وہ آج دو دن آرام کرنے کے بعد مستقیم کے دیے گئے ایڈریس پر آئ تھی۔ گلابی رنگ کا لباس پہنے جو کے بار بار دھونے سے اپنی اصلی رنگت کھو چکا تھا لیکن اسکی شادابی رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔ سوٹ کے ساتھ کا ہی گلابی دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا اور کندھوں کے گرد سفید رنگ کی چادر پھیلا رکھی تھی۔ لیکن جس چہرے پر مہینوں سے مایوسی طاری تھی آج اس چہرے پر خوشی رکساں تھی۔ وہ آج اپنی ماں کی دعاوں کے حصار میں گھر سے نکلی تھی۔ وہ یہ سوچ کر اندر سے ڈری بھی ہوئی تھی کہ اگر اسکا انٹرویو اچھا نہ ہوا اور اس شخص نے اسے جاب نہ دی تو پھر کیا کرے گی لیکن پھر اس مایوسی پر امید حاوی ہو جاتی تھی کہ اللّه نے اگر کسی کو اسکے لئے وسیلہ بنا کر اسے امید کی کرن دکھائی تھی تو وہ اسکے یقین کو بھی برقرار رکھے گا۔ اسکا حوصلہ پست نہیں کرے گا۔ بیشک وہی تو ہے جو مایوسی کے اندھیرے سے نکال کر اپنے بندے کو امید کی روشنی سے روشناس کرواتا ہے۔ وہ جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اپنے بندے سے وہ کیسے اپنے پیارے بندے کی دعا رد کر سکتا ہے جب اسکا بندا پورے دل اور ایمان کے ساتھ اسے پکارے۔ جب ماں کے دل سے دعا نکلے تو وہ عرش تک جاتی ہے اور عرش والا کس طرح ایک ماں کی دعا رد کر سکتا ہے۔ وہ تو اپنے کسی گنہگار بندے کی بھی دعا رد نہیں کرتا۔ وہ تو کہتا ہے کہ میرے بندو مجھ سے مانگو میں تمهين عطاء کروں گا۔ وہ بھی اپنی ماں کی دعاوں اور اللّه پہ یقین رکھ کر آئ تھی۔ اسنے ریسیپشن پر جا کر مستقیم کا پوچھا تو اسنے بتایا کہ مستقیم ابھی تک نہیں آیا اسکو انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ اسکے انتظار میں ویٹنگ ایریا میں بیٹھ گئی۔ اسکو انتظار کرتے ہوئے بیس منٹ گزر چکے تھے جب اسے کوریڈور سے مستقیم آتا ہوا دکھائی دیا۔نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے،سرخ ٹائی لگاے ، دائیں ہاتھ میں قیمتی گھڑی پہنے ، چہرے پر ۔سنجیدگی طاری کئے وہ اسی جانب آتا دکھائی دیا
وه اتنا دلکش لگ رہا تھا کہ حریم نے بے ساختہ ہی اس سے اپنی نظریں چرا ئیں ۔ وہ اسکے پاس سے گزر کر جانے لگا جب اسکی نظر حریم پر پڑی۔
“مس حریم آپ کب آئیں؟ مس زارا آپ انہیں میرے آفس میں بٹھا دیتیں۔” وہ پہلے حریم سے اور پھر ریسیپشن پر موجود اپنی ورکر سے بولا۔
“چلیں میرے آفس میں آئیں آپ۔” وہ اسے ساتھ لئے اپنے آفس میں داخل ہوا۔
“آپ بیٹھیں پلیز !” وہ اسے کرسی کی طرف اشارہ کرتا اپنی مخصوص کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ گلابی لباس میں شفاف چہرے کے ساتھ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ کو اسکے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل لگ رہا تھا۔ نظریں بھٹک بھٹک کر اسکے شفاف چہرے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
“اب کیسی طبیعت ہے اپکی اور اپکا زخم کیسا ہے اب۔” وہ حریم سے مخاطب تھا۔
“جی سر الحمداللہ ٹھیک ہوں میں اب اور یہ لیں میرے ڈاکومینٹس۔” اسنے مستقیم کے سوال کا جواب دے کر اپنے ڈاکومینٹس والی فائل اسکی جانب بڑھائی جبکہ اسکی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔
مستقیم نے اسکی فائل پکڑ کر ریڈ کرنا شروع کر دی۔ وہ گریجویشن کے آخری سال میں تھی۔ اسکی تعلیم واقعی ناكافی تھی۔
“مس حریم آپکی جی- پی- اے تو اچھی ہے پر ابھی اپکی ڈگری مکمل نہیں ہے۔ آپکو جاب کیوں کرنی ہے ڈگری مکمل کرنے سے پہلے ہی؟”
“کیوں کہ مجھے جاب کی بہت ضرورت ہے ۔ میرے والد حیات نہیں ہیں اور والدہ بہت بیمار ہیں۔ گھر کو چلانے کے لئے مجھے جاب کی ضرورت ہے اور رہی بات تعلیم کی تو میں پہلے بھی پرائیویٹ پڑھ رہی تھی اب بھی ساتھ پڑھ لوں گی۔” وہ بہت دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔
“اوکے مس حریم مجھے سیکرٹری کی ضرورت ہے میں آپکو اس پوسٹ کے لئے اپائنٹ کر رہا ہوں۔تین مہینے اپکی پرفارمنس دیکھ کر پھر اپکی تنخواہ بھی بڑھا دی جاۓ گی۔ آپ باہر رے سے اپنا جوائننگ لیٹر ریسیو کر لیں۔” وہ اسے پھر تنخواہ اور جاب کے متعلق ضروری باتیں بتانے لگا۔ حریم بہت خوش تھی۔ اسکو اسکی امید سے کہیں بڑھ کر تنخواہ مل رہی تھی۔ تشکر کے آنسو اسکی آنکھوں میں چمکنے لگے۔وہ علودائیہ کلمات کہہ کر اسکے آفس سے نکل آئ۔ اسکے جانے کے بعد مستقیم آخری لمحات میں اسکے چہرے کی خوشی یاد کرتا مسکرا دیا۔
🖤🖤🖤🖤
“مے آئ کم ان سر؟” وہ آل تو جلال تو کا ورد کرتی اسکے آفس کے سامنے کھڑی اجازت مانگ رہی تھی۔ نہ جانے کیوں پر دعا کو فاتح ابراھیم خان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسکے چہرے پے چھائی سنجیدگی اور گہری نظریں دعا کا ننھا سا معصوم دل سکیڑے رکھتی تھیں۔وہ ایک نظر فاتح پر ڈال کر جلدی سے اپنی نگاہیں جھکا گئی۔
“یس کم ان۔” وہ بک شیلف کے سامنے کھڑا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جب اسکی آواز پہ پلٹا۔ اسے اجازت دے کر وہ بک شیلف کے پاس سے ہٹ کر اپنی کرسی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی نظریں دعا کے صبیح چہرے پرگاڑھ دیں۔ وہ معصومیت سے نظریں جھکاے کھڑی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ وہ جو کھڑا تفصیل سے اسکا جائزہ لے رہا تھا اسے یوں کنفیوژ دیکھ کر گہرا مسکرایا۔
“رول نمبر ٹین! آپ یہاں پڑھنے آتی ہیں نہ کہ دوسرے فیلوز کے ساتھ گپیں هانكنے ۔ تو بہتر ہے کہ جس مقصد کے لئے آتی ہیں اس پے ہی دھیان دیں۔ ڈو یو گوٹ اٹ؟” کمیل کا اسکے پاس بیٹھنا اسے بہت غصہ دلا گیا تھا اور جن نظروں سے وہ دعا کو دیکھ رہا تھا وہ فاتح کا خون کھولا گئی تھیں۔پر وہ کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا۔
“يي ۔۔۔یس سر ۔” وہ جو پہلے ہی اس سے خوفزدہ رہتی تھی اب اسکے سرد لہجے میں دی گئی وارننگ سے سخت حواس باختہ ہو گئی اور جواب دے کر بغیر اسکا ایک لفظ بھی مزید سنے ہوا کے جھونکے کی طرح وہاں سے غائب ہو گئی۔ اس کی ایسی حواس باختگی پر وہ بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھا۔
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ دونوں آج کافی دنوں کے بعد فاتح کے فلیٹ پر مل رہے تھے ۔ وہ دونوں ابھی فاتح کے ہاتھ کی بنی کافی پی کر لاؤنج میں بیٹھے تھے۔فاتح کے چہرے پر پھیلا سکون اور ہلکی سی مسکراہٹ مستقیم کی زبان کو سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔
“کیا بات ہے لالے بہت خوش لگ رہا ہے۔ تیرے اس منحوس چہرے پر پھیلی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ خیر تو ہے نا۔ کہیں محبت وهبت تو نہیں کر بیٹھے۔۔۔۔ہاں ؟”
وہ اسے کھوجتی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہوا شرارت سے پوچھ رہا تھا۔
“ہاں ایسا ہی سمجھ لو” وہ لبوں پر دھیمی مسکراہٹ سجائے بولا۔ آنکھوں میں چھن سے اس پری پیکر کا دلربا سراپا ابھرا تھا۔لبوں پر چھائی دھیمی مسکراہٹ اب گہری مسکان میں ڈھل چکی تھی۔
“کیا سچ میں ؟” مستقیم آنکھوں میں بے یقینی لئے پوچھ رہا تھا۔
اس نے تو بس مذاق میں بات کی تھی پر وہ نہیں جانتا تھا کے وہ اس قدر سیریس ہے۔
“تو پھر تم نے اسے بتا دیا جس سے تم محبت کرتے ہو آئ مین بھابی کو؟” مستقیم اب آنکھیں میں شرارت کے ساتھ اشتیاق لئے فاتح سے پوچھ رہا تھا۔
“پر کیوں ؟”
“کیا مطلب کیوں تم اپنی محبت حاصل نہیں کرو گے کیا؟” وہ حیرت سے اپنے دوست کا پاگل پن دیکھ رہا تھا۔
“تم سے کس نے کہا کہ میں اپنی محبت حاصل کرنا چاہتا ہوں؟ تمہیں کس نے کہا کہ میں نے محبت کسی منزل کی چاہ میں کی ہے۔ میں نے تو محبت بس اس سکون کے لئے کی ہے جو مجھے اسے دیکھ کر ملتا ہے۔ اس ٹھنڈک کے لئے جو اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں اترتی ہے۔ اس اطمینان کے لئے جو اسکی موجودگی کی وجہ سے میری روح میں سرائیت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں نے محبت کا کھیل کھیلا ہے جس میں ہار جیت سے پرے ہو کر اسے چاہتا رہوں گا بس۔اس سے محبت میرا سکوں ہے بلکہ وہ خود میرے لئے سراپا سکون ہے! ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ وہ دعا حیدر فاتح ابراھیم خان کا سکون ہے۔” وہ آنکھیں بند کیے لبوں پر مسکان سجا ے ایک جذب سے اپنے جگری یار کے سامنے اپنی محبت کا با ضابطہ اعلان کر رہا تھا۔
اور مستقیم بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی ابھی جو کچھ بھی اسکے کانوں نے سنا وہ فاتح نے ہی کہا ہے یا پھر وہ جاگتی آنکھوں سے ہی خواب دیکھ رہا ہے ۔
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ آنکھیں بند کیے نیند کی وادی میں گم تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کا نائٹ سوٹ پہنے جسکی شرٹ پر فروزن کی پرنسیس ایلسا بنی ہوئی تھی، وہ چہرے پر معصومیت سجائے ، سینے تک کمفرٹر اوڑھے پرسکون ہو کر سو رہی تھی۔ نیلی کانچ سی آنکھوں پر لامبی پلکوں کی جھالڑ سایہ فگن تھی۔ سیاہ کالے بالوں کی پونی کی گئی تھی جس سے نکلی کچھ لٹیں گالوں سے ٹکرا کر ایک سہانا منظر پیش کر رہی تھیں۔ چہرے کی گلابی رنگت میں اس وقت زردیاں گھلی ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے تین دن سے بخار میں مبتلا تھی جس کے باعث وہ کالج بھی نہیں جا رہی تھی۔ بلیک جینز اور بلیک ہے ہوڈی میں ملبوس ایک شخص کھڑکی کے ذریعے اسکے کمرے میں داخل ہو کر اسکے سرہانے آ بیٹھا تھا اور اب اسکا تفصیلی جائزہ لینے میں مصروف تھا۔ اسکے حسین چہرے کو دیکھ کر اسکا دل بے اختیار ہوا تھا۔ وہ بے اختیار جھکا اور اسکے ماتھے کو ہونٹوں سے چھو لیا۔ ایک سکون رگ و پے میں سرایت کرتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
کچھ محسوس کرتے دعا نے آنکھیں کھولیں تو سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اسکے سونے سے پہلے۔ اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں موند لیں اور پھر سے نیند کی وادی میں گم ہو گئی۔
“میری معصوم شہزادی!” پردے کے پاس کھڑا وجود اسے پیار بھرا نام دے کر اسی طرح غائب ہو گیا وہاں سے جس طرح آیا تھا۔
🖤🖤🖤🖤🖤
آج امايا نہیں آئ تھی دعا کافی دیر اسکا انتظار کرتی رہی کہ شاید لیٹ ہو وہ آج پر وہ نہیں آئ تھی اور دعا کا موبائل بھی آج گھر ہی رہ گیا تھا۔ صبح جلدی جلدی میں وہ اپنا موبائل چارجنگ پہ ہی لگا چھوڑ آئ تھی اور کالج آ کر یاد آیا تھا اسے۔ آج کا دن بہت بورنگ گزرا تھا اسکا کیوں کہ امايا بھی نہیں تھی آئ اور فاتح سر سمیت دو اور ٹیچرز بھی غیر حاضر تھے۔ چھٹی ہوئی تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل آئ اور گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر آٹو کا انتظار کرنے لگی۔ اسنے پیسے نکالنے کے لئے بیگ کھولا تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیوں کہ بیگ میں والٹ موجود نہیں تھا۔ اس نے پریشانی سے سارا بیگ کھنگال لیا پر والٹ کا نام و نشاں بھی نہیں تھا۔ پریشانی سے اسکی آنکھوں میں آنسو آ گے۔ اب وہ کیا کرے گی۔ امايا بھی نہیں تھی جو ہیلپ کر دیتی اور اسکی کوئی اور دوست بھی نہیں تھی۔ کالج آہستہ آہستہ خالی ہو رہا تھا۔ اس نے بیگ بند کیا اور کالج کے اندر آ کر گراؤنڈ میں بیٹھ گئی۔ وہ روتی ہوئی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے ۔ وہ اپنی اسی پریشانی میں گم تھی جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسکے نزدیک آ کر کھڑا ہوا ہے۔ اسنے سر اٹھا کر دیکھا تو کمیل اپنے دو دوستوں کے ساتھ اسکے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
“واٹ ہیپنڈ دعا اپ اس طرح اکیلی یہاں کیوں بیٹھی ہیں اور رو کیوں رہی ہیں؟” کمیل کے پوچھنے پر اسکے آنسوؤں میں تیزی آ گئی ۔
آج فاتح کی ایک ضروری میٹنگ تھی جس کی وجہ سے وہ جلدی کالج نہیں آ پایا تھا اور اسی وجہ سے دعا کی کلاس کا لیکچر بھی اٹینڈ نہیں کر پایا تھا۔ وہ انکل سے ایک بات کر کے ابھی ایڈمن سے نکلا تھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسکی نظر دعا پر پڑی جو رونے میں مصروف تھی اور تین لڑکے اسکے پاس کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر اسکے قدموں میں رفتار آ گئی اور وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے یہاں اور رول نمبر ٹین کیا ہوا ہے اپ کیوں اس طرح رو رہیں ہیں؟” اس نے بمشکل خود پہ قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
“پتا نہیں سر یہ کیوں رو رہیں ہیں ابھی ہم یہاں سے گزر رہے تھے ان پر نظر پڑی تو ہم یہاں آگنے ہم ان سے پوچھ بھی رہے ہیں پر یہ کچھ بتا نہیں رہیں اور روئی جا رہیں ہیں بس۔” کمیل کا دوست فاتح کو بتانے لگا جب کہ کمیل کی نظریں دعا کے سراپے پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ سفید یونیفارم پسینے سے بھیگ کر جسم سے چپک چکا تھا۔ چادر بے ترتیبی سے ایک کندھے پر پڑی ہوئی تھی۔ اپنی پریشانی اور رونے میں وہ اپنا حلیہ فراموش کر چکی تھی۔ کمیل کی نظریں دعا کے سراپے پر ٹکی دیکھ کر فاتح کا پارا ایک دم ہائی ہوا تھا۔
“نکلیں آپ تینوں یہاں سے میں خود پوچھ لیتا ہوں جو بھی مسئلہ ہے انھیں۔” خود پہ ضبط کرتے ہوئے فاتح نے ان تینوں کو وہاں سے بھگایا اور ان کے منظر سے غائب ہونے کے بعد اپنا رخ دعا کی جانب کیا۔
“کیا مسئلہ ہے کیوں رو رہی ہیں اور چھٹی کے بعد اب تک اکیلی بیٹھی کیا کر رہی ہیں آپ۔ کچھ خیال نہیں ہے اپنی عزت کا کیا؟ آپ نہیں جانتی اکیلی لڑکی کے ساتھ آئے دن کیسے واقعات ہوتے ہیں۔ اب چپ کیوں ہیں میرے سوال کا جواب دیں” وہ نہایت غصے سے اسکا بازو دبوچے اس سے استفسار کر کر رہا تھا۔
اسکے اتنے غصے سے پوچھنے پر وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
“پلیز کچھ تو بتائیں مجھے کہ کیا ہوا ہے۔” اب کہ وہ تھوڑی نرمی سے بولا تھا۔
” وہ مم۔۔۔میرے ۔۔۔پیسے ۔۔۔کس ۔۔کسی ۔۔نے ۔۔چوری کر ۔۔۔لئے ۔” وہ ہچکیوں سے روتی ہوئی اسے بتا رہی تھی۔
“واٹ ؟ آپ پیسے چوری ہو جانے پر رو رہی ہیں۔آر یو سیریئس؟” اس کی بات سن کر فاتح کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔ کیا وہ صرف پیسے چوری ہو جانے پر اس وقت یہاں اکیلی کھڑی اس طرح رو رہی تھی۔
” نن ۔۔۔نہیں ۔۔۔مم ۔۔میں ۔۔پیسوں کی وجہ ۔۔۔سے نن ۔۔نہیں رو رہی ۔۔۔بلکہ ۔۔اس وجہ سے رر ۔۔رو رہی تھی ۔۔کیوں کہ میں ۔۔۔اب گھر کیسے ۔۔۔جج ۔۔جاؤں گی۔ میں آٹو پہ ۔۔جاتی ہوں نا ۔۔اس ۔۔۔اس لئے۔”
اسکی بات پر فاتح کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔
“موبائل کہاں ہے اپکا؟ گھر میں کسی کو کال نہیں کر سکتی تھیں کیا آپ ؟”
وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
“آج گھر بھول آئ میں۔” وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔ اس سب کے دوران اس کی چادر اتر کر نیچے گر چکی تھی۔ فاتح نے اسکے حسین کمسن سراپے سے نظریں چرائیں اور جھک کر اسکی چادر اٹھاکر اس کی طرف بڑھائی۔
“کور کریں خود کو اورمیرے پیچھے آئیں جلدی کوئی سوال کیے بغیر۔”
اس نے جلدی سے چادر اوڑهی اور اسکے پیچھے چل دی۔ فاتح نے اسکے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ چپ چاپ اندر بیٹھ گئی کیوں کہ اس وقت وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔ فاتح نے اسکے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کیا اور گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آ گیا۔ایک نظر اسکے جھکے ہوئے چہرے پر ڈال کر ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھا کر دعا کی طرف بڑھائی ۔ اسے سچ میں اس وقت بہت پیاس لگی تھی اس لئے چپ چاپ وہ بوتل تھام گئی۔ فاتح نے اسے پانی پیتا دیکھ گاڑی آگے بڑھا دی۔
🖤🖤🖤🖤🖤
اسے مستقیم کے آفس میں کام کرتے 2 مہینے ہو گنے تھے۔ وہ اپنی جاب سے بہت خوش تھی اسکی تنخواہ سے گھر کے اخراجات بھی بہت اچھے سے پورے ہو جاتے تھے، امی کی دوائیں بھی آ جاتی تھیں۔ ابھی وہ اپنے کیبن میں بیٹھی ایک فائل تیار کر رہی تھی جب انٹرکام بجا۔ مستقیم اسے اپنے آفس میں بلا رہا تھا۔ وہ پچھلے تین دن سے آفس نہیں آ رہا تھا اور آج آتے ہی سب سے پہلے اسکا بلاوا آ گیا تھا۔
اس نے دوپٹہ سر پر سہی سے جمايا اور اپنے کیبن سے نکل کر مستقیم کے آفس کی جانب بڑھ گئی۔
“مے آئ کم ان سر؟” حریم نے دروازہ نوک کرنے کے ساتھ اجازت طلب کی ۔
“یس کم ان مس حریم۔” اتنے دن بعد اسکی آواز سن کر اور اسے روبرو پا کر اسکی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑا تھا۔ اجازت ملنے پر وہ اندر آئ اور نظریں جھکا کر سامنے پڑی کرسی کے پاس کھڑی ہو گئی۔
“بیٹھیں مس حریم آپ پلیز!”
مستقیم نے اپنی نظریں اس کے چہرے پے جما دیں۔ ہلکے پیلے رنگ کا کرتا اور سفید شلوار کے ساتھ سفید ہی دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ مستقیم کو ایک کھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔
حریم نے جب اسے مسلسل چپ بیٹھے دیکھا تو اپنا سر اٹھا کر مستقیم کو مخاطب کیا۔
“سر آپ نے کسی کام کے لئے بلایا تھا مجھے؟”
اسکے بلانے پر وہ ہوش میں آیا۔
“جی میں نے آپ سے کچھ پوائنٹس ڈسکس کرنے تھے۔” اسکے بعد وہ اس سے بزنس کے متعلق باتیں سمجھانے میں مصروف ہو گیا ۔ابھی وہ بات کر رہے تھے جب مستقیم کے پرسنل نمبر پر کال آنے لگی ۔ اس نے حریم سے ایکسکیوز کیا اور کال پک کر لی۔
“السلام علیکم! ! کیسی ہیں آپ ؟ ارے نہیں میری جان آپکو کیسے بھول سکتا ہوں میں ۔ ہاہاہاہا چلیں اپکی یہ شکایت بھی دور کر دیتا ہوں آج۔ میں بس تھوڑی دیر تک نکلتا ہوں آفس سے۔ لنچ اکٹھے ہی کریں گے ہم دونوں آج۔ اوکے اللّه حافظ ۔”
اسکے منہ سے لفظ میری جان سن کر وہ گڑبڑا گئی۔وہ کال سے فارغ ہو کر اسکی طرف متوجہ ہوا جو پھر سے چہرہ جھکا چکی تھی۔
“مس حریم آپ میری میٹنگ کی ٹائمنگ فائنل کر کہ بتا دیجئے گا پھر۔”
“پر سر آپکو تو اپنی وائف کے پاس نہیں جانا؟” اسکے منہ سے بے ساختہ ہے پھسل گیا۔
“وائف ہاہاہا مس حریم میں آپکو میرڈ لگتا ہوں کیا؟ بائی دا وے میں اپنی دی جان سے بات کر رہا تھا۔” وہ شرارت سے مسکراتا حریم کی آگاہ کر رہا تھا۔
“اوہ اچھا! آئ ایم سوری سر!” وہ شرمندہ ہو گئی پر نا جانے کیوں اسکی بات سن کر اسکے دل میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔وہ مستقیم سے اجازت لے کر جلدی سے اسکے آفس سے نکل گئی۔
اسکے جانے کے بعد وہ اسکی حالت یاد کر کے بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھا۔
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور جلدی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔امی کے کمرے پہ نظر ڈالی تو وہ سو رہی تھیں۔ وہ دوسرے کمرے میں گئی دروازہ بند کیا اور چارپائی پر منہ کے بل گر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ باپ کا سایہ سر پر تھا تو کتنے عزت اور سکون کی زندگی تھی۔ جب سے باپ کا سایہ سر سے اٹھا تھا کتنی انسکیور ہو گئی تھی وہ۔ جگہ جگہ پر بھوکے بھیڑیے اکیلی جوان لڑکی کی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ کہاں تک حوصلہ بلند رکھتی۔ آج بھی بشیر نے اسکا راستہ روک لیا تھا کتنی مشکل سے بچ کے نکلی تھی وہ۔ کچھ بھی ہوتا کردار تو اسکا ہی مشکوک ہوتا نا۔ماں پہلے ہی بستر پر پڑی بیماری سے لڑ رہی تھی۔ وہ کیسے اپنی ماں کو کسی پریشانی میں ڈالتی۔ کتنی اکیلی ہو گئی تھی وہ۔ انسان بعض اوقات کتنا اکیلا رہ جاتا ہے ۔ کہنے اور سننے کو بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ ختم ہو جاتے ہیں دنیا میں پر کوئی سمجھنے والا نہیں ہوتا ۔خاموشی ،الجھن ،بیزاری ،اور مایوسی ذات کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ایسا وقت انسان کو بہت تھکا دیتا ہے وہ بھی تھک چکی تھی۔امی کے کھانسنے کی آواز سن کر اسنے اپنے آنسو پونچھے اور انکے پاس کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
حاصل زندگی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں ،وہ ہوا نہیں ،یہ ملا نہیں ،وہ رہا نہیں
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ فاتح سر کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اس دن کی مدد کے لئے پر وہ اس دن اسے کالج سے گھر کر باہر ڈراپ کرنے کے بعد ایسے غائب ہوا تھا کے اسکا کوئی سراغ ہی نہیں مل رہا تھا۔ اس دن وہ اتنی پریشانی میں تھی کہ اسے اندر آنے کا بھی نہ بول سکی ۔ گھر کے باہر جیسے ہی گاڑی رکی وہ بنا اسے دیکھے اندر کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی گاڑی وہاں سے بهگا لے آیا۔ اگلے دن کالج آ کر وہ فاتح سر کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی پر وہ نہ آیا۔ اسے ایک کلاس فیلو سے پتا چلا تھا کہ فاتح سر دو ہفتے کی لیو پر ہیں۔ وہ اس بات کو اگنور کر چکی تھی پر بار بار آج کل فاتح سر کا خیال دماغ میں آ رہا تھا۔ وہ خود سے بھی اس بات کا اعتراف نہیں کر رہی تھی کہ وہ انھیں مس کر رہی تھی۔
“دعا فاتح سر اپنے آفس میں تمہیں بلا رہے ہیں۔”
وہ اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی جب ایک لڑکی نے آ کر پیغام دیا۔ وہ چونک گئی۔ فاتح سر 2 ہفتے بعد آئے تھے اور آج کلاس بھی اٹینڈ نہیں تھی کی پھر اسکو اپنے آفس کیوں بلا رہے تھے۔
“اوکے میں جاتی ہوں۔”
وہ اپنی چیزیں چیئر پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور سر کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔
سر کے آفس کے باہر کھڑے ہو کر اس نے ایک دفعہ پھر سے کندھے پر پڑا دوپٹہ سہی کیا اور پھر دروازہ نوک کیا۔
“یس ۔”
فاتح کی بھاری گھمبیر آواز آواز سن کر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ پیچھے دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔
فاتح نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو وہ ماہ جبین سفید یونیفارم زیب تن کیے کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ کانچ سی نیلی آنکھوں پر اس وقت پلکوں کی جھالڑ گرائے چہرے پر ازلی بھولپن سجائے وہ اسکو پھر سے اپنا دیوانہ کر گئی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ فاتح ابراھیم نے حسن نہیں دیکھا تھا۔ اس نے بے پناہ حسین لڑکیاں دیکھی تھیں پر اسکا دل آج تک کسی کی طرف مائل نہیں ہوا تھا۔
فاتح ابراھیم خان کے دل پر چڑھے خول کو دعا حیدر نے چٹخآیا تھا۔
“آ۔۔آپ نے بلایا سر ؟”
اس نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھائیں اور اپنا سوال اسکے سامنے پیش کر کے جلدی سے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
“جی آئیں پلیز بیٹھیں آپ۔” وہ اسے چیئر کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔
اسکے کہنے پر وہ قدم بڑھا کر آگے آئ اور کرسی پر ٹک گئی۔
“آپکو میں نے کلاس کی سی- آر بنایا تھا اینڈ آئ ہوپ میری غیر موجودگی میں آپ نے سب سہی سے ہینڈل کر لیا ہوگا۔”
“جج ۔۔۔جی سر۔”
اسکے اس طرح گھبرانے اور گڑبڑانے پر وہ گھنی مونچھوں تلے مسکراہٹ دبا دیا۔
ابھی وہ مزید کوئی بات کرتا کہ دروازہ پھر سے نوک ہوا تھا۔
فاتح نے بدمزہ ہو کر دروازے کی جانب دیکھ کر اجازت دی ۔
آنے والی امايا تھی۔
“دعا جلدی چلو تمھارے گھر سے کال آئ تھی تمھارے پاپا کی طبیعت بہت خراب ہے ہمیں جلدی تمھارے گھر پہنچنا ہوگا۔” وہ چہرے پر پریشانی سجائے دعا کو بتا رہی تھی۔
اسکی بات سن کر دعا کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی اور باہر نکل گئی۔ امايا بھی اسکے پیچھے بھاگی۔
°°°°°°°°
وہ سرخ آنکھیں لئے کمپیوٹر کے اگے بیٹھی کام کر رہی تھی۔ ساری رات جاگنے اور رونے سے اسکی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں اور سر بھی بری طرح دکھ رہا تھا۔ اسے ایک فائل پر مستقیم سر سے سائن لینے تھے۔
اس نے فائل اٹھائی اور سر کے آفس کی جانب قدم بڑھائے۔ بے دھیانی میں ہی اسکا ہاتھ لگا اور دروازہ کھلتا چلا گیا۔ سامنے صوفے پر لال بالوں والی ایک ماڈرن سی لڑکی مستقیم کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ اسکے نوک کیے بغیر اندر آنے پر اسکے چہرے پر ناگوار تاثرات چھا گے۔
“یہ کون لڑکی ہے مستقیم جسے یہ بھی تمیز نہیں کے نوک کر کے اندر آتے ہیں۔” وہ اپنے لہجے کی نا گواری چھپائے بغیر بولی تھی۔
“بیہیو نینا یہ میری سیکرٹری ہیں مس حریم اور مس حریم یہ میری کزن ہیں نینا آپ پلیز آئیں اندر اور بیٹھیں۔”
وہ پہلے نینا کو تنبیہ کرتا بولا اور پھر حریم کو مخاطب کر کے اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
” نو سر بس مجھے اس فائل پر آپکے سائن لینے تھے۔ آپ پلیز یہاں سائن کر دیں بس۔” اس نے کہنے کے ساتھ فائل مستقیم کی طرف بڑھائی تو مستقیم نے پڑھے بغیر اسکی نشاندہی پر فائل پر سائن کر دیے۔
سائن لینے کے بعد اس نے فائل پکڑی اور وہاں سے نکل کر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔
اس کے جانے کے بعد مستقیم نینا کو اگنور کرتا اپنے لپپ ٹوپ میں بزی ہو گیا اور نینا خود کو اگنور ہوتا دیکھ کر تن فن کرتی وہاں سے نکل گئی۔
°°°°°°
نینا کے جانے کے بعد وہ سامنے پڑے لیپ ٹوپ کی سکرین گرا دی۔
وہ حریم کی سرخ آنکھوں کو یاد کرتا انٹر کوم اٹھا گیا۔
“مس حریم میرے آفس میں آئیں آپ ابھی۔”
“مے آئ کم ان سر۔”
وہ سرخ بوجھل آنکھوں کے ساتھ اندر انے آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔
“یس کم مس حریم۔”
“جی سر آپ نے کس لئے بلایا مجھے۔”
اسکی بوجھل آواز پر وہ ایک گہری نظر اس پہ ڈال گیا۔
“مس حریم آپ یہاں آ کر چیئر پر بیٹھیں پہلے۔” اسکے بیٹھنے کے بعد وہ پھر سے اس سے مخاطب ہوا۔
“مس حریم آپ ٹھیک ہیں ؟ اپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ کیا ہوا ہے؟”
وہ پریشانی سے اس سے استفسار کر رہا تھا۔
“آئ ایم فائن سر بس سر میں تھوڑا درد تھا۔”
” آر یو شیور ؟”
“یس سر۔”
اسکے کہنے پر مستقیم نے انٹر کوم اٹھایا اور دو کپ کافی منگوائی۔
“چلیں میرے ساتھ ایک کپ کافی پئییں دیکھئے گا آپکا سر درد غائب ہو جائے گا۔”
اسکے کہنے پر وہ چپ چاپ سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ فلحال اسکا کسی سے بھی بات کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جب کہ مستقیم اسکے ستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر گہری سوچ میں گم ہو چکا تھا۔
°°°°°°
وہ گھر آئ تو ایک قیامت اسکی منتظر تھی۔ اس پہ جان لٹانے والا اسکا جان سے پیارا باپ ہارٹ اٹیک کے سبب اس دار فانی سے کوچ کر چکا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر بے حال ہو چکی تھی۔ یہ کیا ہو گیا تھا اچانک۔ ان کے ہنستے بستے گھر کو کس کی نظر لگ گئی تھی۔ ابھی صبح ہی تو اس نے اپنے باپ سے اتنا پیار بٹورا تھا۔ وہ صبح گھر سے نکلتے وقت کہاں جانتی تھی کہ گھر واپسی پر اسے اپنے باپ کی ہمیشہ کے لئے بند چہرے کو دیکھنا پڑے گا۔سارا بیگم خود نڈحال ہونے کی با وجود اسکو سمبھالنے میں لگی ہوئی تھیں۔ بیٹی کی یہ حالت انھیں ہولہ رہی تھی۔ جنازہ اٹھنے لگا تو روتی كرلاتی کسی کے قابو میں ہی نہیں آ رہی تھی اور پھر اچانک بیہوش ہو کر گر پڑی۔
حیدر عباس کو فوت ہوئے 3 دن گزر چکے تھے۔ وہ اب تک بے یقین تھی کہ اسکا باپ اسکے ساتھ نہیں رہا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یتیم ہو چکی ہے۔
اسکی ماں اسے سمجھاتی رہی تھی آج بھی کہ اسکا باپ اللّه کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی۔ یہ دنیا تو فانی ہے۔ جو آیا ہے اسے واپس بھی جانا ہے۔ سب کو ہی ایک نا ایک دن مرنا ہے بس فرق یہ ہے کہ سب کا الگ وقت مقرر ہے۔
اسے رونا نہیں تھا صبر کرنا تھا۔ اللّه سے دعا کرنی تھی اپنے باپ کی بخشش کے لئے۔
وہ اٹھ کے واش روم گئی وضو کر کے باہر آئ جاۓ نماز بچھایا اور عشا کی نماز کے لئے کھڑی ہو گئی۔ نماز پڑھ کے بستر پر لیٹی تو پھر سے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ باپ کی موت پر صبر کرنا آسان تو نہ تھا۔ یوں ہی روتے روتے اسکی کب آنکھ لگی اسکو پتا نہ چل سکا اور وہ نیند کی وادی میں گم ہو گئی۔
°°°°°°
وہ اسکی نیند کے خیال سے آہستگی سے اسکے کمرے میں داخل ہوا اور اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھاے جہاں وہ سوگوار حسینہ محو استراحت تھی۔ کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ اس نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر لائٹ بند کی اور سائیڈ ٹیبل لیمپ جلا دیا۔ وہ سفید ڈوپٹے سے حجاب کیے آڑی ترچھی بیڈ پر لیٹی تھی۔ چہرے پر انسوؤں کے مٹے مٹے نشا نات تھے۔ خم دار گهنی لمبی پلکیں آنسوؤں سے بھیگ کر جڑی ہوئی تھیں۔ چوٹی سی ناک بھی سرخ ہو رہی تھی۔ اس نے دعا کو سیدھا کر کے لٹایا اور اسے كمبل اوڑھا دیا۔ پھر وہ دعا کے سرہانے بیٹھا اور اسکا سر تھوڑا سا اٹھا کے اسے حجاب سے آزاد کر دیا۔ حجاب اترتے ہی اسکے سیاہ بالوں کی لٹیں اسکے چہرے پر جھولنے لگیں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گالوں کو چھوتی ہوئی لٹ اسکے کانوں کے پیچھے اڑسی اور جھک کر اسکی صبیح پیشانی چوم لی۔
دعا نے نیند میں ہے کسمسا کر کروٹ بدل لی۔ اسکے چہرے سے اسکی بے سکونی واضح ہو رہی تھی۔ وہ اسکے گھنے بالوں میں انگلیاں چلا کر اسے سکون پہنچانے لگا۔ اسکی انگلیاں کافی دیر دعا کے بالوں میں حرکت کرتی رہیں۔ کچھ دیر بعد وہ گھڑی پر ایک نظر ڈال کر اٹھا جھک کر ایک دفعہ پھر اسکی پیشانی چھو لی اور کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔ دو سیکنڈز میں ہی وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
°°°°°°
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...