خاکہ نگاری میں اکبر حمیدی نے اپنے سوانحی واقعات اور خاندانی و ذاتی تعلقات کے حوالے سے ایک انشائی اور افسانوی لب ولہجہ اختیار کیا ہے۔ یو ںیہ خاکے، انتہائی ذاتی ہوتے ہوئے بھی بہترین ادب پارے قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر میاں جی، اباجی، بے بے جی اور عظیم یعنی خورشید بیگم کے خاکے جیتے جاگتے انسانوں کی سچی، انمول اور دلکش تصویریں ہیں، اور انہیں پڑھتے ہوئے قاری خاکوں اور کرداروں کی فضا میں داخل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اکبر حمیدی کے بہت سے ناقدین نے اہل قلم پر لکھے گئے خاکوں میں اس شدت احساس اور فنی رچائو کا شکوہ کیا ہے، دراصل خاکہ لکھتے ہوئے اکبر حمیدی جس جذباتی لگاوٹ کا اظہار خاندانی افراد کے حوالے سے روا رکھتے ہیں، وہ شاید اہل قلم کے معاملے میں انہیںمیسر نہیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ خاکے احساس اور کیفیت کی سطح پر اتر کر قاری کو گرفت میں نہیں لیتے۔ پھر بھی ان کی انشائیوں کی دونوں کتابوں، قدآدم ، اور ، چھوٹی دنیا بڑے لوگ، میں موجود چند ایک خاکے تو ایسے ہیں جو انھیں خاکے جیسی اہم صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔****اکبر حمیدی کی خود نوشت، جست بھر زندگی، ایک محتاط شخص کے سچ کی روداد ہے۔ جس نے قدم قدم ، طویل اور ناہموار، رستے عزم وہمت سے طے کئے ہیں۔ یہ متوسط طبقے کے ایک باشعور شخص کی داستان ہے، جسے دعویٰ ہے کہ ، عام آدمی ، کی روداد بیان کر رہا ہے ۔ اکبر حمیدی کی یہ آپ بیتی ، ہمیں سماجی روابط، رشتوں ناتوں ، سماجی اور معاشی رکاوٹوں اور کامیابیوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھاتی چلی جاتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے اپنی ذاتی نفسی کمزوریوں کو بھی نشان زد کیا ہے اور اپنے بارے میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ۔ اس آپ بیتی میں انھوں نے لا یعنی واقعات اور معاملات سے بھی اجتناب کیا ہے۔ ( اکبر حمیدی کا فن ا ز خلیق الرحمن سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...