خلیق الرحمن
اکبر حمیدی کا شمار ایسے فنکاروں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اپنی فکریات کو کئی شیڈز اور سمتیں دی ہیں۔ وہ عصر حاضر کے ایک اہم باشعور شاعر، متحرک ذہن انشائیہ نگار اور صاحب اسلوب خاکہ نگار ہیں۔ان کے فنی رموز کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ابھی تک جو کاوشیں ہوئی ہیں، انھیں کتابی صورت میں یکجا کرنے کا سہرا رفیق سندیلوی کے سر ہے ۔ یہ مضامین جو بعنوا ن ’اکبر حمیدی کا فن ‘ کی صورت میں مرتب ہو کر سامنے آئے ہیں، اکبر حمیدی کی شخصیت اور فن کو پرکھنے کا ایک متین اور سنجیدہ موقع فراہم کرتے کہیں۔(۳۹) مضامین پر مشتمل یہ کتاب اکبر حمیدی کی شاعری اور نثری اصناف کے حوالے سے ترتیب دی گئی ہے ، جن میں ہمارے عہد کے معزز اور ممتاز ترین ناقد اور فنکار شامل ہیں۔ اہم نوعیت کے نکات اور ادبی و علمی بحثوں کے متعلقات پر بھی آراء سامنے آئی ہیں۔ ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے یہ کتاب ایک اہم تنقیدی اضافہ قرار دی جا سکتی ہے ۔
اکبر حمید ی کی زندگی مسلسل محنت، ریاضت اور جستجو سے عبارت ہے، انھوں نے ایک متوسط درجے کے گھرانے میں آنکھ کھولی، لیکن زندگی کے سفر میں انھوں نے ہمیشہ اگلی منزلوں اور کامیابیوں پر نگاہ رکھی، قدم قدم چلتے رہے اور با لآخر اس مقام تک پہنچے، جہاں ان کی ہمتوں اور تخلیقی کاوشوں کی تشفی بھی ممکن ہوئی اور فنکارانہ انا کی تسکین بھی ۔ زندگی کے مادی مسائل میں عام آدمی کی طرح جائز طریقوں اور راستوں کا انتخاب کیا اور اپنی طے شدہ منزلوں کے ہدف تک پہنچے۔ ہر چند زندگی کے ان راستوں میں محنت، لگن اور جستجو انہیں مزید کامرانیوں اور آسودگیوں سے ہمکنار بھی کر سکتی تھی، مگر وہ اپنے (نظریہ اکتفا ) کے تحت خود ہی معاشی، تعلیمی اور سماجی زندگی کی حدوں میں رہے اور دوسروں کی نظر میں رہے جو ابھی کم تھا، اسے بہت جانا ۔ انسانی خواہشات اور مادی وسائل میں کم اور زیادہ کی توجیہہ یوں بھی آج تک ممکن نہیں ہو سکی۔
اکبرحمیدی کی زندگی مسلسل تگ و دو سے عبارت ہے، انھوں نے اپنے خاندانی معاملات اور مشکلات کے حوالے سے در حقیقت اہم کامیابیاں حاصل کیں اور اپنے بے حد محدود وسائل میں رہتے ہوئے کامیابی سے زندگی کا سفر طے کیا ، گاؤ ں سے گوجرانوالہ شہر اور گوجرانوالہ سے اسلام آباد تک کا سفر ان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گیا، جہاں انھوں نے نہ صرف اپنی کاوشوں سے اہل خانہ کی زندگیوں میں اہم اور مثبت تبدیلی پیدا کی، بلکہ اپنے لیے بھی پر وقار اور قابل احترام مقام پیدا کیا ۔ ادبی اور فنی سطح پر انھوں نے خلوص، نیک نیتی، دل جمعی اور مستقل مزاجی کو اپنا ئے رکھا۔
اکبر حمیدی کے فنی سفر پر نگاہ ڈالیں تو ان کا فن ارتقائی منازل طے کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ نظم سے نثر کی طرف آتے ہوئے انھوں نے اپنے بہت سے ہمعصروں کے مقابل زیادہ جرات اور بے باکی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمہ جہت اصناف کو اپنا کر اپنی تخلیقی جہتوں اور وسعتوں کے جہاں تلاش کیے اور آباد کیے ہیں۔ بعض نے اپنے مزاج کی احتیاط پسندی یا پھر ناکامی کے امکان کے خوف سے خود کو محض ایک آدھ صنف سخن تک محدود رکھا لیکن اکبر حمیدی نے اردو اور پنجابی شاعری کے علاوہ انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، نظم ، ہائیکواور سوانح عمری تک ادبی اصنا ف میں خود کو پھیلایا ہے۔ اس بے باک رویے میں انھیں زیادہ کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے۔ اور شاعری کی صنف میں اپنے عصر کے جدید غزل گو شعراء میں اکبر حمیدی کی آواز بھی سرخرو ہوئی ہے۔ انشائیے اور خاکہ نگاری میں انھوں نے ایک الگ اسلوب اور مزاج تشکیل دیا ہے۔ اور اپنے انداز کے طرز احساس کی پہچان بنائی ہے۔
اکبر حمیدی کا کہنا ہے کہ میں یک صنفی فنکار نہیں ہوں بلکہ اس معاملے میں میں غالب کا طرفدار ہوں ۔ میں نے اپنے تخلیقی امکانات میں نئی جہات اور مقام تلاش کئے ہیں ۔ یہ شعر شاید ان کے اسی احساس کا آئینہ دار ہے۔
نہ چلے گی ہواؤں کی سازش
چارجانب سے آرہا ہوں میں
اکبر حمیدی کے تمام ناقدین نے انھیں ایک روشن خیال، انسان دوست اور وطن پرست فنکار قرار دیا ہے ،ایک ایسا فنکار جو نامساعد اور نا موافق حالات میں بھی عزم و ہمت سے آگے بڑھنے اور مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ان کے اس عزم اور سوچ کا اظہار ان کی سرگزشت (جست بھر زندگی) میں باربار ہوا ہے ۔ یعنی (ٹوٹنے میں جلدی نہ کریں) یہ انداز فکر ہمیں اکبر حمیدی کی شاعری سے لیکر ان کی ہر صنف سخن میں دکھائی دیتاہے ۔ ان کا یہ کہنا کہ جب ہماری زندگیوں میں کوئی افتاد نازل ہو جائے، یا ہم کسی سانحہ سے دوچار ہو جائیں، تو دکھ کے اس بارگراں میں ہمیں اپنی ذات کی اوٹ میں ہو جانا چاہئے، یہ اوٹ ہمیں حقیقتوں کو قبول کرنے اور ان کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہے اور ہمیں زندگی کی بے رحمی اور سفاکی کے سپرد ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔
اکبر حمیدی کے چھ شعری مجموعوں کی شاعری نے انسانی زندگی اور اس سے وابستہ مسائل سے براہ راست مکالمہ کیا ہے، انھوں نے اپنے عہد کے انسان کے باطن میں چھپی تنہائیوں ، کجیوں اور اداسیوں کو بھی پیش کیا ہے اور خارج سے جڑی محرومیوں، نا انصافیوں ، منافقتوں اور خوابوں کو بھی اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے سماج کے انسان کے خوف، بے یقینی ، عدم تحفظ اور طبقاتی جبر کے خلاف انھوں نے ایسا لہجہ اختیار کیا ہے، جس میں احتجاج اور بغاوت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اکبر حمیدی کی شاعری میں خارج کے عناصر ، اقتصادی بدحالی، زوال پذیر سیاسی نظام اور خرابیوں کی طرف صراحت سے اشارے ہوئے ہیں۔ دو شعر دیکھئیے،
خامشی جرم ہے جب منہ میں زباں ہواکبرؔ
کچھ نہ کہنا بھی ہے ظالم کی حمایت کرنا
ہماری جنگ اندھیروں سے ہے ہوا سے نہیں
دیا جلا کے نہ یوں سامنے ہوا کے رکھ
لیکن باوجود اس مایوس کن صورت حال کے، اکبر حمیدی کی رجائیت متوازی دھارے کی طرح ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ ایسے بہت سے شعر ان کی غزلوں میں کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک سی صورت حالات نہیں رہ سکتی
دن بھی نکلے گا سدا رات نہیں رہ سکتی
ہم تو خوشبو ہیں ہمارا راستہ روکے گا کون
کس بلندی تک وہ دیواریں اٹھالے جائے گا
کہیں بھی رہ در و د یوار جگمگا کے رکھ
اگر چراغ ہے چھوٹا تو لو بڑھا کے رکھ
ان موضوعات کے علاوہ اکبر حمیدی کے ہاں غزل کی کو ملتا، لطافت، نزاکت، رومانی اور جمالیاتی لب و لہجے کی بھی کمی نہیں ۔ ایسے اشعار انھوں نے سرشاری اور وارفتگی سے کہے ہیں، کہ پڑھنے والا بے ساختہ داددئیے بغیرنہیں رہ سکتا ، چند ایک اشعارملاحظہ ہوں۔
ایسے میں تو خود سے بھی بچھڑ جاؤگے اکبر
تم خود سے خفا رہتے ہو، اچھا نہیں کرتے
ہر اک طرف سے ہے منظر بہشت کا اکبرؔ
وہ انجمن میں کئی زاویوں سے بیٹھے ہیں
کس آسمان سے گزر ا ہے درد کا دریا
ستارے ٹوٹ کے آب رواں میں آنے لگے
اک نظر ہی وہ مسکرائے تھے
آج تک جگمگا رہا ہوں میں
زیست ہمیشہ مجھ سے تھوڑی دور رہی
جیسے نار کوئی بیگانی ساتھ چلے
ان کی پنجابی شاعری ’بکی غزل پنجاب‘ کی چھوٹی بحریں برجستگی، بے ساختگی اور سہل ممتنع کی چاشنی سے لبریز ہیں۔ وہ پنجابی کا سچا اور ٹھیٹ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ایک نویکلا اور منفرد اسلوب اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ غزلیں زیادہ تر ردیف کے بغیر ہیں، لیکن قافیہ، ردیف کی غنائیت کو کسی طرح بھی مجروح نہیں ہونے دیتا، اور شعر کی نزاکت و لطافت اپنے اصلی مزاج کے ساتھ قائم رہتی ہے ۔چند غزلوں کے اشعار دیکھیں۔
جیڈی تیز ہوا اوڈا وڈ ا مچ
اوہدی وات نہ آئی خبراں دا گھڑمچ
ساڈی بازی جان دی ویکھ نہ ماریں کھچ
ایویں نہ پیا اٹھن پو بکل مار کے بیٹھا رہو
کیہا بھلیکھا لگ گیا بیجی کنک تے اگے جو
چنگا کاروبار اے ساڈا لینا اک تے دینے سو
نہ کوئی عزت ، نہ کوئی پت ڈاہڈی ہوئی پھتیا پھت
باہر کوئی حال نہ پچھے اندر جاواں چُکی اَت
بند او یکھ نہ سکدے ڈاہی پھرن مصلے
وڈیاں بوٹاں دے سبھے آ گئے تھلے
میں ہاں پاکستانی مارو مینوں کھلے
جہاں تک اصناف نثر کا تعلق ہے ، اکبر حمیدی نے اس طرف قدرے تاخیر سے رجوع کیا، مگر دیر آید ، درست آید، کے مصداق وہ ناہموار، راستے پہ بھی کامیابی سے چلتے رہے، انکا تخلیقی دریا کناروں کے بند توڑ کر نئی زمینوں کی طرف چلا ، تو کھلے میدان میں آ کر کہیں پر سکون اور دھیما بھی ہوا ، اور کہیں نشیب کی طرف گرتے ہوئے مزید تندی و تیزی بھی دکھاتا رہا۔ چنانچہ نثر و نظم میں ان کی آمد و آورد کے دورانیے بھی آتے رہے ، اور بے ساختگی اور شعوری عمل کی کارفرمائی بھی کہیں نہ کہیں موجود رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار غزلوں ، نظموں، انشائیوں، خاکوں، مضامین ، ہائیکو، اور یادداشتوں میں ان کی تخلیقی تھکاوٹ کا کبھی کبھی شائبہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ مگر یہ عارضی لمحات ان تخلیقی گھٹاؤں کی اوٹ ہو جاتے ہیں جن سے موسلادھار بارش برستی اور زمین سیراب ہوتی ہے۔
رفیق سندیلوی کی نئی مرتب شدہ کتاب، اکبر حمیدی کا فن، ایک ایسی اہم اور یاد گار دستاویز ہے جس میں اکبر حمیدی کا فن بہت حد تک اپنے امکانات کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔اس کتاب میں اکبر حمیدی کو ان کے ہمعصر فنکاروں اور ناقدوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا، جانچا اور پرکھا ہے، اس قدر ہمہ جہت پہلوؤں سے جائزہ لینے اور پرکھنے کے باوجود ابھی بھی اکبر حمیدی کے ہاں ایسے امکانات اور پرتیں دریافت کی جاسکتی ہیں ، جن میں ان کے فن کی مزید تشریح اور توجیہہ ہو سکے ۔ تاہم عمومی طور پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکبر حمیدی کے فن پر اس کتاب میں اہم اشارے موجود ہیں۔رفیق سندیلوی نے اپنی تنقیدی بصیرت سے کام لیتے ہوئے مضامین کے انبار سے چند اہم نوعیت کے مضامین کا چناؤ کر کے اسے بے جا طوالت اور ضخامت سے محفوظ رکھا ہے۔
اکبر حمیدی کے انشائیوں کے ضمن میں ناقدین نے ان کے فن انشائیہ کو بحیثیت مجموعی سراہا ہے، ان کی انشائیوں کی پہلی کتاب، جزیرے کا سفر، کا پیش لفظ لکھتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ، اکبر حمیدی ایک ایسے انشائیہ نگار ہیں جن کے انشائیے مزاح یا طنز سے آشنا ہوئے بغیر بھی حددرجہ تازہ اور قابل مطالعہ ہیں، جبکہ پروفیسر نظیر صدیقی نے دوسری کتاب، تتلی کے تعاقب میں، کے پیش لفظ میں لکھا ہے، کہ اکبر حمیدی انشائیے کے ابتدا، اور انجام کے فن سے آگاہ ہیں اور اچھا جملہ لکھنا جانتے ہیں ۔ منشا یاد نے بھی اپنے مضمون میں اکبر حمیدی کو لفظ آشنا اور خوبصورت تخلیقی جملہ لکھنے پر قادر انشائیہ نگار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اکبر حمیدی اپنے انشائیوں میں ضرورت کے مطابق بیانیہ ، علامتی، یا استعاراتی، تمثیلی لہجہ اور اسلوب اختیار کر لیتے ہیں۔رفیق سندیلوی کا اپنے مضمون میں کہنا ہے کہ، اکبر حمیدی کی انشائیے کی قلمرو میں آمد رائیگاں نہیں گئی۔ اکبر حمیدی اپنے ذہن کو آزاد رکھ کر جمالیاتی آہنگ کے ساتھ نتائج کو برقی لہروں کی طرح انشائیے کی بین السطور میں ادھر ادھر بکھیر دیتا ہے ۔ اس کے انشائیے ذات و کائنات کا سیر نامہ ہیں۔
خاکہ نگاری میں اکبر حمیدی نے اپنے سوانحی واقعات اور خاندانی و ذاتی تعلقات کے حوالے سے ایک انشائی اور افسانوی لب ولہجہ اختیار کیا ہے۔ یو ں یہ خاکے، انتہائی ذاتی ہوتے ہوئے بھی بہترین ادب پارے قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر میاں جی، اباجی، بے بے جی اور عظیم یعنی خورشید بیگم کے خاکے جیتے جاگتے انسانوں کی سچی، انمول اور دلکش تصویریں ہیں، اور انہیں پڑھتے ہوئے قاری خاکوں اور کرداروں کی فضا میں داخل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اکبر حمیدی کے بہت سے ناقدین نے اہل قلم پر لکھے گئے خاکوں میں اس شدت احساس اور فنی رچاؤ کا شکوہ کیا ہے، دراصل خاکہ لکھتے ہوئے اکبر حمیدی جس جذباتی لگاوٹ کا اظہار خاندانی افراد کے حوالے سے روا رکھتے ہیں، وہ شاید اہل قلم کے معاملے میں انہیں میسر نہیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ خاکے احساس اور کیفیت کی سطح پر اتر کر قاری کو گرفت میں نہیں لیتے۔ پھر بھی ان کی انشائیوں کی دونوں کتابوں، قدآدم ، اور ، چھوٹی دنیا بڑے لوگ، میں موجود چند ایک خاکے تو ایسے ہیں جو انھیں خاکے جیسی اہم صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
اکبر حمیدی کی خود نوشت، جست بھر زندگی، ایک محتاط شخص کے سچ کی روداد ہے۔ جس نے قدم قدم ، طویل اور ناہموار، رستے عزم وہمت سے طے کئے ہیں۔ یہ متوسط طبقے کے ایک باشعور شخص کی داستان ہے، جسے دعویٰ ہے کہ ، عام آدمی ، کی روداد بیان کر رہا ہے ۔ اکبر حمیدی کی یہ آپ بیتی ، ہمیں سماجی روابط، رشتوں ناتوں ، سماجی اور معاشی رکاوٹوں اور کامیابیوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھاتی چلی جاتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے اپنی ذاتی نفسی کمزوریوں کو بھی نشان زد کیا ہے اور اپنے بارے میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ۔ اس آپ بیتی میں انھوں نے لا یعنی واقعات اور معاملات سے بھی اجتناب کیا ہے۔
یوں انھوں نے تمام عمر ادب کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا کر، اسے نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری سے نبھایا ہے۔ انھوں نے اپنی پوری توانائی سے ان تخلیقی جہات میں لگن ، خلوص نیت اور محنت سے کام کیا ہے اور اپنے خواب ، نظریات اور آدرش کی افشاں سے اسے جگمگایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر لکھتے ہوئے مجھے انہی کے ایک مصرعے کے مصداق کہنا پڑتا ہے کہ اکبر حمیدی ادب کی اس انجمن میں ہمارے سامنے کئی زاویوں سے بیٹھے ہیں ۔ ان کا شعر ہے۔
ہر اک طرف سے ہے منظر بہشت کا اکبرؔ
وہ انجمن میں کئی زاویوں سے بیٹھے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ کو پیش آئے گا ہم پر جو کرم فرمائے گا
سوچ لے آخر ہمارا بھی زمانہ آئے گا
ہم تو خوشبو ہیں ہمارا راستہ روکے گا کون
کس بلندی تک وہ دیو اریں اٹھا لے جائے گا
( اکبر حمیدی)