تایا ابو کا یوں چلے جانا اگرچہ اچانک نہیں تھا، مگر بہت بڑا صدمہ تھا۔ کتنے دنوں تک تو صبا سنبھل ہی نہ سکی تھی۔ راجیہ باجی باپ کی وفات کی خبر سن کر فوراً پاکستان آ گئیں۔ چند ہفتے ٹھہریں، مگر کب تک اپنا گھر بار چھوڑ کر وہ یہاں ٹھہری رہتیں۔ وہ صبا کو آنے والی زندگی سے متعلق ہزاروں نصیحتیں کرتے ہوئے روانہ ہو گئیں۔ صبا کے آنسوئوں میں آہستہ آہستہ کمی آنے لگی۔
اسد صبا کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتا رہا۔ اس کے احساسات و جذبات کا خصوصی خیال رکھتا تھا۔ وہ غیر محسوس انداز میں اسد پر انحصار کرنے لگی تھی۔ اسد کی موجودگی ڈھارس دیتی تھی اور جب اسد نے تایا کی وفات کے بعد دوبارہ سے آفس جانا شروع کیا تو صبا تنہائی کے احساس میں گھرتی چلی گئی تھی۔ وہ جتنی دیر تک گھر سے باہر رہتا وہ مختلف اوہام و تفکرات کا شکار ہو کر ہولتی رہتی، جب وہ گھر آتا تو اسے لگتا وہ کسی مضبوط سائبان کے سائے میں آ گئی ہے۔
وہ ایک ذمہ دار منصب پر فائز تھا اور اس کے ذمے آفس کی طرف سے ایک خاص پروجیکٹ تھا۔ جس کی کامیابی کی صورت میں اسے کراچی کمپنی کی برانچ کا انچارج بنا کر بھیجے جانے کے لیے بہت امکانات تھے۔ اس میں اسے کافی مراعات ملنے کی توقع تھی۔ اس کا پروجیکٹ پاس ہو گیا اور اسے کراچی شفٹ ہونے کے احکامات مل گئے تھے۔
مجتبیٰ حسن کی وفات کے بعد یہ پہلی خوشخبری تھی، وہ خاصا مسرور سا گھر لوٹا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ صبا سو گئی ہو گی، مگر جب وہ اندر آیا تو صبا کو ٹی وی لائونج میں بیٹھے دیکھ کر رُک گیا۔
’’السلام علیکم!‘‘ صبا نے خاموشی سے اسے دیکھ کر سر ہلا دیا۔
پہلے پہل تو صبا اس کی آمد سے قطعی بے پروا رہتی تھی، مگر تایا ابو کی وفات کے بعد وہ ہمیشہ گھر آنے پر اسے اپنی منتظر ملی تھی۔
’’کھانا کھائیں گے؟‘‘ وہ کھڑی ہوئی۔
’’نہیں… سوری میں صبح بتانا بھول گیا تھا کہ آج میٹنگ تھی۔ اسی لیے لیٹ ہو گیا اور ڈنر بھی وہیں کر لیا تھا۔‘‘ صبا کے چہرے پر اک تاریک سا سایہ لہرا گیا تھا۔
’’اگر چائے مل جائے تو۔‘‘ وہ خاموشی سے سر ہلا کر کچن کی طرف چلی آئی۔
اسد کے لیے چائے بناتے ہوئے وہیں کھڑے کھڑے عجلت میں چند لقمے لینے لگی۔ چائے دم پر تھی، جب اس نے آخری لقمہ لیا تھا۔
’’تم نے کھانا نہیں کھایا تھا؟ مائی گاڈ! رات کے بارہ بج رہے ہیں اور تم ابھی تک بھوکی بیٹھی ہوئی تھیں۔‘‘ وہ برتن سنک میں رکھ رہی تھی کہ اسد کی آواز پر چونک کر پلٹ کر دیکھنے لگی۔ وہ نہ جانے کب آ کھڑا ہوا تھا اور اب شرمندگی سے بول رہا تھا۔
’’بس یونہی پہلے بھوک نہیں تھی، ابھی لگی تو کھا لیا۔‘‘ وہ جس انداز میں کھڑا تشویش زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، وہ صرف یہی کہہ سکی تھی۔ اسد کو اتنا لیٹ ہونے پر ملال ہوا تھا۔
’’ایم سوری… مجھے تمہیں بتا دینا چاہیے تھا کہ میں لیٹ ہو جائوں گا، بس یاد نہیں رہا۔‘‘ وہ خاموشی سے مگ میں چائے ڈالنے لگی تو اسد کو اس کا انداز خاصا مضطرب لگا۔
’’کمرے میں ہی لے آئو۔‘‘ وہ کہہ کر پلٹ گیا تو وہ مگ لیے کمرے میں چلی آئی۔ اسد کپڑے بدل کر آستین کہنیوں تک لپیٹتے ہوئے بستر پر آ بیٹھا۔
’’مجھے اندازہ ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا ہوں۔ تمہیں زیادہ وقت نہیں دے پا رہا، ایم سوری! آئندہ ایسا نہیں ہو گا، میں کوشش کروں گا کہ وقت پر گھر آ جایا کروں۔‘‘
’’مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔ میں آپ کے فرائض اور جاب کے مسائل سمجھ سکتی ہوں۔ بے فکر رہیں، میں مطمئن ہوں۔‘‘ بظاہر صبا کے الفاظ سادہ تھے، مگر اسد کو ان میں خود اذیتی کی کیفیت محسوس ہوئی تھی۔
’’ایک خبر ہے، میرے لیے تو یہ ایک اہم نیوز ہے۔ مجھے کراچی کی نئی برانچ کے انچارج کے طور پر شفٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘ کچھ توقف کے بعد اسد نے کہا تو وہ چونک کر اسد کو دیکھنے لگی۔ ایک دم تکلیف کے گہرے آثار صبا کے چہرے پر واضح پڑھے جا سکتے تھے، وہ لب بھینچ گئی۔
’’میں نے اس پرجیکٹ کے لیے بے پناہ کوشش کی ہے، دن رات کی تمیز کے بغیر تمام صلاحیتیں استعمال کی ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ یہ میری زندگی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ میں خود بھی کراچی شفٹ ہونا چاہتا تھا۔‘‘
وہ بتا رہا تھا اور صبا کے اندر صدمے سے نڈھال ہو جانے والی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ یعنی وہ اسے چھوڑ کر جا رہا تھا۔ وہ گم صم سی خالی مگ لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اسد نے دزدیدہ نظروں سے صبا کے چہرے کے تاثرات جانچنا چاہے، مگر وہ اس کے ہاتھ سے بھی خالی مگ لیے باہر نکل گئی تھی۔
اس کے جواب نہ دینے پر وہ کچھ پریشان سا ہو گیا۔ اس کے اور صبا کے درمیان اجنبیت کی دیوار رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بھی بدستور قائم تھی۔
وہ کیسے اسے اپنے وجود اپنے ہونے کا احساس دلاتا، جبکہ اول روز سے صبا کا رویہ اس کے ساتھ ایک اجنبی کا سا تھا۔ اس نے اپنے اور اس کے درمیان اونچی اونچی دیواریں قائم کر رکھی تھیں۔ وہ اس کی ناراضی کی وجہ سمجھ رہا تھا۔ وہ بستر پر آ کر لیٹی تو اس نے مخاطب کیے بغیر کہا۔
’’ٹھیک ہے میں نے لاپروائی برتی، مگر تمہاری ذمہ داری سے کب انکار کیا ہے میں نے۔‘‘ صبا بغیر جواب دئیے کروٹ بدلے رو رہی تھی، اس نے بے چین ہو کر پکارا۔
’’صبا…‘‘ اسد نے ایک دم اس کا رُخ اپنی طرف کیا۔
’’صبی!‘‘ اس کی پکار میں دل کے سارے جذبے بندھ آئے تھے۔ دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر وہ اس پر جھکا اور صبا کے آنسو اس کے رُخساروں پر ہی ٹھہر گئے تھے۔
’’میں نے اگر بحالت مجبوری آپ کو قبول کیا تھا تو آپ نے بھی مجبوراً یہ زہر کا پیالہ بھرا تھا۔ ہم دونوں کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ آپ تایا ابو کو خوش کرنا چاہتے تھے اور مجھے بہرحال سر چھپانے کے لیے چھت چاہیے تھی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے اپنی غرض میں آپ کو قبول کیا ہے تو آپ کوئی حتمی فیصلہ کر لیں۔ چھوڑ دیں مجھے۔‘‘
وہ اس وقت جذباتیت کی انتہا پر تھی، جو منہ میں آیا کہتی چلی گئی۔
’’پلیز صبا! چپ ہو جائو، تمہیں اندازہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟ یہ رشتہ میں نے صرف ابو کی خواہش پر نہیں باندھا، دل کی پوری رضامندی سے تمہیں اپنایا ہے۔ تم میری اولین خواہش تھیں صبا۔‘‘
وہ آج اس کے سامنے ہار گیا تھا۔ جو جذبے برسوں دل کے نہاں خانوں میں چھپا کر رکھے تھے، آج اس پر آشکار کر دئیے تھے۔ مگر دوسری طرف وہ متوجہ ہی نہیں تھی۔ اس قدر خوبصورت اظہار پر بھی اس کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہ ہوا۔
’’صبا…‘‘ محبت و لگاوٹ سے اسے پکارتے ہوئے اسد نے دونوں کے درمیان قائم خود ساختہ انا کی دیوار کو گرانے میں پہل کرنا چاہی تھی۔ اس کے وجود کو اپنے مضبوط بازوئوں کے حصار میں لیا تھا۔
’’آپ مجھے چھوڑ کے چلے جائیں گے؟‘‘ اس نے بہت کرب سے پوچھا تھا اور جواباً اسد حیران رہ گیا۔
’’ہر گز نہیں میں بھلا تمہیں کیوں چھوڑ کر جائوں گا، تم ہر جگہ میرے ساتھ رہو گی۔‘‘ اس نے بے یقینی سے دیکھا۔
’’وہاں مجھے رہائش مل رہی ہے، تم بس پیکنگ کرو، تم میرے ساتھ چلو گی۔‘‘
اسد نے اسے بھرپور الفاظ اور انداز میں یقین دلانے کی کوشش کی، مگر اس نے کچھ نہ کہا، بس تھوڑی دیر تک دیکھتی رہی، پھر کروٹ بدل کر آنکھیں موند لیں۔
پشمینہ اور زوار خان کی شادی ہو گئی تھی۔ بی بی جان مطمئن تھیں۔ پشمینہ اور زوار خان ان کے پاس تھے۔ دونوں کو بے پناہ خوش دیکھ کر بی بی جان کے دل کے اندر اطمینان سرایت کرتا جا رہا تھا۔ صارم کے دُکھ کے بعد ان کی ساری اُمیدیں تینوں بیٹیوں کی خوشیوں سے ہی وابستہ تھیں۔
سب لوگ کہتے تھے کہ صارم اس دنیا میں نہیں مگر ان کا دل اس حقیقت کو نہیں مانتا تھا۔ حتیٰ کہ خان زکاء اللہ خان بھی اس حقیقت کو مان چکے تھے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے، مگر ان کی ممتا کو ایک یقین تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں ضرور ہے۔ دنیا کے کسی گوشے، کسی کونے میں وہ سانس لے رہا ہے۔ وہ اس کے وجود کی حرکت ابھی بھی اپنے وجود میں محسوس کرتی تھیں۔
بی بی جان ملازمہ سے اپنی الماری کی صفائی کروا رہی تھیں۔ جب ان کی نگاہ سرخ مخملیں البم پر پڑی۔
’’میراں! یہ البم نکال دو ذرا۔‘‘ میراں نے البم نکال دیا۔ وہ اسے لے کر بستر پر بیٹھ گئی تھیں۔ یہ ان کے بچوں کی تصاویر پر مشتمل پرانا البم تھا۔ کئی تصویروں کو دیکھتے ہوئے ایک تصویر پر ان کی نظر جم گئی تھی۔
خان صاحب نے صارم کو گود میں اُٹھایا ہوا تھا، جبکہ پلوشے ان کی گود میں تھی۔ زرمینے بڑی تھی، وہ ان کے پہلو میں کھڑی تھی۔ البتہ پشمینہ بعد میں پیدا ہوئی تھی، اس لیے وہ تصویر میں نہیں تھی۔
ان کی آنکھیں نم ہونے لگیں تو انہوں نے اگلی تصویر پر نگاہ ڈالی۔ موٹی موٹی آنکھوں والا دو سالہ صارم واکر میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے بے اختیار تصویر کو ہونٹوں سے چھو لیا۔
’’بی بی جان! زوار، سجاول لالہ کے پاس جا رہے ہیں، مجھے بھی ساتھ لے جا رہے ہیں۔‘‘
پشمینہ ایک دم کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔ روانی میں کہتے ہوئے وہ اچانک رُک گئی۔
’’بی بی جان! آپ رو رہی تھیں؟‘‘ اس کی نگاہ ان کے چہرے سے ہوتی سامنے کھلے البم پر پڑی تو پل میں سارا ماجرا سمجھ گئی۔
’’کتنی بار کہا ہے آپ کو، بی بی جان! کہ مت رویا کریں اور یہ البم آپ کو کس نے نکال کر دیا ہے، میں نے سب سے اوپر دراز میں چھپا کر رکھا تھا۔‘‘
وہ بی بی جان کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی۔
’’تم کیا کہہ رہی تھیں۔‘‘ انہوں نے خود کو سنبھالا تھا۔
’’زوار بتا رہی تھی وہ سجاول لالہ کے ہاں ساتھ چلنے کی ضد کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں چند دن کی بات ہے، آئوٹنگ ہو جائے گی۔‘‘
’’ضرور جائو، یہی دن تو ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے۔‘‘
’’پھر میں زوار سے کہہ دیتی ہوں کہ وہ انتظامات کر لیں؟‘‘ انہوں نے خاموشی سے سر ہلا دیا تھا۔
’’بی بی جان! یہ البم میں اپنے کمرے میں لے کر جا رہی ہوں۔ اب آپ کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گی۔ خوا مخواہ آپ طبیعت خراب کر لیتی ہیں اپنی۔‘‘ اس نے البم اپنے قبضے میں کر لیا۔ بی بی جان نے کچھ کہنا چاہا، مگر پھر خاموش ہو گئیں۔
تصویریں نظروں سے اوجھل ہو سکتی تھیں، مگر جو تصویر دل پہ نقش تھی، اس کو وہ کیونکر دور کر سکتی تھیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...