رفیق سندیلوی(اسلام آباد)
اکبرحمیدی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جنہوں نے صرف ایک ہی صنف ادب کو مُرشد نہیں مانا بلکہ متعدد اصناف سے رشتۂ ارادت باندھا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ فیضان بھی حاصل کیا ہے ورنہ ادب کی مسلسل اور طویل حضوری بھی بہت سوں کے لیے آخری دم تک بے فیض ہی رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو فن کی اپنی ابتلا اور اپنی آسودگی ہوتی ہے۔ لہٰذا آسودگی میں ابتلا اور ابتلا میں آسودگی کا بیک وقت نظارہ ہی شایدوہ فیضان عطا کر سکتا ہے جس کی تمنا ہر تخلیق کار کے دل میں ہوتی ہے۔ اکبرحمیدی کے فیضانِ نظر کی اول ترجمان تو ان کی غزل ہی ٹھہرتی ہے، اس کے بعد ان کی دیگر پسندیدہ اصناف آتی ہیں یعنی انشائیہ خاکہ اور خود نوشت۔
گذشتہ دنوں ایک ادبی میز پر دو شاعروں کو، جن کی ذات میں نرگسیت کا اچھا خاصا مادہ پایا جاتا ہے، اکبرحمیدی کا ایک شعر قرأت بلند سے مصرع بہ مصرع مکمل کرتے ہوئے سُنا گیا۔ وہ شعر یہ تھا جس پر اطراف میں بیٹھے ہوئے احباب بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے:
کس آسمان سے گزرا ہے درد کا دریا
ستارے ٹوٹ کے آبِ رواں میں آنے لگے
پھر اکبر حمیدی کے یہ اشعار پڑھے گئے جو محولا بالا شعر کی طرح غزل کے رفیع و نادر اشعار کی فہرست میں ہمیشہ درج رہیں گے۔
تمہاری مانگ سے روشن ہوا ہے سب جنگل
تو راستہ بھی کہیں درمیاں سے نکلے گا
رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں
خود جو نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں
اس واقعے سے یہ احساس تو ہوتا ہے کہ اکبرحمیدی کے اشعار خوئے شعر خوانی یا بے دھیانی کے عالم میں لبوں پر مچل جانے کی باطنی انگیخت سے ضرور بہرہ ور ہیں مگر قصہ یہ ہے کہ اکبرحمیدی کو زبانی کلامی یا مجلسی سطح پر ہی داد نہیں ملی، ان پر متعدد ادبا نے قلم بھی اٹھایا ہے۔ غزل پر بھی اور ان کی اختیار کردہ دیگر اصناف پر بھی۔ ہر چند کہ زمانۂ قریب کی ہمعصری تحسین یا تنقیص میں بلند آہنگی کا پہلو لے آتی ہے مگر اہلِ نظر کو راکھ اور چنگاریوں کے تناسب کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔ اکبر حمیدی کے فن پر جو تحریریں لکھی گئی ہیں انہیں تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک زمرہ تشریحی و توضیحی اور تعریفی مضامین کا ہے جو تعلق کی خوش کُن حدوں میں تفہیم کے تقاضے نبھاتا ہے۔ دوسرا زمرہ توازن کی طرف جاتے ہوئے ان مضامین کا ہے جو تبصراتی ہونے کے باوجود بعض حوالوں سے اپنے بین السطور میں تنقید کی چمک سے بھی بہرہ ور ہیں۔ البتہ تیسرا زمرہ ایسے مضامین اور تبصروں کا ہے جو نسبتاً سنبھلے ہوئے قلم کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور تجزیے کی اُس راستی سے بھی عبارت ہیں جو زندگی اور فن سے بہرطور منسلک رہتی ہے۔ دراصل اسی زمرے کی تحریریں اپنے طریقۂ ادراک کے سبب زیادہ کارآمد ہیں مگر ان مضامین کی اس جہت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کم از کم یہ عصر کی گواہی کا ایک اعلامیہ تو بنتے ہی ہیں اور یہ کہ مطالعے کی مختلف منزلوں میں کسی نہ کسی رُخ سے معاون بھی ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں مضامین کے زمروں کی فہرست اس لیے نہیں دے رہا کیونکہ قاری کو میرے وضع کردہ زمروں میں رد و بدل کے صوابدیدی اختیار سے منع نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہاں اصل مسئلہ تو اکبرحمیدی کے فن کی تفہیم کا ہے جو ناقدین و مبصرین کی جانب سے ہوئی اور جس میں شریک ہو کر مجھے ایک مجموعی تاثر تک پہنچنا ہے، تو آئیے سب سے پہلے اکبر حمیدی کی غزل پر لکھے گئے مضامین سے رجوع کرتے ہیں۔
’’لہو کی آگ‘‘ کا پیش لفظ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اکبر حمیدی کی شاعری پر پہلی باضابطہ تحریر کا درجہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے جب یہ پیش لفظ لکھا تو مسودے میں انہیں کچھ ایسے ’اچھے خاصے‘ اشعار بھی نظر آئے جنہیں اکبر حمیدی نے قلمزد کر دیا تھا ۔ اس انتخابی رویے کو ذوق غزل کی تربیت یافتگی پر محمول کرتے ہوئے پیش لفظ کے آخر میں انہوں نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ ذوق غزل پر حاوی ہونے کے باعث اکبرحمیدی کے ہاں خاص کو بھی عام بنانے کا رجحان ملتا ہے۔ یہ عمومیت کا وہی رُجحان ہے جس کا دائرہ اکبرحمیدی کی نثرنگاری تک پھیلا ہوا ہے اور گذشتہ تین دہائیوں میں یہ رجحان توانائی کے ساتھ نشوونما پاکر بذات خود ایک خاص رجحان میں ڈھل گیا ہے۔ اکبرحمیدی کے دوسرے مجموعے ’’آشوب صدا‘‘ کا پیش لفظ وزیر آغا نے لکھا ہے۔انہوں نے یہ مؤقف اختیارکیا ہے کہ اکبرحمیدی کی درویشی و وسیع المشربی میں مزدور اور فوق البشرکا تنازعہ موجود نہیں ہے۔ اصلاً ان کا تصور انسان زندگی، مقدر اور موت کے رشتۂ باہم سے استوار ہوتا ہے جس میں انسان کی مجرد حیثیت بھی بحال رہتی ہے اور وہ کسی مخصوص صورت حال یا نظریے میں محدود ہونے کی بجائے پوری کائنات سے بھی منسلک رہتا ہے۔ شاعرانہ سطح پراس انسانی تصورپر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اکبر حمیدی کے ہاں صلح و آشتی اور عالمگیر محبت کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ وزیر آغا نے اکبرحمیدی کی غزل کے دعائیہ لہجے کو اسی مسلک کا پروردہ قرار دیا ہے جبکہ عارف عبدالمتین نے اپنے مضمون میں نام لیے بغیروزیرآغا کے تلاش کردہ تصورِ انسان کو نقاد کی اپنی آرزومندانہ تعبیر سے موسوم کیا ہے اور اسے اکبرحمیدی کے فن کی معروضی صورت حال سے بے علاقہ گردانا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں اکبر حمیدی کے ان ناقدین سے متفق نہیں ہوں جن کی تنقیدی تحریروں کے مطالعہ کے دوران اکبر حمیدی کے ہاں ابھرنے والے انسان کے خدو خال نام نہاد اور مبہم بلکہ منفعل قسم کی انسان دوستی کے دھندلکوں میں ڈوب جاتے ہیں کہ قارئین کے سامنے ایک ایسا بے شباہت سا ابنِ آدم طلوع ہوتا ہے جس کی کوئی مثبت اور فعال شخصیت جبر و اختیار کے حوالے سے ان کے ذہن میں مرتب نہیں ہوتی۔‘‘
بالکل ایسا ہی اعتراض اسلم سراج الدین نے بھی اپنے تبصرے میں وارد کیا ہے۔ وہ یہ کہ دیباچہ نگار نے مجرد کو غیر مجرد پر ترجیح دے کر انسان کو ایک ایسے ہیولے کی حیثیت دے دی ہے جو غاصب طبقوں کے Protagonistsکے لیے بے حد کشش انگیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ معترضین دیباچہ نگار کے حاصلات تجزیہ کے اندر انسان کی مجرد حیثیت یا انسان کی انسانی حیثیت کو اس لیے نہیں سمجھنا چاہتے کہ وہ انسان کے مادی تصور کے علاو ہ ہر تصور کو مجہول خیال کرتے ہیں۔ اکبرحمیدی کی شاعری کا لہو اگر گرم ہے تو اس لیے نہیں کہ انہوں نے پرولتاری یا بورژواشاعر کا پُرجوش کردار ادا کیا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کی وسیع تر ابتلا سے جُڑ کر وحدت انسانی کا پرچار کر رہے ہیں۔ ’’آشوبِ صدا‘‘ کے شہر کیecologyحسی سطح ہی کی نہیں، ذہنی سطح کی بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عارف عبدالمتین کا مضمون وزیرآغا ہی کے خیالات کا تشریحی عکس ہے جس میں انہوں نے نظریے کی آمیزش کر کے اپنے تصور انسان کو تفوق دے دیا ہے اور پھر اسے اکبر حمیدی پر منطبق بھی کر دیا ہے۔ درست ہے کہ اکبر حمیدی کا انسان دفاعی آویزش یا مدافعت کا قائل ہے مگر وہ خود کو نظریاتی آویزش، طبقاتی جدال یا نیک و بد کی تقسیم میں نہیں جھونکتا بلکہ صلح جوئی کے ساتھ فعال رہ کر کاروبارِ حیات کی طرف راغب رہتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اکبرحمیدی کے اشعار پر بعض پہلوؤں سے ترقی پسندوں کے دو ٹوک انداز کا شائبہ بھی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ان کے خواب بڑے واضح او ان کے اپنے وضع کردہ ہیں جن پر ترقی پسندوں کو اپنے خوابوں کا گمان بھی ہو سکتا ہے۔ وہ شاعری کو شعوری عمل کہہ کر یہ تاثر بھی دینا چاہتے ہیں کہ اگر ان پر کوئی لیبل لگتا ہے تو لگ جائے، پھر وہ ہنگامی یا تاریخی نوع کے وقوعات پر شعر کہنے میں بھی عار نہیں جانتے۔ شاید وہ اپنے آپ کو بطور شاعر توسیع دینا چاہتے ہیں یوں کہ بیک وقت ترقی پسند بھی کہلائیں، جدید بھی اور جدید تر بھی۔ ترقی پسندوں کی شاعری کے بعض واشگاف اور بعض تطہیر شدہ عناصر سے استفادہ کرنے کے باوجود ان کی شاعری فکری سطح پر ترقی پسندوں سے آگے کی شاعری محسوس ہوتی ہے تاہم ان کی والہانہ نظر اور وارفتہ مزاجی سماجیات کے اندر ہی گرداں رہتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ترقی پسندوں کی طرح تہذیبِ ذات کے مادی اہتمام کا کوئی نقشہ مرتب کرتے ہیں نہ انسانی عظمت کے نقارچی بنتے ہیں۔ اُن کے ہاں عظیم انسان کی بجائے عام انسان کے نقوش ہی نمایاں رہتے ہیں، وہ عام آدمی جو حالات کے محشر میں گھرے ہونے کی وجہ سے خیالات کے محشر میں بھی گھرا ہوتا ہے۔
’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ اکبر حمیدی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے مگر جو شعر اس کتاب کے سرنامے کا سبب بنا ہے، وہ ان کے دوسرے مجموعۂ کلام کی ایک غیر مردف غزل کا شعر ہے:
دلچسپ ہے بہت مرا اُس کا مقابلہ
تلوار اُس کے ہاتھ مرے ہاتھ میں سپر
’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ کے نام میں واقعی ایک انفرادیت ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے اس عنوان کو کتاب کے موضوع و جہت کو متعین و منعکس کرتا ہوا ایک بلیغ اشارے کے طور پر منتخب کردہ عنوان قرار دیا ہے۔ وزیرآغا نے بھی اس عنوان کی اشاراتی جہت کو سراہا ہے۔ منشا یاد نے اس نام کو شعر کی ڈالی سے ٹوٹا ہوا شگوفہ اور شاعر کے مجموعی رویہ و مزاج کا ترجمان کہا ہے۔ انہوں نے کتاب کا سرنامہ بننے والے شعر کی تعبیر تلازماتی سطحوں پر کی ہے اور یوں ایک کثیر المفہوم فضا پیدا کر کے اکبرحمیدی کے مزید کئی ایک اشعار کی تہوں میں سے وہ روابط تلاش کیے ہیں جو اس شعر کو ان کے ذہنی مآخذ کا درجہ دے دیتے ہیں۔ اس مآخذ میں معنی کے کم و بیش سات سروکار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس وزیر آغا نے یہ تمام سروکار گنوائے تو نہیں مگر عقب میں پھیلے ہوئے ان کے رشتوں کی ساخت کو نفسیاتی سطح پر نشان زد کر دیا ہے۔ اُن کے نزدیک تلوار کا اشارہ اُس شے کی طرف ہے جس کی تیز دھار کو شاعر نے یہ دیکھنے کے لیے مس کیا ہے کہ خود اُس کے ڈر کی نوعیت کیا ہے اور وہ اس کے آگے کس حد تک سپرانداز ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جب شاعر ظالم سے نہ ڈرنے اور ہار نہ ماننے کے دلیرانہ اعلانات جاری کرتا ہے تو یہ اعلانات اس آدمی کے اعلانات محسوس ہوتے ہیں جو اندر سے تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے۔ وزیرآغا کے نزدیک اسی کپکپی اور لرزہ اندامی سے گزرنے کا تجربہ پنجہ آزمائی اور بے باکی کی فضا پیدا کر کے اکبرحمیدی کے کلام کو خستہ و لطیف بناتا ہے۔ حیدرقریشی نے بھی اپنے مضمون ’’اکبرحمیدی کی غزلیں……ایک مطالعہ‘‘ میں ذرا سے مختلف انداز میں یہی بات کی ہے۔ میرے خیال میں چونکہ مدافعت بھی جنگ کی ایک حکمت عملی میں شامل ہے۔ اس لیے حیدرقریشی نے رزم کے معروف معنوں میں اکبرحمیدی کو رزمیہ شاعر نہیں کہا بلکہ اپنے انداز کا رزمیہ شاعر کہا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ جنگ کے ایک رُخ یعنی جارحیت کی بجائے جنگ کے دوسرے رُخ یعنی مدافعت میں یقین رکھتا ہے جو کشمکش اکبرحمیدی کو مدافعانہ سطح سے متجاوز نہیں ہونے دیتی اس کی وجہ بقول حیدر قریشی یہ ہے:۔
’’اکبر حمیدی صرف خود کو دشمن سے بچانا چاہتا ہے۔ دشمن پر وار نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا انداز نظر اس کے اندر کی انسانیت اور محبت کا غماز ہے۔ دراصل اکبرحمیدی سچ بھی بولنا چاہتا ہے اور دشمن کا دل بھی نہیں دُکھانا چاہتا۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس رویّے پر عمل پیرا رہنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ظرف کی وسعت اور برداشت کی قوت شرط ہے اور یہ آگہی بھی کہ دِیے کا اصل دشمن کون ہے، اندھیرا یا ہَوا؟
’’شہر بدر‘‘ اکبرحمیدی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو ’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ کی طرح متعدد اہلِ نظر کی توجہ کا مرکز بنا۔ اس کا ابتدائیہ شہزاد احمد نے تحریر کیا ہے۔ اس سے قبل ’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ پر ان کا ایک مختصر سا تاثر ’’دستاویز‘‘ راولپنڈی میں شائع ہوا۔ بعد ازاں ان دونوں تحریروں کو بغیر کسی حک و اضافہ کے مضمون کی شکل میں مربوط کر کے اوراق میں اکبرحمیدی کے مطالعۂ خصوصی میں شامل کیا گیا۔ چونکہ یہ مضمون دو مجموعوں کے تبصرے پر محیط ہو گیا ہے اس لیے اسے زمرۂ غزل کے آخری مضامین میں سرِفہرست رکھا گیا ہے۔ سو اس پر فی الوقت گفتگو مؤخر کر کے ترتیب میں موجود مضامین کی طرف چلتے ہیں۔ ’’شہربدر‘‘ پر پہلا مضمون ڈاکٹر توصیف تبسم کا ہے جو گھر اور شہر کی قطبینیت میں اکبر حمیدی کی غزل کے فکری و جذباتی احوال سے باخبر کرتا ہے۔ دوسرا مضمون ڈاکٹر رشید امجد کا ہے۔ انہوں نے اکبرحمیدی کی شاعری کی احتجاجی لہروں اور جذبوں کی کوملتا کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے نزدیک ایک لہر تحفظ و دفاع کا حق نہ ملنے سے جنم لیتی ہے، دوسری لہر معاشرتی و طبقاتی جبر کے خلاف فکری احتجاج کی ہے جبکہ تیسری لہر سیاسی تشدد اور نو آبادیاتی نظام کی بدلحاظی کے ردعمل کی زائیدہ ہے گو کہ یہ لہریں خارجی عوامل کی پیداکردہ ہیں مگر شاعر کی باطنی گہرائی نے شامل ہو کر اسے محض احتجاج کی سطح سے بلند کردیا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین اظہر نے اکبرحمیدی کے ہاں شہر بدری کی حالت کو وجودی فلسفے کی مغائرت سے ملا کر دیکھا ہے۔ ناصر عباس نیّر کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبرحمیدی کے خوابوں اور آدرشوں کا بنیادی سروکار سماجی اور انسانی زندگی کے رویّوں سے ہے۔ ان کی غزل کا سٹرکچر بھی وہی ہے جو سماجی انصاف اور انسان دوستی کی قدروں کا سٹرکچر ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شاعر نے اس سٹرکچر کو خوف کی بجائے آگہی کی بنیاد پر اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت اور محبت کی محرومی کے اجتماعی اور انفرادی دونوں رنگ اس سٹرکچر میں سمائے ہوئے ہیں۔
’’دشتِ بام و در‘‘ اکبرحمیدی کا پانچواں شعری مجموعہ ہے جس پر ناقدین و مبصرین نے بہت کم دھیان دیا ہے جبکہ یہ مجموعہ اسلوب کے تشکیلی آغاز کی طرف کچھ اشارے مہیا کرتا ہے۔ یوں کہ شاعر زندگی کے دھڑکتے ہوئے آہنگ سے لفظیات کے حصول کا آرزومند نظرآتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مجموعے کا متکلم سماجی انسان کے اجتماعی مسائل کو صورت دینے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ اس مجموعے پر منشا یاد کا مضمون سادہ مگر کلیدی نوعیت کا ہے۔ ہرچند کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ شعری تخلیقات کو اپنے محدود علم و ذوق کی بنیاد پر پسند کرتے اور پرکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس مجموعے میں اکبرحمیدی کے کسی بنیادی استعارے کی تلاش مقصود تھی، سو ’دریا‘ کی صورت میں اس استعارے کی کُنجی ہاتھ آ گئی اور یوں تیس اشعار دریا اور اس کے متعلقات پر دستیاب ہوگئے۔ منشا یاد کی یہ تلاش واقعی سراہے جانے کے قابل ہے لیکن جدید غزل کے مروجہ استعارات و علامات میں سے اگر وہ کسی بھی استعارہ و علامت کو اکبرحمیدی کی غزل میں سے ڈھونڈنا چاہتے تو انہیں مایوسی نہ ہوتی۔ دریا کا حوالہ اکبر حمیدی کا اختصاصی حوالہ نہیں ہے۔ ان کے دیگر مجموعوں میں بھی دریا سے متعلقہ اشعار مل جائیں گے جیسا کہ خود منشا یاد نے دو شعر نقل کیے ہیں۔ دراصل اکبرحمیدی اسلوب سازی میں کسی ایک حوالے کو جہت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ اُن کی نظر تمام حوالوں کی طرف رہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا تازہ مجموعۂ کلام جس کا نام ہی ’’ہر اک طرف سے‘‘ ہے، تمام جہات سے کچھ نہ کچھ سمیٹنے کی آرزومندی میں رچا نظر آتا ہے اور اب باری ہے زمرۂ غزل کے آخری مضامین کی۔ شہزاد احمد نے اپنے مضمون میں فرد کو ایسا نقطہ قرار دیا ہے جس کا تعلق بیک وقت ظاہر و باطن کے ساتھ رہتا ہے۔ لہٰذا اُن کے نزدیک خارجیت و داخلیت کو ایک رومن دیوتا جینس سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے جس کے دو مُنہ ہیں، ایک سے وہ باہراور دوسرے سے اندر کی طرف دیکھتا ہے، بالکل جیسے اکبرحمیدی نے ایک شعر میں جاگنے کی کیفیت کو اندر اور باہر کی دُنیا سے منسلک کر دیاہے۔ لہٰذا شہزاد احمد کا خیال ہے کہ شاعری ظاہر و باطن، من و تُو یا دو دماغوں کی یکجائی یا امتزاج سے معرض وجود میں آتی ہے۔ امتزاجی تنقید یا تخلیقی عمل کا نظام بھی یہی ہے۔ درست ہے کہ اس امتزاج، اس تقلیب یا شہزاد احمد کے بقول اس لمحۂ گزراں کا حصول گاہے گاہے ہوتاہے۔ یوں ہوتا ہے کہ آپ ابھی سشت بدلنے نہیں پاتے کہ منظر کا پرندہ شاخ بدل جاتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ شاعری کو یکسر شعوری عمل گرداننے کے باوجود اکبرحمیدی تخلیقی معاملے میں کبھی تہی دست نہیں رہے۔ جو شاعری شعور کے زور پر ڈھالی جاتی ہے وہ تخلیق کی بلدار سطحوں یا ارتفاعی رنگوں سے محروم رہتی ہے یا بالفاظِ دیگر ایک ہموار رُخ ہی پر بہتی رہتی ہے۔ شاعری کی عزت میں اضافہ شاعری کو شاعری کی سطح پرپرکھنے ہی سے ہو سکتا ہے۔
شہزاد احمد نے اکبرحمیدی کی غزل پر زیادہ تر گفتگو فرد کی ذات یعنی ’’میں‘‘ پر کی ہے اور فرائڈ کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسان انا یا ایگو تین سفاک آقاؤں کے نرغے میں رہتی ہے۔ جبلی خواہشات، ضمیر اور بیرونی دُنیا۔ لہٰذا ان آقاؤں کی بے رحمانہ کشاکش انسان کو واہمہ خلق کرنے پر اُکساتی ہے۔ شاعری کے حوالے سے دیکھیں تو شاعر اپنے لیے یا اپنے اظہار کے لیے کسی کردار کا انتخاب کرتاہے۔ یہی واہمہ اور یہی کردار شاعری کا رُخ متعین کرتا ہے۔ سو شہزاد احمد کو اکبر حمیدی کی شاعری میں جو دباؤ اور گھٹن کی فضا ایک تسلسل کے ساتھ نظر آتی ہے، اس کی شاید ایک وجہ یہی ہے کہ ان کا مدافعانہ کردار، جو شہزاد احمد کے مطابق خواہ مخواہ معتوب کیے جانے والے ایک بے گناہ شخص کا کردار ہے، صورتِ حال کو واہمے کی بجائے حقیقت کی سماجی سطح پر جھیلتا ہے، مطلب یہ کہ اس فضا میں تغیر بھی آنا چاہیے، کھڑکی کو کُھلنا بھی چاہیے۔ حقیقت کو واہمہ میں بدل کرٹوٹنا بھی چاہیے۔ شہزاد احمد نے اکبرحمیدی کی شعری پہچان کے بارے میں یہ رائے دی ہے:۔
’’اُن کے ہاں ہر طرح کے مضامین نظر آتے ہیں اور غزل کے لیے ضروری بھی نہیں کہ ہر چیز کے بارے میں الگ انفرادی رویّہ رکھا جائے۔ آخر ہم ایک اجتماع کا حصہ بھی تو ہیں جس میں کبھی کبھی ہم اپنی پہچان کو خود ہی گم کردینا چاہتے ہیں مثلاً قومی شاعری یا وطن کی شاعری میں یہ رویہ خاص طور پر اُبھر کے سامنے آ جاتا ہے۔ اکبر حمیدی نے تو ماں کے متعلق جو شعر کہے ہیں وہ بھی ذات کی نفی ہی کا اظہار ہیں۔‘‘
میرا خیال ہے کہ اکبرحمیدی کے ہاں ذات کی نفی کا عمل ہمہ وقت قائم نہیں رہتا۔ نفیٔ ذات کے درجے میں اپنی ذات یا انا کا استرداد اور ذاتِ دگر یا تُوکا اثبات کیا جاتا ہے۔ اکبر حمیدی نے ذاتِ دگر یا تُو کا استرداد اس طرح نہیں کیا کہ ان کی شاعری خارجی موجودات سے غافل ہو جاتی اور تُو کا اثبات بھی اس طرح نہیں کیا کہ خارجی موجودات اُن پر غالب آ جاتے گو کہ اُن پر خارجی موجودات کا اثر قدرے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی نے تو اس اثر کو صور ت حال کی عکاسی کے علاوہ ہمعصر شعرا سے اخذ وقبول تک پھیلا ہوا پایا ہے۔ انہوں نے اس رویّے کو ’’اثر پذیری کی وافر صلاحیت‘‘ کا نام دیا ہے۔ اگر بات ظفراقبال کے حوالے سے کی جائے تو میں اسے’’نگل جانے کی وافر صلاحیت‘‘ کہوں گا۔ بہرکیف ڈاکٹرنوازش علی نے اکبرحمیدی کی بہت جلد تاثر قبول کر لینے والی حسِ شاعرانہ پر احمد ندیم قاسمی کا غلبہ محسوس کیا ہے۔ ہرچند کہ بات استدلال و امثال کے ساتھ کی گئی ہے مگر خود ندیمؔ پر اقبالؔ اور پھر فیضؔ اور دیگر معاصرین کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر بات ان مآخذات تک بھی پہنچتی جن سے ندیمؔ نے استفادہ کیا تو ڈاکٹر صاحب محسوس کرتے کہ غزل میں اثرپذیری کے مسئلے پر ایک مبسوط مقالہ تیار کیا جا سکتا ہے۔
زمرۂ غزل کا آخری مضمون رؤف امیر کا ہے جو اکبرحمیدی کے اندازِ بیان کے بارے میں ہے جس میں کچھ اشارے موضوع کی طرف بھی ہیں۔ یہ وہی اشارے ہیں جن پر دیگر ناقدین و مبصرین نے زیادہ بہتر اور مفصل انداز میں گفتگو کی ہے۔ اتنا بھی بہت ہے کہ یہ مضمون اکبرحمیدی کے سہل ممتنع انداز کی گرہوں کو کھولنے کے لیے ردیف، قافیہ، بحور، لفظ کے استعمال، مصرع سازی، پیکر تراشی اور رنگِ تغزل کی مبادیات میں اُترتا ہے۔ ہرچند کہ تنقید کا یہ رسمی و روایتی انداز ہے مگر یہ غزل اور غزل کے اشعار کے درجات کی ایک ایسی سطح وضع کرتا ہے جس کے بعد ہی تحلیل و تعبیر یا متن کی عمیق قرأت کا سلسلہ قائم ہو سکتا ہے۔ ذہین اور پختہ تر نقاد جو تخلیق کے عقب میں جانے کے رسیا ہوتے ہیں۔ تنقید کی ابتدائی منازل پر ہی پڑاؤ نہیں ڈالے رہتے۔ تاہم غزل کے معاملے میں بعض اوقات اس طرز کا مطالعہ یا پھر عروضی شعور بھی اہم کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ ’’قوس در قوس ‘‘ نام کے ادبی کالم میں ایک جگہ ’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اکبر حمیدی عمر کی جس پختہ منزل پر ہیں ’’ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اُن کے ہاں اوزان کی زیادہ غلطیاں نہیں ہوں گی اور وہ یہ توقع پوری بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نئے مجموعے میں ایک مصرعہ بے وزن ہے، ایک میں بحر بدل گئی ہے اور بس دو مصرعوں میں آدھا آدھا رکن زائد ہے۔‘‘ اس اطلاع سے یہ پتہ تو چلتا ہے کہ ’’تلوار اُس کے ہاتھ‘‘ اکبرحمیدی کی غزل کا وہ نقطۂ سفر ہے جہاں وہ وزن اور بحر کے معاملات پر قابو پا کر قادر الکلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس مجموعے کے مطالعہ سے مجھے تو یوں لگتا ہے ان کی توجہ موضوع پر نہ ٹوٹ کر بھی اپنی غزل میں موجود ضمنی اسالیب کو جوڑنے پر مرکوز ہونا چاہتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے اسی مجموعے کے حوالے سے جب یہ کہا تھا کہ اکبر حمیدی اُن شاعروں میں سے نہیں جنہیں صاحب طرز یا صاحب اسلوب کہا جائے تو میرا خیال ہے کہ اُن کی نظر اس اُسلوب ہی کی طرف نگراں تھی جو شاید کہیں گم تھا اور بے نشان ہونے کے سبب دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ اکبرحمیدی جس عمرانی بہاؤ میں ہوتے ہیں، اُس کے اندر وہ اسلوب کی تحدیدی قوتوں یا نشان دار سمتوں کے ساتھ نباہ نہیں کر پاتے۔ شاید یہ خیال اُن کے ذہن و دل پر طاری رہتا ہے کہ وہ ایک بھرپور آدمی کو شاعری میں خلق کر رہے ہیں لہٰذا وہ ہر قسم کے خیالات کو آنے دیتے ہیں مگر اس بھگدڑ کے ساتھ نہیں کہ وہ مضحک آدمی کا کردار ادا کرنے لگیں۔
اکبرحمیدی کی شاعری اور اس پر لکھے گئے مضامین کے مطالعہ سے یہ باور آتا ہے کہ وہ سماج کی تنقید پر تو انحصار کرتے ہیں اور اپنے عہد کے آشوب کا ادراک بھی رکھتے ہیں مگر ان کے ہاں آدرشی اور آدمی کُش رویّوں کے درمیان براہِ راست تصادم کا منظر ہویدا نہیں ہوتا۔ یہی بات اُن کی سماجی تنقید کو ناخوشگوار ہونے سے بچاتی ہے۔ اُن کی غزل گوئی میں سے جو گوارا آدمی برآمد ہوتا ہے، یہی آدمی اُن کے انشائیوں میں بھی متحرک نظر آتا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ گوارا آدمی کے جلوہ و عمل کا یہ نقطۂ اشتراک اُن کے انشائیے کو غزل کی معروضی و موضوعی فضا بلکہ تکنیک تک سے منسلک رکھتا ہے۔ حالانکہ اس میں یہ خطرہ مضمر ہے کہ اشیا، مظاہر اور کیفیات کو اجزا میں دیکھنے سے غزل کے اشعار کی طرح کہیں انشائیہ بھی چند اقتباسات کی شکل میں ریزہ خیالی کا تاثر نہ دینے لگے۔ غزل کی فضا تو ایسی ہے کہ اس کے ہر شعر میں ایک خاص وضع کی تکمیلیت کا تخیّل قائم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جس طرح روزن یا درز میں سے منظر کا وسیع تر رقبہ جھلک اُٹھتا ہے لیکن انشائیے میں اشیا و تصورات کی تکمیلیت کو نثر کے ارفع تر اسلوب کے تسلسل میں بہ اندازِ دگر دریافت کیا جانا چاہیے۔ اکبر حمیدی یقینا لائق داد ہیں کہ انہوں نے غزل کی تکنیک کو بروئے کار لا کر انشائیے میں ایک خاص طرح کی انفرادیت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ سب سے زیادہ (اسٔی سے زیادہ) انشائیے لکھ کر انشائیہ تحریک کے فعال رُکن ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے بلکہ انشائیے کو چند لگے بندھے موضوعات کے محبوب چوکھٹے سے بھی باہر نکالا ہے۔ انہوں نے ہر طرح کا انشائیہ لکھا ہے۔ حتیٰ کہ ان کا ایک انشائیہ نیم سیاسی طرز کا بھی ہے جسے نذیر ناجی نے اپنے کالم میں جگہ دی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبرحمیدی اوّل دو مجموعوں کے بعد کے انشائیوں میں دیگر عقائد کے اندر حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ’’لوزٹاکنگ‘‘ کے میلان کو نسبتاً زیادہ آمیخت کر رہے ہیں۔ بہرکیف معروف ہونے کے باوجود ان کے انشائیوں پر تنقید نگاروں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ صفحے ڈیڑھ صفحے پر مبنی تعارفی طرز کے تبصرے تو کیے گئے ہیں لیکن میرے مضمون کے علاوہ کوئی ایسا مضمون نہیں لکھا گیا جو ایک سے زیادہ کتابوں کے مطالعے پر محیط ہو۔ البتہ جمیل آذر کا تبصرہ مضمون ہی کی سطح کا ہے اور اس کی بنیاد اس نکتے پر رکھی گئی ہے کہ انشائیہ یعنی تخلیقی تجربے کے نامعلوم دیار میں شرکت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ باقی مضامین ’’جزیرے کا سفر‘‘ اور ’’تتلی کے تعاقب میں‘‘ کے پیش لفظ پر مبنی ہیں جس میں انشائیہ نگار کے زاویۂ نگاہ کی ادبیت اور رویّے کی آبیاری کو سراہا گیا ہے مثلاً وزیر آغا نے کہا ہے کہ اکبرحمیدی کے انشائیوں کے مطالعے سے وہی لطف ملتا ہے جو شعر و افسانہ یا ادب کے مطالعہ سے ملتا ہے۔ اسی طرح نظیرصدیقی نے کہا ہے کہ ان کے انشائیوں کو پڑھتے وقت خود زندگی بمع دُنیائے دنی قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے۔ بہرکیف انشائیہ نگاری میں اکبر حمیدی کی قوت جویائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے دسمبر ۱۹۹۱ء کے ’’اوراق‘‘ میں اُن کے انشائیوں کے آغاز مطالعہ میں یہ لکھا تھا کہ انہوں نے شاعری کے ذریعے نئی نسل کو اچھے خوابوں کا تحفہ دیا ہے، اُن کے انشائیے بھی شاعر مزاج گوارا آدمی کی خواہشوں، تمناؤں اور خوابوں کا شگفتہ اظہار ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ غزل اور انشائیے میں ان کا تراشا ہوا گوارا آدمی ان کے خاکوں اور خود نوشت میں بھی ظہور پذیر رہتا ہے بلکہ اصناف کی تبدیلی کے باعث اپنے مماثلات کا ایک دلچسپ مطالعہ بھی فراہم کرتا ہے۔ اکبرحمیدی ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنی شخصیت و سوانح میں دوسروں کی ذات کو اور دوسروں کی شخصیت و سوانح میں سے اپنی ذات کو کبھی منہا نہیں ہونے دیا بلکہ ایک ایسی محفل آباد کی ہے جس میں ہر تعلق بہ اعتبار تناسب جگہ پاتا اور ہم آہنگی کو وجود میں لاتا ہے تاہم جہاں تعلق کسی حاجت روائی یا رجل پسندی کی سطح پر آیا ہے یا جہاں ہم آہنگی نہیں ہوسکی، وہاں بھی ایک ایسی فضا نمودار ہوئی ہے جس میں گوارا آدمی کے ظاہر و باطن کی تفہیم مزید کا سامان پیدا ہو گیا ہے۔ یوں تو اکبرحمیدی کو ادیبوں کے خاکوں پر بھی داد دی گئی ہے ، یہاں تک کہ ان خاکوں کو آج کی ادبی صورت حال اور ادیبوں کے نقطہ ہائے نظر کی ایک مستند تاریخ تک کہہ دیا گیا ہے لیکن مجموعی لحاظ سے ان خاکوں کو نسبتہً زیادہ معیاری اور پرکشش مانا گیا ہے جو عزیز و اقارب پر لکھے گئے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیبوں میں سے بہت سو ں کی شخصیت کو مزاج کی معروفیت کے سبب گوارا آدمی کے زُمرے میں تادیر روک کے نہیں رکھا جا سکتا تھا جبکہ ان کے عزیز واقارب سب کے سب مزاج کی غیر معروفیت کے باعث اس زمرے میں آتے ہیں۔ ضمیر جعفری نے اس زمرے کے خاکوں کو بغور پڑھنے کی جو تلقین موجودہ نسل کو کی ہے، واقعی اپنے اندر ایک پہلوئے درد رکھتی ہے کیونکہ یہ سب آدمی دیہی تمدن کی اُس جیتی جاگتی زندگی سے جُڑے ہوئے ہیں جس کے آثار بھی شاید کچھ عرصہ بعد مفقود ہو جائیں گے۔ یقینا اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب آدمی جب ایک جیسے ماحول کے پروردہ و پرداختہ ہیں تو کیا خاکہ نگار نے ان کے درمیان کوئی حد فاصل بھی قائم کی ہے یا یہ سارے خاکے ایک خاکے میں ضم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے اس سلسلے میں بتایا ہے کہ یہ مشکل مرحلہ اکبرحمیدی اس لیے سر کر پائے ہیں کہ وہ انسانی نفسیات کے ایک زیرک نباض بھی ہیں۔ نظیرصدیقی کی یہ بات بھی وزن رکھتی ہے کہ اکبرحمیدی نے اپنے عزیز و اقارب کی سات قلمی تصویریں بنا کر ایک بڑے کام پر ہاتھ ڈالا ہے۔ یقینا شخص کو شخصیت میں بدلنا یا عام آدمی کی قلمی تصویر بنانا اور پھر اسے زندۂ جاوید کر دینا کوئی آسان کام نہیں۔ بشری کمزوریوں کوتخلیقی انداز میں پیش کیے بغیر خاکے کا فن مکمل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اکبر حمیدی کے ان خاکوں کو سیرتوں کا نام دینا چاہے تو دے سکتا ہے مگر اس وقت اسے دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا جب وہ یہ دیکھے گا کہ ان خاکوں میں تو بشری کمزوریاں شخصی اوصاف کی تہوں میں سلی ہوئی ہیں اور یہ کہ ان کو اُدھیڑ کر الگ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا یہ خاکے سیرتوں کی سطح حاصل کرنے کے باوجود خاکے ہی کہلائیں گے۔ ان کی زائد خوبی یہ ہے کہ خاکہ نگار کے سوانحی احوال سے جُڑ کر اُس کی خودنوشت کا پس منظر بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ میاں جی، ماں جی، ابّا جی اور عظیم کے خاکے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے ان خاکوں میں سے میاں جی کے خاکے کی حلیہ نگاری اور ابا جی کے خاکے کے استعاراتی انداز کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر اکبرحمیدی کے خاکوں کو محبت کے سلسلے کہا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک خاکہ ’’بڑمڈا‘‘ ہے جسے محمود احمد قاضی نے زندگی سے جُڑا ہوا ایک مضبوط کردار کہا ہے جس سے اکبر حمیدی نے دفاع و تصادم کے داؤ سیکھے اور خود اپنے کردار کو شناخت کیا۔
اکبرحمیدی نے اپنے عزیز و اقارب اور گاؤں کے لوگوں کے خاکوں کو کچھ نئے خاکوں کے اضافے کے ساتھ ’’چھوٹی دنیا بڑے لوگ‘‘ میں شامل کر دیا ہے۔ ’’قدآدم‘‘ کی اشاعت پر یہ بات محسوس کر لی گئی تھی کہ اس کے حصہ اوّل کے خاکے مختلف انداز کے ہیں لہٰذا ان کا الگ مجموعے میں یکجا ہونا ضروری بھی تھا۔ سو اب یہ مجموعہ ڈاکٹر سید معین الرحمن کے بقول اردو خاکہ نگاری کی پوری تاریخ میں اپنے مزاج کا پہلا اور منفرد مجموعہ بن گیا ہے۔ اکبر حمیدی کی خود نوشت کا فن اسی مجموعے سے ہم رشتہ ہے۔ ’’جست بھر زندگی‘‘ پر بہت عمدہ مضامین لکھے گئے ہیں جو ناصرف یہ کہ خود نوشت سوانح کی صنفی تفہیم میں ممد ثابت ہوتے ہیں بلکہ اس دور کی متعدد آپ بیتیوں کے بالواسطہ تذکرے سے ایسا تناظر بھی مہیا کرتے ہیں جس میں اکبرحمیدی کی خود نوشت کے قدری تعین و تقابل کا مسئلہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بیشتر آپ بیتیاں طرح طرح کے معاشقوں کا بیان اور خود ستائشی کا اظہار ہیں۔ چونکہ ان کا تحریری محرک تخلیقی کی بجائے نفسیاتی رہا ہے، اس لیے یہ آپ بیتیاں امراض و عوارض کا دفتر بن گئی ہیں یا منفی و مُفسد علائق کا ایسا جنگل جس میں تخلیقی وجود کی تلاش ہی کار عبث ہے۔ خود نوشت سوانح بننے اور ٹوٹنے کے جس پیچیدہ عمدہ سے گزرتی ہے، اس راہ میں در آنے والی بعض وارداتوں پر سوالیہ نشان بھی لگایا جا سکتا ہے مگر آخری تجزیے میں اسے غیر تہذیبی یا غیر تخلیقی بن کر نہیں اُبھرنا چاہیے۔ اکبرحمیدی یقینا ایک تخلیقی وجود ہیں اور تہذیب کی پاسداری کا رنگ تو ان کے ہاں بہت حاوی ہے مگر انہیں اپنے تخلیقی وجود کا شاید اتنا گہرا احساس نہیں ہے جتنا کہ عام آدمی ہونے کا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا احساسِ تخلیقیت عقب کا وہ ساکن پردہ بنا رہا ہے جس کے سامنے عام آدمی نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ خود اکبر حمیدی کا قصد بھی شاید اس تمثیل میں یہی کردار ادا کرنے کا تھا۔ جو گندرپال رشید امجد اور جمیل یوسف کے مضامین میں اسی آدمی کو اپنے اپنے انداز میں تلاش کیا گیا ہے۔ مثلاً جوگندر پال نے اس آدمی کو ایسے عام آدمی کا نام دیا ہے جو وارفتگی کے عالم میں جست بھرنے کی بجائے پاؤں پاؤں چلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ رشید امجد نے اس آدمی کو نچلے طبقے کا وہ شاعر مزاج شخص قرار دیا ہے جس کی تمام زندگی جدوجہد سے گزرتی ہے۔ جمیل یوسف نے اس آدمی کو معاشرے کا وہ سیدھا سادا فرد کہا ہے جس کی کہانی محیر العقول واقعوں، عشق و عاشقی کی وارداتوں یا مذہبی و روحانی انکشافوں سے تہی دامن ہو کر بھی اپنا سحر طاری کر لیتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز پروازی، ڈاکٹر اعجاز راہی، ڈاکٹر عطش درانی اور ناصر عباس نیّر کے مضامین اس عام آدمی کے ذہنی و نفسی محرکات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ فن کار کی خود آگاہی آپ بیتی کا محرک و منبع ہوتی ہے مگر خود آگاہی منفی بھی ہو سکتی ہے اور غیر تخلیقی بھی۔ خود آگاہی کی فریب کارانہ صورتوں کا اظہار کئی ایک آپ بیتیوں میں ہوا ہے مگر ڈاکٹر پرویز پروازی کے نزدیک اس پس منظر میں اکبر حمیدی کی خود نوشت کا لکھا جانا اس لیے اہم بن جاتا ہے کہ اس میں مصنف کی خود آگاہی نے کوئی فریب کھایا ہے نہ اُس نے دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر اعجاز راہی نے اکبرحمیدی کو ان کی شخصیت و فن کی کُلیّت میں پہچاننے کے لیے ان زیریں لہروں کو گرفت میں لیا ہے جس سے تحریر کا ظاہری مواد پھیلاؤ حاصل کرتا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اس سرگزشت میں اتنا مواد موجود ہے جس پر طویل بحث بھی ناکافی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر عطش درانی نے جست بھر زندگی کو تحفظِ ذات کی داستان کہا ہے اور اس لیے کہا ہے کہ مصنف آپ بیتی کے پردے میں اس طرح عریاں نہیں نکلا جس طرح کہ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا تھا۔ ناصر عباس نیّر نے تخلیقی عمل کے تنوع اور تجزیۂ نفس کے تسلسل کو آپ بیتی لکھنے کے استحقاقی اصولوں میں شمار کیا ہے۔ چونکہ اکبرحمیدی کی خود نوشت میں انسان کی ذہنی، جذباتی، معاشرتی، مجلسی اور تخلیقی زندگی کا دار و مدار تجزیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ لہٰذا نیّر کے خیال میں وہ اپنی داستانِ حیات کو فنی فروگذاشتوں سے بچانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
اکبرحمیدی نے اپنی خود نوشت کو ادبی کتاب بنانے کی نیت سے لکھا ہے ۔ لہٰذا ان کی داستانِ حیات سے ان کے اپنے تصور ادب کی خوشبو آتی ہے اور وہ ہے خیر و محبت کے رنگ میں رچی ہوئی خوشبو، آدمی ہونے کے احساس میں بسی ہوئی خوشبو۔ شاعری سے خود نوشت تک کے سفر میں اکبر حمیدی نے کبھی اس خوشبو کوخود سے الگ نہیں ہونے دیا۔ وہ ایسے فنکاروں میں سے ہیں جن کی تخلیقات میں اُتر کر ایک عہد کے ذائقے کو چکھا جا سکتا ہے۔
اکبرحمیدی نے ریڈیو کالم بھی لکھے ہیں، پنجابی میں غزل بھی کہی ہے، ہائیکو اور نظمیں بھی تخلیق کی ہیں، انشائیہ پر ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ دوست احباب کے فن کی تحسین کے لیے مضامین کی دو کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ ایک کتاب وزیر آغا کے خطوط پر مبنی ہے جو اُن کے نام آئے۔ اس کو ایم اے کی سطح کے ایک مقالے میں موضوع بحث بھی بنایا گیا ہے۔ حال ہی میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی اس سطح کا ایک مقالہ ان کی انشائیہ نگاری پر لکھوایا ہے۔زیرِ نظر کتاب کے مضامین اکبر حمیدی کے فن کی مرکزی جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب نہ صرف یہ کہ پسند کی جائے گی بلکہ ناقدین کو ان کے فن کے وسیع تر مطالعے اور تجزیے کی طرف بھی راغب کرے گی۔