اکبر حمیدی(اسلام آباد)
وہ گیت ہوں کہ جو گایا گیا ہوں ایسا ہی
میں کیا کروں کہ بنایا گیا ہوں ایسا ہی
خبر نہیں ہے برستا ہوں یا میں کھلتا ہوں
وہ ابر ہوں جو گھٹایا گیا ہوں ایسا ہی
مرے وجود پہ اغیار معترض کیوں ہوں
میں جس طرح کا تھا لایا گیا ہوں ایسا ہی
یہاں تو کوئی قدم بھی نہیں مرے بس میں
تری طرف بھی بڑھایا گیا ہوں ایسا ہی
جو ہو رہا ہے زمیں پر ترا نہیں لگتا
خطا معاف دکھایا گیا ہوں ایسا ہی
یہ حرف تلخ ہے لیکن یقین کر پیارے
نہیں وہ ، تجھ کو دکھایا گیا ہوں ایسا ہی
جہانِ شوق میں لایا گیا ہوں ایسا ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی یوں نہیں گزارو مجھے
اپنا صدقہ نہیں اتارو مجھے
کہتا ہے زندگی کا ہر مہرہ
اتنی آسانی سے نہ ہارو مجھے
ہر قدم دی صدا تمہیں میں نے
تم کہاں ہو کبھی پکارو مجھے
کیسی چادر ہو پھٹ بھی سکتی ہے
لمبے پاؤں نہیں پسارو مجھے
جو بھی آتاہے منہ میں کہہ ڈالو
یوں نہ خاموشیوں سے مارو مجھے
پیار کی خوشبوؤں کاجھونکا ہوں
وقت کی طرح کیوں گزارو مجھے
سوچتا رہتا ہوں تمہیں اکبرؔ
پر کبھی تم بھی استخارو مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی ہوا ہے وہ ہوااٹھ کر نہیں جانا مجھے
آپ کے پہلو سے پہلو کو ہے گرمانا مجھے
دیکھئے کیا اس میں تصویریں سجی ہیں ہر طرف
یہ جہاں لگتا ہے کوئی آئینہ خانہ مجھے
اس حسیں ماحول میں اب تیرے آجانے کے بعد
اپنا سا لگنے لگا ہے سارا مئے خانہ مجھے
اپنے اپنے رنگ میں اور اپنے اپنے ڈھنگ میں
ہر کوئی تیرا نظر آتا ہے دیوانہ مجھے
وہ کسی کو دوسرے سے ملتے میرا دیکھنا
اور ترا ملنا بچھڑنا یاد آجانا مجھے
گھوم جانا ہے نظر میں عالمِ وارفتگی
یاد آجاتا ہے دیواروں سے ٹکرانا مجھے
ان کی ہر اک بات پر اکبرؔ وہ چڑ جانا مرا
اور بڑے اخلاص سے یاروں کا سمجھانا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ زمانے کو ٹالتے رہنا
وقت یونہی نکالتے رہنا
اس طرف سے جو اب آئے نہ آئے
تم سخن کو سوالتے رہنا
ان کو پلوانا سانس امرت رس
شوق جذبوں کا پالتے رہنا
جگمگا رکھنا سب منڈیروں کو
گھر کا آنگن اُجالتے رہنا
وقت ریلے سے دب نہیں جانا
خود کو خود میں اچھالتے رہنا
زندگی کے حسین چہرے کو
نئے رنگوں میں ڈھالتے رہنا
زیست کانٹوں کا رستہ ہے اکبرؔ
دل کا دامن سنبھالتے رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر تیرے راستوں میں رہے
ہم کہاں چین سے گھروں میں رہے
سوچتے تھے مگر نہ کر پائے
ایسی پاکیزہ بندشوں میں رہے
کشکش میں ہی سب کٹی اپنی
فکرو جذبہ کی سرحدوں میں رہے
ایسے پُر اعتماد تھے دونوں
اپنی اپنی صداقتوں میں رہے
کیسا کیسا گمان پالا تھا
کیسے کیسے مغالطوں میں رہے
گلیوں گلیوں پکارا ہوں اکبرؔ
لوگ اپنے ہی مشغلوں رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ پہ اصرار بھی ضروی ہے
حسنِ اظہار بھی ضروری ہے
یونہی بدنامیاں نہیں ملتیں
اچھا کردار بھی ضروری ہے
وحشتیں ایسے ہی نہیں ہوتیں
رہ میں دیوار بھی ضروری ہے
سر اٹھانے کا لطف ہے لیکن
سر پہ تلوار بھی ضروری ہے
پیروی کب تلک کرو گے میاں
اپنا کردار بھی ضروری ہے
اتنا اقرار مار ڈالے گا
دیکھو انکار بھی ضروری ہے
ڈوب جانے میں لطف ہو گا مگر
کوئی اس پار بھی ضروری ہے
کون اس کو بتائے گا اکبرؔ
عشق میں پیار بھی ضروری ہے