گذشتہ کچھ عرصے سے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خلاف قومی اور بین الاقوامی طور پر دہشت گردی ہو رہی ہے!کئی ایک شہروں سے کلاشنکوفوں کے چلنے اور بموں کے دھماکوں کی آوازیں مَیں سنتا رہتا ہوں۔ سمندر پار سے بھی ایسی ہی خوفناک آوازیں میری سماعت کا حصّہ بن رہی ہیں۔ پھر پریس جس دہشت ناک انداز میں اس دہشت گردی کو پیش کرتا ہے وہ بجائے خود دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ اہمیت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہر کوئی گویا اپنی اپنی آواز میں مجھے مخاطب کر رہا ہے کہ ”ادھر دیکھو مَیں بھی ہوں……..میری اہمیت اور طاقت کو تسلیم کرو۔“
لیکن کچھ عرصے سے وہ شعبے بھی جو بڑی خاموشی سے امن و امان کے ساتھ اپنا اپنا کام کیا کرتے تھے اب اپنے تیور بدل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ بھی بزورِ علم نہیں بلکہ بزور بازو اپنی اہمیت اور فضیلت مجھ سے منوانا چاہتے ہیں اور اپنی طرف بلکہ ان میں سے ہر کوئی اپنی ہی طرف مجھے متوجہ دیکھنا چاہتا ہے۔ پتہ نہیں انہیں اپنے بارے میں یہ احساس کیوں ہونے لگا ہے کہ میں انہیں غیر اہم سمجھ رہا ہوں۔ ان سب کی اہمیت تو ہمیشہ میرے دل میں موجود رہی ہے اور گاہے بگاہے جس خاموشی سے یہ شعبے کام کرتے چلے آ رہے ہیں اسی خاموشی سے میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا چلا آ رہا ہوں۔ کچھ ایسا لگتا ہے وقت میں جو تیزی آ رہی ہے یہ سب بھی اس تیزی کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں جلدی سے مرکز نگاہ بن جائیں۔ راتوں رات امیر بننے کا جو رجحان ہمارے تمام شعبوں میں نظر آ رہا ہے۔ شاید ایسا ہی رجحان ان شعبوں میں در آیا ہے اور یوں یہ راتوں رات مرکزِ نگاہ بن جانا چاہتے ہیں۔
مثلاً کچھ سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا بھر کے سائنسدان عجیب و غریب پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔ کبھی سمندروں کے اُلٹ جانے کی خبر دیتے ہیں۔ کبھی قطب شمالی میں صدیوں سے منجمد برفوں کے میلوں انبار پگھل جانے کی اطلاع دیتے ہیں۔ کبھی درجۂ حرارت انتہائی زیادہ اور کبھی انتہائی کم ہو جانے کی فکر میں ڈالتے ہیں۔ کبھی کسی سیارے کی مخلوق کے زمین پر حملہ آور ہونے کی خبر فراہم کرتے ہیں۔ پھر اس خبر کو دہشت ناک بنانے کے لیے یہ بھی کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق اسلحہ سازی میں اہلِ زمین سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ گویا ان کے ہاتھوں اہلِ زمین کے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تو خدا بھلا کرے ان سیّاروں کی اَن دیکھی مخلوقات کا جو فی الحال ہمارے سائنسدانوں کی دہشت گردی میں مددگار بننے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔ یوں بھی میرا خیال ہے اگروہ لوگ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تو انہیں قوت آزمائی کے لیے زمین کا رُخ کرنے کی فرصت کہاں ملے گی…….. ہماری طرح وہ ایک دوسرے سے ہی فارغ نہیں ہو سکیں گے……..اوّل خویش اور بعد درویش کی کہاوت وہ ضرور جانتے ہوں گے!۔
سیاّروں کی مخلوق سے ہمارے سائنسدان کچھ زیادہ پُرامید دکھائی نہیں دیتے کیونکہ گذشتہ نصف صدی سے ان کی راہ دیکھ دیکھ کر اب ان کی آنکھیں دھندلانے لگی ہیں۔ سو اس سال یعنی ۱۹۹۸ءکے وسط میں انہوں نے ایک نہایت خطرناک اور غیر ذمہ دار سیّارے کے حوالے سے عالمی سطح پر اس پیش گوئی کو پھیلا یا ہے کہ اسی نومبر میں ایک مہیب سیّارہ زمین سے ٹکرا جائے گا اور ہماری دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ وہ سیّارہ اپنے مدار سے نکل چکا ہے اور اب کا رُخِ روشن عین زمین کی طرف ہے۔ اس خبر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اور شاید اپنی کوئی مالی مطلب برآری کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکی صدر کلنٹن اس معاملے میں بڑی تشویش محسوس کر رہے ہیں۔ نیز انہوں نے ایک بڑی رقم سائنسدانوں کے لیے مختص کر دی ہے تاکہ وہ اس سیّارے کا رُخ کسی طرح زمین کی سمت سے ہٹا کر کسی اور طرف موڑ دیں۔ پھر اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ اب دنیا کی بقا کا انحصار صرف سائنسدانوں کی مہارت اور شبانہ روز محنت پر ہے۔ فرمایا کہ سائنسدان دن رات اس سّیارے کا رُخ تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اس سیّارے نے بھی خلائی مخلوق کی طرح اپنی ذمہ داری محسوس کی اور سائنسدانوں کی دہشت گردی میں شریکِ کار نہیںہوا۔!
دنیا کے دوسرے ممالک میں ان پیش گوئیوں کا خدا جانے کیا اثر ہوا مگر کم سے کم مجھ پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ میں بچپن سے ایسی پیش گوئیاں سننے اور ان کے بے نتیجہ ہونے کا تجربہ رکھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے میرے بچپن میں چھوٹی چھوٹی پرچیاں تقسیم ہوتی تھیں جن پر لکھا ہوتا تھا ”قیامت بس آنے ہی والی ہے۔ توبہ کر لو اور اچھے کام کرنا شروع کر دو۔ نیز اس پرچی کی پچاس پرچیاں لکھ کر آگے تقسیم کرو ورنہ کسی بڑی مصیبت میں مبتلا ہو جاﺅ گے“ وغیرہ وغیرہ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی پرچیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کے باعث ہمارے لوگوں نے سائنسدانوں کی پیش گوئی کو ایسی ہی ایک پرچی سے زیادہ اہمیت نہیں دی!
مَیںدیکھ رہا ہوں کہ کوئی بھی شعبہ مجھ سے نرمی اختیار نہیں کر رہا ہے ہر کوئی مجھے یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ میری اور میری دنیا کی بقا صرف اس بات میں ہے کہ میں غیر مشروط طور پر اس کی اطاعت کرتا رہوں۔ مذہبی پنڈتوں کے ہاں میرے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ وہ ایسے ایسے انداز میں بات کرتے ہیں کہ سُن کر دہشت طاری ہونے لگتی اگر اللہ میاں کے حُسن و احسان کی عادت سے مَیں ذاتی طور پر متعارف نہ ہوتا!
حکومتیں وطن دوستی کے حوالے سے مجھے ہمیشہ زیربار رکھتی ہیں۔ یہ لوگ کلاشنکوفوں سے نہیں اپنے اختیارات کے ذریعے دہشت گردی کرتے ہیں کہ میرے لیے قربانیاں دینے اور ان کے لیے قربانیاں لینے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے۔ ہر سال نئے نئے ٹیکس لگتے ہیں اور ساتھ ہدایت ملتی ہے کہ قوم قربانیاں دے۔ اب قربانیاں دے دے کر قوم کی حالت عید قربان کے دُنبے کی سی ہو چکی ہے! میرے اپنے شعبے ادب میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ لوگ ادبی ذوق سے بے بہرہ ہو گئے ہیں۔ اسی لیے وہ اعلیٰ انسانی قدروں سے محروم ہوتے جا رہے ہیںسوال یہ ہے کہ خود ادیبوں میں اعلیٰ انسانی قدریں کہاں تک نظر آتی ہیں جنہوں نے ادب پڑھا ہے اور ادب لکھا ہے!
میرے بچپن کے زمانے میں والدین بچوں کے سر پر سوار نہیں ہوتے تھے کہ انہیں لازماً سی۔ ایس۔ پی افسر۔ ڈاکٹر ۔ انجینئر یا اس طرح کا کوئی اور مفید پیشہ ور آدمی بنانا ہے۔ اب اگر بچہ ٹیچر بننا چاہتا ہے تو والدین بضد ہیں کہ اسے ڈاکٹر۔ انجینئر یا سی۔ ایس۔ پی افسر قسم کی کوئی مخلوق بنا کر دم لیں گے۔ یوں والدین بچوں کے لیے کسی دہشت گرد سے کم نہیں اور جب اس قسم کی دہشت گردی کا پروردہ بچہ وہ کچھ بن جاتا ہے جو وہ نہیں بننا چاہتا تھا تب وہ پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا دہشت گرد ثابت ہوتا ہے!
اب حالت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اپنے اپنے سکّوں میں مجھ سے باقاعدہ جگّاٹیکس وصول کرتے ہیں۔ میرے ذرا سے انکار پر وہ جاہل۔ کافر۔ باغی غدار کی کلاشنکوف تان لیتے ہیں!
میرا مزاج کچھ ایسا ہے اور غنیمت ہے کہ ایسا ہے کہ جب بھی ماحول حد سے زیادہ سنجیدہ ہونے لگے۔ میرے اندر سے غیر سنجیدگی کی ایک چھوٹی سی لہر اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے برف سے ڈھکے سنجیدگی کے بحرِ بیکراں پر حاوی ہو جاتی ہے جیسے بعض اوقات تازہ ہوا کا ایک آہستہ خرام جھونکا ہمارے پژمردہ چہرے کوشاداب کر دیتا ہے!
ایک روز وطنِ عزیز کے خراب اقتصادی حالات کا ذکر ہو رہا تھا۔ ماحول سنجیدگی کی برف تلے میلوں تک دبتا چلا جا رہا تھا۔ بعض حضرات رونی شکل بنا کر بڑی ہی کسمپرسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ شاید اس امید پر کہ کوئی انہیں اس برف زار سے نکالے کہ اچانک میرے اندر سے میری دوست لہر نے سر اُٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لہر ایک دلکش مسکراہٹ کی طرح میرے چہرے پر ہی نہیں میرے رگ و پے میں بھی پھیل گئی۔ تب میں نے اپنے ایک شاعر دوست سے سنا ہوا قصِّہ بیان کیا اور کہا ”دوستو سیاچین کی برفوں تلے ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی کانیں ہیں۔ جونہی کسی روز اوپر کی برف پگھل گئی یہ جواہرات بھری کانیں ہمارے دامن میں اپنے منہ کھول دیںگی۔ اس لیے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں“۔
یہ کہہ کر میں نے حاضرین کے چہروں کی طرف دیکھا۔ وہاں ہلکی ہلکی روشنی اتر رہی تھی کہ اچانک محفل میںسے ایک دہشت گرد نے سر نکالا اور بولا ”حمیدی صاحب اگر برف پگھلی تو اس کے پانیوں کا رُخ کس طرف کو ہوگا“؟ میں نے صورتِ حال کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور میں اس دہشت گرد کی بدنیّتی کو بھی پوری طرح بھانپ چکا تھا اس لیے فوراً کہا ”سمندر کی طرف“ اور تب ایک طویل زوردار قہقہہ میرے، حلق سے نکلا اور سنجیدگی کی منحوس سرد برف زار کو میلوں تک ٹکڑے ٹکڑے کرتا چلا گیا!!!