“تو یہ آپکا آخری فیصلہ ہے ؟
آپ مجھے واپس گھر لے کر نہیں جائینگی” ؟
بھیگی آواز میں دسویں بار پوچھتی وہ انہیں غصہ دلا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“خولہ ۔۔۔ میں نے کہ دیا نہیں تو نہیں ۔۔۔۔۔ جیسا بھی ہے اب یہی تمہارا گھر ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری ساس نے بتایا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ اس کے حالات اتنے برے نہیں ہیں ۔۔۔۔ کوئی پرمنٹ جاب نہیں ہے مگر فارغ بیٹھنے والا انسان نہیں۔ ہے ۔۔۔ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔ بس زرا طبیعت میں لا پروائی ہے ۔۔۔۔ جو عام طور پر لڑکوں کی طبیعت میں ہوتی ہی ہے ۔۔۔ تمہارے بھائی تمہارے سامنے ہیں ۔۔۔
اور یہ گھر اس کے لیئے سرائے کی طرح ہے ۔۔۔۔۔ سارا دن باہر ہوتا ہے ۔۔ اس لیئے بھی دھیان نہیں دیا ۔۔۔۔ تو اب تم گھر کی حالت پر واویلا مچا کر میری پرورش کا مزاق مت بنائو ۔۔۔۔۔ اسے سجائو سنوارو ۔۔۔۔ اپنی طبیعت کی نفاست اور سلیقے کو کام میں لائو ۔۔۔۔۔
“اوہ پلیز امی ۔۔۔ کہاں میرا کمرہ اور کہاں یہ دڑبہ” ۔۔۔
ان کی بات بیچ میں کاٹتی وہ بصوری تھی ۔۔۔۔ “ایسا تھپڑ لگائونگی نہ ! گھر وہ نہیں تم تو وہی ہو ۔۔۔۔۔ وہاں مانگ مانگ کر رو رو کر تمہیں تمہاری مرضی کی چیزیں دلائی جاتی تھیں اُس گھر میں ۔۔۔ وہ ٹھیک تھا ؟” ۔۔۔۔
“جی ٹھیک تھا” ۔۔۔۔۔۔
ناگوار نظروں سے وہ کچھ دیر تک اپنی ضدی سی بیٹی کو گھورتی رہیں ۔۔۔ پھر حتمی انداز میں گویا ہوئیں ۔۔۔۔۔ “اس گھر کے دروازے تمہارے لیئے اسی صورت کھلیں گے جب تم اپنے شوہر کی مرضی سے اس گھر میں آئو گی ۔۔۔۔۔ ورنہ جوتے لگا لگا کر واپس بھیجوں گی میں تمہیں”
یکدم ہی انکا دل پسیجا تھا ۔۔۔۔ اس کا گم صم سا انداز انہیں تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میرا بچا !! میں عورت ضرور ہوں مگر ماں بہت با ہمت ہوں ۔۔۔ ہوں نا ؟
جواباً اس نے ان کے ہاتھوں میں مقید چہرہ اثبات میں ہلا دیا ۔۔۔۔۔ “اگر مجھے زرا سا بھی داود کے کردار پر شک ہوتا تو بیٹا تمہارے کہے بغیر میں تمہیں ساتھ لے جاتی ۔۔۔۔ بلکہ شادی ہی نا ہونے دیتی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر تمہاری تہمینہ چاچی نے بھی بہت تعریف کی ہے داود کی ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر داود کے مالی حالات ارباز سے بہتر ہوتے تو میں ارباز کی جگہ داود سے ہی خولہ کا رشتہ جوڑتی ۔۔۔۔۔ مجھے خود بھی وہ بہت پیارا سا بچہ لگا ہے ۔۔۔۔ حالات نے بہت برداشت پیدا کردی ہے اس میں ۔۔۔۔ تب ہی مجھے یقین ہے تمہارے ساتھ گزارا کر لے گا” ۔۔۔۔ تڑپ کر اس نے ماں کی اس بات پر سر اٹھایا تھا ۔۔۔۔ جن کے لبوں کی مسکراہٹ اس کے یوں دیکھنے پر ہنسی میں بدل گئی تھی ۔۔۔۔۔
“سمجھانا میری ذمہ داری تھی بیٹا مگر سمجھنا تمہارا کام ہے ۔۔۔۔ اور مجھے یقین ہے میری بیٹی جلد ہی سمجھ جائے گی ۔۔۔۔۔ خیر ! ابھی تو تم ساتھ چلو گی واپس گھر ۔۔۔۔ پھر ولیمے کے دو دن بعد واپس یہاں آئو گی ۔۔۔۔۔ تب تک اس گھر کو زرا سیٹ ویٹ کرینگے یہ لوگ ۔۔۔۔۔ اب منہ سیدھا کرو اور صحن میں چلو ۔۔۔۔ سب انظار کر رہے ہونگے” ۔۔۔۔ سب صحن میں سما کیسے گئے ؟ ٹھٹھک کر پوچھتی وہ انہیں مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔۔ “جیسے تیسے بھی سما گئے ۔۔۔۔۔ آئو”
“کیا راز و نیاز ہو رہے تھے ماں بیٹی میں” ؟
تائی امی زبردستی مسکرانے کی کوشش میں عجیب سی لگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔
پھیکا سا مسکرا کر وہ اپنے لیئے بیٹھنے کی کوئی جگہ تلاش کرنے لگی ۔۔ مگر وہاں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔۔۔ سو دروازے سے ہی ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔ تہمینہ چاچی نے پہلو سے چپکی بیٹی کو دھموکا جڑ کر اٹھایا تھا ۔۔۔۔
“ادھر آ جائو خولہ” ۔
“امی اور جویریہ آنٹی کچن میں ایک ساتھ کیسے فٹ ہو گئیں” ۔۔۔۔
ابھی وہ اسی الجھن میں تھی جب باتھروم سے ہانپتی کانپتی اجیہ باہر آئی تھی ۔۔۔۔ “اتنا چھوٹا سا باتھ روم ۔۔۔۔ اس سے تو بڑی ماچس کی ڈبی ہوگی ۔۔۔۔۔ اماں آپ تو گھس بھی نہیں سکیں گی” ۔۔۔۔ تائی امی کے بھاری بھرکم وجود پر چوٹ کرتی وہ ان کا خون جلا گئی تھی ۔۔۔۔ باقی سب تو ہنس دیے تھے جبکہ خولہ کا شرمندگی سے سر مزید جھک گیا تھا ۔۔۔۔ ناشتہ کر کے اپنے گھر کے لیئے نکلتے وقت ایک لمحے کو بھی اس کے ذہن مں داود کا خیال نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ مگر جب وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تو وہ اس کے سامنے چلا آیا تھا ۔۔۔۔ کھڑکی پر جھکتے ہوئے وہ سرگوشیانہ گویا ہوا تھا ۔۔۔۔ “تم کالا جادو کرتی ہو یا کوئی پچھل پیری ہو ؟ ایسے اثر انداز ہوئی ہو نہ حواسوں پر کہ بس” !!!!
ہنسی روکتے ہوئے وہ تیزی سے پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔۔ سرخ چہرے کے ساتھ شیشہ اوپر کو کر کے وہ سیٹ پر بھی دوسری طرف کھسک گئی تھی ۔۔۔۔۔
“شوخا !!!” ۔۔۔۔۔
********
“یہ جوس ابھی تک پیا نہیں تم نے” ؟
انار کے جوس سے بھرے گلاس کو ٹرے میں جوں کا توں دیکھ کر وہ اس سے خفگی سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔۔
کسی گہرے خیال سے چونک وہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔
بغور اسے دیکھتا وہ بیڈ پر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
“کیا بات ہے عینی” ؟
“مجھے معاف کر دو ارباز ۔۔۔۔ میری وجہ سے تمہیں کتنی پریشانی اٹھانی پڑی ہے” ۔۔۔۔۔۔
“اٹھانی تو پڑی ہے ۔۔۔۔ میں اس وقت کی اپنی حالت لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا جو تمہیں خون میں لت پت دیکھ کر ہوئی تھی” ۔۔۔۔۔۔۔ گہری سانس بھر کے ارباز نے اس لمحے کا تصور کر کے بے ساختہ جھر جھری لی تھی ۔۔۔۔۔ “مگر واقعی ۔۔۔۔ جو ہوتا ہے اچھے کے لیئے ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ سب نا ہوتا تو شائد مجھے کبھی احساس نہ ہوتا کہ تم میرے لیئے کتنی خاص ہو” ۔۔۔۔۔ کتنی ہی دیر تک کمرے میں بوجھل سی خاموشی رہی تھی ۔۔۔
“ارباز” !!
“ہم”؟
“مجھے اس لڑکی کے لیئے برا لگ رہا ہے” ۔۔۔۔۔
عینی کا لہجہ شرمندگی سے چور تھا ۔۔۔۔
“ایویں ای برا لگ رہا ہے ! وہ اپنے شوہر کے ساتھ مگن میرا تو نام بھی بھول گئی ہوگی” ۔۔۔۔
“شوہر ! کون شوہر” ؟
داود !! ارباز کے منہ میں جیسے کڑوا بادام آ گیا تھا ۔۔۔
“داود ! تمہارا سوتیلا بھائی”؟
“ہاں” !!
چشمہ اتار کر بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے جوس کا گلاس عینی کی طرف بڑھایا تھا جسے بغیر احتجاج کے تھام لیا گیا تھا ۔۔۔
“یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے مجھے ۔۔۔۔ میرے دل سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے ۔۔۔۔ ارباز ! ہم داود بھائی کے گھر چلیں ؟ میں خولہ سے خود بات کروں گی ۔۔۔۔ شادی کے دن دلہا کا بھاگ جانا اتنی چھوٹی بات بھی نہیں کے اسے یونہی بھول جایا جائے” ۔۔۔۔
اتنے وقت بعد اس کا یوں چہکنا ارباز کو اچھا لگا تھا مگر جن کا وہ زکر کر رہی تھی اسے وہ لوگ پسند نہیں تھے سو وہ بیزار سا ہو گیا ۔۔۔۔
تم اچھی طرح جانتی ہو عینی کہ میرا اور اس شخص کا تعلق کیسا ہے ۔۔۔۔ پھر ایسی بات کیسے کر سکتی ہو تم ؟
اگر ہم دونو ہی مر رہے ہوں اور بچنے کا صرف ایک راستہ ہو کہ ہم ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں ۔۔۔۔ تو جانتی ہو کیا ؟ ہم دونو ہی مر جانا پسند کریں گے” !
“اس سے بری مثال نہیں مل سکتی تھی”
ناگواری سے کہ کر عینی نے خالی گلاس اس کی طرف بڑھایا تھا ۔۔۔۔
“تمہارے گھر والے مجھے قبول کر لیں گے ارباز” ؟
“عینی! عینی! عینی!
کیا تم کچھ دیر کے لیئے اہنے ذہن سے اندیشے جھٹک نہیں سکتیں” ؟
“نہیں ! مجھے بتائو مجھے سمجھائو میرا دل ہلکا کرو”
اس کے روہانسا ہو کر کہنے پر وہ سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔۔
“کون گھر والے ؟
جویریہ آنٹی کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔۔۔ معاز ان معاملوں کو سمجھنے کے لیئے ابھی بہت چھوٹا ہے ۔۔۔۔ رہی بات ابا کی تو ان کی طرف سے میں مطمئین ہوں ۔۔۔۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔۔۔ وہ مجھے معاف کر دیں گے اور تمہیں قبول بھی کر لیں گے ‘ ڈونٹ وری !!! اب جو برا ہوا اچھا ہوا اسے بھول جائو ۔۔۔۔ آگے کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا یہ سب سوچ سوچ کے ان لمحوں کو برباد مت کرو جس میں میں ہوں تم ہو اور محبت ہے” !
اس کے ہاتھ کی پشت پر نرمی سے لب رکھتا وہ اسے ساری فکریں بھول جانے پر مجبور کر گیا تھا ۔۔۔۔
*****
لوگوں کا کام ہے باتیں بنانا سو وہ بنا رہے تھے ۔۔۔۔
پھولے ہوئے منہ کے ساتھ وہ دل ہی دل میں بہری ہونے کی تمنا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
“شادی کی تمہاری تیاری میرے لیئے نہیں تھی ۔۔۔۔ اس لیئے اس وقت کی بنسبت آج زیادہ پیاری لگ رہی ہو کیونکہ آج کی تمہاری ساری تیاری میرے لیئے ہے” ۔۔۔۔
صدقے واری ہوتی نظروں سے داود نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا جو اس کا ہی لایا ہوا سلور شرارا پہنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ یہ شرارا اتنا قیمتی تو نہیں تھا جتنا وہ سنہرا شرارا تھا جو ارباز کی طرف سے اس کے لیئے لیا گیا تھا ۔۔۔۔ مگر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔۔۔۔
“آپ بہت خوش فہم ہیں ۔۔۔ یہ سب آپ کے لیئے نہیں دنیا دکھاوے کے لیئے ہے” ۔۔۔۔۔
اس کے جل کر کہنے پر داود نے ہونٹ سکیڑے تھے ۔۔۔۔
“سننے میں تو آیا ہے کے تم میٹرک اور انٹر میں فیل ہو گئی تھیں ۔۔۔۔ پھر بھی تم نے دل توڑنے میں P.h.D شاباش” !!
“اتنی اندر کی باتیں کس منحوس نے بتائی ہیں انہیں ؟ اللہ کرے اس کا ہر بچہ ایک ایک کلاس میں دس دس سال لگائے” ۔۔۔۔
داود کی طرف سے زرا رخ موڑ کر وہ خونخوار نظروں سے اجیہ سومیہ اور حور کو گھورنے لگی تھی ۔۔۔۔
جبکہ صوفے پر دھنسے سبحان صاحب بھی منہ بنائے داود کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔ جو ان کے پیسوں سے بک کرائے شہر کے سب سے بڑے شادی ہال میں دولہا بنا بیٹھا تھا ۔۔۔ “ارباز !! ایک بار توُ میرے ہاتھ لگ جا گدھے” ۔۔۔
******
شکر تھا ہال سے واپسی پر موٹر سائکل پر سفر کرنے کے خوفناک تجرنے سے نہیں گزرنا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔
معاز اور جویریہ بیگم انہیں گاڑی میں چھوڑ گئے تھے ۔۔۔۔ ہلکے پھلکے سے شلوار قمیض پہننے کے بعد وہ پرسکون سی اپنے جہیز کے جہازی سائز بیڈ پر دھم سے گری تھی ۔۔۔۔۔
اب غور کیا تو اندازہ ہوا تھا کمرہ اچھا خاصہ کشادہ تھا ۔۔۔۔ ڈبل بیڈ’ صوفہ سیٹ ۔۔۔ شیشے کی نازک سی ٹیبل سے لے کر الماری اور شو کیس کافی اچھے طریقے سے سیٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ جبکہ بیڈکے عین سامنے دیوار پر ٹی وی بھی نسب تھا ۔۔۔۔۔ ٹی وی دیکھنے کی خواہش دل میں دباتی وہ نرم گرم لحاف میں چھپتی داود کے کمرے میں آنے دے پہلے سو جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
مگر کچھ دیر بعد ہی چونک کر اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔
داود جو اس کے پہلو میں جگہ سنبھال رہا تھا بے ساختہ مسکرایا تھا ۔۔۔
“ہائے !”
“یہاں کیوں سو رہے ہیں آپ ؟ میں نے کہا تھا نہ مجھ سے فری ہونے کی ضرورت نہیں” ۔۔۔
“تو اور کہاں سوئوں ؟
صوفے پر میں پورا نہیں آ سکتا” ۔۔۔
نیند سے بوجھل آنکھیں اس نے بمشکل کھول رکھی تھیں ۔۔۔
“میری بلا سے”
“تو میری بھی بلا سے”
اس کے احتجاج کی پروہ کیئے بغیر وہ سرتاپا لحاف میں گھسا کچھ ہی دیر میں گہری نیند سو چکا تھا ۔۔۔
کچھ دیر تک لحاف میں چھپے از کے وجود کو گھورنے کے بعد وہ آئندہ کا کا لائحہ عمل طے کرتی الماری سے دوسرا کمبل نکال کر صوفے پر چلے گئی تھی ۔۔۔۔
“امی ! اپنے “اچھے بچے” کی حرکتیں دیکھیں” !!!