جس طرح لاہور کے ساتھ شاہی قلعے،انار کلی اور مینارِ پاکستان کا تصور وابستہ ہے اسی طرح اسلام آباد کا خیال آتے ہی ذہن میں منشایاد آتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ایک جملے کو اگر تھوڑا سا تبدیل کرلیا جائے تو میںکہوں گا اسلام آباد ایک چھوٹا سا منشایاد ہے اور منشایاد ایک بڑا اسلام آباد۔
منشایاد پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہے اور ادب اس کی محبت ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تعمیر اس کا پیشہ ہے اور تخلیق اس کا شوق۔ اس نے ادب کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں، مواقع ملنے کے باوجود مڈل ایسٹ وغیرہ محض اس خیال سے نہیں گیا کہ وہ ادب اور ادبی محفلوں سے دور ہو جائے گا۔ اس شہر کی داغ بیل ڈالنے اور تعمیر و ترقی میں اس کا خون پسینہ بھی شامل ہے۔ ۸۵۹۱ءکے آغاز میں وہ کالج آف ٹیکنالوجی رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کرکے شیخو پورہ سے راولپنڈی پہنچا۔ پھر کچھ عرصہ مری میں تعینات رہا مگر ایسا لگتا ہے جیسے اسے یہ سارے شہر ادھورے ادھورے سے لگنے لگے چنانچہ اس نے جلد ہی ان سب شہروں کو ملا کر اپنی پسند کا الگ شہر تعمیر کرنے کا اردہ کر لیا۔ مئی ۰۶۹۱ءمیں اس نے اس بے آب و گیاہ علاقے کا سروے شروع کر دیا جہاں اب ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب اسلام آباد ہے۔ جونہی اس شہر کی کچھ صورت شکل بن گئی اس نے اس میں ادبی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ شروع میں اس نے لکھنے والوں کی انجمن قائم کی پھر ۲۷۹۱ءمیں حلقہ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھی جس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ابنِ انشا مرحوم نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اب اسلام آباد بھی ثقافت (اور ادب) سے آلودہ ہونے لگا ہے۔
گذشتہ پندرہ سال سے میں منشایاد کے شب و روز اور اس کی زندگی کے ہر گوشے میں شریک ہو رہا ہوں ۔وہ میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اس نے کسی بھی شخص کے بارے میں دل کی کوئی بات کہنی ہو میرے سامنے بے دھڑک کہہ دیتا ہے۔ اس نے زندگی اور ادب میں موجودہ مقام تک پہنچنے کے لئے بڑی محنت کی ہے او رمجھے یہ بھی پتہ ہے گذشتہ تیس برسوں میں اس نے یہاں کے ادیبوں شاعروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور یہاں کے ادیبوں شاعروں نے اسے کتنی محبت لوٹائی ہے۔
۱۹۸۰ءمیں جب میں اسلام آباد آیا تو سب سے پہلا شخص منشایاد تھا جس نے مجھے یہاں مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے حوصلہ دیا۔ میں نے اسے اپنے مسائل بتائے اور اس نے ایک ایک کر کے سب کے حل بتا دئیے جیسے کوئی پڑھا کو بچہ ٹو کویں پہاڑے سنا دیتا ہے۔ اول اول میں سمجھا یہ حسنِ سلوک صرف مجھی سے ہے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ تواس کی ”عادت“ ہے کہ اس سے کوئی راہگیر راستہ پوچھے تو وہ اسے محض راستہ ہی نہیں بتاتا اکثر گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔
منشایاد اپنے محکمے کے مختلف شعبوں میںکام کرتا رہا ہے۔ کچھ عرصہ وہ پبلک ریلشینز آفیسر بھی رہا اور اس نے پبلک ریلیشننگ کے کچھ گر بھی سیکھ لئے بلکہ شاید اسے فلاح کا کام کہنا چاہئے کہ رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کو جو ۵۲ پلاٹ ملے اس میں سی ڈی اے کے سابق چئیرمین سید علی نواز گردیزی کے علاوہ منشایاد کی مساعی بھی شامل تھیں ۔ اسلام آباد میں ہر سال یوم آزادی کے موقع پر کل پاکستان مشاعروں کی طرح بھی اسی دور میں منشایاد نے ڈالی۔ ان مشاعروں میں پڑھے جانے والے کلام کو باتصویر مجلوں کی صورت شائع بھی کیا۔
ریٹائر منٹ سے پہلے منشایاد اپنے محکمے (دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے) میں چیف کمپلینٹس آفیسر یعنی افسرِ اعلیٰ شکایات کے طور پر کام کر رہا تھا جو انجینئرنگ اور عوامی بہبود کی ملی جلی جاب ہے۔ اس کے بے تکلف احباب اس کا پنجابی ترجمہ ”سب توں و ڈاشکایتی“ بھی کرتے تھے لیکن منشایاد شکایتیں کرتا نہیں سنتا اور دور کرتا تھا اور ایک ایسے ادارے کے اہلکاروں سے کام نکلوانا جس کے بارے میں انور مسعود نے اپنے دشمن کو بد دعا دی تھی ”جا تجھے سی ڈی اسے سے کام پڑے“ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
شروع میں میرا خیال تھا کہ منشایاد کا خدمت کا وطیرہ پبلک ریلیشنگ کی غرض سے ہے لیکن کئی برس تک اسے قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ یہ تو اس کے خمیر میں رچا ہے اور یہ سلسلہ محض اپنے خاندان اور ادیب برادری تک محدود نہیں اس کے گاؤں تک پھیلا ہوا ہے کبھی وہ اکیلا شیخو پورہ سے آیا تھا اب اسلام آباد کے اندر ایک شیخوپورہ آباد ہو گیا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کا پہلا لڑکا تھا جس نے پرائمری سے آگے تعلیم جاری رکھی طالبِ علمی کے زمانے میں ہی اس کی گاؤں میں بڑی عزت اور اہمیت تھی اور لکھنے پڑھنے کے ہر کام میں گاؤں والے اس سے مدد لیتے تھے۔ (اس کے گاؤں میں عام لوگ کم اور ڈاکو زیادہ تھے)مالیے آبیانے کی رسیدیں اور خط پڑھنے سے لے کر مقدموں کی تاریخیں اور بستہ ب کے بد معاشوں کو راہداریاں لکھ کر دینے تک سارے کام اس کے ذمے تھے۔ چنانچہ اس کی حیثیت ایک ہیرو کی سی تھی اور اب جب کبھی اس کی تصویر اخبار میں چھپتی ہے،اس کے ڈرامے اور کبھی وہ خودگاؤںکی چوپال کے ٹی وی پر نظر آتا ہے، وہ گاؤں سے دور رہتے ہوئے بھی گاؤں والوں کے دلوں کے اور قریب ہو گیا ہے۔
منشایاد کا گھر، افسانہ منزل ،ادیبوں کے لئے ٹی ہاؤس ہے اور وہ خود چلتی پھرتی ادیبوں کی ڈائریکٹری۔ کبھی کبھی مجھے وہ حاتم طائی کی طرح لگتا ہے جو لوگوں کے سوالات پورے کرنے کے لئے گھر سے نکلا ہوا ہے۔ غالب نے کہا تھا:
سرمہ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا
منشایاد پر لے درجے کا شریف آدمی ہے یا شاید بزدل کہ ہر شریف اور سفید پوش آدمی اصل میں بزدل ہوتا ہے، اس لئے افسانہ نگار لڑکیاں بے دھڑک اس سے ملتی ہیں جیسے وہ اسکی گہری سہیلیاں ہوں بعض تو ضرورت پڑنے پر اس سے ذاتی مسائل پر مشورے بھی لیتی ہیں۔ اس لئے فن کی پرستار لڑکیاں اس سے مل کر مزید اس کی پرستار بن جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ شعر کہنے والی نوجوان لڑکیاں بھی اصلاحِ سخن کی خاطر اس سے ملنا بہتر سمجھتی ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ ایک تائب شاعر ہے اور شاعری سے توبہ بھی ا س نے عین وقتِ شباب کر لی تھی۔ ادبی محفل کے اختتام پر لڑکیاں منشایاد کی گاڑی تلاش کرتی ہیں اورمنشایاد بھی انہیں گھروں تک پہنچانے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ صرف ایک دفعہ منشا کا کسی لڑکی سے رومان کا چر چا ہوا تھا مگر یہ لڑکی ادبی حلقوں سے باہر کی تھی، منشایاد بھی خوش ہوا کہ اسے بھی یہ اعزاز حاصل ہو رہاہے۔ مگرمعلوم ہوا یہ با مراد منشا کوئی اور ہے۔
ان سب نرمیوں، محبتوں اور بڑائیوں کے پیچھے منشایاد کی مضبوط شخصیت کار فرما ہے وہ اکثر کہتا ہے کہ منشایاد کی اپنی ایک شخصیت ہے اور وہ اس کو بحال رکھے گا۔ وہ دوسروں کے طعنے سہنے اور الزام سن کر بھی اپنے حسنِ سلوک میں کمی نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح وہ کسی ادبی سیاست میں اپنی شخصیت کو گم نہیں ہونے دیتا۔ وہ ایک روشن خیا ل اور سائنٹیفک سوچ رکھنے والا نیک دل آدمی ہے اس کے رویے اور اس کی تحریریں انہی الفاظ کے گرد گھومتی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں وہ غالباً واحد افسانہ نگار ہے جس کے بیک وقت احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا سے خوشگوار تعلقات ہیں اور وہ ”فنون“ ”اوراق“دونوں جگہ وقار کے ساتھ چھپتا ہے۔اس کی امجد اسلام امجد اور عطا الحق قاسمی سے پرانی اور گہری دوستی ہے اور ڈاکٹر سلیم اختر او رانتظارحسین تو منشایاد ہی سے مل لینا کافی سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ منشایاد میں خوبصورت لڑکیوں والی کوئی خوبی ہے جو دوسروں کو اس کی طرف کھینچتی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہوں، شمس الرحمان فاروقی، جو گندر پال، بلراج مین را، محمدعلی صدیقی یا جمیل الدین عالی، منشایاد کے سب لوگوں سے خوشگوار اور دوستانہ مراسم ہیں۔ بقول ضیا جالندھری صاحب منشایاد میں سینس آف ڈپلومیسی بہت اعلیٰ درجے کی ہے۔
اس نے خود افسانے لکھے اور دوسروں کے لکھے ہوئے افسانوں کے انتخاب (انتھا لوجیز) بھی شائع کی ہیں۔ بہت سے ہلکے پھلکے طنزیہ مزاحیہ مضامین اور کالم اور ایک آدھ انشائیہ بھی لکھا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے بھی کئی ڈرامے لکھ چکا ہے اس کے ٹی وی سیریلز جنون،بندھن ،راہیںاورپورے چاند کی رات بھی بہت مقبول ہوئے۔ راہیں کو تو سال بھر کے بہترین سیریل کاُپی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی ملا ۔ اس کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ فلسفہ، مذہب، سائنس، تاریخ، طب اور نفسیات تو خیر کم و بیش سبھی پڑھتے ہیں لیکن ایک روز اس نے بتایا کہ وہ در اوڑی زبان کے الفاظ اور سنسکرت زبان سے متعلق ایک کتاب پڑھ رہا ہے غالباً اسے ہندی اور گور مکھی پڑھنا بھی آتی ہو گی کہ اس کی بہت سی کہانیوں کے تراجم بھارتی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے گراموفون ریکارڈ سنائے جوکسی مرحومہ بائی کے گائے ہوئے گیتوںکے تھے،۔ریکارڈ سن کر میں نے کہامنشا جی آپ کو معلوم ہے یہ بائی آپ کے دادا جان کی ہم عمر ہیں آپ کچھ خیال کریں۔ اس پر وہ مجھ سے لڑ پڑا۔
لتا منگیشکر کی آواز پر تو وہ باقاعدہ عاشق ہے شاید ہی لتا کی کوئی اچھی تصویر یا اچھا گیت ہو جو اس کے پاس موجود نہ ہو۔ اسلم سراج الدین جب بھی جدہ یا گوجرانوالہ سے اسلام آباد آتا ہے یہ دونوں گھنٹوں لتا اورروشن آراکے کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گیت سنتے رہتے ہیں۔ اکثر دونوں ایک دوسرے کو موسیقی کی کیسٹوں کے تحفے بھیجتے رہتے ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ڈاکٹر وزیر آغا او رمنشایاد کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ ہر مذہب میں تھوڑے تھوڑے شامل ہیں اور ہر مذہب سے تھوڑے تھوڑے باہر۔ بہر حال منشایاد عیدین کی نماز بہت ہی اہتمام اور شوق سے پڑھتا ہے کہ بالکل ہی کافر نہ ہو جائے۔ منشایاد کے پاس زندگی کا اتنا گہرا اور متنوع تجربہ ہے۔ اتنا وسیع مشاہدہ ہے کہ میں نے اکثر محسوس کیا کہ وہ کہانیوں سے لبالب افسانہ نگار ہے اور اس کے گودام کبھی خالی نہیں ہوتے۔ آج اردو کہانی اپنے کہانی پن کی وجہ سے جو دوبارہ مقبول ہونے لگی ہے تو اس میں سب سے بڑا حصہ منشایاد کا ہے۔
دوستی کے لائق ہونا ایک غیر معمولی صفت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخض بہت عالم فاضل ہو، دانشور ہو، بے مثال تخلیق کار ہو اور بہت شریف آدمی ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ عین ممکن ہے وہ اچھا دوست ثابت نہ ہو سکے بلکہ اچھا دوست ثابت ہونے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو لیکن اگر کسی شخص میں ایسی سب خوبیاںبھی ہوں اور وہ اچھا دوست بھی ثابت ہو سکتا ہو تو سمجھ لیجئے وہ منشایاد ہے۔
٭٭٭
میں جب یہ خاکے لکھ رہا تھا اس زمانے میں مجھے عظیم سنگ تراش مائیکل انجلیو کئی دفعہ یاد آیا،جس نے کہا تھا ”تصویریں تو پتھر میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں،میں تو صرف فالتو پتھر ہٹا دیتا ہوں“۔ایک عرصہ تک میں اس رائے کو اس کی فنکارانہ انکساری سمجھتا رہا مگر ابھی کل مجھے محسوس ہوا کہ نہیں یہ رائے مائیکل انجلیو کی فنکارانہ انکساری سے زیادہ اس کی دور رس اور باریک بیں نگاہ کو ظاہر کرتی ہے جو پتھروں میں تصویروں کو ان کے مکمل خدوخال کے ساتھ دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں ایک بڑے تخلیق کار کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ طے کر سکے کہ لباس کہاں ختم ہوتا ہے اور جسم کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
خاکوں کے مجموعہ چھوٹی دنیا بڑے لوگ کے آغاز میں شامل اکبر حمیدی کی تحریر)