(Last Updated On: )
اکیلے در پہ کوئی کھٹکھٹا رہا ہے ابھی
کہ اک گمان سا اندر چھپا ہوا ہے ابھی
ہے خواب بجتی ہوئی مٹیوں کے پیکر میں ہمارے
ہمارے جسم کا اندیشہ بے صدا ہے ابھی٭
کچھ اور رات گذرنے دو پھر چلیں اندر
فصیلِ شہر کے اُوپر کوئی کھڑا ہے ابھی
ٹھہر ٹھہر کے ہم اپنا لہو بھی پی لیں گے
نئی ہوا ہے یہ اک بات نا روا ہے ابھی
وہ اک درندہ جسے ڈھونڈتے رہے ہو تم
وہ میرے جسم کے جنگل میں چھپ گیا ہے ابھی
نظر چرا کے جو لایا تھا شہر سے اسلمؔ
ہر اک دراز کے اندر چھپا رہا ہے ابھی
٭٭٭