ڈاکٹر نذر خلیق(خانپور)
”جست بھر زندگی“
اکبری حمیدی ایک ادیب ہی نہیں بلکہ ایک مخلص اور بے ضرر انسان بھی ہیں۔میں انہیں آدمی کے ساتھ ساتھ انسان بھی سمجھتا ہوں۔غالب نے کیا خوب کہا تھا۔
بسکہ دشوار ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساںہونا
آج اگر غالب زندہ ہوتے تو میں اکبر حمیدی کو ان کے حضور پیش کرتا اور کہتا کہ جناب دیکھئے یہ آدمی بھی ہے اور انسان بھی۔ آدمی تو یہ آدمیت کے تقاضے پورے کرنے کی وجہ سے ہیں اور انسان اس لیے ہیں کہ یہ دوستوں کے دوست ہیں اور دشمنوں کے بھی دوست ہیں۔ان کے ہاں شر والی کوئی بات نہیں، خوبی ہی خوبی ان کی فطرت میں شامل ہے۔اکبر حمیدی سے میری ملاقات صرف ایک مرتبہ ہوئی ہے لیکن وہی ایک ملاقات میرے لیے ان کو سمجھنے کے لیے کافی بلکہ شافی ثابت ہوئی کیونکہ اکبر حمیدی جیسے دھیمے مزاج اور شگفتہ طبیعت سے مل کر شخصیت کے سارے گوشے وا ہو جاتے ہیں۔اکبر حمیدی سے میری دوسری ملاقات ان کی خود نوشت ”جست بھر زندگی“کے حوالے سے ہوئی یعنی ”جست بھر زندگی “ پڑھ کر مجھے اکبر حمیدی کی شخصیت کے کئی گوشوں سے آگاہی ہوئی۔ میں نے اپنی طالب علمانہ زندگی میں اور تدریسی امور کے تقاضوں کے سبب بیشتر خود نوشتیں پڑھی ہیں۔مثلاً جوش ملیح آبادی کی ”یادوںکی بارات“،قدرت اللہ شہاب کی ”شہاب نامہ“،رضا علی کی ”اعمال نامہ “ ، اختر حسین رائے پوری کی ”گردِ راہ“، ڈاکٹر رشید امجد کی ”تمنا بے تاب“ اور حیدر قریشی کی ”کھٹی مٹھی یادیں“کو پڑھا ہے۔ہر خود نوشت نے اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے تخلیقی دباﺅ کے زیرِ اثر اپنے زندگی کے واقعات میں تخیل آمیزی اور شعریت کے رنگ بھرے ہیں۔کہیں افسانویت آگئی ہے تو کہیں شعریت نے بے ساختگی کو ختم کر دیا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے جن خود نوشتوں کا ذکر کیا ہے وہ تخلیق کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔درحقیقت خود نوشت لکھنے والا جس انداز کا تخلیق کار ہوتا ہے وہ انداز اس کی خود نوشت میںبھی آجاتاہے مثلاً میں یہاں صرف ایک خود نوشت کا ذکر کروں گا اور یہ خود نوشت ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت ”تمنا بے تاب“ ہے جس کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
”مارچ میں سری نگر کے پھرنوں میںگرماہٹ بکھیرتی کا نگڑیاں ٹھنڈی پڑنے لگتی ہیں۔شہر برف کی کینچلی اتار کر نیم گرم سانسیںلیتا ہے۔بادام کے درختوں پر سفید بُور آجاتا ہے اور شہر کا شہر بادام وری کے سفیدسفید منظر سے لطف اٹھانے کے لیے طرح طرح کے پکوانوں کے ساتھ باغوں میں اُمڈ آتا ہے۔ دو دریاﺅں کے درمیاں نواںبازار کے شاہ محلہ میںگلی کے آخر میں بائیں طرف ایک دو منزلہ مکان ہے جس کا لکڑی کا چھجا روائتی وسط ایشیائی طرز کے بیل بوٹوں سے سجا ہوا ہے۔سب سے نیچے تہہ خانہ ہے جس میںسردیوں کے لیے لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں۔سارا گھر دائیں طرف ہے، سامنے ایک چھوٹی سی گلی نما کھلی جگہ ہے جس کا ایک دروازہ جسے م رکزی دروازہ کہنا چاہیے بڑی گلی میںاور دوسرا پچھواڑے میں کھلتا ہے۔ چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کر گھر میںداخل ہوتے ہیں۔نچلی منزل میں دو کمرے ہیں اور ان کے درمیانی منزل کی راہ داری نیم تاریکی میں ڈوبی رہتی ہے۔یہاں بھی نیچے کی ترتیب سے دو کمرے ہیں اور درمیان سے سیڑی اوپر جاتی ہے۔ اوپر والا حصہ ہوا دار اور روشن ہے،سیڑھیوں سے نکلتے ہی دائیں طرف والے حصے میں باورچی خانہ، سٹور اور کھلا سا برآمدہ ہے۔بائیں طرف ایک بڑا کمرا ہے جو سونے کے کام آتا ہے۔ اس سے اوپر پڑچھتی ہے جو تقریباً سارے حصے کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے اوپر ٹین کیچھت ، ڈھلوان کی صورت۔ اسی اوپر والے بڑے کمرے میں جو روشن،کشادہ اورہوا دار ہے اور جس کی گیلری کی ساری کھڑکیاں گلی کی طرف کھلتی ہیں۔ میںنے ۵ مارچ ۰۴۹۱ءکو زندگی کے دشت میں پہلا قدم رکھا۔“ (۱)
میں یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹر رشید امجد کا یہ انداز خود نوشت کے اندازِ تحریر سے مختلف ہے یا مناسب نہیں ہے میںصرف کہنا یہ چاہتاہوں کہ تخلیق کار ہمیشہ اپنی خود نوشت اسی انداز میں لکھتا ہے جس انداز میںوہ اپنی مرکزی تخلیق لکھتا ہے۔مثلاً ڈاکٹر رشید امجد عصرِ حاضر کے رجحان ساز اور ایک صاحبِ طرز افسانہ نگار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی خودنوشت میںبھی افسانویت کا انداز آگیا ہے۔اکبر حمیدی چونکہ شاعر ، انشائیہ نگار، خاکہ نگار اور نقاد ہیں۔بچوں کی ہلکی پھلکی کہانیاں بھی انہوںنے لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کی خود نوشت میں شاعرانہ ، انشاءپردازانہ اور تنقیدی انداز آگیا ہے۔اس سلسلے میں حیدر قریشی کی رائے بہت معتبر ہے۔آئیے ان کی رائے ملاحظہ کرتے ہیں۔
”اکبر حمیدی جیسے فعال اور زرخیز تخلیق کار کی یہ خود نوشت سوانح حیات ان کی زندگی کی روداد بھی ہے۔اور ان کے نظریۂ زندگی اور فن کے عقبی دیاروں کو سمجھنے کے لیے ایک معاون کتاب بھی ہے۔زندگی سے بھری ہوئی یہ کتاب موت کے بارے میں کچھ نہیںکہتی صرف زندگی کی بات کرتی ہے، مثبت طور پر جینے کی بات کرتی ہے۔“(۲)
اکبر حمیدی کی خود نوشت پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے مثلاً ان کی خود نوشت پرلکھنے والوں میں جوگندر پال، ڈاکٹر رشید امجد، جمیل یوسف ، ڈاکٹر پرویز پروازی،ڈاکٹر عطش درانی ، ڈاکٹر اعجاز راہی، پروفیسر ناصر عباس نیّر اور رفیق سندیلوی کے نام نمایاں ہیں۔جوگندر پال کانام افسانے کی دنیا میں بڑا نام ہے لیکن میرے خیال کے مطابق تخلیق کار اگراوریجنل ہے تووہ تخلیق و تنقید دونوں میں لکھ سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ لکھ سکتا ہے بلکہ ایک تخلیق کار نقاد پہلے ہوتاہے کیونکہ تنقیدی نظر ہی تخلیق کو جنم دیتی ہے۔آئیے جوگندر پال کی رائے سے بھی استفادہ کریں۔
”میں اپنے عزیز دوست کو اس آپ بیتی میں اپنے طویل معمول کے غیر معمولی پن کو اتنی پُر کار سادگی سے سمیٹ پانے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔پرانے یونانی کہا کرتے تھے کہ وسیع تر کتھائیں لکھنی ہوں تو صرف راجاﺅں ، مہاراجاﺅں کی کتھائیں لکھو۔انہیں کیا علم تھا کہ ہمارے جمہوری ادوار میں جب ایک عام سے آدمی کی کتھا کروڑوں عوام کی نمائندگی کا دم بھرنا شروع کرے گی تو اس کی وسعت کا دبدبا مہاراجاﺅں کی کتھاﺅں سے بھی بڑھ چڑھ کر ہوگا۔“(۳)
یہ ایک حقیقت ہے کہ اکبر حمیدی ایک عام آدمی ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ سرمایہ ہے نہ اقتدار وہ ایک کلرک سے ترقی کرتے ہوئے پروفیسر ریٹائر ہوئے اور ہمارے اس عہد میں کلرک ہویا کوئی پروفیسر وہ عام آدمی ہی ہوتا ہے کیونکہ ان دو حضرات کے پاس نا پیسہ ہوتا ہے نہ اقتدار لیکن کلرک ہو یا پروفیسر ان کے پاس حالات کی کڑواہٹ اور زندگی کی تلخیاں ضرور ہوتی ہیں۔یہ زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں اور بڑے بڑے رازوں سے واقف ہوتے ہیں اس لیے ان کی زندگی میں جتنے واقعات ہوتے ہیں وہ شاید عصرِ حاضر کے خود ساختہ بڑے لوگوں کے پاس نہیں ہوتے ۔ راجاﺅں اورمہاراجاﺅں کی زندگی تو عیش و عشرت اور چند گھسے پٹے واقعات تک محدود ہوتی ہے۔ ان کے واقعاتِ زندگی یکسانیت کاشکار ہوتے ہیںبلکہ میںتو کہوںگا کہ تنوع نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ اکبر حمیدی کی خود نوشت (جست بھر زندگی) زندگی کے تنوع اور رنگا رنگی سے بھری ہوئی ہے۔انہوںنے زندگی کو جس نظر سے اور جس زاویے سے دیکھا بے ساختہ انداز میں بیان کر دیا۔ ساختگی اور شاعرانہ انداز کم ہے۔جیسا انداز ان کی شاعری کا ہے یعنی سادگی اورسہلِ ممتنع کا انداز وہی ان کی خود نوشت کا انداز ہے۔ان کی خود نوشت کو پڑھ کر ایک عام آدمی محسوس کرتاہے کہ جیسے وہ کسی سادہ سے ماحول میں سانس لے رہا ہو۔ڈاکٹر رشید امجد کی اس رائے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
”مجموعی طور پر یہ آپ بیتی ایک طویل جدو جہد کی داستان ہے اکبر حمیدی جیسے بے شمار لوگ زندگی کرنے کے اس عمل سے گزرے اور گزر رہے ہیں جس کا اختتام ان فخریہ لمحات پر ہوتا ہے جو اس سارے سفر کی عطا ہیں۔زبان و بیان کی روانی تو انہیں ان کے اندر کے انشائیہ نگار نے عطا کی ہے اور تخیل کی چاشنی ان کے اندر کے شاعرسے ملی ہے یوں یہ آپ بیتی اپنے اندر شاعرانہ مزاج بھی رکھتی ہے اور اس میںنثری تدبیر اور گہرائی بھی ہے۔“(۴)
اکبر حمید ی کی خود نوشت (جست بھر زندگی) کی ایک ایک سطر دل پر اثر کرنے والی ہے اور ان کی زندگی کے کئی گوشے وا کرنے والی ہے۔آج اکبر حمیدی اپنی خود نوشت میں سانس لیتاہوا محسوس ہوتاہے۔آئیے اکبر حمیدی کی خود نوشت سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
”میری زندگی کے تین حصے ہیں۔گاﺅں کی زندگی، گوجرانوالہ شہر کی زندگی اور پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد شہر کی زندگی مگر ہاں ایک اور زندگی جو ہم سب اند رہی اندر بسر کرتے رہتے ہیں ۔میری زندگی کئی طرح کے تجربوں سے بھری پڑی ہے۔میری زندگی میں گنوار سے لے بہت مہذب ،جاہل سے لے کر بہت صاحبِ علم، لفنگے سے لے کر بہت شریف ، مذہبی سے لے کر بہت سخت غیر مذہبی لوگ شامل ہوئے ہیں۔میں نے بہت آسودہ بھی اور بہت نا آسودہ حالات بھی بسر کیے ہیں۔میں نے کلرکی سے لے افسری تک بھگتی ہے۔دسویںگریڈ کی کلرکی اور پھر اٹھارویں گریڈ کی اسسٹنٹ پروفیسر پھر صدرِ شعبہ ارد و۔“(۵)
”جست بھر زندگی “کے اس اقتباس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارتے رہے ہیں جس میں واقعات کی تلخیاں ہوتی ہیں اور زندگی کو قریب سے دیکھا جا سکتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ زندگی کا مشاہدہ ہر شخص اپنی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیت سے ہی کرتاہے جو جتنا بڑا تخلیق اور نقاد ہوتاہے وہ زندگی کا اتنا ہی گہرا مشاہدہ کرتا ہے۔چونکہ اکبر حمیدی ایک تخلیق کار تھے اس لیے انہوں نے زندگی کے تلخ تجربات کو تخلیقی اور تنقیدی نظر سے دیکھا اور اپنی خود نوشت(جست بھر زندگی )میں پیش کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر رشید امجد ، ’تمنا بے تاب‘پورب اکادمی اسلام آباد ،طبع دوم مئی ۲۰۰۷ء،ص ۷
۲۔ حیدر قریشی ،جدیدادب شمارہ نمبر ۲ ،جرمنی،جنوری تا جون ۲۰۰۴ء، ص۱۸۹
۳۔ رفیق سندیلوی(مرتب) ’اکبر حمیدی کا فن‘بُٹر پبلشر اسلام آباد اشاعت اول، اپریل۲۰۰۳ء، ص۱۹۷
۴۔ رفیق سندیلوی(مرتب) ’اکبر حمیدی کا فن‘بُٹر پبلشر اسلام آباد اشاعت اول، اپریل۲۰۰۳ء، ص۲۰۰
۵۔ اکبر حمیدی ’جست بھر زندگی‘،‘بُٹر پبلشر اسلام آباد اشاعت اول، مارچ ۱۹۹۹ء، ص۵۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں کیوں کھڑے ہو یہ درِ یار نہیںہے بھائی
عشق کرنا ہے تو چھٹی نہیں کرنی کوئی عشق، میں ایک بھی اتوار نہیں ہے بھائی
اکبر حمیدی