زریاب کو مہرین کی طبیعت کے بارے میں پتا چلا تھا۔ وہ تب اسلام آباد میں اپنی والدہ کے ساتھ تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کے عاشر اس قدر تنگ نظر اور سنگ دل انسان نکلے گا۔ بھلے مہرین نے اس کے ساتھ بہت برا کیا اس کی زندگی میں اندھیرے بکھیر دئے مگر وہ خود بھی کبھی خوش نہیں رہ سکی۔ بابا جان نے ہر بات ہر فیصلے میں عاشر کو اہمیت دی اسے آگے رکھا جبکہ ان کی سگی بیٹی مہرین کبھی بھی ان کا اعتبار اور پیار حاصل نہ کر پائی۔ بچپن سے ہی ہر معملے میں جب بابا جان نے عاشر کو اہمیت دی اور اسے اعتبار میں لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کے مہرین کے دل میں عاشر کے لئےکدورت بیٹھ گئی۔
وہ آج مہرین کی حالت کا سن کر کافی پریشان تھا۔ وہ ابھی مہرین کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کے اس کا فون بجا۔
“ہیلو؟”
“کیسے ہیں آپ؟” آواز جانی پہچانی تھی مگر وہ صحیح سے پہچان نہیں سکا تھا۔
“کون؟” وہ ابھی تک سوچوں میں گم تھا۔
“اب آپ مجھے پیچانتے بھی نہیں!” اس نے خفگی کا اظہار کیا۔ زریاب کچھ دیر کے لئے سوچتا رہا پھر اس نے سر جھٹکا۔
“مس عروسہ؟” اس نے ایک دم بولا ۔
“نہیں صرف عروسہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ۔” وہ ہنس کر بولی۔
“کوئی کام؟ اور نمبر کس سے لیا آپ نے؟” وہ عروسہ کی اس حرکت پر شدید غصّہ ہوا تھا۔
“نمبر تو مل ہی جاتا ہے۔ کیا آپ کو اچھا نہیں لگا؟” وہ زریاب کا لہجہ سمجھ نہ سکی۔
“مس عروسہ میرا اور آپ کا تعلق بہت ایک استاد اور شاگرد جیسا ہے اور یہ رشتہ بہت ہی ادب اور لہٰذ کا ہوتا ہے۔ اس لئے میں امید کرتا ہوں آپ آیندہ ایسا کچھ نہیں کریں گی۔” اور مزید کچھ کہے بنا اس نے فون بند کر دیا۔
********
آنسو مسلسل مہرین کے چہرے پر گر رہے تھے۔ وہ ابھی تک اپنے لبوں کو اس کے ماتھے پر رکھ کر زارو قطار رو رہا تھا۔ مہرین کو اس حالت میں ديکھ کر اس کا دل تڑپ اٹھا تھا۔ وہ اسے یوں بے جان نہيں دیکھ سکتا تھا۔ اسے لگا تھا کسی نے اس کی زندگى اس سے چھین لی ہو۔ آج پہلی بار اسے اپنا وجود بے معنی لگا تھا۔ آج اسے محسوس ہوا تھا کے اس کا دل اب مہرین کی سانسوں کو محسوس کرنے کے لیئے دھڑکتا ہے۔ آج وہ مہرین کو اپنے دل کے قريب محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اس کے آنسوں اب تک بہہ رہے تھے۔ وہ مہرین کی بند آنکھوں میں اپنے لیئے پیار ڈھونڈنا چاہتا تھا۔
“سر آپ پلیز باہر چلے جایئں ویسٹنگ ٹائم ختم ہو چکا ہے۔” نرس نے آکر اسے بتایا۔ وہ وہاں سے نہيں جانا چاہتا تھا اس لیئے نرس کے کہنے کے باوجود بھی وہ وہاں کھڑا مہرین کی شکل تکنے لگا۔
” وہ ابھی ہوش میں۔۔۔۔؟“ وہ کچھ بول نہيں پارہا تھا۔ اس کے لب اس کا ساتھ نہيں دے پا رہے تھے۔
“سر پلیز آپ کو جانا ہوگا۔” نرس نے دوبارہ اس سے گزارش کی تو وہ بوجھل دل لیئے باہر نکل گیا۔ اس نے جاتے جاتے ایک نظر مہرین پر ڈالی تھی۔ ICU سے باہر آتے ہی وہ دیوار کا سہارا لیئے کھڑا ہوگیا۔
اور پھر سے کھڑکی سے دوبارہ icu کے اندر دیکھنے لگا جہاں اسے مہرین کی صورت نظر آرہی تھی۔ وہ ابھی تک خود کو کوس رہا تھا۔ اسے پل پل بابا جان سے کیا وہ وعدہ یاد آرہا تھا۔
”بیٹا مہرین کا ہاتھ ہمیشہ تھامے رکھنا۔“
یہ آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر وہاں کھڑا مہرین کو سوچتا رہا مگر پھر بھی اس کے بے قرار دل کو چین نہيں آیا۔ وہ ابھی وہاں دیکھ ہی رہا تھا کہ بانو نے آکر اس کے کندھے کو تھپکا۔
وہ اس سے جتنی بھی ناراض اور غصہ کیوں نہ ہو مگر عاشر وہ عاشر کو سگے بیٹے سے بھی زیادہ سمجھتی تھیں۔ وہ اسے یوں تڑپتا ہوا نہيں دیکھ سکتی تھیں۔
”وہ بچ تو جائیں گی نا؟“ عاشر نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
”ہاں بیٹا انشاءاللہ! تم دعا کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ انہوں نے اسے تسلی دینی چاہی۔
“مجھ جيسے گناہ گار کی دعا کہاں قبول ہوگی۔” اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
“ایسے نہيں بولتے بیٹا! دعاؤں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ اللّه سے اچھی امید رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔” انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“آمین!“ یہ کہہ کر وہ نماز پڑھنے چلا گیا۔ نماز سے فارغ ہو کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیئے اٹھائے۔ آج وہ گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا۔
یااللہ آپ بہت رحم کرنے والے ہیں۔ آپ اپنے بندوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ میرے گناہوں کو معاف کردیں!
میری خطا کو درگزر کردیں۔ بس مہرین کو صحت عطا کردیں۔ ان کو زندگی دے دیں یااللہ آپ تو دلوں میں محبت ڈالنے والے ہیں! جيسے آپ نے میرا دل مہرین کے لیئے نرم کردیا ویسے ہی آج مہرین کوبھی پہلے جیسا کر دیں۔” اس نے رو رو کر کہا اور پھر ہاتھ پر منہ پھیر کر کھڑا ہوگیا۔
ساری رات اس نے جاگ کر گزاری اور صبح چائے پی کر فوراً ہی ڈاکٹر سے ملنے چلا گیا۔ مہرین کو ابھی تک ہوش نہيں آیا تھا۔ وہ ویسی ہی بے جان پڑی تھی۔ کچھ دیر باہر گزار کر وہ واپس icu گیا۔ مہرین کے بیڈ کى طرف بڑھا اور پھر اپنی نظریں مہرین کے چہرے پر ڈالی۔ کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد وہ قریبی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرسی کو مہرین کے بیڈ سے قریب کیا۔ پھر مہرین کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ہاتھوں کو چھو کر اس کا وجود کانپنے لگا اور بے ساختہ اس کے لبوں سے آہ نکلی۔
”مہرین میں اکیلا نہیں سہہ سکتا! اٹھیں پلیز! “ اس نے سرخ آنکھوں سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہ ابھی تک ویسے ہی پڑی تھی بے جان اور بے سودھ۔
”مہرین آپ کو بابا جان کا واسطہ ہے آنکھيں کھولیں۔“ وہ ایک بار پھر بول پڑا۔ کوئى جواب نہ ملنے پر اس کی آخرى امید بھی ٹوٹ گئی۔ اس نے اپنا ماتھا مہرین کے ہاتھوں پر ٹکایا اور آنکھيں موند لیں۔ مہرین کے وجود کو محسوس کرتے ہی وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور آنسوں پھر رواں ہو گئے۔ کچھ دیر وہ آنکھيں بند کیئے مہرین کو سوچنے لگا تھا کہ مہرین نے اپنے ہاتھوں کو لرزش دی۔ وہ ایک دم چونکا تھا اور پھر اس کے نازک ہاتھوں کو خود سے الگ کیا۔ مہرین نے بہت آہستہ سے آنکھيں کھولیں۔ عاشر نے مہرین کے چہرے کو دیکھا پھر یک دم کھڑا ہوگیا۔ مہرین اب پوری طرح ہوش میں تھیں اور اب اپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے عاشر کی طرف دیکھنے لگی۔ عاشر مسکرایا تھا اور پھر اس کے قريب آکر کھڑا ہو گیا۔ اس کے دل میں اس وقت ایک طوفان سا اٹھا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے اسے دوبارہ زندگى دی ہو۔ مہرین نے چند لمحوں کے لیئے عاشر کے چہرے کو دیکھا پھر ایک گہری سانس لے کر آنکھيں موند لیں۔
مہرین کو ہوش آنے کے بعد پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیا۔ وہ اب پہلے سے بہت بہتر محسوس کر رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ زنده کیوں ہے کس کے لیئے ہے مگر اسے بس اتنا پتا تھا کہ یہ کٹھن زندگى اسے اب اکیلے گزارنی ہے۔
”اندر آجاؤں؟“ عاشر نے دروازہ کھٹکھٹا کر زور سے کہا۔
”آجاؤ!“ مہرین ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مہرین عاشر سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس سے بدظن ہو چکی تھی اس لیئے اس وقت اس کا وجود برداشت کرنا اس کے لیئے نہایت دشوار تھا۔
”کیسی طبیعت ہے اب؟“ اس نے طویل خاموشی کے بعد پوچھا۔
”ٹھیک۔” مہرین نے جواب دیا۔ پھر ایک بار خاموشی کی لہر چھا گئی۔ مہرین اب روم کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عاشر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ مزید کیا بات کرے۔
”تم تو اداس ہوگے؟“ مہرین نے سپاٹ چہرہ لیئے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جو ابھی خیالات میں گم تھا ایک دم چونکا۔
”اداس کیوں؟“
“اس لیئے کہ تمہارى لاکھ دعایئں کرنے پر بھی میں زندہ ہوں۔ ویسے بڑی لمبی زندگی ہے میری ورنہ کوئی اور ہوتا تو مر چکا ہوتا۔” اس کی باتوں سے مایوسی صاف ظاہر تھی۔
”یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟“ اس کی باتوں نے عاشر کے دل کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
“تم نے مجھے کیوں بچایا؟ مرنے دیا ہوتا۔ مجھے مرتے دیکھ کر خوش ہو جاتے۔“ اس کی باتیں سن کر عاشر کو مہرین کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا۔
”کیوں مرنا چاہتی ہیں آپ؟“ وہ چڑ کر بولا۔
”کیونکہ جینے کے لیئے کچھ بچا نہیں ہے۔ بابا جان، ماما جان دونوں نہیں۔ کس کے لیئے جیوں میں؟“ اس کے منہ سے الفاظ بمشکل نکلاے۔
عاشر چند لمحوں کے لیئے خاموش رہا مگر پھر اس سے رہا نہ گیا۔
”میرے لیئے؟“ اس کی اس سوال نے مہرین کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ وہ ایک دم چپ ہو گئی مگر پھر اپنے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات چھپانے کی کوشش کی۔
”تمہارے لیئے؟ تم مجھے اپنی زندگی سے نکال چکے ہو۔“ مہرین نے سر جھکا کر کہا۔ وہ اس کی اس بات کا جواب نہ دے سکا۔ اس کے اس سوال پر عاشر نے صرف ایک گہرا سانس لیا اور پھر اٹھ کر وہاں سے باہر چلا گیا۔
*********
زریاب اپنے اسٹوڈیو بہت جلدی آیا تھا مگر سٹوڈیو میں پوہنچتے ہی اس کی نظر سامنے کھڑی عروسہ پر پڑی جو شاید آج وقت سے پہلے وہاں موجود تھی ۔ زریاب کے ماتھے پر بل صاف نمایاں تھے مگر اس نے اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے سامنے کھڑی عروسہ کی طرف دیکھا۔
“اسلام و علیکم!” عروسہ نے بہت گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا تو وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے گھورنے لگا۔
“ویلکم اسلام! آپ اتنی جلدی؟” اس نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر گیٹ کھولنے لگا۔
“جی وہ بھی ایک وجہ کی بنا پر!” عروسہ نہ ہنس کر جواب دیا۔
“کیا وجہ؟” زریاب فکرمند ہوگیا۔
“آپ سوچیں نا۔”
“میں کیا سوچوں؟” وہ روہانسی ہوا۔
“آپ کی برتھ ڈے ہے نا آج تو میں نے سوچا آپ کو یہ گفت دے دوں۔” اس نے ہاتھ میں پکڑے بیگ سے کچھ نکالا۔ اس بیگ میں سے ایک ڈبہ اس نے ہاتھ میں لیا اور پھر زریاب کو مسکرا کر دیکھنے لگی۔
“Happy Birthday!”
اس نے گفت اس کے ہاتھ میں تھاما کر کہا۔
زریاب پہلے تو خاموش رہا پھر بھنویں سکیڑ کر عروسہ کو گھورنے لگا۔
“شکریہ مگر آپ نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟” وہ اس وقت غصے میں تھا۔
“کوئی بات نہیں مجھے یہ سب کر کے اچھا لگا۔” وہ دھیمے سے بولی۔ زریاب اسے پہلے بھی کافی بار اسے اگنور کرتا رہا اور آج تو عروسہ نے حد ہی کردی اسے برتھڈے گفت لا کر دے دیا۔
“یہ آپ واپس لے لیں!” اس نے گفت عروسہ کو واپس لوٹا دیا۔ عروسہ اس کی ناراضگی کو سمجھ نہ سکی اور بے اختیار اس نے زریاب کو وہ گفت دوبارہ پکڑا دیا۔
“مس عروسہ! پلیز یہ گفت آپ واپس لے لیں۔ میں یہ نہیں لے سکتا اور میں نے آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے کے پلیز آپ اپنے کام سے کام رکھا کریں مگر آپ سمجھتی کیوں نہیں!” وہ اب اس کے نازک دل کو کانچ سمجھ کر توڑ رہا تھا۔
“مگر کیوں؟ گفت دینا کیا بری بات ہے؟”
“ہاں! میرے لئے آپ صرف سٹوڈنٹ ہیں اور بس! اس سے زیادہ بے تکلفی میں اففورڈ نہیں کر سکتا۔” زریاب کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“مگر آپ نہیں سمجھ رہے میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں دوست کی طرح۔ آپ آخر اتنا ناراض کیوں ہو رہے ہیں؟” وہ فقط اتنا کہہ پائی تھی۔ زریاب اس سے مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“مجھے آپ سے اس وقت کوئی بات نہیں کرنی آپ پلیز ٹائم ہونے پڑ اندر آئے گا۔” وہ مزید کچھ بولے بغیر وہاں سے چلا گیا اور عروسہ صرف خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
*********
بانو نے مہرین کے لئے یخنی بنائی تھی مگر ان کے لاکھ خوشامد کرنے پر بھی اس نے صرف ایک چمچہ ہی پیا اور باقی ساری یخنی بچا دی۔ عاشر عدیل کو فون کر کے واپس آیا تھا کے اسے بانو کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
“تھوڑا سا تو کھاؤ بیٹا اسے کیسے کام چلے گا؟” وہ بار بار اس کے آگے یخنی بڑھا رہی تھیں۔ عاشر دروازے پر کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔
“بس بانو!” مہرین نے بانو کے ہاتھ روک کر کہا۔ بانو نے پیالہ سائیڈ پر رکھ دیا اور غصے سے اسے دیکھنے لگیں۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
“عاشر تم ہی سمجھاؤ اسے کچھ ۔۔۔ کچھ کھائے گی تو جان آئے گی نا! یوں خالی پیٹ رہنے سے طبیعت اور خراب ہوجائے گی۔” وہ اب عاشر سے مخاطب ہوئیں جو دروازے پر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
“آپ رہنے دیں میں کھلا دیتا ہوں۔” وہ آہستہ سے آگے کی طرف بڑھا۔ مہرین نے جب اس کی بات سنی تو وہ گھبرا سی گئی اور پھر لب بھینچ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ بانو اس کی بات پر مسکرا دیں اور یخنی عاشر کو تھما کر خود باہر چلی گئیں۔ عاشر نے کرسی قریب کی پھر ایک گہری مسکراہٹ لے لکر اسے دیکھنے لگا۔
“تھوڑا سا لے لیں۔” اس نے چمچہ اس کے منہ کی طرف بڑھایا تو مہرین کے چہرے پر بیزاری صاف نمایاں ہوگئی۔
“مجھے نہیں کچھ کھانا تم جاؤ یہاں سے!” اس نے تلخ ہو کر کہا۔
“مگر تھوڑا سا لینا پڑے گا۔ پھر سے بیمار پڑ گئیں تو؟” وہ مزید اس کے قریب جھکا تو وہ بستر کے کونے سے جا لگی۔
“تو تمہیں اس سے کیا؟ کیا فرق پڑتا ہے؟” وہ بے اختیار سسک اٹھی تھی۔
“مجھے فرق پڑھتا ہے مہرین! اسی لئے میں یہاں اس وقت آپ کے ساتھ موجود ہوں۔”
“ہاں بہت احسان ہے تمہارا اور اب تم یہاں سے جا بھی سکتے ہو مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔” مہرین کے چہرے پر ناگواری کی لہر چھا گئی۔
“مگر مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ اس گھر کو آپ کی ضرورت ہے۔” وہ نجانے کیا بول رہا تھایہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ اس کی باتوں پر مہرین صرف طنزیہ مسکرائی تھی اور پھر خاموش ہو کر باہر کی طرف دیکھنے لگی۔
“مجھے سونا ہے پلیز جاؤ۔” وہ تکیہ اٹھاتے ہوئے کروٹ لینے لگی ہی تھی کے عاشر اس کے مزید قریب آگیا۔
“افف ذرا نہیں بدلی آپ!” اس نے قریب آکر کہا اور پھر کچھ دیر بعد باہر نکل گیا۔
*********
ڈاکٹرز نے عاشر کو بتایا تھا کہ مہرین کو ایک دن بعد ڈسچارج کر دیا جائے گ۔ مہرین کی کنڈیشن پہلے سے بہتر تھی۔ ڈاکٹرز نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اس وقت ذہنی اذیت سے دوچار ہے اور وجہ یہی ہے کہ اس کے والدین کی موت اس کے لیئے ایک گہرا صدمہ ہے جسے وہ دل سے لگا بیٹھی ہے۔ اس لیئے جتنا ہوسکے انہيں حوصلہ اور پیار دیا جائے۔ عاشر کو اس مسئلہ کا صرف ایک ہی حل نظر آیا تھا اور وہ یہ کہ وہ مہرین کو اپنے ساتھ لے جائے اسلام آباد۔ یہاں اکیلے رہ کر وہ مزید ذہنی بیمار ہو سکتی تھی اور پھر یہ بات بھی تھی کہ عاشر اس کے بغیر نہیں رہنا چاہتا تھا۔ بانو نے بھی عاشر کی بات کی حمایت کی اور پھر مہرین کو بتائے بغیر بانو نے اس کا سارا سامان پیک کردیا۔ مہرین نہیں جانتی تھی کہ بانو اور عاشر اسے اسلام آباد لے جارہے ہیں۔
وہ اپنے روم کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ باہر کا موسم اس کے دل کے موسم سے تو بہتر تھا۔ اس کے دل میں تو بادلوں کا اندھیرا تھا جو کبھی نہیں چھٹ سکتے تھے۔
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ عاشر اس کے روم میں چلتا ہوا آگیا۔
”بانو کہاں ہیں؟“ مہرین نے نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
“وہ گھر گئ ہیں اب آتی ہوں گی۔”عاشر نے بتایا۔
“کیوں گھر کیوں؟” مہرین نے حیرانی سے پوچھا۔ “آپ کا سامان پیک کر رہی ہیں۔” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بتایا۔
”میں کہاں جا رہی ہوں؟“ عاشر کے جواب پر اسے تعجب ہوا۔
”اسلام آباد!“ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ دھیرے سے بولا۔
”اسلام آباد؟ وہ کیوں؟“
” کیونکہ اب آپ اکیلے نہیں رہ سکتیں۔“ عاشر جیسے صرف اسے بتا رہا تھا۔ مہرین نے ایک دم چونک کر عاشر کے چہرے کی طرف دیکھا۔
پھر وہ اپنے بیڈ کی طرف بڑھی۔
” میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی! “ مہرین نے انکار کیا۔
”وہ کیوں؟“ عاشر نے اپنی نگاہیں مہرین کے چہرے پر ڈالیں ۔
“مجھے کوئی شوق نہیں ہے دوبارہ اپنی بے عزتی کرانے کا۔ تم نے مجھے اپنے گھر سے نکالا تھا اور اب تم واپس جانے کی بات کر رہے ہو؟ تمہیں تو یاد ہوگا جو تم نے کہا تھا اگر تمہارى یاداشت کمزور نہ ہو تو۔” مہرین کی آنکھوں میں نمی پھیل گئی۔
“ہاں مگر اب میں خود آپ کو واپس لے جانا چاہتا ہوں۔” عاشر نے اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے کہا۔
“میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گی!“ اس نے صاف انکار کیا
”مگر آپ اکیلے نہیں رہ سکتیں۔“ عاشر نے اسے سمجھايا۔
“مجھے جیسا رہنا میری مرضی تمہيں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔” مہرین نے بےزاری اس کی بات کاٹ دی۔ عاشر اسے کسی حال میں بھی اکیلے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
” آپ کی مرضی پر میں نہیں چل سکتا! وہ گھر آپ کا ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے جو کیا تھا وہ غلط تھا۔ مگر میں وعدہ کرتا ہوں اس گھر میں کوئی درد کوئى تکلیف آپ کو نہیں ملےگا۔“ عاشر نے ایک نگاہ اس پر ڈالی۔ مہرین نے اس کی بات سن کر اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھا تھا۔
”تم مجھ پر ترس کھا رہے ہو؟“ مہرین نے دبے لہجے میں کہا۔
”آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھیں۔“
”اگر میں نہ جاؤں تو؟“ مہرین نے ایک بار پھر وہی بات دہرائی۔
”تو میں آپ کو زبردستی لے جاؤں گا۔“ عاشر نے ہنس کر کہا۔ اس کی بات پر مہرین کے دل میں کچھ ہوا تھا۔
”کس حثیت سے؟“ مہرین نے سوال کیا۔
” آپ کا شوہر ہونے کی۔۔۔“ اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”یہ لفظ تمہارے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔“
”کوئی بات نہیں اب اچھا لگے گا۔” وہ ابھی مزید بحث کرنے والی تھی کہ بانو کے اندر آتے ہی دونوں خاموش ہوگئے۔
”بیٹا عاشر سامان پیک کرلیا ہے میں نے۔“ بانو نے اندر آتے ہی اسے آگاہ کیا۔ وہ جو ابھی مہرین کی طرف دیکھ رہا تھا ایک دم پیچھے مڑا۔ پھر چند لمحوں بعد اٹھ کر باہر نکل گیا۔
”بانو آپ بھی؟ میں اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی!“ مہرین نے خفگی سے کہا۔
” تم یہاں اکیلے نہیں رہ سکتی! وہ تمہارى خاطر یہاں آیا ہے تمہيں لے جانے۔“ بانو نے اسے بتایا۔
”اسے رحم آرہا ہے میری حالت پر اور بابا جان کا وعدہ ورنہ وہ میرے مرنے کی دعائیں کر رہا ہوتا۔“ مہرین نے نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔ بانو اس کی بات کا جواب نہ دے سکیں اور خاموشی کے ساتھ واپس پلٹ گئیں۔
***********
بانو کے بے انتہا اصرار اور منتوں پر وہ ان لوگوں کے ساتھ اسلام آباد آگئی تھی۔ گل خان گاڑی لے کر ایئر پورٹ آگیا تھا اور پھر وہ لوگ عاشر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گل خان ہمیشہ کی طرح پورے راستے بولتا رہا۔
”دلہن بی بی ہمیں پتا ہے کیا لگتا ہے؟“ گل خان مہرین سے مخاطب ہو کر بولا۔ مہرین جو آنکھيں بند کرے بیٹھی تھی گل خان کی آواز پر چونک اٹھی۔
”کیا لگتا ہے؟“ مہرین نے سوال کیا۔
” دلہن بی بی ہميں لگتا ہے عاشر لالہ آپ کے جانے کے بعد بیمار ہوگیا۔ دیکھو تو ذرا کیسی شکل ہو گئ ہے لالہ کی۔۔۔“ گل خان بڑے آرام سے عاشر کا حال احوال بتانے لگا۔ گل خان کی بات پر عاشر اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔
”گل خان تمہيں ابھی نہیں سمجھ آئے گا درد دل۔ ہم سے پوچھو یہ احوال دل۔۔۔۔“ وہ شوخ ہو کر بولا تو مہرین نے ناگواری سے اس کی جانب دیکھا۔
“ہم سمجھ گیا ہے لالہ۔۔۔ آپ کا مسئلہ۔“ گل خان گاڑی موڑ کر دوسری طرف لے آیا۔
”کیا سمجھ گیا ہے؟“ عاشر نے دھیرے سے کہا۔
” آپ دلہن بی بی کو بہت چاہتا ہے۔ ماشاءاللہ دلہن بی بی اتنا پیارا جو ہے۔“ گل خان کی بات پر عاشر کو ایک زور کا جھٹکا لگا۔ مہرین گل خان کی بات سن کر خود گھبرا گئ اور پھر کچھ نہ سمجھتے ہوئے باہر دیکھنے لگی۔
”اتنا پیارا کہاں ہے گل خان؟ کیا ہم پیارا نہیں؟” عاشر آج بہت خوشگوار موڈ میں تھا۔
”لالہ تم تو ہے مگر دلہن بی بی کی تو بات ہی الگ ہے۔“ گل خان مہرین کی تعریفیں کر کر کے نہیں تھک رہا تھا۔
بانو اور مہرین تو فوراً گھر آتے ہی گاڑی سے اتر گئے۔ مہرین نے اس دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک بار مڑ کر عاشر کی طرف دیکھا۔
********
آج اس کی سمر کلاسز کا آخرى دن تھا۔ اس نے سب کو ایک آخرى پینٹنگ بنانے کے لیئے دی تھی۔ سب نے اپنے اپنے لحاظ سے پینٹنگ بنائی تھی۔ مگر عروسہ کی پینٹنگ دیکھ کر زریاب شدید ناراض ہوا تھا۔ اس نے بہت ہی بے دلی سے لکیریں کھینچ کر وہ پینٹنگ اسے دے دی تھی۔ پھر اس نے باری باری سب کو مارکس دیئے اور انہيں ان کی غلطیاں بتایئں۔ عروسہ کی پینٹنگ پر اس نے کوئى رمارکس نہیں دیئے اور پھر سب کو سرٹیفکیٹ دے کر الوداع کہا۔ عروسہ ابھی جانے کے لیئے اٹھی تھی کہ زریاب نے اسے پکارا۔
”مس عروسہ؟“
”جی۔“ اس نے بہت آہستہ سے کہا۔
“میں آپ کے کام سے ذرا برابر بھی خوش نہیں ہوں۔” اس نے خفگی کا اظہار کیا۔
”جانتی ہوں! “ اس نے سر جھکا کر نیچے دیکھا۔
”تو پھر؟“ زریاب اب اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا۔ “میں یہاں پینٹنگ سیکھنے آئى ہی نہیں تھی۔” اس نے انکشاف کیا۔
”کیا مطلب؟“ زریاب کا رنگ فق ہونے لگا۔
“مطلب یہ کہ میں یہاں پینٹنگ سیکھنے نہیں آئى تھی۔” عروسہ کی بات سن کر وہ حیران ہوگیا۔
”تو پھر یہاں کیوں آئی تھیں؟“
“میں آپ کی وجہ سے آئى تھی۔” عروسہ کی آواز بھر آئى۔
”میری وجہ سے؟“ زریاب اب تک اس کی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔
“آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو بہت عرصے سے جانتی ہوں۔ شاید تب سے جب میں نے آپ کو پہلی بار اس exhibition میں دیکھا تھا۔ میں آپ کی محبت میں یہاں آئى تھی۔ مگر شاید آپ میری محبت کو نہیں سمجھ سکے کیونکہ آپ اب محبت کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ خیر مجھے اب جانا چاہیئے اپنا خیال رکھے گا۔” اتنا کہہ کر وہ وہاں سے آنسوں بہاتے ہوئے باہر نکل آئی۔
***********
وہ آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب شیزہ نے دروازے پر دستک دی۔
“آجاؤں؟” شیزہ نے دروازے پر کھڑے ہو کر پوچھا۔
“آجاؤ!” اس نے اسے اشارہ کر کے اندر آنے کو کہا۔
“آج میرا آخری دن ہے اور میں نے سارے کام بہت اچھے سے کرنے کی کوشش بھی کی۔ مجھے یہاں کام کر کے بہت اچھا لگا۔” شیزہ نے اندر قدم رکھتے ہی ساری فائلز عاشر کی ٹیبل پر رکھ دیں اور ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اس کی طرف دیکھا۔
“بہت شکریہ شیزہ یہاں تم نے بہت محنت کی ہے۔ مجھے بھی اچھا لگا تمہارا یہاں کام کرنا اور ہر چیز کو سمجھنا۔۔۔!You’re fantastic” عاشر اس کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکا۔
“تھنکس۔۔۔ اور مزید مجھے کچھ کہنا ہے۔” شیزہ نے ایک گہرا سانس اندر لیتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔
“ہاں بولو۔۔۔” عاشر متوجہ ہوا۔
“میں جانتی ہوں ماضی میں ہم دونوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی اور میں اس وقت کچھ نہ کر سکی۔ اس وقت میں مجبور تھی مگر ایک بات آج کہنا چاہوں گی۔ میں نے آپ سے بہت محبت کی آپ کو بہت چاہا مگر شاید ہم ایک دوسرے کے لئے نہیں۔ آپ کا دل شاید آپ کسی اور کے لئے دھڑکتا ہو مگر میں نے ہمیشہ آپ کو سوچا ہے۔” اس نے جذبات میں آکر ساری باتیں کہہ ڈالیں۔ عاشر کا وجود پتھر سا ہوگیا تھا اور زندگی ایک پل کے لئے رک سی گئی تھی۔ آج اسے شیزہ کے خلوص اور محبت پر رشک آیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کے شیزہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے مگر اب ان دونوں کی زندگی الگ تھی اور منزلیں بھی۔ مگر شیزہ کی یاد اس کے دل میں ہمیشہ قائم رہے گی
“میں جانتا ہوں شیزہ تم بہت اچھی ہو۔ مجھے یقین ہے کے تم اس شخص کے نصیب میں ہوگی جو تمہیں ٹوٹ کر چاہے گا۔ تم نے مجھے جینا سکھایا ہے۔ تم میری زندگی میں ہمیشہ روشنی کی طرح چمکتی رہو گی۔ اللّه کرے تم ہمیشہ خوش رہو۔” اس نے اسے دعا دی تو وہ مسکرائی۔ اس نے اب زندگی سے سمجھوتا کر لیا تھا اور اس امید پر تھی کے شاید جلد اسے ایسا شخص مل جائے جو اسے ٹوٹ کر چاہے۔ اس کے ٹوٹے ہوئے دل کو اپنی محبت سے بھر دے۔ وہ اب جارہی تھی مگر خوبصورت یادیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر۔
********
مہرین ناول پڑھ رہی تھی جب عاشر آفس سے آیا تھا۔ مہرین نے ظاہر نہیں کیا کے اس نے عاشر کو آتا دیکھ لیا ہے۔ وہ کچن کی جانب بڑھا اور پھر فریج سے پانی نکال پر پینے لگا۔ اسے شاید آج بخار تھا اسی لئے وہ جلدی گھر آگیا تھا۔ مہرین کو سامنے پا کر وہ وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔ بال منہ پر بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر ناگواری کے تاثرات صاف ظاہر تھے۔ وہ خود نہیں جان سکا تھا کے وہ مہرین کی طرف کیوں مائل ہورہا ہے۔ اس کا دل آج بہت تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کے مہرین کے لئے وہ جذبہ رکھتا ہے مگر صرف ہمدردی کا۔۔۔ وہ صرف بابا جان کا وعدہ نبھا رہا تھا مگر ان سب کے باوجود بھی وہ اپنے دل میں اجاگر ہونے والے جذبات کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
مہرین ناول پڑھ رہی تھی جب گھر کا فون بجا۔ عاشر جو اب صوفے پر بیٹھا تھا وہ فون کی بیل پر اٹھا۔ فون پر شاید کوئی انجان شخص تھا اور کچھ دیر بعد ہی اس نے مہرین کو آواز دی۔
“آپ کا فون ہے۔” اس نے فون کان سے ہٹا کر مہرین سے کہا۔ مہرین جو ناول پڑھنے میں مشغول تھی ایک دم چونک گئی۔
“میرا؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
“جی!” عاشر نے اب فون ٹیبل پر رکھ دیا اور خود دوبارہ کچن میں چلا گیا۔ کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی پھر اٹھ کر فون اٹھانے چلی گئی۔
“ہیلو کون؟”
“ہیلو! لوو۔۔۔ آپ کے شوہر صاحب تو بڑے سیدھے ہیں ویسے۔” یہ وہی آواز تھی جو اس پیچھلے آٹھ مہینوں سے تنگ کر رہی تھی۔ مہرین نے جوں ہی یہ آواز سنی اس کے پیروں تلے زمیں نکل گئی۔ اس نے بہت مشکل سے تھوک نگلا پھر ایک نظر سامنے کھڑے عاشر پر ڈالی جو شاید کچھ ڈھونڈنے کے غرض سے کچن میں گیا تھا۔
“کون ہو تم؟ مسئلہ کیا ہے؟ کیوں بار بار فون کر رہے ہو؟” مہرین نے سرگوشی میں کہا۔
“افف ۔۔۔ یہ ادا ہی ہمیں آپ کا دیوانہ بنا دیتی ہے۔” وہ بہت زور سے ہنسا تھا۔
“بکواس بند کرو۔۔ میں شادی شدہ ہوں اور اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں! سمجھے تم! آیندہ یہاں فون کرنے کی جرت نہیں کرنا!” مہرین نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا۔ عاشر کچن سے ہو کر باہر لاؤنج میں آگیا تھا۔ پھر ایک نظر مہرین پر ڈال کر وہ ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا۔
“ارے ہم جانتے ہیں آپ کی خوشی۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے وقتی جذبات تو ہوں گے مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کے آپ اور کسی سے محبت کرنے لگ جائیں۔”
مہرین اس کی بات سن کر مزید پریشان ہوگئی وہ نہیں جانتی تھی کے وہ شخص کون ہے اور کیسے اسے جانتا ہے۔
“شٹ اپ یو باسٹرڈ!” مہرین نے غصّے سے کہا۔ پھر اس نے فوراً فون بند کر دیا۔ مہرین کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے تھے اور وہ کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی تھی۔ عاشر نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا پھر دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا۔
“کس کا فون تھا؟” وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا۔
“کسی کا بھی نہیں!” مہرین نے شانے اچکا کر جواب دیا۔
“اتنی دیر کوئی بھی نہیں تھا؟” اسے تعجب ہوا۔ مہرین اس کی بات پر چڑ گئی۔
“یار تھا میرا اب اس بات پر مجھے گھر سے نکال دو۔” وہ طنزیہ بولی۔ عاشر جو ابھی بیٹھا تھا وہ اس کی اس بات پر اٹھ کھڑا ہوا۔
“میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔” وہ چلتا ہوا مہرین کے پاس آیا۔
“اچھا۔” وہ بس اتنا بولی۔
“کب تک یوں ناراض رہیں گی؟” وہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
“میں کیوں ناراض ہوں گی؟” وہ بھی ہاتھ باندھ کر کھڑی رہی۔
“لگ تو یہی رہا ہے۔ جتنی اکیلی آپ ہیں اتنا میں بھی ہوں۔ میں آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا مہرین میں نے ایسا نہیں چاہا۔” وہ اب اسے صفائیاں پیش کر رہا تھا۔
“مگر پھر بھی کیا؟ خیر تم آپ پابند نہیں ہو عاشر یہ تمہاری زندگی ہے تم اپنی مرضی سے گزارو جس کے ساتھ چاہو۔ وہ وعدہ صرف بابا جان کی زندگی تک تھا۔ میری زندگی تو گزر جائے گی مگر تم اپنی مت برباد کرو۔” وہ بے حد آہستہ سے بول کر اس کی آنکھوں میں دیکھنی لگی۔
“وعدہ زندگی بھر کے لئے ہوتا ہے۔”
“زبردستی رشتے نہیں بنتے۔” وہ دوبدو جواب دے رہی تھی۔
“مگر بنائے جا سکتے ہیں۔”
“میرا سر مت کھاؤ عاشر!” وہ چڑ گئی۔
“آپ کے پاس سر بھی ہے؟” وہ اب اسے تنگ کرنے پر تلا ہوا تھا۔
“تمہاری طرح عقل سے پیدل نہیں ہوں!”
“لگتا نہیں ہے آپ دو ہفتے پہلے ICU میں تھیں۔” وہ اب مسکرایا تھا۔
“ہاں دعا کرو دوبارہ چلی جاؤں۔” وہ بحث کرتے تھک نہیں رہا تھا۔
“آپ کی خدمت کرنے کا شوق نہیں ہے مجھے!” عاشر حیران تھا کے آج وہ کیسے اتنی دیر تک اس سے بات کر رہی ہے۔ وہ مزید بحث کرتے اگر اس وقت بانو اندر نہیں آتی۔ مہرین پھر ایک سرسری نظر عاشر پر ڈال کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
***********
کافی دیر تک وہ کل ہونے والی پریزنٹیشن پر کام کرتا رہا پھر کچھ دیر بعد تھک کر اس نے اپنے لئے بلیک کافی منگوائی۔ مگر کافی کا سپ لیتے ہی اس کی ساری تھکن جیسے پل بھر میں ہی دور ہوگئی۔ وہ اب کام کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اٹھا پھر بہت ہی دبے قدموں کے ساتھ چلتا ہوا اپنے آفس کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ موسم اب کافی سرد اور خشک تھا۔ سردیاں شروع ہونے والی تھیں مگر ہوا میں ابھی اتنی ٹھنڈ نہیں تھی کے گرم کپڑے پہنے کی ضرورت پڑتی۔ وو ابھی کچھ دیر تک ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا جس کی روشنی آسمان کے چاروں سمت پھیلی ہوئی تھی۔ کافی ابھی تک اس کے ہاتھوں میں تھی کے ایک ہوا جھونکا آیا اور وہ آنکھیں بند کر گیا۔ آنکھوں کے سامنے اسے صرف ایک چہرہ نظر آیا تھا اور وہ مہرین کا تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ اندر سے خود بھی پریشان تھا وہ نہیں جانتا تھا کے وہ اپنے اور مہرین کے لئے کیا فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کے عدیل نے ایک دم اس کا کندھا تھپکا۔
“یوں سوچوں میں گم؟ خیریت تو ہے؟” عدیل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
“کچھ نہیں بس ویسے ہی۔” وہ مایوسی کے عالم میں بولا۔
“اس طرح میں نے تمہیں کبھی نہیں دیکھا۔ اور یوں اچانک کراچی چلے گئے۔ کچھ مجھے بھی بتاؤ؟ کہیں دوسری شادی تو نہیں کر لی؟” عدیل کو تشویش ہوئی۔
“وہ بابا جان کی ڈیتھ کے بعد کچھ مسئلہ ہوگئے تھے تو بس اس میں پھنس گیا تھا۔ اور مہرین کی طبیعت۔۔۔” وہ بولتے بولتے رک گیا۔
“کیا ہوا انہیں؟”
“ڈپریشن اور نروس بریک ڈاون۔” عاشر کا لہجہ اب کافی دھیمہ تھا۔
“اب کیسی ہیں؟” وہ بمشکل پوچھ پایا تو عاشر نے نظریں جھکا لیں۔
“بہتر ہیں۔” پھر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے۔
“آج کل تمہیں جو ہورہا ہے وہ سمجھ گیا ہو میں۔” عدیل نے ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔
“کیا ہوا ہے مجھے؟” عاشر اس کی بات سمجھ نہ سکا۔
“بیماری ہے بھائی بہت بری وہ بھی۔” اس نے گلہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
“میں سمجھا نہیں کیسی بیماری کیا بول رہے ہو تم؟” عاشر زچ ہوا۔
“بھئی آج کل تم پریشان رہتے ہو؟۔۔۔کام کرتے کرتے اکتا جاتے ہو؟۔۔۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی ہیں؟۔۔۔۔ کیا تم ان سب چیزوں سے گزر رہے ہو؟” عدیل نے ایک بازو عاشر کے کندھے پر رکھ کر کہا۔
“ہاں یہ سب ہوتا ہے مگر یہ بیماری تھوری ہوئی۔ عدیل فضول باتیں مت کرو۔” وہ برہم ہوا۔
“اسے محبت کہتے ہیں میری جان۔” عدیل نے مزید ہنس کر اس کا کندھا تھپکا۔
“محبت؟”
“ہاں محبت!” عدیل بول پڑا۔
“کس سے محبت ہوگئی ہے مجھے اور مجھے کچھ خبر نہیں؟” عاشر سمجھ نہ سکا اور پھر ایک نظر عدیل کے چہرے پر ڈالی۔
“سمجھ جاؤ گے بہت جلد۔” عدیل کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ عاشر کچھ دیر تک سوچوں میں گم ہوگیا پھر اس کے دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو وہ عدیل کی بات کا مطلب فوراً سمجھ گیا۔
“اگر تمہارا اشارہ مہرین کی طرف ہے تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں صرف وعدہ پورا کر رہا ہوں اور بس۔” وہ عدیل سے نظریں چرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“لگ رہا ہے بات اب وعدے تک نہیں رہی۔”
“میرے پاس ان چیزوں کا ٹائم نہیں ہے۔ میں بس ان کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں بابا جان کے لئے۔” وہ صحیح سے بات پوری نہیں کہہ پایا تھا کے عدیل نے اس کی دراز سے ایک بک نکال کر ہوا میں لہرائی۔
“اچھا تو پھر یہ کیا ہے؟”
“کتاب ہے!”
وہ تو مجھے بھی پتا ہے مگر تم کب سے Shakespeare کو پڑھنے لگے؟ اور یہ بک Hamlet The Prince Of Denmark” عدیل نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ عاشر کا رنگ فق ہوگیا وہ کچھ کہہ نہ سکا۔
“دو مجھے! مہرین نے منگوائی تھی۔” وہ اس کے ہاتھ سے کتاب چھین کر باہر نکل گیا۔
*************
زریاب اپنے سمر کلاسس کروا کر اپنے والد کے ساتھ کراچی آگیا تھا۔ ویسے تو وہ لوگ کراچی میں ہی ہوا کرتے تھے مگر بعد میں اس کی فیملی کا بزنس اسلام آباد میں چل پڑا تو وہ لوگ وہاں رہنے لگے۔ وہ اپنے والد کے ہمراہ چند دن وہاں ٹہرا ہوا تھا۔ جاتے وقت اس نے مہرین سے تفصیلی بات کی تھی اور اسے بتایا تھا کے وہ جلد اسلام آباد میں آکر اس سے ملے گا۔ کراچی آکر اسے خود میں اکیلا پن محسوس ہورہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کے یہ احساس اس کے دل میں کیوں ہے۔ وہ کسی مرجھائے ہوئے پتے کی طرح تھا جسے جتنی بھی دھوپ اور پانی دے دو وہ کبھی دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔ دل جب مرجھانے لگتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ہر خوشی جانے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کے زندگی چل تو رہی ہے مگر اپنے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دے رہی۔ آج بادلوں میں چھپے آسمان کو دیکھ کر اس نے محسوس کیا تھا کے وہ اب شاید تنہا یہ زندگی نہیں گزار سکتا تب ہی اس کے ذہن میں عروسہ کا خیال آیا۔ اس کا دل بھی اب عروسہ کی قرب کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ہنسی، اس کی باتیں پل پل اسے یاد آتی تھیں۔
************
مہرین کھانا کھا کر سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر جارہی تھی کے عاشر نے اس کا راستہ روک لیا۔
“وہ ایک بات کرنی ہے آپ سے۔” وہ اس کے پاس آکر کھڑا ہوا۔
“کل کر لینا ابھی نیند آرہی ہے مجھے۔” مہرین اس سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
“دس بجے کون سوتا ہے؟” وہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“میں!” مہرین نے آگے جانا چاہا تو وہ پھر راستے میں کھڑا ہوگیا۔
“آپ نارمل نہیں لگتی مجھے۔” وہ ایک بار پھر راستہ رک کر بیچ میں کھڑا ہوگیا۔
“ہاں میں نارمل نہیں ہوں پتا ہے مجھے!”
“ایک بات سن لیں پھر چاہے جتنا سونا ہے سو لے گا۔” اس نے گزارشکرتے ہوئے کہا۔
“بولو۔” وہ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی۔
“آپ سے کچھ سوال کرنے ہیں۔۔۔ یوں سمجھیں میموری ٹیسٹ کرنی ہے آپ کی۔۔۔” اس نے کہا۔
“تو تمہیں لگتا ہے مجھے نروس بریک ڈائون نہیں ڈیمنشیا ہوا ہے۔” اس نے تلخ لہجے میں کہا تو وہ زور سے ہنس پڑا۔
“یہی سمجھ لیں۔”
“پوچھو؟”
“یہ لائنز جو میں پڑھ کے سناؤں گا وہ آپ کو بتانی ہیں کے وہ کس ناول سے اخذ کی گئی ہیں؟ ٹھیک ہے؟” وہ اب ایک کتاب ہاتھ میں لئے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“تمہارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے؟ خیر بولو!” وہ اس کی باتوں پر دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔
“Doubt thou the stars are fire
Doubt that the sun doth move
Doubt truth to be a liar
But never doubt I love۔”
وہ اس کی کتاب کی لائنز پڑھ کر اسے سنا رہا تھا اور پڑھتے پڑھتے رک گیا۔ مہرین غور سے اس کو سن رہی تھی۔ اسے یاد تھے یہ ڈائلاگ وہ کبھی نہیں بھولی تھی یہ اس کی پسندیدہ لائن تھی۔
“اب بتا بھی دیں۔” وہ پیچھلے دس منٹ سے سوچ رہی تھی۔
“یاد آیا! Shakespeare کے پلے سے ہے یہ!” اس نے زور سے کہا۔
“ہاں اور وہ کون سے؟” وہ بولا۔
“یاد ہے مجھے! It’s Hemlet The Prince Of Denmark!” وہ جسے خوشی سے جھوم اٹھی۔
“واہ! مان گئے آپ کو۔” وہ تعظیم پیش کرتے ہوئے جھکا۔
“تمہیں کیسے پتا کے مجھے یہ پلے پسند ہے؟” اسے تعجب ہوا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے مسکرایا اور پھر اس کے بہت نزدیک آکر کھڑا ہوا۔
“بس جانتا ہوں۔” اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر کتاب اس کے ہاتھ میں تھما کر اپنے کمرے میں گھس گیا۔ مہرین کو لگا جیسے ابھی اس کی بیٹ مس ہوئی ہو پھر وہ کتاب لے کر اندر آگئ۔ اس نے فون اٹھایا تو پچاس کے قریب میسیجز دیکھ کر وہ پریشان ہوئی۔ سب میسیجز میں یہی لکھا تھا۔
“Meet me soon or what happens next will be your worst nightmare۔”
یہ پڑھ کر اسے لگا جسے کسی نے اس کی جان لے لی ہو۔
وہ یہ میسجز پڑھ کر بہت ڈر گئی تھی۔ اسے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ اس نے اپنے ہونٹ دانتوں تلے دبائے پھر کچھ دیر تک ادھر ادھر چلنے لگی۔ وہ ابھی تک نہیں جان سکی تھی کہ اسے تنگ کرنے والا شخص آخر تھا کون۔ اس نے میسجز میں صاف صاف دھمکی دی تھی اور وہ یہ بات عاشر سے ہرگز شیئر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیئے اس نے کچھ دیر بعد خود ہی میسج کیا۔
”کہاں آنا ہے؟“ پھر موبائل لیئے بیٹھی رہی اور اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس شخص کا میسج آیا ۔
اس نے میسج میں ایک جگہ کا پتہ دیا اور وہاں کل پورے بارہ بجے آنے کو کہا۔ مہرین نے یہ میسجز پڑھتے ہی سانس لینے کی کوشش کی اور خود کو تسلی دیتی ہوئی واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...