ڈاکٹرشہناز نبیؔ(کولکاتا)
اکبر الہٓابادی کو کسی نے طنز و مزاح کا شہنشاہ قرار دیا تو کسی نے مصلحِ قوم بتایا۔ اکبرؔ کا زمانہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کی پہلی دو دہایؤں پر محیط ہے (۱۸۴۵ء سے ۱۹۲۱ء )۔ یہ زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ یہ دور دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کا زمانہ تھا۔ بہت سارے واقعات تیزی سے پیش آتے جارہے تھے۔ ایک طرف انگریزوں کا بڑھتا ہوا اقتدار دوسری طرف ہندوستانیوں کے دل میں کھوئی ہوئی زمین کی باز یافت کا ولولہ۔کہیں انگریزوں کی پالیسیوں کو ماننے کی ترغیب دی جارہی تھی، ان کے نقشِ قدم کو اپنانے کا مشورہ دیا جارہا تھا، ان کی تہذیب و تمدن کے قصیدے پڑھے جارہے تھے، ان کی زبان و ادب ، انکے طرزِ معاشرت کی
خوبیاں گنوائی جارہی تھیں تو کہیں ان کے خلاف بغاوت کی تیاریاں ہورہی تھیں، ان کا تختہ الٹنے کی سازشیں ہو رہی تھیں، ہندوستان کو ان کے ناپاک وجود سے آزاد کرانے کے لئے جنگی قواعد اور مشقیں جاری تھیں۔پورا ہندوستان گویا دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ کچھ لوگ انگریزوں کے وفادار تھے اور کچھ ان کے مخالف۔ کسی کو مشرقی زبان و ادب اور ہندوستانیت سے لگاؤ تھا تو کوئی مغرب کی تقلید میں فخر محسوس کر رہا تھا۔
جب ہم اکبر الہ آبادی کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک ایسے شخص کا تصور ابھرتا ہے جو انگریزی تہذیب کا شدید مخالف ہے۔اکبر کو نہ صرف انگریزی تہذیب بلکہ انگریزی زبان، انگریزی تعلیم اور انگریزی حکومت سے بھی اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سرسید ہی ہوں کیونکہ اکثر محققین کا خیال ہے کہ انہوں نے سر سیدؔ کی مخالفت میں ہر طرح کی آزادی اور ترقی کی مخالفت کی۔محمد حسن اس کی نفسیاتی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’ ان کے اندر بھی ویسی ہی مقبولیت، ویسے ہی اعزاز و عظمت کی تمنا کروٹیں لیتی رہی جوان کے ہم عصر سر سیدؔ کو حاصل تھی۔لیکن قوم و ملت نے سرسید کی جیسی قدر شناسی کی،مسلم پبلک کے ایک بڑے تعلیم یافتہ اور سر برآوردہ حلقے میں ان کی جیسی آؤ بھگت ہوئی ، اکبر الہ آبادی اس سے محروم رہے۔ سرکار برطانیہ نے بھی جس کے وہ نمک خوار تھے
جہاں سر سید کو ’ سر‘ کے خطاب سے نوازا، انہیں صرف خان بہادری کے لائق سمجھا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید کے لئے رشک و عناد کے جذبات اکبر الہ آبادی کے اندر پرورش پانے لگے۔چنانچہ سرسید کی شاید واحد ذات ہے جسے انہوں نے بحیثیت ایک فرد کے اپنی طنزیہ شاعری کا نشانہ بنایا ہے۔ سر سید کو ملعون و مطعون بنانے انہوں نے کوئی کسر چھوڑ نہ رکھی۔‘‘ ( بحوالہ: طنزیہ ادب کی نفسیات اور اکبر الہ آبادی کی طنزیہ شاعری۔ سید محمد حسن۔ ص: ۶-۷)
ہوسکتا ہے کہ سر سیدؔ سے پر خاش کی یہ ایک بہت بڑی وجہ رہی ہو لیکن سر سیدؔ کی مخالفت کی دھن میں اکبرؔ نے ہندوستان کی ایک بہت بڑی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی رجعت پسندی نے ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے سے روکنے کی بھرپورکو شش کی۔ان کی تنگ نظری نے جہاں مردوں کو ایک عرصے تک انگریزی تعلیم سے دور رکھا وہاں عورتوں پر تعلیم کے دروازے کو کھلنے ہی نہ دیا۔انیسویں صدی کا یہ زمانہ مسلمان عورتوں کو ہندوستان کی دوسری غیر مسلم عورتوں کے مقابل کھڑا کر سکتا تھا اور تعلیم کے میدان میں وہ اپنی دوسری بہنوں کے شانہ بہ شانہ چل سکتی تھیں تاہم اکبرؔ نے تعلیمِ نسواں کے خلاف آواز اٹھا کر پوری قوم کو گمراہ کیا۔ انہوں نے عورتوں کی تعلیم کو عورت کی گمرہی بتانے کی کوشش کی اور تعلیم یافتہ عورت کی ایسی مکروہ تصویر پیش کی کہ والدین نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔تعلیمِ نسواں کی طرف سے سر سید کی لا پرواہی کا ایک سبب اکبرؔ کی مخالفتیں بھی ہو سکتی ہیں۔شاید سر سیدؔ تنقیدی بو چھاروں کا مقابلہ ایک حد تک کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں سر سید کی بے توجہی خود سر سیدؔ کی دور بینی اور دانشمندی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے۔اگر سید محمودؔاور جسٹس امیر علیؔنے عورتوں کی تعلیم کا لائحہ عمل تیار نہ کیا ہوتا تو شاید اس نیک کام کی شروعات میں مزید
تاخیر ہو تی۔ یہ سید محمود ہی تھے جنہوں نے لندن سے واپس آنے کے بعدمسلمان عورتوں کی تعلیم پر خاص طور سے زور دیا اور ۱۸۹۲ء کے ایک تعلیمی کانفرنس میں مسلمان عورتوں کی جدیدتعلیم کا تصور دیا۔ان کے لئے الگ اسکول کھولنے اور نصاب ترتیب دینے کی ضرورت کو محسوس کیا۔گر چہ سر سید نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ۱۸۸۶ء میں ہی قائم کر دیا تھا تاہم اس میں کوئی ایسی شق شامل نہیں تھی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ سرسیدؔ تعلیمِ نسواں کا کوئی ٹھوس منصوبہ رکھتے تھے۔ الٹے سر سید نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ
’’ عورتوں کی تعلیم کے لئے مدرسوں کا قائم کرنا اور یورپ کے زنانہ مدرسوں کی تقلیدکرنا ہندوستان کی موجودہ حالت کے لئے کسی طرح مناسب نہیں اور میں اس کاسخت مخالف ہوں۔‘‘
( بحوالہ: مسلم خواتین کی تعلیم۔ محمد امین زبیری۔ایجوکیشنل کانفرنس،کراچی ۱۹۵۶ء ص: ۹۵۔۹۶)
اب ایسے میں جب قوم کے رہبر و رہنما، ترقی یافتہ ذہن رکھنے والے سالارِ کارواں ہی عورتوں کی تعلیم کے تعلق سے ایسی منفی باتیں کہنے لگیں تو ان کا کیا نظریہ ہو گا جو عورتوں کی تعلیم کو پوری قوم ، پورے ملک،پورے معاشرے کی تباہی کا ذریعہ مان بیٹھے تھے اور جن کا خیال تھا کہ عورتیں تعلیم یافتہ ہو کر بد کردار اور بد چلن ہو جائیں گی۔ تعلیمِ نسواں کی ضرورت اور اہمیت پر کھل کر بحث اس وقت ہوئی جب ۱۸۹۹ء میں کلکتہ میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا اور جسٹس سید امیر علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ:
’’ میری رائے میں لڑکیوں کی تعلیم لڑکوں کے متوازی چلنا چاہئے تاکہ سوسائٹی پر اس کا سودمنداثر پڑے۔جب تک ترقی کے دونوں جزو برابرتناسب سے نہ ہوں گے کوئی عمدہ نتیجہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ( مسلم خواتین کی تعلیم، ص: ۱۰۲)
اکبرؔ نے اپنی شاعری میں جابجا عورتوں کی تعلیم پر چھینٹے کسے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ تعلیم خصوصاً انگریزی تعلیم عورتوں کو بے شرم بنا دے گی۔وہ گھر کی چار دیواری میں قید رہنے کے بجائے آزادانہ گھومتی پھرے گی۔ اکبر صحیح معنوں میں ایکMale Chauvinist ہیں جو عورت کو محکوم، مجبور، بے بس اور مرد کا غلام دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ان سے عورت کی خود اعتمادی اور اس کی آزادی برداشت نہیں ہوتی۔
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی اب ہے شمعِ انجمن، پہلے چراغِ خانہ تھی
پردہ اٹھا ہے ترقی کے یہ سامان تو ہیں حوریں کالج میں پہنچ جائیں گی غلمان تو ہیں
حرم میں مسلموں کے رات انگلش لیڈیاں آئیں پئے تکریمِمہماں بن سنور کے بیبیاں آئیں
طریقِ مغربی سے ٹیبل آیا ، کرسیاں آئیں دلوں میں ولولے اٹھے، ہوس میں گرمیاں آئیں
امنگیں طبع میں ہیں، شوقِ آزادی کا بلوا ہے کھلیں گے گل تو دیکھو گے، ابھی کلیوں کا جلوا ہے
اکبرؔ اس واعظ کی طرح ہیں جو انسان کے دل میں ان ہونی کا خوف پیدا کرتے رہتے ہیں اور عقبیٰ کا واسطہ دے دے کر دنیاسے بھی واقف ہونے نہیں دیتے۔انہیں یہ تصور ہی لرزا دیتا ہے کہ جب پڑھی لکھی لڑکیا ں سڑک پر نکلیں گی تو وہ منظر کیسا دلخراش ہوگا۔
گھر سے جب پڑھ لکھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں دل کش و آزاد و خوش رو ، ساختہ پرداختہ
یہ تو کیا معلوم کیا موقعے عمل کے ہوں گے پیش ہاں نگاہیں ہوں گی مائل اس طرف بے ساختہ
ان سے بی بی نے فقط اسکول ہی کی بات کی یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی
اکبرؔکے نزدیک تعلیم حاصل کرنا بے حیائی کی علامت ہے۔ وہ روشن خیالی سے خوف زدہ ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ گریجویٹ ہونے والے صرف لیٹ کر ہی بات کر سکتے ہیں
میں بھی گریجویٹ ہوں ، تو بھی گریجویٹ علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے لیٹ
دونوں نے پاس کر لئے ہیں سخت امتحان ممکن نہیں کہ اب ہو کوئی ہم سے بد گماں
بولی یہ سچ ہے علم بڑھا ، جہل گھٹ گیا لیکن یہ کیا خبر ہے کہ شیطان ہٹ گیا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا اک پیر نے تہذیب سے لڑکی کو سنوارا
پتلون میں وہ تن گیا، یہ سائے میں پھیلی پاجامہ غرض یہ ہے کہ دونوں نے اتارا
صغریٰ مہدیؔ نے اپنی کتاب میں بیگم خواجہ حسن نظامی سے لئے گئے ایک انٹرویو کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بقول بیگم خواجہ حسن نظامی،اکبرؔ عورتوں کی تعلیم کے مسئلے پر اکثر گفتگو کرتے تھے۔
’’ اکبرؔ کہتے کہ میں عورتوں کی تعلیم کا مخالف نہیں۔ انہیں تعلیم ملنی چاہئے۔ انہیں مذہب سے واقفیت ہونا بھی ضروری ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں سے بھی انہیں واقف ہونا چاہئے۔ حساب کتاب بھی آنا چاہئے۔اور اخلاقی اور سبق آموز کتابیں بھی ان کے مطالعے میں رہنی چاہئیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے تو مخالف نہیں تھے، مگر اس حق میں تھے کہ عورتوں کو وہی تعلیم حاصل کرنا چاہئے جو امورِ خانہ داری،بچوں کی تربیت اور شوہر کی رفاقت میں معاونثابت ہوں۔‘‘
( اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔ ڈاکٹر صغریٰ مہدی۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی۔۱۹۸۱ء۔ ص: ۷۴)
روسو Rousseau) ( اور اکبرؔ کے خیالات، زمانی بعد کے با وجود ایک سے ہیں۔ عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں روسوؔ کا کہنا تھا کہ :
The first and most important quality of a woman is gentleness. Made to obey a person
as imperfect as man, often so full of vices, and always so full of faults, she ought early learn to suffer even injustice, and to endure the wrongs of a husband without complaint,
and it is not for him but for herself that she ought to be gentle.
(Rousseau’s Emile, p: 27 0., By William. H. Payne)
ایک دوسری جگہ روسوؔ کہتا ہے کہ
” Thus the whole education of women is ought to be relative to men.To please them, to be useful to them, to make themselves loved,and honored by them, to educate them when young, to care for them when grown, to counsel them, to console them, and to make life
agreeable and sweet to them – these are the duties of women at all times, and what should be taught them from their infancy.” (Rousseau’s Emile., p: 26 3)
اکبرؔ کے خیالات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بھی روسوؔ کی طرح عورت کی زندگی کا مقصد مرد کی خدمت اور غلامی سمجھتے تھے۔اس لئے کہتے ہیں کہ
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
دو اسے شوہر و اطفال کی خاطر تعلیم قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
اکبر نے قدم قدم پر عورت کو پردے میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کے خیال میں ایسے مرد بے وقوف ہیں جو عورت کو پردے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا وہ پردہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
پردہ اٹھ جانے سے اخلا قی ترقی قوم کی جو سمجھتے ہیں یقیناً عقل سے فارغ ہیں وہ
سن چکا ہوں میں کہ کچھ بوڑھے بھی ہیں اس میں شریک یہ اگر سچ ہے تو بے شک پیرِ نا بالغ ہیں وہ
خون میں باقی رہی غیرت تو سمجھے گا کبھی خوب تھا پردہ ،نہایت مصلحت کی بات تھی
اکبر اپنی شاعری میں دو طرح کی عورت کا تصورر پیش کرتے ہیں۔ ایک مشرقی، دوسری مغربی۔مشرقی عورت قابلِ احترام ہے لیکن مغربی عورت مالِ مفت ہے۔ وہ مشرقی عورت کو ستر پردے میں چھپا کے رکھنا چاہتے ہیں لیکن مغربی عورت کے حسن سے آنکھیں سینکنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ مغر بی عورت کو دیکھتے ہی ان کی رال ٹپک پڑتی ہے ۔مغربی تہذیب و تمدن کا مذاق اڑانے کے جوش میں انہوں نے مغربی عورت کا جو تصو ر پیش کیا ہے وہ انتہائی چھچھوراہے۔
ممکن نہیں اے مس ترا نوٹس نہ لیا جائے گال ایسے پریزاد ہوں اور کِس نہ لیا جائے
تھی مرے پیشِ نظر وہ بتِ تہذیب پسند کبھی وہسکی مجھے دیتی تھی ، کبھی شربتِ قند
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں جو دوچار ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار
زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیا ر کریں
تہذیبِ مغربی میں ہے بوسے تلک معاف اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہی
وہ مغربی عورتوں کو بد قماش اور بد کردار ثابت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ساری انگریز عورتیں دن رات ہوٹل میں تاش کی بازی کھیلتی رہتی ہیں اور انہیں ہر وقت عاشقوں کی تلاش رہتی ہے۔
لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق ہال میں ناچو، کلب میں جاکے کھیلو ان سے تاش
بادۂ تہذیبِ یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کردو پاش پاش
جب عمل اس پر کیا، پریوں کا سایہ ہو گیا جن سے تھی دل کی حرارت کو سراسر انتعاش
سامنے تھیں لیڈیانِ زہرہ وش، جادو نظر یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش
غرض اس مالِ مفت پر اکبر کا دلِ بے رحم کوئی رعایت نہیں کرتا اور سرِ عام ان عورتوں کو ننگا کرکے اکبر گویا انگریزوں سے ان کے ظلم و استبداد کا بدلہ لیتے ہیں۔ وہ ہندوستانی مردوں کاتو کیا ہندوستانی عورتوں کا بھی ان انگریزعورتوں سے ملنا جلناپسند نہیں کرتے۔ اکبرؔ نے پوری قوم کو انگریزی تہذیب ، انگریزی تعلیم، اور انگریز عورت سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن جب ان کی اولاد خود کسی موم کی پتلی پر لٹو ہو جاتی ہے تو اکبرؔ سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ نقوش آپ بیتی نمبر میں محمد عبدالرزاق کانپوری کے مطابق اکبرؔ نے ظریفانہ شاعری اس لئے کی تھی کہ وہ اودھ پنچ کی فرمائش پوری کرناچاہتے تھے۔ کہتے ہیں
’’ میں نے سید اکبر حسین سے ایک موقعہ پر سوال کیا کہ آپ جیسے مذہبی شخص نے ظریفانہ شاعری کیوں اختیار کی اور سر سید اور کالج کے خلاف مضامین کس بنا پر لکھنا شروع کئے۔ ہنس کر فرمایا کہ ’ یہ رنگ اودھ پنچ کے مضامین کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور ظریفانہ مذاق بھی اس زمانے کے ماحول کا نتیجہ تھا۔‘ سچ تو یہ ہے کہ شہرت و ناموری کا ذریعہ اس عہد میں اخباری مضامین ہی تھے۔ لہذا اکبر حسین سے جو غلطی ہوئی وہ معافی کے قابل ہے اور مجھے بھی یہ خبر ہے کہ اخیر دور میں سید اکبر حسین کے احباب نے بھی ان کو سر سید کی اور کالج کی مخالفت سے منع کیا تھا۔ چنانچہ ا ن کی شاعری کا رنگ اس کے بعد بدل گیا تھا۔ـ‘‘
( نقوش۔ آپ بیتی نمبر۔جون ۱۹۶۴ء۔ مدیر: محمد طفیل۔ لاہور۔ ص: ۴۲۸۔ ۴۲۹)
اگر عبد الرزاق کانپوری کی بات کو سچ مان لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اکبر نے اودھ پنچ کے ذریعہ مقبول ہونے کے لئے طنز و مزاح کا سہارا لیا، سر سید کی مخالفت کی اور وہ مغربی تہذیب جس کے وہ بظاہر اتنے مخالف معلوم ہوتے ہیں، کا اس لئے مذاق اڑایاکہ وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھ کر جلدی سے شہرت حاصل کر لینا چاہتے تھے بھلے ہی اس کا خمیازہ ان معصوموں کو بھگتنا پڑے جنہوں نے اگر ملک و قوم کو آگے لے جانے میں کوئی نمایاں رول ادا نہیں کیا تو اسے پیچھے گھسیٹنے کا جرم بھی ان پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اکبر الٰہ آبادی کی طنز کے بارے میں ایک اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کہیں کہیں اس کے پس پشت مجروح شخصیت اور احساسِ کمتری کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔غالباَ اس کی وجوہ ان کی زندگی کا نفسیاتی مطالعہ کرنے پر بے نقاب ہو سکتی ہیں۔۔۔۔ان کے زمانے کے حالات اس بات کے مقتضی تھے کہ سر سید کی طرح وہ بھی قومی ترقی پر اپنی توجہ مبذول کرتے اور اپنی قوم کو مغرب کے بعض ترقی پسند رجحانات سے قریب تر لانے میں معاون ثابت ہوتے لیکن ہوا یہ کہ’’یارانِ تیز گام‘‘تو برق رفتاری سے اس راستے پر گامزن ہو گئے اور اکبرؔ اپنی زنجیروں میں ہی جکڑے رہ گئے۔ایک طرح سے زندگی کے اس بڑے موقع کو گنوا کر اکبرؔ نے اپنی تگ و تاز کے میدان کو خود ہی محدود بھی کر لیا۔
لاشعوری طور پر انہیں اس بات کا افسوس بھی تھا۔چنانچہ ایک وفادار چیلے کی طرح سر سید کی تحریک میں شامل ہونے کی بجائے انہوں نے اس ساری تحریک اور اس کے پس منظر یعنی مغربی تہذیب کے رجحانات ہی کو ہدفِ طنز بنانے کا آغاز کیا اور اگرچہ اپنے خانگی معاملات میں انہوں نے مغربی رجحانات کی اس شدو مد سے مخالفت نہیں کی(اکبر الٰہ آبادی نے اپنے صاحبزادے کو اعلیٰ مغربی تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا ،جہاں وہ کئی برس مقیم رہے)تاہم اپنے اشعار میں ہمیشہ ان پر لعنت بھیجتے رہے۔اکبر الٰہ آبادی کی زندگی کے یہ دو متضاد رجحانات اس ’’مجروح شخصیت‘‘ کو ایک حد تک بے نقاب کرتے ہیں جو ان کے طنزیہ کلام کے پس پشت موجود تھی‘‘
( اردو ادب میں طنزو مزاح از ڈاکٹر وزیر آغا صفحہ نمبر ۱۰۶، ۱۰۷)