کل مہندی ہے عنیزہ اور آپ ابھی تک اپنا درزی سے ڈریس نہیں لے کر آئیں۔
اوہ سوری ماما۔
آج سارا دن یاد ہی نہیں رہا۔میں کل صبح لے آؤں گی۔
اس نے اپنی طرف سے تجویز دی۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا۔
کل کس ٹائم جاؤ گی؟
شام کو مہندی ہے مہمان سارے آ جائیں گے پھر کل تمہارا پارلر میں اپوئیمنٹ بھی ہے۔
فردوس بیگم اس کی بات سن کے بھڑک اٹھیں تھیں اور اسے ڈپٹہ۔
اچھا یار۔
پھر میں کس کے ساتھ جاؤں۔ اور اس ٹائم میرا اکیلے جانے کا کوئی موڈ نہیں ہو رہا۔
وہ منہ کے زاویے بناتے بولی۔
عنیزہ کچھ بڑی ہو جاؤ۔ پرسوں تمہاری شادی ہے اور یہ بچوں والی حرکتیں کب چھوڑو گی۔
وہ جھنجھلا کے بولیں۔
ماما۔۔
شادی شادی شادی۔۔
کیا مصیبت ہے۔ میں نے کہا تھا نا کے میں نے ابھی نہیں کرنی۔ میں ابھی مینٹلی پریپئیر نہیں ہوں۔ پر آپ لوگوں نے تو اموشنل بلیک میل کر کر کے مجھے ہاں کہنے پر مجبور کر دیا۔
اور اب میں مزید کوئی کمپرومائز نہیں کروں گی۔
اگر بابا ہوتے تو وہ ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دیتے۔ آپ لوگ جیسا کہتے گئے میں مانتی گئی۔ پر ماما یہ بازار وزار کے چکر میرے سے نہیں لگتے۔ اس کے لیے سوری۔
وہ کہتے رخ مور گئی۔
ہمیشہ کی طرح اسے اپنے بابا یاد آنے لگ گئے تھے۔ جو اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہونے دیتے تھے۔ اس کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔ وہ فورا ہاتھ سے صاف کر گئی۔
عنیزہ میری بچی۔۔
فردوس بیگم پیچھے کھڑی بولیں اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتیں وہ بولی۔
Leave me alOne plZz..
عنیزہ میری بات تو سنو۔
وہ پھر بولیں۔
Mama i said…
اوکے میں جا رہی ہوں۔ ریسٹ کرو۔ وہ اس کے کچھ اور کہنے سے پہلے وہاں سے چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کرتی بیڈ پر ٹانگیں اوپر کر کے وہ اس کے گرد بازو فولڈ کرتی وہ رونے میں مگن ہو گئی۔
وہ جتنی سامنے سے بہادر لگتی تھی اندر سے اس کا دل اتنا ہی نازک تھا۔
اکبر صاحب کی وہ بہت لاڈلی تھی ان کے جانے کے بعد وہ اور بھی بات دل پر لے لیتی تھی۔
وہ رونے میں مصروف ہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔
اس نے دروازے کی طرف دیکھا تو فائق کھڑا تھا۔
بھائی جان آپ۔۔
وہ آنسو صاف کرتے بولی۔
فائق دروازہ بند کرتا اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اور عنیزہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے۔
جی بھائی کی جان میں۔
اور کیوں رو رہی تھیں آپ؟
فائق اس کے ہاتھ دباتا بولا۔
ن نہیں ں تو۔
اس کی زبان لڑکھرائی۔
آپ جھوٹ کب سے بولنے لگیں؟ اور اب بھائی سے باتیں بھی چھپانے لگی ہیں۔
نہیں تو۔۔
وہ پھر بس اتنا ہی بولی۔
یار یہ نہیں تو نہیں تو کیا؟ میری بہن تو ایسی نہیں تھی وہ تو سب کی باتوں کا جواب دینے والی تھی۔ اور جواب بھی اگلے کے گمان سے اوپر کا ہوتا تھا۔
عنیزہ کچھ بھی نہیں بولی۔
پہلے تو یہ بتاؤ روئی کیوں ہو؟ اور یار آپ تو بہت بریو ہو۔ اور پرسوں آپ کی شادی ہے۔ خوش رہو نا۔ بیٹیاں روتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں۔ بیٹیاں تو گھر کی رونق ہوتیں ہیں وہ ہنستی مسکراتی ہی اچھی لگتی ہیں۔
فائق اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔
عنیزہ کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔۔
عنیزہ۔۔
بری بات ہے یہ۔
بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے۔
فائق اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔
وہ اس کے کندھے کے ساتھ لگ گئی۔ اور پھر سے رونا شروع کر دیا۔
عنیزہ آپ مجھے پریشان کر رہی ہو۔ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے۔
وہ پریشانی سے بولا۔
کچھ نہیں ہوا بھائی جان۔ بس میرا دل گھبرا رہا ہے۔ اور میرا دل نہیں مان رہا اتنی جلدی شادی کے لیے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کے کہیں کچھ ہو نا جائے۔
وہ روتے روتے بولی۔
کچھ نہیں ہو گا میری جان۔
آپ کو اپنے بھائی کے ہوتے ہوۓ کس چیز کی ٹینشن ہے۔ میں ہوں نا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ آپ کی شادی ہو رہی ہے نا شاید آپ کو اس وجہ سے ایسا فیل ہو رہا۔ پر آپ گھبراؤ نا ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔
فائق اس کو اپنے سے الگ کرتا سمجھاتے ہوۓ بولا۔
وہ بھی چپ کر گئی تھی۔ وہ مزید اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ایسا کرو جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ہم باہر چلتے ہیں۔
کچھ آوئٹنگ بھی ہو جائے گی اور تمہارا ڈریس بھی لے آئیں گے۔
لیکن بھائی۔
کوئی لیکن ویکن نہیں۔۔
آپ پانچ منٹ کے اندر نیچے آؤ۔ وہ ہاتھ پر لگی گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
میں ویٹ کر رہا ہوں۔ اور ماما بھی پریشان ہو رہی ہوں گی ان سے بھی مل لینا۔
اوکے۔
وہ بولی اور بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
فائق بھی نیچے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ واؤ۔
کتنی پیاری فراک ہے۔
عنیزہ شاپ کے باہر کھڑی فراک کو دیکھ کے کہ رہی تھی۔
آپ نے لینی ہے یہ؟
فائق نے پوچھا۔
نہیں بھائی میں کیا کروں گی۔ اور بی جان کہتی ہیں پتہ نہیں وہ لوگ شادی کے بعد ایسے کپڑے پہننے دیں یا نا دیں۔
وہ ما یوسی سے بولی۔
اس میں کیا ہے اور کیوں نہیں وہ پہننے دیں گے۔ اگر آپ کو پسند ہے تو ہم ضرور لیں گے۔
نہیں بھائی۔ میں نے تو ویسے ہی کہا تھا۔ مجھے نہیں پسند۔
عنیزہ آپی فائق بھائی عفاف۔۔۔۔
ابھی وہ کھڑے باتیں کر رہے تھے جب ان کے کانوں میں آواز پڑی۔
انھوں نے پیچھے مر کے دیکھا تو نوال کھڑی تھی۔
اوہ تم یہاں۔۔
عفاف خوشی سے بولی۔
جی میں یہاں۔
کیسے ہیں آپ سب؟
نوال نے پوچھا۔
ہم ٹھیک آپ سناؤ؟
فائق نے جواب دیا۔
میں بھی ٹھیک۔ وہ مسکراہٹ سجائے بولی۔
اور آپ سنائیں دلہن؟
کیسی ہیں۔ماشاءاللّه سے اب تو اور بھی پیاری ہو گئیں ہیں۔
میں بھی ٹھیک۔
عنیزہ نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
نوال آپ کس کے ساتھ آئی ہو؟
فائق نے پوچھا۔
میں بھائی کے ساتھ آئیں ہوں۔
ابراھیم کے ساتھ۔
عنیزہ نے خوشی سے پوچھا کیوں کے اس کی ابراھیم سے خوب بنتی تھی۔
نہیں آپی۔
حازم بھائی کے ساتھ۔
السلام علیکم۔
پیچھے سے آواز آنے پر سب نے مر کے دیکھا۔
وعلیکم السلام۔
کیسے ہو۔
فائق نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے جواب دیا اور اس سے گلے ملا۔
میں ٹھیک تم سناؤ؟
حازم نے پوچھا۔
میں بھی ٹھیک۔
عنیزہ کو تو اسے دیکھ کے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ یہ نوال اور ابراھیم کا بھائی۔ ان بیلیوایبل۔ اس نے ذہن میں سوچا۔
تم لوگ یہاں؟
فائق نے حازم سے پوچھا؟
ہاں وہ نوال کو بک چاہیے تھی وہ لینے آئے تھے اور پھر اسے یہاں ایک ڈریس پسند آ گیا تو وہ لینے لگ گئے۔
اچھا۔۔
ہم لوگ بھی عنیزہ کا ڈریس لینے آئے تھے۔
اچھا۔
حازم بس اتنا ہی بولا۔
چلو آج مل کے کچھ کھا لیتے ہیں۔
فائق نے مشورہ دیا۔
جیسے تم کہو۔
وہ دونوں پہلے ہی ڈنر پلین کر رہے تھے۔ اور آج اچانک وہ مل گئے تو۔۔
نہیں بھائی جان رہنے دیں نا۔۔
عنیزہ منمنائی۔
کیوں؟
فائق نے حیرت سے پوچھا۔
جب سے بازار آئی تھی وہ یہی کہ رہی تھی کچھ کھائیں کچھ کھائیں پر اب فائق کو یہ سن کے حیرت ہوئی تھی۔
عنیزہ آپی آپ نا کھانا کچھ ہمیں تو بھوک لگی ہے۔
عفاف اس کی بات پر منہ بسورتے بولی۔
ہاں عنیزہ تھوڑی دیر کی تو بات ہے۔
اوکے بھائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
نوال تم اور ابراھیم تو اتنے اچھے ہو۔
اور وہ۔۔۔
وہ حازم کو سرسری سا دیکھتے ہوۓ بولی۔
کیا مطلب آپ کا آپی؟
نوال نے نا سمجھی سے پوچھا۔
مطلب کے وہ تم لوگوں کا سوتیلا بھائی تو نہیں ہے کہیں؟
مجال ہے کے تم لوگوں سے ذرا بھی ملتا ہے۔ نا ہی اس کا کوئی نقش اور نا ہی۔۔
حازم کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ بولتے بولتے رکی اسے یقین تھا کے وہ سب سن چکا ہے۔
میرے نقش کس سے ملتے ہیں اور کس سے نہیں یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے۔ اور تم تو فیس سے ہی ماسی لگتی ہو۔ ماسی کا مطلب تو جانتی ہی ہو گی۔
وہ آتے ہی جوابًا بولا۔
حازم دھیمی سی آواز میں کہتا اسے آگ لگا گیا تھا۔
چلو نوال چلیں۔
وہ نوال کو کہتا بغیر ادھر ادھر دیکھے واپس چلا گیا۔
نوال سب سے ملتی حازم کے پیچھے چلی گئی۔
ہم بھی گھر چلیں؟
فائق نے پوچھا۔
جی بھائی جان۔
وہ تینوں بھی اپنی کار کی طرف چلے گئے۔
فواد صاحب اکبر صاحب کے دوست تھے۔ اس لیے ان کا ایک دوسرے کی طرف کافی آنا جانا تھا۔ انھوں نے حازم کو نہیں دیکھا تھا کیوں کے وہ اوٹ اوف کنٹری ہوتا تھا۔
فائق بھی باہر ہی تھا پر جب سے اکبر صاحب کی وفات ہوئی تھی وہ واپس پاکستان آ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...