صبح اٹھ کر اس نے ای میلز چیک کیں مگر کسی اپلائی کی گئی جاب کا جواب نہ پا کر اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔ اس نے بریک فاسٹ کیے بنا کوٹ پہنا تھا اور اٹھ کر باہر نکل آئی تھی۔ اسٹریٹ پر ایک طرف چلتے ہوئے وہ سیل فون پر نمرہ کا نمبر ملانے لگی تھی۔ وہ شاید اس وقت سو رہی تھی تبھی کال پک نہیں کی تھی۔ وہ بینک آئی اور اپنے اکائونٹ سے کچھ رقم نکلوا کر ثناء کو بجھوائی اور ایک ریسٹورنٹ میں آن بیٹھی تھی۔ کافی کے سپ لیتے ہوئے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور سامنے نگاہ اٹھا کر دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی کوندی تھی۔ جیسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی اور دوسرے ہی پل اٹھ کر وہ اس طرف چل پڑی تھی۔ نمرہ نے کچھ دن پہلے اسے ایک کارڈ تھمایا تھا اس کے کسی جاننے والے کی کمپنی تھی شاید یہاں کچھ بات بن سکتی تھی۔
’’جی‘ کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘ ریسیپشسنٹ نے شستہ انگریزی میں پوچھا تھا۔
’’وہ‘ میں‘ مجھے ریان حق سے ملنا ہے۔‘‘ اس نے مٹھی میں دبا کارڈ دیکھ کر روانی سے کہا تھا۔ ریسیپشنسٹ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’آپ کی کوئی اپائمنٹ ہے۔‘‘
’’نہیں‘ مگر…!‘‘
’’آپ ان سے نہیں مل سکتیں۔‘‘ اس کے دو ٹوک جواب نے اس کی آخری امید بھی توڑ دی تھی۔ وہ اس سے زبردستی کیسے ملتی؟ اس نے ریسیپشنسٹ کو دیکھا کچھ سوچا اور پھر پوچھا۔
’’وہ آپ کے بائیں جانب پیچھے دیوار پر کیا سائن ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ کلف لگی گردن والی اس خاتون نے اپنے سپاٹ چہرے کو کچھ موڑا اور یہی وقت تھا جب وہ ایک ہی جست میں اندر کی جانب بڑھ گئی تھی ریسیپشنسٹ اس کے پیچھے چیخی تھی۔
’’ہے‘ لڑکی… کوئی روکو اسے۔‘‘ وہ پورے زور سے حلق پھاڑ کر چلائی مگر ایلیاہ میر نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا اور سیدھی چلتی ہوئی سی ای او کے روم کے سامنے آن رکی تھی۔ بنا کچھ سوچے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا اور بنا اجازت لیے اندر داخل ہوگئی تھی۔
’’ایکسکیوزمی‘ آئی ایم ایلیاہ میر۔‘‘ وہ پورے جوش سے بولی تھی۔ تبھی چیئر پر بیٹھے شخص نے سر اٹھا کر اس کی سمت دیکھا اور وہ اپنی جگہ بت بن گئی تھی۔ سامنے چیئر پر وہی شخص براجمان تھا جس کی گاڑی کے سامنے وہ اس رات آئی تھی۔ وہ شخص اسے دیکھ کر چونکا تھا۔
’’جی‘ آپ یہاں کیسے؟‘‘ وہ بنا کسی اپائنمنٹ لیے اسے اپنے روم میں گھس جانے پر حیران ہوا تھا اور اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایلیاہ میر نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب سیکیورٹی نے اسے آن دبوچا تھا۔
’’یہ کیا بد تمیزی ہے یہ کس قوم کا رویہ اپنا رہے ہیں میرے ساتھ؟‘‘ وہ چیخی تھی۔ مگر ہٹے کٹے سیکیورٹی اہلکاروں نے اسے چھوڑا نہیں تھا۔ ایلیاہ میر نے سامنے چیئر پر بیٹھے شخص کو گھورا تھا۔
’’ایسے خاموش بیٹھے کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟ آپ کی کنٹری سے ہوں کچھ تو لحاظ کریں یہاں بم پھوڑنے نہیں آئی۔ آپ سے ملنے آئی ہوں۔ کم از کم اس طرح کا سلوک نہ کریں۔‘‘ وہ غصے سے اردو میں گویا ہوئی تھی۔ ریان حق نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تھا اور پھر سیکیورٹی اہلکاروں کو اسے چھوڑنے کا اشارہ دیا تھا۔
’’آپ جائیں یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر دونوں اہلکار باہر نکل گئے تھے۔ ایلیاہ میر نے گہری سانس لیتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
’’شکر ہے بات آپ کی سمجھ میں تو آئی۔ چلو پرائے دیس میں ایک دیسی کی ہیلپ تو نصیب ہوئی۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’آئی ایم برٹش۔‘‘ وہ جتاتا ہوا بولا تھا۔ اس مختصر جملے میں کوئی نفی تھی نا کوئی مثبت اعلان۔ مگر ایلیاہ میر نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا ضرور تھا۔ مگر وہ مزید کچھ کہہ کر بات بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سہولت سے بولی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے آپ کا کارڈ دیا تھا۔ آپ ان کی کسی کزن کے ریلیٹیو ہیں۔‘‘ اس نے مدعا بیان کیا تھا۔ اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ تبھی وہ گہری سانس خارج کرتا ہوا بولا تھا۔
’’مس‘ آپ کوئی بھی ہیں مگر اس وقت انگلینڈ میں کساد بازاری چل رہی ہے۔ ہم اپنا اسٹاف کم کر رہے ہیں۔ بہت سے قابل لوگ اپنی جابز سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہمیں اپنی کمپنی کو بچانا ہے۔ اس کی ساکھ کو بچانا ہے اور اس کے لیے ہم بہت سا غیر ضروری اسٹاف بھرتی نہیں کرسکتے۔ ہم مقامی لوگوں کو جابز سے برخاست کر رہے ہیں اور آپ تو یہاں کی ہیں بھی نہیں۔ یوں بھی ہم صرف لوکل لوگوں کو ہی جابز دینے پر پابند ہیں۔ میں کمپنی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتا۔‘‘ اس کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ اس شخص کا چہرہ اس رات سے زیادہ سپاٹ تھا۔ وہ اسے گھورنے لگی تھی پھر سلگ کر بولی۔
’’روبوٹ ہیں آپ‘ ایک انسان کی مجبوری دکھائی نہیں دیتی آپ کو؟ صرف لوکل لوگ ہی انسان ہیں ہم فارنر نہیں۔ باصلاحیت ہوں میں اگر آپ مجھے جاب دیں تو میں پروف کر سکتی ہوں میں غلط انتخاب نہیں ہوں۔ آپ یہ فائل دیکھیں۔ میں نے ایک ایم بی اے پاکستان سے کیا ہے ایک یہاں کی مقامی یونیورسٹی سے کیا ہے۔ میں نے اپنے دو سالہ قیام کے دوران اچھی کمپنیز کے ساتھ کام کیا ہے۔ اگرچہ پارٹ ٹائم ہی مگر مجھے یہاں کی ٹاپ کمپنیز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے آپ اس طرح مجھے نا نہیں کرسکتے۔‘‘ اس نے فائل آگے رکھی تھی۔ ریان حق نے بنا دیکھے فائل بند کردی تھی۔
’’وہاٹ ایور‘ بات آپ کی سمجھ میں آجانی چاہیے۔ ہمیں اپنی ویل رپیٹیٹیو کمپنیز کی فہرست میں آنا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی بقا کو بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت کسی بھی غیر مقامی کو جاب دینا رسک ہوسکتا ہے۔ اس کمپنی پر ہم فالتو کا بوجھ نہیں لاد سکتے۔ آئی ایم سوری۔‘‘ وہ معذرت کر رہا تھا۔ عجیب بے حس شخص تھا۔
’’کس قسم کے انسان ہیں آپ بات سمجھ نہیں آئی آپ کے جو مقامی ہیں صرف وہی انسان ہیں اور ہم کیا کریں۔‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ آپ اپنی کنٹری میں واپس جا سکتی ہیں اگر آپ کے لیے یہاں صورت حال مشکل ہوگئی ہے تو گو بیک ہوم…!‘‘ وہ سفاک لہجے میں بولا۔
’’میری کنٹری؟ اور وہ آپ کی بھی تو کنٹری ہے؟ دیار غیر میں اپنے دیس کے کسی بندے کی مدد کردیں گے تو کیا بگڑ جائے گا آپ کا؟‘‘
’’مس…!‘‘
’’ایلیاہ میر…! ایلیاہ میر نام ہے میرا۔ بے نام نہیں ہوں میرے نام سے بلا سکتے ہیں آپ مجھے۔ غیر مقامی لوگوں کو ان کے نام سے بلانا یقیناً کمپنی پالیسی کا حصہ نہیں ہوگا اور آپ کے مشورے کے لیے بھی شکریہ۔ میں ڈھونڈ لوں گی راستا‘ گھر واپس چلی جائوں گی۔ یہاں میں اپنی مرضی اور شوق سے نہیں آئی ہوں۔ میری ڈگری پھنسی ہوئی ہے۔ آپ کے اس انگلینڈ کے دو نمبر کے گھٹیا لوگوں نے پیسا بنانے کے لیے جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرنے کے لیے گھٹیا کالج اور کیمپس بنائے ہیں نا۔ وہ ٹائم پر سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کرتے۔ کمانا آتا ہے آپ لوگوں کو خوب کما رہے ہیں دونوں ہاتھوںسے۔ پیٹ بھر بھر کر کھا رہے ہیں مگر ہم اسٹوڈنٹس بسکٹ اور کافی کو بھی ترس رہے ہیں اور قصور کس کا ہے؟ آپ لالچی لوگوں کا جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ ہائر کرنے کے لیے بہت تگ و دو کرتے ہیں۔ انہیں سہانے خواب دکھاتے ہیں اور یہاں انہیں اپنی گھٹیا پالیسیز کی نذر کر دیتے ہیں۔ لالچ کی بھی حد ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرتے ہوئے کیوں بوجھ نہیں پڑتا آپ کی اکانومی پر؟ تب کیوں کساد بازاری دکھائی نہیں دیتی؟ تب کیوں صرف فائدہ دکھائی دیتا ہے؟‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے اسے اکتائے ہوئے انداز میں دیکھا تھا۔ پھر گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا تھا۔
’’لسن مس ایلیا میر۔ بات اگر لالچ کی ہے تو آپ بھی صرف لالچ کے لیے ہی اس کنٹری میں آئی ہیں۔ ایک اچھے مستقبل کا لالچ آپ کو کھینچ کر لایا ہے یہاں۔ یہ بات عام ہے کہ انگلینڈ کی اس وقت کیا حالت ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آنکھیں بند کیے نہیں بیٹھےکہ انہیں حقائق کی خبر نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ یہاں پارٹ ٹائم جاب کر کے بھی اتنا کما سکتی ہیں جتنا اپنی کنٹری میں آٹھ دس مہینوں میں کمائیں گی۔ یہ آپ کا لالچ ہی تو ہے جو سختیاں جھیلنے کے لیے آپ کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لالچ کس میں نہیں ہے؟ سبھی لالچی ہیں اینی وے میرا وقت بہت قیمتی ہے ہم مزید بات نہیں کرسکتے۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔‘‘ سپاٹ لہجے میں کہہ کر ریان حق نے اس کی فائل اس کے سامنے رکھی تھی اور اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔ تب ساکت بت بنی ایلیاہ میر کو بھی اٹھنا پڑا تھا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل آئی۔
لڑ کر‘ جھگڑا کر کے یا ہم وطنی کا واسطہ دے کر وہ حاصل نہیں کرسکتے جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ اس کے پائوں میلوں چلتے رہے تھے اور جب اپنے کمرے میں آکر اس نے اپنے وجود کو بستر پر ڈالا تو اسے کوئی احساس نہیں تھا سارا وجود جیسے بے حس تھا۔ تھکن کا کوئی احساس بھی نہیں تھا۔
وہ ایک برے وقت سے گزر رہی تھی۔ مگر وہ اپنے پیاروں کو ان حالات میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ اس کے کاندھوں پر ذمہ داری تھی ان کی۔ وہ خود چاہے کتنا بھی سفر کرتی مگر وہ انہیں سفر کرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر وہ کیا کرسکتی تھی؟ فی الحال کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ذہن پوری طرح سے مائوف تھا۔ اس پاکستانی‘ دیسی دکھائی دینے والے ریان حق نے بہت اچھی طرح اس کی عقل ٹھکانے لگائی تھی۔
ہاں یہ اس کا لالچ ہی تو تھا۔
لالچی ہی تو ہوگئی تھی وہ جو اپنی اچھی خاصی دبئی کی جاب کو لات مار کر یہاں چلی آئی۔ مگر کس کے لیے؟ یہ اس کی اپنی خود کی غرض نہیں تھی۔ یہ اس کی فیملی کی بہتر سپورٹ کے لیے تھا۔ وہ اتنا کمانا چاہتی تھی کہ گھر چل سکے۔ ثنائ‘ جامی اور تمنا کے اخراجات اٹھا سکے۔ انہیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنا سکے۔ بس یہی تو چاہتی تھی وہ یہی تو تھا اس کا لالچ تو کیا غلط تھا اس میں۔
گرم گرم آنسو آنکھوں کے کناروں سے نکل کر بالوں میں جذب ہونے لگے تھے۔ وہ تنہا کھڑی تھی۔
بہت تنہا۔ کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔
اس کا دل چاہا تھا ریان حق کا منہ نوچ لے۔ مگر اس کا بھی کیا قصور تھا۔ وہ مقامی روبوٹ تھا جو صرف فائدے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا۔ وہ فائدے سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتا تھا۔ وہ اسے یا اس جیسے کسی اور کو الزام نہیں دے سکتی تھی۔
وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی تھی یہ اس کی مجبوری تھی۔ مزید دو سال یہاں رہ کر کمانا چاہتی تھی کیونکہ یہی اس کے حق میں بہتر تھا۔ کوئی اور اس کی مجبوری کیوں سمجھتا۔ وہ کیوں کسی سے فیور چاہ رہی تھی۔ پچھلے کئی دنوں سے اس نے پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔ اس کی روم میٹ کچھ خرانٹ تھی مگر اس کی کیفیت دیکھ کر اس نے اپنا فوڈ اس کے ساتھ شیئر کرلیا تھا۔ وہ رشین لڑکی تھی وہ بھی اسٹوڈنٹ تھی مگر ابھی اس کی اسٹڈی اور ویزا دونوں ختم نہیں ہوئے تھے۔ سو اسے ان حالات کا سامنا نہیں تھا جن کا ایلیاہ میر کو تھا۔ وہ بہت زیادہ مدد گار نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ خود بھی پارٹ ٹائم جاب کرتی تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کا خرچہ بھی اٹھا رہی تھی جو کہ مقامی تھا اور آج کل بے روزگار تھا۔ نہ ہی ایلیاہ اس سے روز مدد مانگ سکتی تھی۔ اس کی خودداری اسے اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس نے لیپ ٹاپ کھول کر کئی سائٹس پر اپنی سی وی چھوڑ دی تھی۔ شاید اس سے کوئی راہ مل سکتی۔ اس نے اپنے لائر سے بات کی تھی۔
’’مجھے جاب چاہیے۔ اس کے لیے مجھے وہ پیپرز ایوی ڈینس کے طور پر چاہئیے جو میں نے اپنے (Post Study Work) کے لیے (Uk Border Agency) میں جمع کروائے ہیں۔ کیا اس کی فائل مجھے آپ آج بجھوا سکتے ہیں؟ یا میں آپ کے آفس آجائوں؟‘‘
میں آج کچھ بزی ہوں مگر اس کے لیے مجھے UKBA جانا ہوگا۔ تبھی کچھ ہوسکتا ہے۔ آپ بڑی کمپنیز کے بجائے چھوٹی جابز پر دھیان دیں۔ کسی ریسٹورنٹ یا پھر اسٹور یا شاپ کوئی بھی جاب بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی مس میر۔ میں نے یہاں MBA کیے لوگوں کو مچھلی پیک کرتے تک دیکھا ہے۔ جو کہ انتہائی گھٹیا کام سمجھا جاتا ہے مگر اس کی ایک دن کی آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ آپ پریشان مت ہوں خدا کوئی راہ ضرور دکھائے گا۔‘‘ وہ لائر شاید کوئی اچھا انسان تھا جو اس کی حالت کو سمجھ رہا تھا۔ اس نے سلسلہ منقطع کیا تھا۔
’’تو کیا اسے بھی مچھلیاں پیک کرنے کا کام کرنا ہوگا؟‘‘ وہ اپنا کوٹ پہن کر باہر نکلتے ہوئی سوچ رہی تھی۔ جان پہچان کے بنا کہیں بھی جانب حاصل کرنا ممکن نہیں تھا اور وہ تھک کر نمرہ کے پاس آئی تھی۔ وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
’’کہاں جا رہی ہو تم؟‘‘ ایلیاہ میر نے پوچھا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...