وقار نے جس شخص کو سميع کے پيچھے لگا رکھا تھا۔ وہ چند دن سے بڑی خاموشی سے اس کا پيچھا کررہا تھا۔ اس وقت بھی وہ اپنی گاڑی کو اس انداز ميں اسکے گھر کے سامنے روک کر کھڑا تھا کہ آنے جانے والے نوٹ نہ کرسکيں۔
ويسے بھی اب اوبر اور کريم کی گاڑيوں کو جگہ جگہ کھڑے ديکھنے کی وجہ سے لوگوں کو اس قدر عادت ہوچکی ہے کہ اسکی گاڑی کو وہاں کھڑے ديکھ کر کسی نے نوٹس نہيں ليا۔
سميع جو کچھ دير پہلے ہی اندر گيا تھا۔ اب باہر نکل کر اپنی گاڑی ميں کہيں جانا کا ارادہ رکھے ہوۓ تھا۔
اس سے پہلے کے شرافت اپنی گاڑی سٹارٹ کرکے اس کے پيچھے لگاتا۔ اس کی جانب والی کھڑکی بجی۔
اس نے کوفت زدہ انداز ميں گردن گھما کر ديکھا تو ايک خوش شکل نوجوان وہاں موجود تھا۔
اس نے بيزاری سے شيشہ نيچے کيا۔
"کيا ہے؟”
"ارے بھائی۔۔ اتنے غصے ميں کيوں ہو۔ ميں نے پوچھنا تھا کہ يہ ٹيکسی ہے يا ويسے ہی کھڑے ہو؟” اس اجنبی نوجوان کے سوال پر اس نے تيوری چڑھائ۔
"تجھے کيا تکليف ہے ۔۔ ٹيکسی ہو يا کچھ اور؟” وہ سميع کو فالو نہ کرنے کا غصہ اس پر نکال رہا تھا۔
"ارے بھائ۔۔ ميں تو اسی لئے پوچھ رہا تھا۔ کہ اگر ٹيکسی ہی ہے۔ تو مہربانی کرکے ذرا مين روڈ تک چھوڑ دو۔ وہ ميرا بائيک کھڑا ہے کچھ خرابی ہے۔ مين روڈ سے کسی ميکنک کو بلاؤں گا تاکہ وہ ٹھيک کردے۔ اور تم جانتے ہو کہ مين روڈ يہاں سے کافی دور ہے۔ کافی دير سے بائيک گھسيٹ کر لا رہا ہوں اب ہمت نہيں۔ وہ سامنے والے گھر کے چوکيدار کو بائيک کی رکھوالی کے لئے کہا ہے۔ تب تک وہ دھيان کرے گا۔ پليز ديکھو کسی ضرورت مند۔۔۔”
"اچھا۔۔ اچھا۔۔ بکواس کم کرو۔۔ آؤ بيٹھو” اس سے پہلے کے وہ ترلے واسطوں پر آتا شرافت کو مجبورا اسے گاڑی ميں بٹھانا پڑا۔
وہ نوجوان شکريہ کہہ کر جلدی سے بيٹھ گيا۔
نجانے اب سميع کہاں ہوگا۔
شرافت اپنی ہی سوچ پر جھنجھلايا۔
"بھائ۔ کہاں رہتے ہو؟” نوجوان نے پھر سے بے تکلف ہونا چاہا۔
"اپنے کام سے کام رکھو” شرافت پھر سے تلخی سے بولا۔
"ارے يار۔۔ تم کون سا لڑکی ہو جوبتاتے ہوۓ غصے کھا رہے ہو” اس لڑکے نے شرافت کی بات کو مذاق ميں اڑايا۔
شرافت نے ايک کڑی نگاہ اس پر ڈالی۔
مين روڈ آنے ہی والی تھی جب اس لڑکے نے کوئ شيشی اپنی جيب سے نکال کر اسپرے کيا۔
"يہ کيا کررہے ہو؟” شرافت نے مشکوک نظروں سے اسے اس شيشي سے اسپرے کرتے ديکھ کر کہا۔
"يار عجيب سی بدبو آرہی تھی تمہاری گاڑی ميں۔ يہ ميرا پرفيوم ہے ۔ سوچا اسپرے کروں” اس نوجوان کی پوری بات بھی وہ سن نہيں سکا تھا کہ آہستہ آہستہ اس کا دماغ بند ہونے لگا۔
نائل نے بہت احتياط سے اسٹيرنگ کو تھام کر گاڑی کو ايک جانب لے جاکر روکا۔
ايک ہاتھ سے اسٹئيرنگ تھام رکھا تھا اور ايک ہاتھ سے شرافت کو۔
گاڑی روکتے ہی اسکی سيٹ پيچھے گرا کر۔
اسے پچھلی والی سيٹ کی جانب دھکيلا۔ اور محتاط نظروں سے ادھر ادھر ديکھتے ڈرائيونگ سيٹ سنبھالی۔
ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھتے ہی سميع کو کال ملائ۔
"ہيلو۔۔ ہاں ميں نے قابو کرليا ہے۔ تم بھی اڈے پر پہنچو اور ميں اسے بھی وہيں پہنچا رہا ہوں۔” نائل نے گاڑی سٹارٹ کرتے۔ سميع کو ہدايات ديں۔
"ہاں يار مجھے پورا يقين ہے يہ وقار کا ہی بندہ ہے۔ فکر مت کرو۔ اس کا موبائل اب ميری تحويل ميں ہے۔ جتنی دير اسے سے بات کررہا تھا۔ اس کا لہجہ ريکارڈ کرليا ہے۔ اب اسی لہجے ميں بات کرکے وقار کو پاگل کروں گا” بڑے مزے سے اپنی کاروائ بتا کر ہنسا۔
"باس آپ تو پھر آپ ہيں” فون کے دوسری جانب موجود سميع نے اسے سراہا۔
"شکريہ شکريہ۔ اچھی طرح اسکی سيوا کرنا” کن اکھيوں سے پيچھے ديکھا۔ جہاں شرافت بے ہوش تھا۔ اور دو گھنٹوں سے پہلے وہ ہوش ميں آنے والا بھی نہيں تھا۔
________________________
اگلے دن شام ميں مہک کی فلائيٹ تھی۔
"تم پريشان مت ہونا۔۔ ان شاءاللہ ميں کل شام ميں آجاؤں گی۔ بہت اہم میٹنگ نہ ہوتی تو تمہارے اکيلے رہنے کی وجہ سے ميں کينسل کرديتی” مہک جانے کے لئے تيار کھڑی تھيں۔
يماما سے ملتے ہوۓ محبت سے کہنے لگيں۔
"ممی ميں اور بابا کافی شريف مردوں ميں شمار ہوتے ہيں” نائل ماں کی بات سن کر خود کو کوئ شگوفہ چھوڑنے سے روک نہ سکا۔
"جی جی بالکل۔۔ تمہيں تو واپس آکر بتاؤں گی” انہوں نے جس معنی خيزی سے پہلے نائل اور پھر يماما کو دیکھا وہ يماما کو کافی کنفيوزڈ کرگيا۔
"ہہہمم۔۔ چليں بيگم اب” شمس نے شرارتی مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ گلا کھنکھار کر کہا۔
"آپ کو پانی تو نہيں چاہئيے” نائل نے شمس کو گھوری ڈالتے ہوۓ کہا۔
"نہيں بيٹا جی۔۔ تمہيں جلد ہی اس کی کافی ضرورت محسوس ہوگی لہذا ابھی خاطر جمع رکھو” شمس بھی ذومعنی انداز اپناتے ہوۓ بولے۔
"يہ آپ دونوں کيا کورڈ ورڈز ميں باتيں کررہے ہيں” مہک نے مشکوک نظروں سے دونوں کو ديکھا۔
ان دونوں نے جب مہک سے کوئ بات چھپانی ہوتی يوں ہی ذومعنی جملوں کا تبادلہ کرتے۔ اب تو مہک کو کافی حد تک ان کی حرکتوں کی سمجھ آجاتی تھی۔
"ارے کچھ نہيں تم چلو” انہوں نے فورا بات بدلی۔ اور مہک کو لئے گاڑی کی جانب بڑھے۔
نائل گھر پر ہی رکا جبکہ شمس مہک کو ائير پورٹ ڈراپ کرنے جارہے تھے۔
"آپ دونوں ايک دم مجھے آنٹی کے سامنے شرمندہ کرديتے ہيں” ان کے جاتے ہی يماما نے نائل کو سرزنش کی۔
"تم کيوں شرمندہ ہوتی ہو۔۔ محبت اور شادی کون سا جرم ہے” نائل نے اسکی بات کو ہوا ميں اڑايا۔
يماما ايک خفگی بھری نظر اس پر ڈالتی اندر کی جانب بڑھ گئ۔
رات ميں کھانا کھا کر نائل نے اس سے کافی کی فرمائش کی۔
"کافی لے کر ميرے روم ميں آجانا” ڈائيننگ ٹيبل سے اسے اٹھتا ديکھ کر نائل نے کہا۔
يماما کو يوں بے دھڑک شمس کے سامنے اس کا يوں کہنا شرمسار کرگيا۔
کچا چبانے والی نظر اس پر ڈال کر وہ کچن ميں چلی گئ۔
جبکہ شمس شرارتی نظروں سے نائل کی جانب ديکھ رہے تھے۔
نائل انکی نظروں سے بخوبی واپس تھا۔
کچن ميں جاتی يماما سے نظر موڑ کر اب شمس کی شرارتی مسکراہٹ کو ديکھا۔
تو اسکے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔ ‘
"آپ کيوں مجھے اتنی محبت بھری نظروں سے ديکھ رہے ہيں۔ ميری شکل ہر گز ممی سے نہيں ملتی کہ آپ يوں محبت لٹاتی نظروں سے مجھے ديکھ کر ممی کو ياد کريں” وہ بھی نائل تھا کہاں کسی کے ہاتھ آتا تھا۔
"بڑے فاسٹ چل رہے ہو۔ ميری اطلاع کے مطابق۔۔ ہم نے ابھی يماما کی رخصتی نہيں کی۔۔ جو يہ فرمائشی پروگرام چل پڑے ہيں” انہوں نے جيسے اس کی توجہ اصل بات کی جانب دلائ۔
"ميں اس سے چند باتيں کرنا چاہتا ہوں۔۔ آپ پتہ نہيں کہاں کی باتيں کررہے ہيں۔۔ اور جس قدر وہ جنگجو ہے۔۔ اگر ميں کوئ رومانٹک بات کرنا بھی چاہوں۔ تو وہ مجھے گھورياں ڈال ڈال کر ايسے رومانٹک باتيں بھلاتی ہے جيسے کوئ سبق ياد کرنے پر بچہ اپنے کھڑوس استاد کو سناتے وقت سب بھول جاۓ۔ بس استاد کی گھورياں ياد رہتی ہيں” وہ بے چارگی سے اپنے حالات شمس سے شئير کررہا تھا۔
جس پر وہ کھل کر ہنسے۔
"آپ ہنس رہے ہيں۔ يہ نہيں ہوا کہ بيٹے کو کوئ گر سکھائيں کہ کيسے بدکی ہوئ بيوی کو قابو کرنا ہے” وہ شمس کو ہنستے ديکھ کر افسوس سے سر ہلا کر بولا۔
"حد ادب ۔۔۔ وہ بہو ہے ميری۔۔ خبردار جو اسے کسی جانور سے ملايا۔۔ لڑکی ہے يا گھوڑی۔۔ ايسی فضول تشبيہات دو گے تو اگلے سو سال تک وہ تمہارے ايسے بھونڈے رومانس سے امپريس نہيں ہوگی۔” اس کے بدکی ہوئ کہنے پر شمس نے اس کی ٹھيک ٹھاک کلاس لی۔
"توبہ کريں سو سال۔۔
کون جيتا ہے تيرے زلف کے سحر ہونے تک۔۔
آپ نے تو اس شعر والی بات کردی۔” نائل بدمزہ ہوا۔
"تو انسانوں کی طرح رومانس کرو” شمس نے اسے پتے کی بات بتائ۔
"ميں انسانوں کی طرح کروں يا جانوروں کی طرح مسئلہ يہ ہے کہ وہ ہر گز امپريس نہيں ہوتی” نائل نے ايک اور مسئلہ رکھا۔
"اب اتنے بڑے گھوڑے ہو کر بھی يہ سب ميں تمہيں بتاؤں تو تف ہے تمہاری جوانی پر” شمس اس کے دکھڑوں سے متاثر نہيں ہورہے تھے۔
کھانا ختم کرتے ہی انہوں نے نيپکن سے منہ صاف کيا۔
اور اپنے سامنے بيٹھے اپنے خوبرو بيٹے کو ديکھا۔ بليو فل سليوز کی شرٹ اور آرام دہ ٹراؤذر پہنے۔ آنکھوں ميں خوبصورت سی چمک لئے۔ ہلکی سی بڑھی ہوئ شيو کے ساتھ اسکے تيکھے نقوش کسی بھی لڑکی کا دل پگھلادينے کی صلاحيت رکھتے تھے۔
"اب مجھے گھوڑا کون کہہ رہا ہے” اس نے خشمگيں نظروں سے شمس کو ديکھا۔
"گھوڑی کے ساتھ گھوڑا ہی جچتا ہے۔ کھوتا نہيں” شمس اس کا مزيد دل جلا کر کرسی گھسيٹ کر اٹھ کھڑے ہوۓ۔
"گڈ لک” اٹھتے ہوۓ اس کا کندھا تھپکا۔ ان کے لہجے ميں چھپی محبت نے اسے اندر تک سرشار کيا۔
اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوۓ بھی وہ مڑ کر اسے تھمبس اپ کا اشارہ کرکے گۓ۔
_____________________
کچھ دير بعد يماما کافی کے دو مگ ٹرے ميں سجاۓ کچن سے باہر آئ۔
نائل وہاں موجود نہيں تھا۔ ملازم کھانے کے برتن اٹھا رہا تھا۔
يماما خاموشی سے سيڑھيوں کی جانب بڑھی۔
سيڑھياں چڑھ کر نائل کے کمرے کی جانب آئ۔
ايک ہاتھ ميں ٹرے تھام کر ہولے سے ناک کيا۔
کم ان کی آواز پر دروازہ دھکيل کر اندر داخل ہوا۔
نائل اپنے فرشی بيڈ پر نيم دراز کوئ کتاب پڑھنے ميں مگن تھا۔
"ادھر ہی آجاؤ” يماما کو تذبذب کے عالم ميں کھڑے ديکھ کر کہا۔
سيدھا اٹھ کر بيٹھا۔
يماما نے جھک کر ٹرے رکھی اور اس کے مقابل بيٹھ گئ۔
نائل نے کافی کا کپ پکڑ کر پہلا سپ ليا۔
"ہمم۔۔ ڈيليشيس” بے اختيار تعريف کی۔ يماما ہولے سے مسکرائ۔
"جس رات ميں شہنشاہ کے روپ ميں تمہارے فليٹ ميں آيا تھا۔ تب بھی تم کافی بنا رہی تھيں۔ بہت دل کيا تھا تمہارے ہاتھ کی بنی کافی پينے کو۔ مگر تمہارے تيور کہتے تھے کہ يہ کافی پلانے کی بجاۓ گرم گرم کافی تم پر انڈيل دے گی” نائل مزے سے اس رات کی حکايت شئير کررہا تھا۔
"اس رات وہ لائٹ آپ نے بند کی تھی۔؟” يماما نے بھی سوال کيا۔
"ہاں نا۔۔ ” نائل نے بھی مزے سے اعتراف کيا۔
"اور اس رات ميرا دل کيا تھا دہاڑيں مار مار کر رونے کا۔۔ کہ مجھ پر دل آيا بھی تو ايک غنڈے اور دہشتگرد کا” يماما کی بات پر وہ بے اختيار قہقہہ لگا اٹھا۔
"تمہاری يہ صاف گوئ ہی مجھے ہميشہ سے پسند ہے۔ جو بھی ہے دل ميں نہيں رکھنا۔ منہ پر کہہ دينا ہے۔ ” نائل نے کھل کر اسکی تعريف کی۔
اسکی نرم گرم نگاہوں کو وہ خود پر محسوس کررہی تھی۔
نظريں اپنے کپ پر ہی مرکوز رکھيں۔
"اب سلسلہ وہيں سے جوڑوں يا پھر۔۔۔۔۔۔” نائل کی شرارت بھری آواز پر يماما نے خفگی بھری نگاہ اس پر ڈالی
"جی نہيں۔۔ شرافت سے مجھے وہ سب بتائيں” يماما نے کڑے تيوروں سے اسکی جانب دیکھا۔
جو کپ ٹرے ميں رکھے دونوں ہاتھوں کی مٹھياں آپس ميں الجھاۓ۔ ہونٹوں پر رکھے شوخ نگاہيں اسکے کتراۓ ہوۓ چہرے پر ٹکاۓ اسے ديکھنے ميں محو تھا۔
"اگر اب آپ ايسے کريں گے تو ميں چلی جاؤں گی۔” اس نے گويا اسے دھمکی دينی چاہی۔
"اوکے ميڈم” نائل نے سرد آہ بھری۔
اور ماضی کے اوراق پلٹنے شروع کئے۔
______________________