اکبرؔ حمیدی(اسلام آباد)
کچھ بھی حالات ہوں خاموش نہیں ہونا ہے
وقت کے جبر میں روپوش نہیں ہونا ہے
ایک اک سانس بسر کرنی ہے با ہوش و حواس
نشہ جیسا بھی ہو مد ہوش نہیں ہونا ہے
ساتھ رہنا ہے زمانے کے، مگر فاصلے پر
مانیں ناں مانیں ،گراں گوش نہیں ہونا ہے
عشق منہ زور سمندر ہے، اتر جاؤ مگر
کسی طوفان میں روپوش نہیں ہونا ہے
ہوش خود راہ کی دیوار ہے گر جوش نہیں
زندہ رہناہے تو کم کوش نہیں ہونا ہے
کچھ نہ کچھ اس کی عنایت کا بھی موقع رکھیں
اس قدر بھی ہمیں نردوش نہیں ہونا ہے
زہر غم رکھتا ہے بیدار جو اک حد میں رہے
احتیاط اس میں بلا نوش نہیں ہونا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچا ریلا ہے گزر جائے گا
کیا خبر تھی کہ ٹھہر جائے گا
راہ کھو جائے جو ویرانے میں
رہرو بے چارہ کدھر جائے گا
جو حقیقت سے مفر ڈھونڈھتا ہے
وہ تو سائے سے بھی ڈر جائے گا
اپنی دنیا سے بہت دور نہ جا
راستوں میں ہی بکھر جائے گا
ذہن کہنے میں کہاں رہتا ہے
نہیں جانا ہے جدھر، جائے گا
وہ زمانہ بھی گزر جانا تھا
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
تو ذرا پاؤں تو رکھ دے اس پر
راستہ پھولوں سے بھر جائے گا
ضد نہ کر آج پہ اتنی اکبرؔ
ورنہ وہ کل سے مُکر جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بٹھا کے ذہن میں دن درد ہجر کا رکھیں
یہ کیا ضروری ہے اس زخم کو ہرا رکھیں
بہار پھول زباں میں مجھے یہ کہتی ہے
ضرور آئیں گے وہ آپ حوصلہ رکھیں
محبتوں میں رقیبوں سے کیا گلہ کرنا
یہی بہت ہے کہ خود آپ دل بڑا رکھیں
جو ایک بار گیا لوٹ کر نہیں آیا
ہزار اپنے دل و جاں میں راستا رکھیں
برونِ ذات نہیں، اندرونِ ذات سہی
کسی طرح ہو تعلق کا سلسلہ رکھیں
ہمارے ہاتھوں میں آئینے دینے والے لوگ
کبھی تو اپنے مقابل بھی آئینہ رکھیں
تعلقات میں اکبرؔ بہت ضروری ہے
بہت قریب رہیں اور فاصلہ رکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی آوازوں کی آواز ہوں میں
غزل کے واسطے اعزاز ہوں میں
کئی حرفوں سے مل کر بن رہاہوں
بجائے لفظ کے الفاظ ہوں میں
مری آواز میں صورت ہے میری
کہ اپنے ساز کی آواز ہوں میں
کبھی اک حال میں دیکھا تھا اس کو
وہیں ٹھہرا ہوا انداز ہوں میں
بہت فطری تھا تیرا حرفِ انکار
ترا غمخوار ہوں، دمساز ہوں میں
کہیں تو حرفِ آخر ہوں میں اکبرؔ
کسی کا نقطہء آغاز ہوں میں