چھے جولائی 2017ء سے میرے خواب پیہم گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔اس روز تعبیر کا مرکز و محور داغ ِ مفارقت دے گیاتوخواب بکھرنے کے نتیجے میں میری آنکھیں پتھرا گئیں ۔ کتابی صورت میںالفاظ کی یہ خوب صورت تصویر سوال کرتی ہے کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو یک جا کرنے والا مصور سجاد حسین کہاں ہے ؟ یہ الفاظ سجاد حسین کی موجودگی کی گواہی دیتے رہیں گے ۔فضا میں ہر طرف اُس نوجوان کی یادیں پھیلی ہوئی ہیں اورجس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اُ س کی صداسنائی د یتی ہے جو یہ کہتی ہے ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی ۔ سال 2015-2017 کے عرصے میں سندی تحقیق کے ایک مقالے ’’ دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی مطالعہ ‘‘ کے لیے میرے اکثر مآخذ اُڑ الیے گئے ۔میرے نو جوان بیٹے کے سوئے عدم جاتے ہی نہ صرف در و دیوار پر حسر ت و یاس کے بادل اُمڈ آئے بل کہ موقع پرست لوگوں کی سوچ اور تعلقات کی صورت ہی بدل گئی۔ میں جانتاتھا کہ بازی گروں کے مانند کواکب صاف دھوکادیتے رہتے ہیں ۔بروٹس قماش درندو! تم کس کس مقام سے میرے بیٹے کی محنت کو الگ کر سکو گے ؟وہ تو تمھاری زندگی کے ہر سلسلے سے منسلک رہے گا۔بہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑے کی باقیات کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمھاری جعل سازی ،فریب کاری ،عیاری اورجسارت سارقانہ تمھارے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گی ۔ہم الم نصیب جگر فگار لبِ اظہار پر تالے لگا کر بیٹھے ہیں اور اپنے معاملات اپنے خالق کی عدالت میں پیش کرچکے ہیں۔ بہو کا بھیس بنا کر مرہم بہ دست آکر ہم فقیروں کی متاعِ علم کا سرقہ کرنے والی محافظہ ٔ رومان کی محسن کشی،فریب کاری اور پیمان شکنی زمانے کے حوالے کرتے ہیں۔ اُس سارق کے ہم نوا عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں کو فطرت کی تعزیروں سے غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ہم نے جو ستم سہے ہیں وہ وقت کی امانت ہیں جو کینہ پرور حاسدوں کوبہت جلد واپس مل جائیں گے ۔والی آسی ؔ نے سچ کہا تھا:
وقت ہر ظلم تمھارا تمھیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتاہے
خالق ِ کائنات کے انصاف کا منتظر
فقیر
غلام شبیر
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...