیں روکو!“
ناہید نے ان کے قریب پہنچ کر کہا۔”خالد! اگر تمہارے جانے میں کوئی مصلحت ہوتی تو میں اس بےکسی کے باوجود تمہارا راستہ نا روکتی۔تم اکیلے شہر میں راجہ کے تمام لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔تمہیں گنگو کا انتظار کرنا چاہیے۔وہ ضرور آئے گا۔اگر وہ نا آیا تو اس کا کوئی نا کوئی ساتھی ضرور آئے گا۔بیشک تم بہادر ہو۔لیکن ایسے موقعوں پر صبر سے کام لینا ہی بہادری ہے۔“
خالد نے جواب دیا۔” آپا! تمہیں بخار ہے۔تم جاکر آرام کرو۔میں صرف ان کی راہ دیکھنے جارہا ہوں۔یہ وعدہ کرتا ہوں کہ دور نہیں جاوں گا۔“
مایا نے کہا۔”نہیں! نہیں!!! بہن انھیں مت جانے دو۔یہ وآپس نہیں آئیں گے۔“
خالدنے کہا۔”مایا! ممکن ہے کہ راجہ کے سپاہی ان کا تعاقب کررہے ہوں۔ان کی مدد میرا فرض ہے۔تم اپنے بھائی کا خیال کرو!“
مایا نے جواب دیا۔”میرا بھائی اگر خطرے میں ہے تو آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے۔“
خالد کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دور سے ایک شخص جو درخت پر چڑھ کر پہرہ دے رہا تھا چلایا۔”وہ آرہے ہیں۔“ اور معاً جنگل میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ایک اور پہرے دار بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔”شاید دشمن ان کا پیچھا کررہے ہوں۔تم قلعے کے تہہ خانے میں چھپ جاو۔“
خالد نے اطمینان سے جواب دیا۔”چھپنے کی ضرورت نہیں۔اگر سپاہی ان کے تعاقب میں ہوتے تو وہ اس طرف نا آتے، لیکن یہ تو بہت تھوڑے گھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔خدا خیر کرے۔“
گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز قریب آرہی تھی اور خالد نے دوسری بار چونک کرکہا۔” معلوم ہوتا ہے کہ صرف چار گھوڑے وآپس آئے ہیں۔“
گھوڑوں کے آمد کی خبر پاکر ناہید نے اپنے دل میں زبردست دھڑکن محسوس کی اور جب خالد نے یہ کہا کہ صرف چار گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی ہے تو امید کے چراغ روشن ہوکر اچانک بجھ گئے۔اس کی حالت غم داندوہ کے بحرِ بیکراں میں ٹوٹی ہوئی کشتی کے اس ملاح سے مختلف نا تھی جو اٹھتی ہوئی لہر کو ساحل سمجھنے کا دھوکا کھا چکا ہو۔وہ محسوس کررہی تھی کہ قدرت آخری بار امید کا دامن اس کے ہاتھ سے چھین رہی ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک گھوڑا جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوا۔سوار نے قریب پہنچ کر باگیں کھینچ لیں اور گھوڑے سے کود کر مایا کی طرف بڑھا۔مایا۔” بھیا!! میرا بھیا!!!“ کہتی ہوئی اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ناہید اور خالد کی نگاہیں جھاڑیوں کی طرف تھیں۔جےرام کو دیکھ کر ناہید زبیر کے متعلق پھر ایک بار امید کے چراغ روشن کررہی تھی۔جےرام کے بعد داسو اور اس کے پیچھے گنگو اور زبیر جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوئے۔زبیر کو دیکھ کر ناہید جھجکتی ہوئی دوتین قدم آگے بڑھی۔زبیر اس کے قریب پہنچ کر نیچے اترا۔خالد بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔ناہید نے چاہا کہ بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ جاوں لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاوں زمین میں پیوست ہوچکے ہیں۔اس کے اعضاء میں رعشہ ہے۔اس کا سر چکرا رہا تھا۔مہینوں کے تھکے ہوئے مسافر کی طرح منزل کو اچانک اپنے قریب دیکھ کر اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔
زبیر خالد سے علیحدہ ہوکر آگے بڑھا اور بولا۔”ناہید! اب تم اچھی ہونا۔“
وہ جواب دینے کی بجائے اپنے چہرے کا نقاب درست کرنے لگی۔
زبیر نے پھر کہا۔”ناہید! تمہارا زخم کیسا ہے؟“
ناہید کے ہونٹ کپکپائے، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔” خدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے۔میں ٹھیک ہوں۔“ اس کےآخری الفاظ ایک گہری سانس میں ڈوب کر رھ گئے۔ اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرپڑی۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔خالد اور مایا کے مغموم لہجے دیکھنے کے بعد اس کی نگاہیں زبیرپر مرکز ہوکر رھ گئیں۔ مرجھائے ہوئے چہرے پر اچانک حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔گنگو اور جےرام دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ خالد نے ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ناہید کو ہوش آگیا۔آپ فکر ناکریں۔“
زبیر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”ناہید! اب ہماری مصیبت ختم ہونے والی ہے۔میں آج ہی جارہا ہوں۔“
مایا ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے زبیر کے متعلق ناہید کے حزبات کا اندازاہ لگا چکی تھی۔اس نے جلدی سے کہا۔”نہیں آپ یہیں ٹھہریں۔اس وقت سارے سندھ میں آپ کی تلاش ہورہی ہوگی۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میرے لیے سندھ کی سرحد پار کرنے کا یہی ایک موقع ہے۔کل تک تمام راستوں کی چوکیوں کو ہمارے فرار ہونے کی اطلاع مل جائے گی۔ہمارے باقی ساتھی راجہ کے سپاہیوں کو چکمہ دینے کے لیے مشرق کے صحرا کا رخ کررہے ہیں۔میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔خالد! تم یہیں رہو گے۔اگر اس جگہ کوئی خطرہ پیش آیا تو گنگو تمہیں کسی محفوظ مقام پر لے جائے گا۔عرب سے ہمارے افواج کی آمد تک اگر ناہید گھوڑے پر چڑھنے کے قابل ہوگئی تو گنگو تمہیں مکران پہنچا دے گا۔“
ناہید نے کہا۔”جب تک میری بہنیں قید میں ہیں میں یہیں رہنا پسند کروں گی۔خدا آپ کو جلد وآپس لائے! ہم آپ کا انتظار کریں گے۔میرا خط آپ کو مل گیاہوگا۔وآپس آنے میں دیر نا کریں۔ ہاں میں علی کا حال پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”علی آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔دیبل کے گورنر نے اسے بہت اذیت دی ہے۔لیکن وہ ایک بہادر لڑکا ہے۔وہ خواہ کسی حالت میں بھی ہو نماز کے وقت اذان ضرور دیتا ہے۔یہ لوگ اذان سے بہت گھبراتے ہیں۔اسے باڑا کوڑوں کی سزا دی جا چکی ہےلیکن اس کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا۔برہمن آباد کے قید خانے میں بھی اس کا یہی حال ہے۔راجہ کے سپاہی اسے زبان کاٹ دینے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن اس کا ارادہ متزلزل نہیں ہوا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ آپ کی صحبت کا اثر ہے۔ورنہ وہ اتنے مضبوط دل کا مالک نا تھا۔سراندیپ میں اسے ایک کمزور لڑکا سمجھا جاتا تھا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”انسان کے عیوب اور محاسن صرف خطرے کے وقت ظاہر ہوتے ہیں۔“
دروازے پر سے گنگو نے آواز دی۔”اب دوپہر ہونے والی ہے۔آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔“
ناہید نے کہا۔”آپ جائیں! خدا آپ کی مدد کرے۔لیکن آپ کو مکران تک خشکی کا راستہ معلوم ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”داسو میرے ساتھ جارہا ہے اور وہ تمام راستوں سے واقف ہے۔میں مکران کی سرحد پر پہنچ کر اسے وآپس بھیج دوں گا!“
مایا نے کہا۔”لیکن اس لباس میں آپ فوراً پہچانے جائیں گے۔“
زبیرنے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میری ننھی بہن کو میرا بہت خیال ہے لیکن اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔میں سندھی لباس پہن کر جارہا ہوں اور اب تو میں سندھ کی زبان بھی سیکھ چکا ہوں۔کوئی مجھ پر شک نہیں کرے گا!“
مایا نے کہا۔”آپ مجھے بہن کہہ کر بہت سے ذمہ داریاں اپنے سر لے رہے ہیں۔یاد رکھیے! ہمارے ملک میں دھرم کے بہن بھائیوں کا رشتہ سگے بہن بھائیوں کے رشتے سے کم مضبوط نہیں ہوتا۔اگر آپ مجھے اپنی بہن کہتے ہیں تو ہفتوں کا سفر دنوں میں کیجیے۔ہماری مصیبت آپ کے ساتھیوں کی مصیبت سے کم نہیں۔وہ میرے بھائی کی تلاش میں سندھ کا کونا کونا چھان ماریں گے۔مجھے ڈر ہے کہ آپ کی افواج کے آنے سے مایوس ہوکر کہیں میرا بھائی کاٹھیاوار کی طرف فرار ہونے پر آمادہ نا ہوجائے۔“
جےرام نے باہر سے بلند آواز میں کہا۔”مایا کیا کہتی ہے۔میں ایک راجپوت ہوں۔نہیں، بلکہ ایک مسلمان بھی ہوں۔میں اپنے محسنوں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں۔“
”مسلمان؟ میرا بھائی ایک مسلمان؟“ مایا یہ کہتی ہوئی ناہید کی چارپائی سے اٹھ کر بھاگی اور باہر نکل کر جےرام سے لپٹ گئی۔اس کا دل دھڑک رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔”بھیا! سچ کہو تم مسلمان ہوگئے؟“
اس نے جواب دیا۔”مایا! پارس سے ٹکڑا کر لوہا، لوہا نہیں رہ سکتا۔تم روٹھ تو نا جاو گی؟“
”میں__؟“ اس نے الگ ہوکر آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”میں کیسے روٹھ سکتی ہوں۔خدا نے میری دعائیں سن لیں۔میری منتیں قبول کرلیں۔بھیا مبارک ہو لیکن تمہارا اسلامی نام؟“
زبیر نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔”یہ میری کوتاہی ہے۔اگر تم پسند کروتو تمہارے بھائی کا نام ناصر الدین رکھتا ہوں۔“
”اور میرا نام؟“
خالد،زبیر ، گنگو اور جےرام حیران ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگے۔مایا نےاپنے سوال کا کوئی جواب ناپاکر کہا۔”تم حیران کیوں ہو۔ناہید سے پوچھو۔“ وہ یہ کہہ کر دہلیز میں کھڑی ہوگئی اور ناہید کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔”ناہید بہن انھیں بتاو۔کیا میں نے تمہارے سامنے کلمہ نہیں پڑھا؟ کیا میں نے تمہارے سامنے چھپ چھپ کر نمازیں نہیں پڑھیں؟ کیا میں نے قرآن کی آیات یاد نہیں کیں۔۔۔؟“
مایا پھر اپنے بھائی کے پاس آکھڑی ہوئی اور زبیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔”آپ کس سوچ میں پڑ گئے۔ناہید میرا نام زہرا رکھ چکی ہے اور مجھے یہ نام پسند ہے۔“
خالد نے اندر آکر ناہید کے کان میں آہستہ سے کہا۔”تم نے یہ باتیں مجھ سے کیوں چھپائیں؟“
ناہید نے مسکرا کر جواب دیا۔”مایا کو اس بات کا ڈر تھا کہ آپ یہ خیال کریں گے کہ وہ آپ کو خوش کرنے کے لیے مسلمان ہوئی ہے۔اسے اپنے بھائی کا خوف بھی تھا۔اس لیے وہ مجھ سے وعدہ لےچکی تھی کہ میں فلحال اس کا راز اپنے تک محدود رکھوں۔“ خالد پھر بھاگتا ہوا جےرام کے قریب آکھڑا ہوا۔اس کی روح مسرت کے ساتویں آسمان پر کھڑی تھی۔
زبیر نے کہا۔”بھائی ناصرالدین، اور بہن زہرا میں تم دونوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔خدا تمہیں استقامت بخشے۔“
گنگو نے کہا۔”زبیر! اگر ہمارا دل ٹٹول کر دیکھو تو ہم سب مسلمان ہیں لیکن سب کے لیے نام سوچتے ہوئے تمہیں دیر لگ جائے گی۔یہ خدمت خالد کے سپرد کردو۔اب دوپہر ہورہی ہے۔تمہیں شام تک کم از کم یہاں سے تیس کوس نکل جانا چاہیے۔“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میں تیارہوں۔“
گنگو نے داسو کو آواز دے کر کپڑے لانےکےلیے کہا۔زہرا پھر ناہید کےپاس آبیٹھی اور زبیر نے گنگو کی ہدایت کے مطابق ایک سندھی سپاہی کا لباس زیب تن کیا۔گنگو نے کہا۔”آپ کے لیے گھوڑے تیار کھڑے ہیں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ دوبارا ناہید کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ اس کے پاوں کی آہٹ سن کر اپنے چہرے پر نقاب ڈال چکی تھی۔
زبیر نے کہا۔”ناہید! خدا حافظ۔بہن زہرا! میرے لیے دعا کرنا۔“
دونوں نےجواب میں خدا حافظ کہا اور زبیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہرنکل آیا۔
خالد، ناصرالدین اور گنگو نے قلعہ کے دروازے تک اس کا ساتھ دیا۔
داسو دروازے پر دو گھوڑے لیے کھڑا تھا۔زبیر خدا حافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔داسو نے اس کی تقلید کی۔گنگو نے کہا۔”دھوپ تیز ہے۔لیکن یہ دونوں گھوڑے تازہ دم ہیں۔“تیس کوس کی پہلی منزل ان کے لیے بڑی بات نہیں۔داسو! اس مہم میں تمہاری کامیابی شاید چند مہینوں میں سندھ کا نقشہ بدل دے جب تک زبیر مکران کی سرحد عبور نا کرلے وآپس نا آنا۔“
”آپ بےفکر رہیں۔“ یہ کہہ کر داسو نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔زبیر نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے چھوڑ دیا۔
قلعے کے اندر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن کر زہرا نے ناہید کی طرف دیکھا۔ناہید کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی۔”خدا تمہاری مدد کرے۔خدا تمہیں دشمنوں سے بچائے۔“
زہرا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اوروہ بولی۔”آپا! تم اب تک مجھ سے ایک بات چھپاتی رہی ہو۔تمہیں ان سے محبت ہے؟“
ناہید نے کوئی جواب دیے بغیر زہرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز آہستہ آہستہ ناہید کے کانوں سے دور ہورہی تھی۔آنسووں کے موتی اس کی آنکھوں سے جھلک کر رخساروں پر بہہ رہے تھے۔
زہرا نے اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”بہن وہ جلد آئیں گے۔وہ ضرور آئیں گے۔“