وہ دادو کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی ۔۔ اتنے میں حاشر بھی وہاں آیا تھا ۔۔
’’ آجاؤ حاشر ناشتہ کرو ’’ دادو نے حاشر کو ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔ حاشر مسکرا کر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔ اس نے ارسا کی جانب دیکھا ۔۔
’’ کیسی ہیں مس ارسا آپ ؟ ’’ اس نے ارسا سے پوچھا تھا ۔۔
’’ بہت اچھی ہوں ۔۔ آپ بتائے ’’ آج اسکا موڈ بہت خوشگوار تھا ۔۔ حاشر اور دادو نے اس کے اس خوشگوار چہرے ہو غور سے دیکھا تھا ۔۔
’’ میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔ لگتا ہے باس کے جانے سے بہت خوش ہیں آپ ’’ حاشر نے جوس کا گلاس لیتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ ارے نہیں ۔۔ میں کیوں خوش ہونگی ان کے جانے سے ؟ ’’ ارسا نے فوراً ہی انکار کیا تھا ۔۔ آخر اسے کیوں خوشی ہوگی ؟ بلکہ شاید کہیں نا کہیں اسے تو انتظار تھا ۔۔ باس کی واپسی کا ۔۔
’’ آپکا موڈ جو آج اتنا اچھا ہے ۔۔ کل تک تو باس کی وجہ سے آپ بہت غصے میں تھیں ’’ دادو نے حاشر کو ساری بات بتادی تھی اسلئے اب ارسا کو اس موڈ میں دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔مگر اب مجھے ان پر غصہ نہیں ہے ’’
’’ کیوں ؟’’ حاشر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔ اچانک ایسا کیا ہوا کہ غصہ ہی ختم ہوگیا ۔۔
’’ کیونکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے ۔۔ اور جب انہیں احساس ہوگیا تو میرا غصہ بھی ختم ہوگیا ’’ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے عام سے انداز میں کہا تھا ۔۔ جبکہ وہاں بیٹھے باقی افراد حیرت سے ایک دوسرے ہو دیکھ رہے تھے۔
’’ باس کو احساس ہوگیا ؟ کیا مطلب ؟ ’’ حاشر کو تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ سامنے بیٹھی لڑکی اس سے کیا کہہ رہی تھی۔۔
’’ مطلب یہ کہ انہوں نے مجھے کال کی تھی ۔۔ اور اسی لئے کی تھی کیونکہ انہیں احساس ہوگیا تھا کہ انہوں نے غلط کیا’’ ارسا نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عام سے انداز میں کہا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ عام بات سامنے والوں کے لئے کتنی حیران کن ہے ۔۔
’’ باس کے خود کال کی ؟ ’’ ارسا نے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔۔ حاشر نے حیرت سےگردن دادو کی طرف موڑی تھی ۔۔ دونوں کی نگاہیں ملی تھی ۔۔اور پھر دادو کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ انہوں سے آنکھوں سے اسے ایک اشارہ کیا تھا ۔۔ جیسے کہہ رہی ہوں ۔۔ ’’ میں نے کہا تھا نا ؟ ’’ حاشر نے حیرت سے سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔ جو اب ان اشاروں کو سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ ارسا نے دادو کی مسکراہٹ اور حاشر کی حیرت کو دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ تم ناشتہ کرو ’’ دادو نے اس سے کہا اور حاشر کو بھی ناشتہ کرنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔
تین دن گزر گئے تھے ۔ اس کی محد سے بھی بات ہوتی رہی تھی ۔۔ آج عفان نے واپس آنا تھا ۔۔ اور اس نے واپس جانا تھا ۔۔ دادو کے ساتھ اسکا دل لگ گیا تھا ۔۔ وہ اسے کئ بار کہہ چکی تھیں کہ وہ کچھ دن اور یہاں رک جائے مگر ارسا اب مزید یہاں نہیں رک سکتی تھی۔۔ اسکے امتحان شروع ہونے والے تھے ۔۔۔ اور وہ اب اپنی سٹڈی پر فوکس کرنا چاہتی تھی ۔۔ اسے آفس سے بھی کچھ دنوں کی چھٹی لینی تھی ۔۔ آج اس نے عفان کی پسند کا کھانا بنوایا تھا ۔۔ اب اسکے آنے میں ایک گھنٹا باقی تھی ۔۔ وہ دادو کے روم میں گئ تھی۔
’’ کھانا تیار ہوگیا ؟ ’’ دادو نے اس سے پوچھاتھا ۔۔
’’ جی آپ نے جو جوکہا تھا میں نے وہ بنوا لیا ہے ’’ مسکرا کر دادو کے پاس بیٹھتے ہوئےا کہا تھا
’’ اور تم جارہی ہو پھر ؟ ’’ دادو اس سے صبح سے یہی ایک سوال کئ بار پوچھ چکی تھیں ۔۔
’’ جی ۔۔ آج محد آئیگا مجھے لینے ’’ اس کی بات پر دادو نے اسکی طرف سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا ۔۔
’’ وہ میرا یونیورسٹی فیلو ہے اور پاپا کے دوست کا بیٹا ہے ’’ اس نے دادوکو محد کے بارے یہی بتانا مناسب سمجھا تھا ۔
’’ کل اکیس نومبر ہے دادو ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد دادو سے کہا تھا ۔۔
’’ تو ؟ ’’ وہ جانتی تھیں کہ وہ کیا پوچھتا چاہتی ہے ۔۔
’’ باس کی برتھ ڈے ہے کل۔۔ آپ کو اگر کوئی کام ہے یا کچھ انتظام کرنا ہے تو کہیں مجھے ’’ اس نے مدد کی آفر کی تھی ۔۔ شاید وہ خود بھی کچھ کرنا چاہتی تھی ۔ ۔۔
’’نہیں ۔۔ بلکہ میں تمہیں بتا رہی ہوں کہ تم غلطی سے بھی اسے وش مت کرنا ’’ دادو نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ وہ کیوں ’’ اسے دادو کی بات عجیب لگی تھی ۔۔
’’ جب سے اسکے والدین کی ڈیتھ ہوئی ہے ۔۔ اس نے اپنی سالگرہ منانا چھوڑ دی ہے بلکہ منانا تو دور ۔۔ اگر کوئی اسے وش بھی کر لے تو وہ غصہ ہوجاتا ہے ’’
’’ ایسا کیوں ہے دادو ۔۔؟ اس میں انکی تو کوئی غلطی نہیں ہے ’’ ارسا کو جانے کیوں عفان کی اتنی فکر ہورہی تھی ۔۔
’’ وہ جانتا ہے کہ اسکی غلطی نہیں ہے ۔۔مگر اس نے اس وقت سے ایک قسم کھارکھی ہے ’’
’’ کیسی قسم ؟’’
’’ یہی کہ وہ کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائے گا نا ہی کسی سے وشز لے گا ’’ دادو کے چہرے پر اداسی تھی ۔۔ وہ دیکھ سکتی تھی کہ عفان کی وجہ سے دادو کتنی دکھی ہیں ۔۔
’’ مگر ایسا کیوں ؟ اسکا انکی سالگرہ سے کیا تعلق ہے ؟ ’’ ارسا نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔ دادو ایک نظر اسے دیکھا تھا ۔
’’ کیوں کہ اس دن وہ ضد کر کے اپنے پاپا کو کیک لینے کے لئے باہر لے کر گیا تھا ۔۔ اور پھر اسی کے سامنے اسکے پاپا کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا ’’ دادو نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا اور ارسا چونک گئ تھی۔۔
’’ مطلب ؟ کل انکے پاپا کی ڈیتھ اینیورسری بھی ہے ؟ ’’ ارسا کی بات پر دادو نے سر ہلایا تھا ۔۔
’’ کل وہ صبح صبح اپنے پاپا کی قبر پر جائیگا ۔۔ اور پھر وہاں سے مسجد ۔۔ کل وہ غریبوں کو کھانا کھلائے گا۔۔ جہاں جہاں جو جو مددگار ملے گا ۔۔ اسکی مدد کرے گا ۔۔۔ کل وہ کسی کو بھی خالی ہاتھ نہیں واپس جانے دیگا ’’ دادو کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے ۔۔
’’ آپ روئیں مت ’’ اس نے دادو کے آنسو صاف کئے تھے ۔۔
’’ وہ آنے والے ہیں ۔۔ اگر آپکو اس طرح دیکھ لیا تو میری شامت آجانی ہے ’’ اس نے دادو کو مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔ دادو کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ اسی وقت عفاب کی گاڑی کی آواز دونوں کے کانوں پر پڑی تھی ۔۔
’’ لو آگئے وہ ’’ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔عفان خالد گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا تھا ۔۔ اس نے آج وائیٹ شرٹ اور بلیک پینٹ کے ساتھ بلیک کلر کے اپر پہنے ہوئے تھا ۔۔ ارسا خالد کو جانے کیوں آج وہ پہلے سے زیادہ پرکشش لگا تھا ۔بے اختیار ایک مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔ وہ فوراً پلٹی تھی ۔۔
’’میں آپ دونون کے لئے چائے لاتی ہوں ۔۔ ’’ وہ کہہ کر کچن کی جانب آئی تھی ۔۔ وہ جانتی تھی وہ فوراً دادو کے کمرے کی جانب آئیگا۔۔ اور جانے کیوں وہ ابھی اس کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی ۔۔
تھوڑئ دیر بعد اس نے ملازمہ کے ہاتھوں چائے کے دو کپ دادو کے کمرے میں بھیجے تھے ۔۔ خود وہ اپنے کمرے میں آگئ اور اب اپنا بیگ نکال کر بیڈ پر رکھا ۔۔ اور الماری سے سامان نکال کر بیگ میں رکھنے لگی تھی ۔۔ ابھی وہ سامان رکھ ہی رہی تھی کہ اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر عفان اندر آیا تھا ۔۔اس نے دیکھا وہ سیدھا اسی کی جانب آرہا تھا ۔۔ چہرے کے تعصورات بگڑے ہوئے تھے ۔۔ ’’ انہیں کیا ہوگیا ؟ ’’ اس نے سوچا تھا ۔۔
’’ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ وہ اس کے سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا جب اس نے سوال کیا تھا ۔۔
’’ آپکو پروا ہے ؟ ’’ کاٹدار انداز میں جواب آیا تھا ۔۔
’’ میں سمجھی نہیں ’’ وہ واقعی اسکی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی ۔۔
’’ مطلب یہ کہ مس ارسا آپ بھول رہی ہیں کہ آپ میری سیکریٹری ہیں ’’
’’ مجھے یاد ہےیہ سر ’’ وہ اپنے پرانے انداز میں کہہ رہا تھا ۔۔ تو جواب بھی ارسا نے پرانے انداز میں ہی دینا تھا ۔۔
’’ تو پھر آپکو یہ بھی یاد ہونا چاہئے کہ آپکو اپنے باس کو پک کرنے آنا چاہئے تھا۔۔ پک کرنا دو دور آپ کو تو مجھ سے ملنے آنے کی بھی زحمت نہیں ہوئی ’’ اسے غصہ تھا ۔۔ وہ ابھی گھرآیا تھا اور یہ محترمہ یہاں سے جانے کے لئے اتنی بے تاب تھیں کہ ابھی سے بیگ پیک کرنا شروع کردیا ۔۔
’’ اوہ۔۔ مگر سر اس وقت تو آٹھ بج رہے ہیں ‘’ ارسا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تو ؟ ’’ عفان کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔
’’ تو یہ کہ اس وقت تو میں آن ڈیوٹی نہیں ہوں ۔۔ تو میں کیوں آتی آپ کو پک کرنے ؟ ’’ ارسا نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا ۔۔ صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ عفان کو جان بوجھ کر تنگ کررہی تھی ۔۔
’’ آپ میرے گھر میں رہ رہی ہیں ۔۔ اور یہاں آپ چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہیں ’’ عفان نے اسے یاد دلایا تھا ۔۔
’’ جی اور یہاں رہنے والی ڈیوٹی ختم کرکے ہی تو جارہی ہوں میں ۔۔محد آنے والا ہے مجھے لینے ’’ اس نے اپنے بیگ کی زیپ بند کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ آپ کہیں نہیں جارہی ’’ عفان نے جیسے اسے فیصلہ سنایا تھا ۔،۔
’’ اور میں کیوں نہیں جارہی ؟ ’’ ارسا ساجد کو اسکے لہجے کی تو عادت ہوگئ تھی ۔۔
’’ کیونکہ میں کہہ رہا ہوں ۔۔۔ کل صبح میں خود آپکو چھوڑ کر آؤنگا ’’ عفان کی بات پر ارسا کو تھوڑی حیرت ہوئی تھی،۔
’’ آپ خود کیسے جاسکتے ہیں ؟ ’’ ارسا نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کیوں نہیں جاسکتا میں ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ آپ میرے باس ہیں ۔۔ اور میرا باس مجھے میرے گھر تک چھوڑ کر آئے یہ اس سے میرا امپریشن کچھ اچھا نہیں پڑے گا ’’ بات تو ایسی تھی نہیں مگر ارسا کو عفان کے لئے یہی جواب سوجا تھا ۔۔
’’ اس میں امپریشن والی کیا بات ہے ؟ جب محد تمہیں چھوڑ سکتا ہے تو میں بھی چھوڑ سکتا ہوں ’’
’’ تو یہ حسد تھا ؟ ’’ ارسا نے سوچا تھا ۔۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی جسے اس نے فوراً ہی چھپایا تھا ۔۔
’’ محد کی بات تو الگ ہے ’’ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اور کیا الگ ہے اس میں ؟ ’’ عفان سے غور سے اسے دیکھتے ہوئےپوچھا تھا ۔۔
’’ وہ میرا دوست ہے ۔۔ اورسب سے اہم بھی ’’ اس نے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ اس سے کہا تھا ۔۔ عفان کے چہرے کے تعصورات اسکے جواب پر بگڑے تھے جسے ارسا نے اگنور کر کے اپنا موبائیل اٹھایا اور محد کو کال کی ۔۔
’’ آگئے تم ؟ اچھا میں آئی ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کی تھی ۔۔ پھر اس نے عفان کی جانب دیکھا جو است کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
’’ محد آگیا لینے مجھے ۔۔ کل صبح ملاقات ہوتی ہے باس ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور کمرے سے باہر نکل گئ ۔۔
عفان نے اس کے جاتے ہی اپنا موبائیل نکالا تھا ۔۔
’’ اس محد کا کچھ کرو ۔۔کچھ ایسا کہ ارسا خود اس سے دور ہوجائے ’’ عفان نے کہہ کر کال کٹ کردی تھی ۔۔
’’ تو فائینلی آپ واپس آئی گئیں ’’ اس کے گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی محد نے کہا تھا ۔۔ وہ آج خوش تھا ۔۔
’’ مجھے واپس آنا ہی تھا ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ ہاں بلکل ۔۔ اور کیسی ہیں تمہاری دادو ؟ ’’ اس نے گاڑی آگے بڑھائی تھی ۔۔
’’ اب تو اچھی ہیں۔۔ بلکہ بہت اچھی ہیں ۔۔ یقین مانوں انکے ساتھ رہ کر ایسا لگا جیسے ماما مجھے واپس مل گئ ہوں ’’ وہ کہہ کر خاموش ہوگئ تھی ۔۔ وہ پھر سے اداس ہوگئ تھی ۔۔
’’ اب اداس مت ہو ۔۔ ویسے بھی تم یقیناً دادو سے ملنے تو آتی ہی رہوگی ؟ ’’ وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا ۔۔
’’ ہاں بلکل ۔۔ میں نے ان سےوعدہ کیا ہے ’’ ارسا نے کھڑی سے باہر دیکھا تھا ۔۔
’’ چلوپھر ایک اچھی سی جگہ پر ڈنر کرتے ہیں ۔۔ آخری ڈنر ’’ محد کی بات پر ارسا نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ’’
’’ کیونکہ تین دن بعد تمہارے پہلا پیپر ہے ۔۔ تو اب گومنا پھرنا بند ’’ اس نے ارسا کو بچوں کی طرح بتایا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں نے بہت محنت کرنی ہے ’’ ارسا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تم گریجوئیشن ہے بعد کیا کروگی ؟ ’’ محد اس سے آگے کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں ْ۔۔ جاب کرونگی بس ’’ ارسا نے کہتے ساتھ ہی چہرہ موڑاتھا ۔۔
’’ مگرتمہیں کچھ کرنا چاہئے ارسا ۔۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لئے تمہیں کچھ نا کچھ کرنا ہوگا ’’ وہ اسے سمجھانا چاہتاتھا۔۔
’’ مجھے کچھ نہیں کرنا محد ۔۔ مجھے بس اس شخص سے خود کو آزاد کروانا ہے ۔۔ اور یہ کیسے ہوگا ؟ یہ میں تب تک نہیں جان سکتی جب تک میں اسے نہیں جان لیتی ۔۔ اس لئے مجھے کچھ نہیں کرنا ۔۔ سوائے ایک کام کے ’’ ارسا نے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
’’ کیا کام ؟ ’’
’’ انتظار ’’ ارسا کے جواب پر محد نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔ جانے کیوں اسے ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہونے والا تھا ۔۔ جانے کیوں اسکا دل اس معاملے میں ہمیشہ اسے ڈراتا رہتا تھا ۔۔
’’ محد ’’ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ریسٹورانٹ میں موجود تھے ۔۔جب ارسا نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ ہم ؟ ’’ اس نے سوالیاں نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
’’ مجھے ایک سرپرائیز برتھ ڈے پارٹی ارینج کرنی ہے ۔۔ کسی اچھے سے ہوٹل میں ۔۔ کیا تم کل رات تک یہ کردوگے ؟ ’’ ارسا نے ہچکچاتے ہوئےاس سے کہا تھا۔۔ وہ وہاں سے سوچ کر تو آئی تھی مگر اب محد سے کہتے ہوئے اسے عجیب لگ رہاتھا۔۔
’’ کس کے لئے ؟ ’’ اسے تھوڑی حیرت تھی ۔۔ ایسا کون ہوسکتا ہے جس کے لئے ارسا یہ سب کرے ۔۔
’’ باس کے لئے ’’ جواب تھا یا دھماکہ ؟ محد کے گلے میں کھانا اٹکا تھا اور اسے کھانسی شروع ہوئی تھی۔۔ ارسا نے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھایا تھا جسے محد نے لے کر پیا ۔۔ تھوڑی دیر میں اسکی کھانسی رکی تو اس نے حیرت سے ارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ تم اپنے اس باس کے لئے برتھ ڈے پارٹی ارینج کرنا چاہتی ہو ۔۔وہ بھی اپنی طرف سے؟ آر یو گریزی ارسا ؟ ’’ اسے آج ارسا پر غصہ آرہا تھا ۔۔ وہ اتنے کم وقت میں اس شخص کے اتنے قریب کیسے ہوگئ کے اسکے لئے یہ سب کر رہی ہے ؟
’’ محد میں یہ سب کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ دادو سے بات کرنے کے بعد مجھے عفان خالد کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے جانے کیوں ۔۔ مگرمجھے اس میں اپنا عکس نظر آتا ہے ۔۔ میں نے اپنے پاپا کو کھویا ہے محد ،۔۔ اسے لگتا ہے کہ اسکے پاپا کی موت کا ذمہ دار وہ ہے ۔۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اگر میرے ساتھ وہ سب نہ ہوا ہوتا تو آج پاپا زندہ ہوتے ۔۔ میں اسے سمجھ گئ ہوں محد ۔۔ میرے پاس تم تھے ۔۔ تم ہو ۔۔ تم نے مجھے سنبھالا ۔۔ اسکے پاس اسکی ایک دادو ہیں ۔۔ اور وہ انہیں سنبھال رہی ہیں مگر جو نیگیٹیوٹی عفان خالد کے اندر آگئ ہے ۔۔ جانے کیوں پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اسے ختم کر سکتی ہوں ۔۔ وہ اپنے پاپا کی برسی کی وجہ سے اپنی سالگرہ پچپن سے نہیں منع رہے اور انکی دادو انہیں اس طرح دیکھ کر روتی ہیں محد ۔۔ میں اپنی ماں کے آنسوؤں کی وجہ بنی اور وہ اپنی دادو کے آنسوؤں کی وجہ بن رہے ہیں ۔۔ میں انہیں ایسا نہیں کرنے دے سکتی ۔۔ میں انہیں یہ احساس دلانا چاہتی ہوں کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انکی دادو انکے پاس ہیں ۔۔ ورنہ کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں ۔۔ جن کے پاس کوئی نہیں ہوتا ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ اور محد اسے سن رہا تھا ۔۔یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ اداس ہوئی تھی ۔۔ ایسا کئ بارہوچکا تھا ۔۔ مگر ۔۔۔۔
’’ میں کرونگا ۔۔ کل شام تک سب انتظامات ہوجائینگے ’’ محد نے اس سے مسکر اکر کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو محد ۔۔ میں جانتی تھی تم مجھے سمجھ جاؤگے ’’ ارسا نے کہہ کر اب کھانے کی طرف خود کو متوجہ کیا تھا ۔۔
اور محد اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ ہاں یہ سچ تھا کہ وہ ارسا کو سمجھتا تھا ۔۔ اور آج وہ سمجھ گیا تھا ۔۔
اسکا ڈر سچ ثابت ہوا تھا ۔۔ اسکا دل سچ کہہ رہا تھا ۔۔
ارسا ساجد اس گھر سے واپس آگئ تھی ۔۔ مگر وہ محد کے پاس واپس نہیں آئی تھی ۔،۔۔ ارساساجد اب بھی اسی گھر میں تھی ۔۔ اس سے دور۔۔۔
وہ اس وقت آفس میں موجود ایک فائینل لے کر سامنے بیٹھی تھی۔۔ساتھ ہی ہر تھوڑی دیر بعد وہ سر اٹھا کر سامنے دیکھتی ۔۔ آج باس اب تک نہیں آئے تھے ۔۔اور اسے معلوم تھا کہ آج وہ دیر سے کیوں آئینگے مگر پھر بھی اسے ان کا انتظار تھا۔۔ اسے اندر ہی اندر ڈر بھی لگ رہا تھا مگر وہ پھر بھی ایک کوشش کرنا چاہتی تھی ۔۔ اسے باس سے بات کرنی تھی ۔۔ اور اسی لئے ہو صبح سے انکی منتظر تھی ۔۔ اور پھر دوپہر دو بجے جاکر باس آفس آئے تھے ۔۔ اس نے گلاس وال سے دیکھا۔۔ وہ آج معمول سے زیادہ سنجیدہ لگ رہے تھے ۔۔ انکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا مگر آنکھوں میں ویرانی تھی ۔۔ اسے بے اختیار اپنے پاپا یاد آئے تھے ۔۔ وہ سمجھ سکتی تھی کہ اس وقت عفان خالد کے دل میں کیا چل رہا تھا ۔۔تھوڑی دیر بعد اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر وہ باس کے آفس کی جانب آئی تھی ۔۔
’’ سر مے آئی کم ان ؟ ’’ اس نے دروازہ ناک کر کے کہا تھا ۔۔ عفان خالد اس وقت اپنی کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے ارسا کو آنے کی اجازت دی تھی۔۔ وہ اندر داخل ہوئی اور چلتی ہوئی اسکی جانب آرہی تھی ۔۔
’’ سر آپ سے کچھ بات کرنی ہے ’’ ارسا نے اسکے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا ۔۔
’’ کہیں ’’ عفان خالد اب مکمل طور پر اس لڑکی کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔اور اس وقت اسکی سوچوں کا محور بس یہی ایک لڑکی بنی ہوئی تھی ۔۔
’’ مجھے پندرہ دن کی آف چاہئے ۔۔ پرسوں میرا پیپر ہے ’’ ارسا نے اپنی بات کر کے سامنے بیٹھے عفان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔ ایسے جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو ۔۔
’’ سر ؟ ’’ اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر ارسا نے اسے دوبارہ پکارا تھا ۔۔ عفان اپنی کرسی سے کھڑا ہوا اور سامنے گلاس مرر کی جانب گیا تھا ۔۔ اب اسکا رخ اس دیوار کی جانب تھا ۔۔
’’ میں آپکو آف نہیں دے سکتا ’’ وہ چونکی تھی ۔۔ مگر وہ اسکی بات پر نہیں اسکے انداز اور اسکی آواز میں چھپی اداسی پر چونکی تھی۔۔
’’ آئی ایم سوری سر بٹ پیرے پیپرز ہیں اور آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے آف دیں گے ’’ ارسا نے اسے اسکی کہی ہوئی بات یاد دلائی تھی ۔۔۔
’’ میری ایک شرط ہے ’’ عفان نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا تھا ۔۔
’’ کیا ؟ ’’ ارسا کبھی نہیں سمجھ سکی تھی کہ آخر اسکے دماغ میں چل کیا رہا ہے ؟
’’ آپ ان پندرہ دن میں روز شام کو دادو سے ملنے آئینگی ۔۔ اور کھانا بھی انہیں کے ساتھ کھائینگی ’’ عفان خالد نے دادو کا سہارہ لیا تھا ۔۔ وہ اسےپندرہ دن کے لئے آف دینا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اب اسے روز دیکھنے کی عادت ہونے لگی تھی۔۔ مگر اسے روز اپنے سامنے لانے کا یہی ایک اچھا بہانہ تھا جسے عفان خالد نے استعمال کیا تھا ۔
’’ وہ مجھے مس کر رہیں ہونگی ۔۔ میں بھی انہیں مس کرتی ہوں ۔۔ میں ضرور آؤنگی ’’ وہ چل کر عفان کے پاس آئی تھی ۔۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر کھڑے تھے مگر دونوں کی نظریں باہر تھیں ۔۔
’’ آج آپ کے والد کی برسی ہے سر ’’ ارسا نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا تھا ۔۔ عفان اسکی بات پر حیران نہیں ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ دادو اسے بتا چکی ہونگی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ آج انہیں گئے پندرہ سال ہوگئے ہیں ’’ اسکی نظریں آسمان کی جانب تھی ۔۔ارسا نے اسکی جانب دیکھا ۔
’’ نہیں سر ۔۔ انہیں گئے ایک دن بھی نہیں ہوا ’’ ارسا کی بات پر عفان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھاتھا ۔
’’ ٹھیک ہی تو کہہ رہیں ہوں ۔۔ آپ نے تو ایک دن بھی نہیں گزارا ۔۔آپ آج بھی وہی ۔۔اسی جگہ۔۔ اسی وقت میں ہیں جب وہ یہاں سے گئے تھے ۔۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پندرہ سال ہوگئے ؟ ’’ ارسا نے اسے دیکھ کر ایک سوال کیا تھا۔ ایسا سوال جسکا جواب عفان خالد کے پاس نہیں تھا ۔
’’ وہ میرے پاپا تھے ۔۔ میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے اپنی زندگی ہاری ۔۔ اور میں کچھ نہیں کرسکا ’’ اس نے دوبارہ آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اس چھوٹے بچے کی طرح جوکہ آسمان کے تاروں میں کسی اپنے کا نشان ڈھونڈتا ہے۔۔
’’ آپ خوش نصیب ہیں سر کہ آپ نے کم از کم انہیں دیکھا تو تھا ۔ ورنہ اس دنیا میں ایسے بد نصیب بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنوں کو انکے آخری پل میں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔ تو وہ کیا کریں ؟؟؟ کیا وہ بھی رک جائیں ہمیشہ کے لئے ؟ ’’ ارسا نے اس سے ایک اور سوال پوچھا تھا ۔ عفان خالد نے دیکھا اسکی آنکھیں نم تھی ۔۔ اور وہ جانتا تھا ان نم آنکھوں کے پیچھے کی کہانی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کس اپنے کی بات کر رہی ہے ۔۔اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس سوال کا جواب کیا تھا ۔۔
’’ انہیں آگے بڑھنا چاہئے ۔۔ ضرور بڑھنا چاہئے مس ارسا ۔۔ مگر میرا کیس تھوڑا الگ ہے ۔۔ میں اپنے پاپا کی موت میں کہیں نا کہیں خود کو بھی قصوروار مانتا ہوں ۔۔ ایک افسوس سا ہے کہ کاش میں اس دن انہیں جانے کا نہ کہتا ۔۔۔ مگر مجھے کیک بنوانا تھا ۔۔۔ اپنی پسند کا ۔۔ اور میں ضد کر کے انہیں لے کر گیا تھا ۔۔ ’’ عفان خالد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کیا آپ پہلی بار انہیں ضدکر کے لے کر گئے تھے؟ ’’ ارسا نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ نہیں ’’عفان خالد نےاسکے سوال کا عام سےانداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ تو پھر آپکی غلطی کیسے ہوئی ؟ غلطی تو پھر وقت اور قسمت کی تھی نا ؟ ’’ ارسا کی بات پر عفان خالد کے چہرے کےتعصورات بدلے تھے ۔۔ اس نے ایک نظر اٹھا کر اس لڑکی کی جانب دیکھا تھا جو اب بھی اسے کچھ کہہ رہی تھی۔۔
’’ وہ جو ہمیشہ ہوتا ہو ۔۔ وہ اگر اچانک کچھ برا کرے تو یہ غلطی نہیں ہوتی سر ۔۔ غلطی تو تب ہوتی ہے کہ کچھ ایسا ہوجائے جو کبھی ہونا نہ ہو ۔۔ آپ کچھ ایسا کرو۔۔ جسے کبھی کرنا نہ ہو ۔۔ آپ کے ساتھ کوئی ایسا مزاق ہوجائے ۔۔جو آپکے کسی اپنے کی جان لے جائے ۔۔ غلطی تو تب ہوتی ہے سر ۔۔ آپ سے تو کچھ نہیں ہوا ۔۔آپ تو معصوم تھے۔۔ پھر غلطی نہیں ہوئی ۔۔ وہ وقت کا فیصلہ تھا ۔۔ وقت پرہی ہونا تھا ’’ ارسا اس سے کہہ رہی تھی ۔۔ اور وہ اسے سن رہا تھا ۔۔
’’ آپکے پاپا کہاں ہیں مس ارسا ؟ ’’ جانے کیوں ؟ اور کیسے ؟ مگر عفان خالد ایک ایسا سوال کر چکا تھا ۔۔جو وہ کبھی کرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔
’’ وہ ۔۔ وہ بھی اسی جہان میں ہیں جہاں آپکے پاپا ہیں ’’ وہ مسکرا کر بولی تھی ۔۔ کتنی پھیکی تھی اسکی مسکراہٹ ۔۔
’’ کیسے ہوئی انکی ڈیتھ ؟ ’’ ایک اور سوال کیا تھا ۔۔ دل میں کچھ چبھا تھا ۔۔ ضمیر نے ایک دھکا دیا تھا مگر عفان خالد پھر بھی کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
یہ سوال ایسا تھا کہ جس کا جواب ارسا ساجد کے لئے دینا اتنا آسان نہیں تھا ۔۔ وہ کیا بتاتی ؟ کیا جواب دیتی وہ اس شخص کو ؟ اس نے سوچا وہ کچھ نہیں کہہ سکتی ۔۔
’’ سر اگر میں آپسے کچھ مانگو تو کیا آپ مجھے دیں گے ؟ ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا تھا ۔۔ عفان کا کیا گیا سوال وہ اگنور کرگئ تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ آج کچھ بھی مانگ لو ’’ عفان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔ اسے اچھا لگا تھا۔۔ اسکا یہ اجازت لینے والا انداز۔
’’ مگر یہاں نہیں۔۔ شام کو ۔۔ کیا آپ میرے ساتھ چلینگے ؟ ’’ ایک اور سوال تھا ۔۔ اور یہ سوال عفان کو حیران کر گیاتھا ۔۔وہ اسکے ساتھ جانا چاہتی ہے ؟ مگر کہاں ؟
’’ کہاں ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا
’’ یہ میں آپکو شام کو بتاؤنگی ’’ ارسا نے مسکر اکر اس سے کہا تھا ۔۔
’’ ضرور ’’ وہ مسکرا کر اسکے آفس سے جاچکی تھی ۔۔ اور عفان خالد ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھنے لگاتھا ۔۔
’’ کاش ارسا ساجد ہمارے بیچ ماضی نہ آیا ہوتا ۔۔ تو شاید مجھے تم سے محبت ہوجاتی ’’ اس نے زبان سے کہا تھا ۔۔ مگر دل ؟ جانے وہ کیوں چپ تھا ؟ اس نے زبان کی بات پر رضامندی نہیں دی تھی ۔۔ مگر ایسا کیوں تھا ؟ کیا عفان خالد کی زبان غلط کہہ رہی تھی ؟ کیا تب بھی محبت نہیں ہوتی ؟ یا پھر ۔۔۔ محبت ہوجاتی نہیں۔۔ محبت ہوگئ ہے ؟؟؟