اکبر حمیدی(اسلام آباد)
یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں
روز و شب جیسے قتل گاہ میں ہوں
وقت نے جیسے نظریں پھیری ہیں
اور میں کوشش نباہ میں ہوں
راستے بند ہوتے جاتے ہیں
اور میں منزلوں کی چاہ میں ہوں
اتنے نادم ہیں دیکھتے بھی نہیں
یوں تو ہر شخص کی نگاہ میں ہوں
کچھ اندھیرے ہیں کچھ اُجالے ہیں
جیسے میں تیری خواب گاہ میں ہوں
بچ نکلتا ہوں ہر بلا سے اگر
اے خدا میں تری پناہ میں ہوں
کچھ عجیب حال ہے مرا اکبرؔ
جیسے میں غیر کی پناہ میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے
چاہتوں میں بھی جھوٹ بولتا ہے
سنگ ریزوں کو اپنے ہاتھوں سے
موتیوں کی طرح وہ رولتا ہے
جھوٹ ہی بولتا ہے وہ لیکن
لہجے میں اولیا کے بولتا ہے
کیسا میزان عدل ہے اس کا
پھول کانٹوں کے ساتھ تولتا ہے
ایسا وہ ڈپلومیٹ ہے اکبرؔ
زہر اَمرت کے ساتھ گھولتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے برسوں سے مرے مہمان ہو
اے غمِ دنیا بس اب دفعان ہو
ختم ہو جائیں گی ساری دقتیں
عید آتی ہے اگر رمضان ہو
کِس طرح مایوس ہو کر لوٹ جاؤں
سامنے جو عالمِ امکان ہو
دیکھتا ہوں تم کو تو ایسا لگے
تازہ پھولوں سے بھرا گلدان ہو
تم سے ہیں اس آئینے کی رونقیں
تم ہی تو اس آئینے کی جان ہو
تنگ رستوں سے سڑاند آنے لگے
دوستو مت اس قدر گنجان ہو
کٹ تو جائے گا سفر اکبرؔ مگر
ہمسفر اچھا ہو تو آسان ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کیا جانے کیسا ناچتا ہے
کہ اب یہ مور تنہا ناچتا ہے
ادھر دیکھو تماشا ہے یہ کیسا
ہوا کے سنگ دریا ناچتا ہے
اک آتش زیرپا کی زندگی کیا
بیاباں میں بگولا ناچتا ہے
بدن میں آگ لگ جاتی ہے جیسے
لہو میں جب شرارہ ناچتا ہے
سب اس کے زاویوں کی ہے نمائش
وہ کافر اُلٹا سیدھا ناچتا ہے
بدن کا پھول کھلتا جا رہا ہے
کمر کے بل پہ لہنگا ناچتا ہے
فلک زادے بھی تجھ کو چاہتے ہیں
زمین کے رخ سِتارا ناچتا ہے
اگر مقبول ہونا چاہتے ہو
وہ ناچو جو زمانہ ناچتا ہے
یہ سب ہے زندگی کا کھیل اکبرؔ
ہوا کے ساتھ تنکا ناچتا ہے