اکبر الٰہ آبادی نے ایک موقع پر کہا تھا:
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی
لغاتِ مغربی بازار کی بھا کھا سے ضم ہوں گے
لیکن یہ بات خود اکبر کے کلام پر صادق آتی ہے، کیوں کہ ان کے یہاں ’لغاتِ مغربی‘ کا بے دریغ استعمال پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں انگریزی الفاظ کا استعمال جس کثرت اور تنوع کے ساتھ کیا ہے، کسی دوسرے اُردو شاعر نے آج تک نہیں کیا۔
اکبر الٰہ آبادی کو اُردو میں طنز و مزاح کا سب سے بڑا نمائندہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اکبر کا طنزو مزاح اس دور میں رونما ہونے والی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے زیر ِ اثر وجود میں آیا تھا۔ اکبر نے جب آنکھیں کھولیں تو ایک نئی تہذیب کی آمد آمد تھی۔ اُن کے دل میں یہ خیال بلکہ خوف پیدا ہوا کہ یہ نئی تہذیب مشرق کی صدیوں پر انی تہذیب کو ختم کر دے گی۔ مشرقی تہذیب انھیں بے حد عزیز تھی۔ وہ پرانی قدروں کو مٹتا اور ملیامیٹ ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ روحانیت کے قائل تھے۔ یہ نئی یا مغربی تہذیب مادّیت کی پروردہ تھی جسے وہ روحانیت کے علی الرغم تصّور کرتے تھے۔ اکبر کی شاعری کا محور نئی اور پرانی تہذیب کا ٹکراؤ، مغربی اور مشرقی اقدار کی کشمکش نیز مادی روحانی قوتوں کی پنجہ آزمائی ہے۔ اکبر اس نئی مغربی یا مادّی تہذیب کے کھوکھلے پن کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کی اندھی تقلید کو اہلِ قوم کے لئے مُضر تصّور کرتے تھے۔ اسی لئے وہ اس تہذیب کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا چاہتے تھے۔ اس کام کے لئے انھوں نے طنز و ظرافت کا سہارا لیا اور بقولِ آل احمد سرور ’’ہنسی ہنسی میں سینکڑوں نشتر لگائے اور سینکڑوں جلے دل کے پھپھولے توڑے۔ ‘‘ (۱)
اکبر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے مغربی تعلیم ، مغربی تہذیب اور مغربی طرز زندگی کو اپنے طنزو مزاح کا نشانہ بنانے کے لئے ’لغاتِ مغربی ‘ ہی کا سہارا لیا، اور اس میں انھیں بیحد کامیابی حاصل ہوئی۔ اگر ان کے کلام سے انگریزی لفظیات کو خارج کر دیا جائے تو نہ طنز کے وہ نشتر باقی رہیں گے اور نہ مزاح کی وہ چاشنی ہی برقرار رہے گی جو اکبر کے کلام کا طرئہ امتیاز ہے۔
اکبر کے کلام کی انگریزی لفظیات کو دو بڑے حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ موضوغی الفاظ (Content Words)
۲۔ ارتباطی الفاظ (Relational Words)
اکبر کے کلام میں موضوعی الفاظ کی تعداد ارتباطی الفاظ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اکبر نے طنزو ظرافت کا زیادہ تر کام انگریزی کے موضوعی الفاظ سے ہی لیا ہے۔ موضوعی الفاظ معنیاتی اعتبار سے خود کفیل ہوتے ہیں، یعنی ان کی حیثیت آزاد صرفیے ( Free Morphemes) کی ہوتی ہے۔ یہ الفاظ کسی نہ کسی موضوع یا مفہوم کا اظہار ہوتے ہیں۔ اکبر کے کلام میں پائے جانے والے انگریزی کے چند موضوعی الفاظ حسبِ ذیل ہیں:۔
ڈنر، ہوٹل، گزٹ، کالج، کیک، لائف، نیچر، اسپیچ، پارک، لیڈر، پبلک، پائپ، ٹائپ، ٹیبل، کٹلٹ، سوپ، پمپ، سٹی ، پروفیسر، ہال، نیشن، مشین گریجویٹ، اولڈ، کونسل، نیٹو، ووٹر، ممبر، بسکٹ، کمیٹی، کیمپ، کانووکیشن، فلاسفی، فورس، ہسٹری، لیڈی، ڈگری، کلکٹر، کورس، ڈیلی گیٹ، کمشنر، سروس، تھیئٹر، ینگ، لٹریچر، اسٹیج، آنر، لایلٹی، ایڈریس، ہاسٹل، کلرک، انجن، جنٹلمین، مون، جمپ، سوڈا، یونیورسٹی، سلکٹ، رجکٹ وغیرہ۔
(نوٹ: یہ فہرست اور بھی طویل ہو سکتی ہے۔ )
موضوعی الفاظ کے برعکس ارتباطی الفاظ ربطِ کلام کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی قواعدی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ اکبر کے کلام میں انگریزی کے ارتباطی الفاظ کی تعداد محض چند ہے جو یہ ہیں:
اِف، بٹ، انڈر، یٰس، نو، وغیرہ۔
ان الفاظ کے استعمال سے اکبر نے اپنے کلام میں بہت چبھتا ہوا طنز پیدا کیا ہے ، مثلاً:
اجل آئی اکبر گیا وقتِ بحث
اباِف کیجئے اور نہ بٹ کیجئے
ان کے علاوہ انگریزی ضمائر مثلاً ہی، شی، (He, She) وغیرہ کا استعمال بھی اکبر کے کلام میں ملتا ہے:
محبوبہ بھی رخصت ہوئی، ساقی بھی سدھارا
دولت نہ رہی پاس، تو اب ہی ہے نہ شیِ ہے
اکبر اپنے کلام میں انگریزی الفاظ کو اردو الفاظ کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کرتے ، اور نہ ہی ان کی حیثیت مترادفات کی ہوتی ہے بلکہ یہ خود مکتفی (Self-contained) ہوتے ہیں۔ اور ایک مخصوص سیاق و سباق میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اکبر پہلے ایک مخصوص سیاق و سباق تیار کرتے ہیں پھر اس میں انگریزی الفاظ کا نہایت موزوں، بر محل اور چبھتا ہوا استعمال کرتے ہیں جو طنز کے نشتر کا کام کرتا ہے اور اسی سے ظرافت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس سیاق و سباق میں اگر وہ انگریزی الفاظ کی جگہ اردو الفاظ استعمال کرتے تو نہ طنز پیدا ہوتا اور نہ مزاح۔ رشید احمد صدیقی نے اکبر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ان کے یہاں بعض بعض الفاظ کے مخصوص معنی اور مفہوم ہیں جن کو وہ اس لطیف انداز سے اپنے کلام میں لاتے ہیں کہ ان کا پورا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ان کی تشریح کی جائے تو ورق کے ورق سیاہ ہو جائیں اور پھر بھی کافی طور پر دل نشین نہ ہو سکیں۔ ‘‘ (۲)
رشید صاحب نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں جو الفاظ پیش کیے ہیں ان میں اکثریت انگریزی الفاظ کی ہے۔ مثلاً نیٹو، بسکٹ، گزٹ، کالج، ڈنر، اسپیچ، کونسل، کیمپ، پریڈ، کمیشن، ڈارون وغیرہ غالباً یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اکبر کی طنز یہ اور ظریفانہ شاعری میں انگریزی الفاظ کو بنیادی لغات کی اہمیت حاصل ہے۔ وہ طنز و ظرافت کا تانا بانا انھیں الفاظ کی مدد سے تیار کرتے ہیں۔ اکبر کے طنز کو سمجھنے اور ان کی ظرافت سے لطف اندوز ہونے کے لئے اکبر کے انگریزی الفاظ کے سیاق و سباق سے واقفیت بہت ضروری ہے۔ ذیل کے اشعار میں اس قسم کے چند الفاظ کا استعمال ملاحظہ ہو:
یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی
کمیٹیمیں چندے دیا کیجئے ترقی کے ہجّے کیا کیجئے
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکّام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے، مگر آرام کے ساتھ
تھے معزّز شخص لیکن ان کی لائف کیا لکھوں
گفتنی درجِ گزٹ، باقی جو ہے ناگفتنی
اکبر سے میں نے پوچھا اے واعظِ طریقت
دنیائے دوں سے رکھوں میں کس قدر تعلق
اس نے دیا بلاغت سے یہ جواب مجھ کو
انگریز کو ہے نیٹؤ سے جس قدر تعلق
تعلیم کی خرابی سے ہو گئی بلآخر شوہر پرست بیوی ، پبلک پسند لیڈی
صدیوں فلاسفی کی چناں اور چنیں رہی
لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی
انتہا یونیورسٹی پہ ہوئی قوم کا کام اب تمام ہوا
کیا وہ درست ہو، مری نظموں کے فورس سے
فرصت کہاں ہے قوم کو کالج کے کورس سے
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا
اکبر کی شاعری میں انگریزی کے موضوعی الفاظ کے استعمال کے نت نئے انداز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے یہاں لفظ قواعد کی پابندیوں میں جکڑا ہوا محض ایک کلمہ یا جزوِ کلام ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ایک شعری اور اُسلوبیاتی حیثیت بھی ہوتی ہے۔ اکبر کے کلام کے حوالے سے جب ہم لفظ کی شعری اور اسلوبیاتی حیثیت کی بات کرتے ہیں تو ہمارا ذہن سب سے پہلے لغوی اتصال (Lexical Cohesion) کی جانب منتقل ہوتا ہے۔ لغوی اتصال میں ایک لفظ دوسرے لفظ یا الفاظ کے ساتھ صوتی یا معنیاتی سطح پر باہم متصل یا پیوست ہوتا ہے۔ دویا دوسے زیادہ الفاظ کے درمیان صوتی پیوستگی کو صوتی اتصال (Phonological Cohesion) کہتے ہیں۔ اسی طرح دویا دو سے زیادہ الفاظ کے درمیان پائی جانے والی معنیاتی پیوستگی کو معنیاتی اتصال (Semantic Cohesion) کہتے ہیں۔ صوتی اتصال کے سبب تجنیسِ صوتی (Alliteration) اور قافیہ بندی (Rhyming) کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔
اکبر کے کلام میں تجنیسِ صوتی کی مثالیں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں دویا دو سے زیادہ قریب الواقع الفاظ ایک ہی آواز سے شروع ہوتے ہیں، مثلاً ہوٹل اور ہال۔ ان دونوں الفاظ کی ابتدائی آواز/ہ/ ہے۔ اکبر نے ان دونوں الفاظ کا خوبصورت استعمال اپنے اس شعر میں کیا ہے:
کل مستِ عیش و ناز تھے ہوٹل کے ہال میں
اب ہائے ہائے کر رہے ہیں اسپتال میں
تجنیسِ صوتی کی ایک اور مثال کالج اور کورس کے باہمی اتصال میں پائی جاتی ہے۔ اکبر کا یہ شعر دیکھئے:
کیا وہ درست ہو مری نظموں کے فورس سے
فرصت کہاں ہے قوم کو کالج کے کورس سے
صوتی اتصال کی دوسری اہم قسم قافیہ بندی ہے۔ جہاں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کے آخری اجزاء میں صوتی یکسانیت پائی جاتی ہے، مثلاً پائپ اور ٹائپ۔ اکبر کے اِس شعر میں ان الفاظ کا استعمال دیکھیے:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
اکبر کے کلام میں قافیہ بندی کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں:
ٹم ٹم ہوں کہ گاڑیاں کہ موٹر
جس پر دیکھو لدے ہیں ووٹر
یہی مرضی خدا کی تھی، ہم ان کے چارج میں آئے
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ جارج میں آئے
زندگی اور قیامت میں ریلیشن سمجھو
اس کو کالج اور اُسے کانووکیشن سمجھو
کیا کہوں اس کو میں بد بختیِ نیشن کے سوا
اس کو آتا نہیں اب کچھ ایمی ٹیشن کے سوا
قوم سے دوری سہی حاصل جب آنر ہو گیا
تن کی کیا پروا رہی جب آدمی سر ہو گیا
اکبر نے اپنے بعض اشعار میں اُردو اور انگریزی قوافی ایک ساتھ استعمال کیے ہیں۔ مثلاً:
جشنِ عظیم اس سال ہوا ہے شاہی فورٹ میں بال ہوا ہے
(بال/ سال)
شیخ کو الفت ہو گئی مِس کی
خوب پئے اب شوق سے وِھسکی
(مِس کی/ وھسکی)
جو پوچھا میں نے ہوں کس طرح ہے پی
کہاں اُس مِس نے میرے ساتھ مئے پی
(ہے پی/ مَے پی)
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
(بھول/ اسکول)
کیوں کر کہوں طریقِ عمل ان کا نیک ہے
جب عید میں بجائے سویّوں کے کیک ہے
(نیک/ کیک)
جب کئی موضوعی الفاظ معنیاتی اعتبار سے باہم مربوط و متصل ہوں یعنی ان کے درمیان معنیاتی ارتباط و اشتراک پایا جاتا ہو تو اسے معنیاتی اتصال (Semantic Cohesion) کہیں گے۔ اکبر کے کلام میں معنیاتی اتصال کی نہایت عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً ذیل کے لفظی زمرے ملاحظہ ہوں:
۱۔ ہوٹل، ڈنر، سوپ، کاری (=کری) ۔
۲۔ لیڈر، اسپیچ، ووٹ۔
۳۔ کلرک، کلکٹر، کمشنر۔
۴۔ کالج، یونیورسٹی، لکچر، کانووکیشن، گریجویٹ، پروفیسر۔
۵۔ ممبر، اسپیکر، کونسل ، ریزولوشن۔
۶۔ انجن ، ریل، سگنل۔
۷۔ کوٹ، پتلون، بٹن۔
۸۔ نیشن، لیڈر، کونسل۔
۹۔ لٹریچر، ہسٹری، فلاسفی۔
۱۰۔ بائیسکل، موٹر، ایروپلین۔
۱۱۔ ڈاکٹر ، سرجن، آپریشن، اسپتال۔
۱۲۔ سروس، پنشن۔
۱۳۔ سوڈا، لمنڈ، وھسکی، ٹی۔
۱۴۔ جرمن، فرنچ، لیٹن، انگلش۔
صوتی و معنیاتی اتصال کے علاوہ اکبر کے کلام میں قواعدی اتصال (Grammatical Cohesion) کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ کئی موضوعی الفاظ میں جب کوئی قواعدی خصوصیت مشترک ہوتی ہے تو اسے قواعدی اتصال کہتے ہیں۔ مثلاً انگریزی میں صفت بنانے کے لئے alکا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک لاحقہ (Suffix) ہے اگر کئی موضوعی الفاظ ایسے آئیں جن میں –alپایا جاتا ہے تو یہ قواعدی اتصال کہلائے گا۔ اکبر کے کلام میں اس قسم کی بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں، مثلاً سنٹرل، سوشل، پولیٹکل وغیرہ۔
عروجِ قومی، زوالِ قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے
ہمیشہ رد ّو بدل کے اندر یہ امر پولیٹیکل رہا ہے
انگریزی اسماء میں erکا لاحقہ جوڑ کر اسمِ فاعل بناتے ہیں مثلاً ریفارمر، ووٹر، ریڈر، اسپیکر، ریڈر، وغیرہ۔ اکبر نے اپنے کلام میں اس قسم کے الفاظ استعمال کر کے قواعدی اتصال کی بڑی عمدہ مثالیں فراہم کی ہیں، مثلاً:
ٹم ٹم ہو کہ گاڑیاں کہ موٹر
جس پر دیکھو لدے ہیں ووٹر
گردن رِفارمر کی ہر اک سمت تن گئی
بگڑی ہو قوم و ملک کی، اُن کی تو بن گئی
چور کے بھائی گرہ کٹ تو سنا کرتے تھے
اب یہ سنتے ہیں ایڈیٹر کے برادر لیڈر
تمام قوم ایڈیٹر بنی ہے یا لیڈر
سبب یہ ہے کہ کوئی اور دل لگی نہ رہی
اکبر کے کلام میں قواعدی اتصال کی بہت سی ایس مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جن میں لفظ تو انگریزی زبان کا ہے، لیکن قواعدی ہیئت یعنی لاحقہ اردو سے لیا گیا ہے، مثلاً نیچری، لیڈری، کلکڑی، گورنمنٹی، شومیکری، ممبری، وغیرہ۔
ان الفاظ کا انوکھا استعمال شعر کے پیرایے میں دیکھیے:
شاہی وہ ہے یا پیمبری ہے
آخر کیا شے یہ ممبری ہے
کام وہ ہے جو ہو گورمنٹی
نام وہ ہے جوپانیر میں چھپے
جمالِ نیچری درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں شیخم کہ ہستم
شو میکریشروع جو کی اک عزیز نے
جو سلسلہ ملاتے تھے بہرام و گور سے
کہنے لگے ہے اس میں بھی اک بات نوک کی
روٹی ہم اب کماتے ہیں جوتے کے زور سے
یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اکبر نے اردو کے لفظی سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ اس سے نہ صرف زبان میں وسعت پیدا ہوئی ہے بلکہ اظہار کے طریقوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔ اکبر کی لفظیات کے اس انوکھے اور نادر ذخیرے سے بہت سے عصری اور تہذیبی مسائل کو بھی سمجھنے میں ہمیں مدد ملتی ہے۔ لیکن جو بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے زبان کے مروجّہ معیار یا نارم (Norm) سے انحراف کر کے ایک نیا اسٹائل پیدا کیا اور ایک نئے اُسلوب کی بنیاد ڈالی۔ اسلوب کے بارے میں چارلز اوس گڈ (Charles Osgood) کا خیال ہے کہ یہ نارم، یعنی زبان کے مروجّہ معیار سے انحراف (Deviation) کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آتا ہے (۳) اِسی کو دبستانِ پراگ (Prague School) کے ایک ممتاز ماہر لسانیات اور ادبی نقاد مکاروسکی(Mukarovsky) نے فورگروؤنڈنگ (Foregrounding) کا نام دیا ہے (۴) ۔ زبان کا یا کسی لفظ کا کوئی بھی نیا اور انوکھا یا عام قاعدے سے ہٹا ہوا استعمال Foregroundingکے دائرے میں آ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری کی زبان Foregoundedہوتی ہے ، یعنی زبان کے اپنے Backgroundکے برعکس ہوتی ہے زبان کا اپنا Backgroundیا پس منظر روز مرّہ کی زبان یا عام بول چال کی زبان میں صاف جھلکتا ہے، لیکن شاعری کی زبان عام بول چال کی زبان سے مختلف ہوتی ہے اور زبان کے مروجہّ نارم سے انحراف کرتی ہے ،اسی لیے اسے Foregoundingکا نام دیا گیا ہے۔ عام بول چال کی زبان ایک بالکل بندھے ٹکے انداز پر کام کرتی ہے اور ایک روایتی ڈھرے پر چلتی ہے، اور بڑی حد تک روایت زدہ (Conventionalized) ہوتی ہے۔ اس میں تاثراتی یا جمالیاتی عنصر جو ادبی زبان کا وصفِ خاص ہے تقریباً مفقود ہوتا ہے۔ زبان چوں کہ ہمارے شعور کا ایک حصّہ ہے ، اس لیے بول چال کی سطح پر اس کا استعمال بالکل برجستہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بول چال کی زبان میں برجستگی یا خود کاری (Automatization) بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے، جب کہ شاعری کی زبان غیر خود کارانہ (De-Automatized) ہوتی ہے- اس میں غیر خود کارانہ اور شعوری کوششوں کو خاصا دخل ہوتا ہے- اکبر کے کلام میں لغاتِ مغربی سے متعلق بعض تجربات اور امکانات کو ہم زبان کی Foregroundigاور De-antomatizationسے تعبیر کر سکتے ہیں۔
اکبر کے کلام میں لسانی نارم (Norm) سے انحراف کی مثالیں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً اکبر نے انگریزی الفاظ کی جمع اکثر اردو قاعدے کے مطابق بنائی ہے۔ اردو میں اسم جمع بنانے کے دو مروجہ قاعدوں کا اطلاق اکبر نے انگریزی الفاظ کی جمع بنانے پر بھی کیا ہے:
۱۔ حالت فاعلی (Direct Case) میں جمع، اسم کے آخر میں ’’اں‘‘ (الف اور نونِ غنّہ) یا ’’یں‘‘ (ے اور نونِ غنّہ) کے اضافے سے بنائی جاتی ہے۔ اگر کوئی اسم مصوتے (Vowel) ’’ی‘‘ پر ختم ہوتا ہے تو جمع بناتے وقت اس کے آخر میں ’’اں‘‘ لگاتے ہیں، مثلاً لڑکی/ لڑکیاں، اور اگر کوئی اسم مصتمے (Consonant) پر ختم ہوتا ہے تو جمع بناتے وقت اس کے آخر میں ’’یں‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً عورت/ عورتیں۔ کتاب/ کتابیں، وغیرہ۔
اکبر کے کلام میں حالتِ فاعلی کے دونوں طرح کے اسمائے جمع کا استعمال ملتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
ضروری چیز ہے اک تجربہ بھی زندگانی کا
تجھے یہ ڈگریاں بوڑھوں کا ہم سِن کر نہیں سکتیں
(ڈگری/ ڈگریاں)
حرم میں مسلموں، کے رات انگلش لیڈیاں آئیں
پئے تکریمِ مہماں بن سنور کر بیبیاں آئیں
(لیڈی/ لیڈیاں)
ترقی کی تہیں ہم پر چڑھا کیں گھٹا کی دولت، اسپیچیں بڑھا کیں
(اسپیچ / اسپیچیں)
۲۔ حالتِ مفعولی (Objective(کی جمع میں اسم کے آخر میں ’’وں‘‘ (واؤ اور نونِ غنّہ) لگاتے ہیں، مثلاً باغ/ باغوں ، پھول/ پھولوں وغیرہ اس نوع کے اسمائے جمع کے بعد کا، کی، کے، میں، پر، تک، سے ، وغیرہ حروف کا استعمال ہوتا ہے۔ اردو کے اس قاعدے کے مطابق انگریزی الفاظ کی جمع کی مثالیں اکبر کے کلام میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
بہت روئے وہ اسپیچوں میں، حکمت اس کو کہتے ہیں
میں سمجھا خیر خواہ ان کو ، حماقت اس کو کہتے ہیں
(اسپیچ/ اسپیچوں)
مشینوں نے کیا نیکوں کو رخصت کبوتر اڑ گئے انجن کی پیں سے
(مشین/ مشینوں)
مسجدیں سنسان ہیں اور کالجوں کی دھوم ہے
مسئلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے
(کالج/ کالجوں)
ہوئے اس قدر مہذب ، کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جاکر
(ہوٹل/ ہوٹلوں)
لیڈیوںسے مل کے دیکھو، ان کے انداز طریق
ہال میں ناچو، کلب میں جا کے کھیلو ان سے تاش
(لیڈی/ لیڈیوں)
رزولیوشن کی شورش ہے مگر اس کا اثر غائب
پلیٹوںکی صدا سنتا ہوں اور کھانا نہیں آتا
(پلیٹ/ پلیٹوں)
اردو کے شعری ادب میں فارسی کے مرکباتِ اضافی ( Genitive Compounds) کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے جن میں مضاف اور مضاف الیہ کو اضافتِ زیر یا ہمزہ کے ساتھ ترتیب دیا جاتا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے کلام میں ان مرکبات کا کثرت سے استعمال کیا ہے، مثلاً رازِ فطرت، کارِ دنیا یا کشتۂ غم، وغیرہ لیکن انھوں نے یہ جدّت پیدا کی ہے کہ انگریزی الفاظ کے اشتراک سے بھی اضافی مرکبات ترتیب دیے ہیں، مثلاً:
زیبِ ٹیبل، انتظارِگزٹ، ترقئ نیشن، تادیبِ کالج، اربابِ نیشن، پیشِ کمیشن، شہدِا سپیچ، بد بختیِ نیشن، مستحقِ آنر، مے خانۂ رفارم، وغیرہ۔
ان مرکبات میں مضاف الیہ انگریزی لفظ ہے، لیکن بعض دوسرے اضافی مرکبات میں مضاف انگریزی لفظ ہے اور مضاف الیہ عربی و فارسی لفظ، مثلاً اسپیچ وفا، مِس سیمیں بدن وغیرہ۔ کہیں مضاف اور مضاف الیہ، دونوں انگریزی الفاظ ہیں، مثلاً ممبرِ کونسل۔
انگریزی الفاظ پر مشتمل چند اضافی ترکیبوں کا استعمال شعر کے پیرائے میں دیکھیے:
نہ کچھ انتظارِ گزٹ کیجیے جو افسر کہے اس کو جھٹ کیجیے
پارک میں ان کو دیا کرتا ہے اسپیچِ وفا
زاغ ہو جائے گا اک دن آنریری عندلیب
کسی سر میں ہے لیڈری کی ہوس کوئی شہدِ اسپیچ کی ہے مگس
حقیقت میں میں بلبل ہوں مگر چارے کی خواہش میں
بنا ہوں ممبرِ کونسل یہاں مٹھو میاں ہو کر
اک مسِ سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عشق
اس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دل خراش
اکبر کے ہاں مرکباتِ اضافی کی طرح مرکباتِ عطفی (Conjunctive Compounds) کی تشکیل و ترتیب میں بھی جدّت پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی انگریزی الفاظ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ تے۔ مرکبِ عطفی دو الفاظ کے درمیان واوِ عطف داخل کر کے ترتیب دیا جاتا ہے۔ چوں کہ واو عربی سے آیا ہے اس لیے دونوں الفاظ بھی عربی (یا فارسی) کے ہی ہوتے ہیں مثلاً لیل و نہار، شام و سحر، شب و روز وغیرہ۔ اکبر نے واوِ عطف کے ساتھ کبھی ایک انگریزی لفظ اور کبھی دونوں انگریزی الفاظ لے کر عطری مرکبات تشکیل دیے ہیں ، مثلاً پیری و نپشن، اس میں پہلا لفظ فارسی ہے اور دوسرا انگریزی، لیکن آنر و دولت میں پہلا لفظ انگریزی اور دوسرا لفظ عربی ہے۔ اکبر کے ہاں بعض ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں دونوں الفاظ انگریزی زبان کے ہیں مثلاً نیچر و سائنس۔ شعر کے پیرائے میں اس نوع کی چند مثالیں دیکھیے:
عوام باندھ لیں دو ہر کو تھرڈ و انٹر میں ۔ سکنڈ و فرسٹ کی ہوں بند کھڑکیاں کب تک
ابھارے رکھتا ہے اکبر کے دل کو فیضِ سخن اگر چہ پیری و نپشن کی آمد آمد ہے
اکبر اس اندیشے میں رہتا ہے غرق کافر و نیٹؤ میں ہے تھوڑا ہی فرق
اکبر نے انگریزی کے بعض الفاظ میں ذو معنیت بھی پیدا کی ہے، مثلاً یہ شعر دیکھیے:
کالج میں دھوم مچ رہی ہے پاس پاس کی
عہدوں سے آ رہی ہے صدا دور دور کی
اس میں صنعتِ تضاد کا بھی ایک خوبصورت پہلو نکلتا ہے، ذو معنیت کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
قوم سے دوری سہی حاصل جب آنر ہو گیا
تن کی کیا پروا رہی جب آدمی سر ہو گیا
اکبر کے کلام میں انگریزی کے مفرد الفاظ کے علاوہ مرکب الفاظ بھی پائے جاتے ہیں ، مثلاً سلف رسپکٹ، ایرشپ، انگلش ڈریس، سول سروس، وغیرہ۔
عکسِ صوت و حروف بھی اکبر کے کلام کی ایک اہم اسلوبیاتی خصوصیت ہے اکبر نے بعض اشعار میں حروف کی ترتیب الٹ دی ہے۔ مثلاً ایک مصرع میں انھوں نے پہلے انگریزی حروف تہجّی اے، بی (A, B) کا استعمال کیا، لیکن پھر اس کی ترتیب الٹ دی اور اسے بی۔ اے (B, A) کر دیا۔ اس عکسِ ترتیب سے شعر گنجینۂ معنی کا طلسم بن گیا ہے، وہ شعر یہ ہے:
عاشقی کا ہو بُرا، اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے۔ بی میں رہے اغیار بی۔ اے ہو گئے
بعض اردو الفاظ میں بھی اکبر نے یہی جدّت پیدا کی ہے، مثلاً تادیب کالج میں انھوں نے دیب کے حروف کی ترتیب الٹ دی ہے جس سے دیب ، بید بن گیا ہے۔ شعر ملاحظہ کیجئے:
کیوں نہ ہو تا دیبِ کالج بے ثمر
کس نے دیکھا بید کو پھلتے ہوئے
لسانیاتی ادب میں اُسلوب کی جتنی بھی تعریفیں ملتی ہیں ان میں زبان کا حوالہ ضرور پایا جاتا ہے، یعنی لسانیات و اسلوبیات میں اسلوب کی تمام تر تعریفیں زبان کے حوالے سے ہی کی جاتی ہیں، نہ کہ شخصیت کے حوالے سے اور (۵) زبان کے استعمال میں انفرادیت سے ہی کسی ادیب کے اسلوب کی انفرادیت کی نشان دہی کی جاتی ہے اکبر کے کلام میں’ لغاتِ مغربی ،‘ کے استعمال سے ایک ایسا اُسلوب معرضِ وجود میں آیا جو انھیں پر ختم ہو گیا۔ اکبر الٰہ آبادی کو اس وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے انگریزی الفاظ کے امتزاج سے ایک نئے اور انوکھے اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی اور اپنی جدّت طبع سے اس اسلوب کو انفرادی رنگ بخشا تھا۔
حواشی و حوالے:
۱۔ آل احمد سرور، ’’اکبر اور سر سید‘‘ مشمولہ نئے اور پرانے چراغ (آل احمد سرور) ، لکھنؤ: ادارۂ فروغِ اردو، ۱۹۵۵ ء ص ۲۱۹۔
۲۔ رشید احمد صدیقی، طنزیات و مضحکات، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ۱۹۷۳ء، ص ۱۲۳۔
۳۔ چارلز اوس گڈ ، بہ حوالہ نلز ایرک انکوسٹ اور دوسرے، Linguistics and Style، لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۱ ء، ص ۲۳ (حاشیہ) ۔
۴۔ دیکھیے ژاں مکارووسکی، Standard Language and Poetic Language، مشمولہ A Prague School Reader on Esthetics, Literary Structure and Styleمرتبہ پال گارون (اصل زبان چیک سے ترجمہ جسے پال گارون نے کیا) واشنگٹن ڈی سی: جارج ٹاؤن یونیورسٹی پریس، ۱۹۶۴ ء۔
۵۔ فرانسیسی مصنف اور دانشور بفون (Buffon) نے فرنچ اکیڈ می کے ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “Style is the man himself“۔