بڑی ماں میں اجاو نور نے اجازت لی اور دعا اس کو دیکھا کر خوش ہوئی اور ہاں میں سر ہلایا بڑی ماں آپ کا روم تو بہت خوبصوت ہے نور آج پہلی بارا دعا کے روم میں ائی تھی
دعا اس کی بات پر مسکرای بڑی ماں کیا کر رہی ہے آپ نور نے پوچھا کپڑے سیٹ کر رہی ہو دعا نے الماری کھولتے ہوے کہا میں کچھ مدر کرو نور نے پوچھا
نہیں بچے بس یہ ہوا گیا ہے دعا نے الماری بند کی اور نور کی طرف ائی نور بیٹا طعبیت کیسی ہے آپ کی دعا نے پوچھا اور صوفہ پر بیٹھ گئی
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی ماں میں شاپنگ پر جارہی ہو آپ چلے گئی ساتھ نور نے کہا نور بس اپنے اور ان کے درمیان اجنبت کی دیوار گرانا چاھتی تھی آخر وہ اس کی ساس تھی
نہیں بچے مجھے کچھ کام ہے آپ جاو اور خوب انجوئے کرنا دعا نے نور کے سر پر ھاتھ رکھ کر کہا نور ان کی بات پر مسکرای
حریم درواذ پر کھڑی نور کو دیکھا رہی تھی کاش نور کبھی مجھے سے بھی ایسے باتے کرے حریم نے سوچا لیکن یہ کاش میری زندگی میں کبھی
نہیں ائے گا حریم نے سوچا اور ایک زخمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ائی اس ہی وقت دعا کی نظر حریم پر پڑھی ارے حریم اندر او دعا نے کہا
بھابھی میں کھانے کا پوچھنے ائی تھی حریم دعا کی بات پر چونکی اچھا تم کچن میں چلو میں اتی ہو دعا نے کہا
جی بھابھی حریم نے کہا اور ایک نظر نور کو دیکھا وہاں سے چلی گئی چلو نور آپ بھی اجاو کچن میں دعا اب نور سے مخاطب ہوئی نہیں بڑی ماں میں اپنے روم میں ہوا نور نے کہا اور چلی گئی
نور روم میں ائی تو پریشان سی بیڈ پر بیٹھی گئی
حریم کی آنکھیں میں کچھ تھا جو کہ نور نے دیکھا لیکن وہ سجمھنے سے کثر تھی
کنتی دیر وہ سوچ رہی کہ وقت کا انداز ہی نہیں ہوا روم کا درواذ نوک ہوا اور نور کی سوچے کا تسلسل توڑتا اس نے خود کو کمپوز کیا اجائیں
بلال اندر ایا تو نور نے اس سے اسلام لی تو بلال نے جواب دیا نور طبعیت کیسی ہے بلال نے پوچھا بھائ سر میں درد ہو رہا ہے نور نے کہا میڈیسن لی تھی بلال نے پوچھا
تو نور نے نفی میں سر ہلایا بچے یہ کیا بات ہوی بلال نے پوچھا سوری بھائ میں بھول گئی تھی نور نے کہا بلال نے اس کو میڈیسن دی اور آرام کرنے کو کہا اور روم سے باہر جانے لگا
بھائ آپ کو کچھ کام تھا نور نے اس کے انے کا مقدس پوچھا نہیں بچے میں تو شاپنگ کا پوچھنے ائے تھا لیکن اب آپ کی طعبیت ٹھیک نہیں ہے
ہم پھر کبھی چلے گئے بلال نے کہا
نور اس کی بات سن کر جلدی سے بیڈ سے اٹھی اووو میں تو بھول ہی گئی بھائی پانچ منٹ دے میں تیار ہو کر اتی ہو نور نے اپنے سر پر ھاتھ مارتے ہوے کہا لیکن بچے آپ کی طعبیت ٹھیک نہیں ہے بلال نے کہا
بھائ باہر جاوے گئی تو ٹھیک ہو جائے گئی
نور نے کھود ہوے اندز میں کہا اس کی بات بلال نے نوٹ کی چلو ٹھیک ہے میں انتظارا کر رہا ہو نیچے اجاوے بلال نے کیا اور چلا گیا
وارث آج دیر سے گھر آیا تھا سو سب ڈانر کر چوکے تھے سوائے نور کے وہ وارث کا انتظارا کر رہی تھی
دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا
شاہ لیپ ٹپ پر کچھ کام کر رہا تھا کہ نور بالکنی کا درواذ بند کر کے ائی اور الماری سے کچھ نکالا اور شاہ کے پاس ائی
مسٹر آفیسر نور اس کو مخاطب کیا جی وارث نے لیپ ٹپ بند کرتے ہوے کہا یہ پسیے اور کارڈ آپ کے جو صبح دے کر گئے تھے نور نے اس کو واپس کیا جبکہ وارث نے سوالیاں نظریں سے
نور کو دیکھا وہ شاپنگ بھائ نے کرو دی تھی نور نے کہا کیوں جب میں نے آپ کو پسیے دیے تھے تو پھر شاہ کو برا لگا بلال کا نور کو شاپنگ کرونا
وہ اس کی ذمہ دای تھی اس لیے جبکہ نور اس کی بات پر مسکرائ میں نے بھائ کو منع کیا تھا لیکن انہوں نے میری ایک نہیں سنی نور نے کہا اور دل میں خدا کا شکریہ ادا کیا
کہ اس کا شوہر اس کو اپنی ذمہ دای سجمھتا ہے ٹھیک ہے آئید ایسا نہ ہو بلکہ میں ائیدہ خود آپ کو لے کر جایا کرو گا مسٹر آفیسر یہ میں آپ کے لیے لائی ہو
نور نے ایک شاپر وارث کو دیا تو وارث نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر لیپ ٹپ کی طرف متوجہ ہو گیا جبکہ نور نے منہ بنایا
جب کیسی کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو اس کو کھول کر بھی دیکھا جاتا ہے نور نے منہ بناتے ہوے کہا جبکہ شاہ اس کی بات پر مسکرایا
میری جان ابھی کچھ کام ہے بعد میں دیکھا لو گا وارث نے کہا جبکہ نور اس کی بات پر ٹپسٹا گئی
پھر کچھ یاد انے پر نور نے اس کو مخاطب کیا
انسان میں کچھ شرام ہوتی ہے جو حرکت آپ نے صبح کی ہے آپ کو کچھ اندز ہے ہم پورچ میں تھے ناکہ بیڈ روم میں نور نے وارث کو
گھورتے ہوے کہا تو کیا بیڈ روم میں اجازت ہے ایسی حرکت کرنے کی وارث نے مصعومنہ سوال کیا اس کے سوال پر نور کا چہرہ بلال ہو گئی لیکن اگلے بھی منٹ غصہ ایا
آپ ایک نمبر کے بے شرم انسان ہے پتا نہیں آرمی والوں کب سے ایسے ہو گئے ہے اور خبردار جو صبح ہو وہ دوبارا ہو نور نے وان کرتے ہوے کہا
یہ آپ ہی ہے جو دھکی دے لیتی ہے ورنہ یہاں کوئی اور ہوتا تو میں اس کو بتاتا اور دوسری بات یار آپ اتنی پیاری ہے کہ انسان بے خوری میں ایسا کام کر جاتا ہے وارث نے اس کے گال پر ھاتھ رکھتے ہوے کہا
نور کو اس کی بات پر
اور غصہ ایا یعنی غلطی وارث کی تھی وہ مانے کی بجائے وہ اس کو تصوار ٹہرا رہا تھا وارث آپ بہت برے ہے نور نے غصہ سے کہا جبکہ وارث
کو شاک لگا کیا کہا آپ نے ابھی وارث نے پوچھا آپ بہت برے ہے نور اس کو حیران دیکھ کر پھر بولی نہیں اس سے پہلے آپ نے میرا نام لیا ابھی پھر سے لے وارث خوشی سے پاگل ہو رہا تھا
مسٹر آفیسر انسان بنا جاے آپ نور نے کہا اور روم سے جانے لگئی کہاں جارہی ہے آپ وارث نے پوچھا جنہم میں نور نے غصہ سے کہا اور چلی گئی
جبکہ وارث اس کے غصہ پر بس مسکرایا اور پھر لیپ ٹپ پر مصروف ہو گیا
نور غصہ سے بلال کے روم میں ائی بلال جو کچھ کام کر رہا تھا درواذ کھولنے کی آواز پر مسکرایا ایک ہی انسان ایسا تھا جو کہ بغیر نوک کیے بلال کے
روم میں آتا وہ تھی نور بھائ کیا کر رہے ہے نور نے پوچھا بچے کچھ کام تھا وہ کر رہا تھا او بیٹھوں بلال نے لیپ ٹپ بند کرتے ہوے کہا یعنی میں غلظ وقت پر ائی ہو نور نے منہ
بناتے ہوے کہا تو بلال مسکرایا وہ منہ بناتے ہوے بہت ہی کیوٹ لگ
نہیں ڈول میرا بیٹا اتنا غصہ میں کیوں ہے بلال نے اس کی لال ہوئی ناک کو دیکھتے ہوے کہا چھوڑے بھائ مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی
بھائ مجھے آئسکریم کھانی ہے نور نے
کہا بچے ابھی شام کو کھائی تھی آئسکریم بلال نے حیران ہوتے ہوے کہا بھائ آپ لے کر جارہے ہے کہ میں۔ جاوے اپنے روم میں نور نے دھکی دیتے ہوے کہا اوکے اچھے ناراض نہیں ہو چلو بلال نے کہا
شکریہ بھائ آپ دنیا کے سب سے اچھے بھائ ہے
نور نے خوش ہوتے ہوے کہا
تو بلال بھی مسکرایا
گھڑی میں شام 6 بجے رہے تھے اور نور سو رہی تھی وہ بہت ہی کم ہی اس وقت سوتی تھی اس کے چہرہ پر خوف کے تاپرات تھے
ماتھے پر پسینہ ارہا تھا وہ نیند میں بڑابڑ رہی تھی کہ اچانک اس کی آنکھ کھولی روم میں کوئی نہیں تھا وہ خواف سے کابپ رہی تھی
ماں بابا اس نے سسکتے ہوے کہا لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا ماں بابا اس بارے اس نے اونچی آواز میں کہا اس کے ماں بابا دنیا میں ہوتے تو ضرور آتے اس کے پاس
اب اس کو اور خواف محصوص ہو رہا تھا وہ بیڈ سے اتاری اور روم سے باہر بھاگی
بلال اور شاہ آج ایک ساتھ ہے آفس سے ائے تھے لیکن شاہ کے فون پر کال ائی تو وہ لان میں چلا گیا جبکہ بلال گھر کے اندر ایا اور صوفہ پر بیٹھ گیا
اس وقت نور اوپر سے بھاگتی ہوی نیچے آئ بلال اس کو دیکھا کر پریشان ہوا اور کھڑا ہوا جبکہ نور بلال کو دیکھا کر سیدھی اس کے سینے سے لگئی
ڈول بچے کیا ہوا ہے بلال نے اس کی حالت دیکھتے ہوے پوچھا اور دوپٹہ کے بغیر تھی اور پاوں میں جوتا بھی موجود نہیں تھے
بھائ وہ وہ لڑکی میرے پیچھے پڑھی ہے بھائ وہ وہ بہت تکلیف میں ہے نور سے بولا نہیں جارہا تھا وہ خواف سے کابپ رہی تھی
جبکہ بلال کو اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہانا چاہتی ہے نور کیا ہوا ہے بلال نے خود سے الگ کرتے ہوے کہا
گھر میں صرف حریم اور احمد موجود تھے وہ بھی شور سن کر باہر ائے نور کی حالت حریم سے دیکھی نہیں گئی تو اگے ائی
نور کیا ہوا ہے حریم نے پوچھا نور نے ایک بارا بلال کو اور ایک بارا حریم کو دیکھا نفی میں سر ہلایا اور اوپر روم کی طرف بھاگی
بلال اور احمد بھی اس کے پیچھے بھاگے اس ہی وقت شاہ گھر کے اندر ایا اور ان کو اوپر بھاگتے دیکھ کر کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
نور روم میں ائی تو اس نے درواذ لاک کیا نور بچے درواذ کھولو احمد نے کہا نور بھائ کی جان درواذ کھولو
بلال کیا ہوا ہے شاہ نے پوچھا شاہ پتا نہیں نور اس سے اگے بلال کچھ کہتا احمد نے اس کی کاٹتی بلال چابی کے کر او
چابی سے انہوں نے روم کھولا اور اندر ائے تو ان کو شاک لگا روم میں کوئی نہیں تھا ۔۔۔
انہوں نے چابی سے روم کا درواذ کھولا اور اندر ائے پورا کمرا خالی تھا وہ تینوں پریشان ہوے شاہ بالکنی کی طرف بڑھا اور بلال وش روم کی طرف اور احمد بیڈ کے پاس کھڑا کچھ سوچ رہا تھا
پھر چلتا ہوا وہ الماری کے پاس ایا اور الماری کا درواذ کھولا تو نور اندر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی نور بچے باہر او احمد نے پیار سے کہا
اب بلال بھی الماری کے پاس ایا نور بھائ کی جان باہر او بلال نے کہا لیکن نور نے سر اٹھ کر نہیں دیکھا شاہ جو پریشان سا روم میں واپس ایا
وہ حیران ہوتا ہوا احمد اور بلال کے پاس ایا نور کو الماری میں دیکھ کر اس کو جٹھکا لگ وارث نے احمد اور بلال کو کچھ اشارہ کیا جیسکا مطلب یہ تھا میں دیکھتا ہوں
تو احمد اور بلال ایک سائیڈ پر ہو گئے نور میری جان باہر او وارث نے کہا وارث کی آواز سن کر نور نے سر اٹھ کر اوپر دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے آج پہلی بارا
وہ سب نور کو روتا دیکھ رہے تھے نور کے آنسو سب کے دل کو چیر رہے تھے نور جلدی سے الماری سے باہر ائی اور وارث کے سینے سے لگئی
کہاں تھے آپ وارث آپ نے کہا تھا کہ اگر میرے بابا اس دنیا میں موجود نہیں ہے تو کہ ہوا آپ ہے میرے ساتھ وہ سو سو کرتی وارث سے کہ رہی تھی
وارث نے محسوس کیا کہ وہ خوف سے کابپ رہی ہے ایک منٹ لگا اس کو سمجھنے میں وارث نے اس کو خود میں پیبھچ لیا
جبکہ حریم اور احمد روم سے باہر چلے گئے اور بلال کو بھی وہاں روکنا مناسب نہیں لگا وہ بھی روم سے باہر چلا گیا ششش چپ میں یہاں ہو نور شاہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے
بعد کہا اور اس کو بیڈ پر لے ایا وہ اس کی کمر سہلا رہا تھا وارث نور کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز ائی اہم وارث نے کہا وارث نور نے پھر سے کہا جی وارث کی جان شاہ نے جواب دیا
وارث اب کی بارا نور نے اس کا نام نیند میں لیا وارث نے اس کا سر تھورا اوپر کیا اور دیکھا تو وہ نیند میں اس کا نام لی رہی ہے اور خود سے الگ کیا بیڈ پر لیٹیا
اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلنے لگا وارث نور نے ایک بارا پھر اس کو پکارا تو شاہ اس کے پاس لیٹ گیا اور نور کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوے اس کو اپنے حصار میں لیا
کچھ وقت بعد شاہ کے فون پر کال ائی فون دیکھا تو بلال کا تھا ہیلو شاہ نور ٹھیک ہے بلال نے پوچھا یار وہ سو رہی ہے میں کچھ دیر تک باہر اتا ہوں پھر بات کرتے ہے وارث نے آھستہ آواز میں کہا
اور فون بند کیا وارث نے جھکا کر نور کے ماتھے پر بوسہ دیا اور نور کے چہرے کو دیکھنے لگا
چہرہ ایسا کہ چہرہ کہی بھی نہیں
ماہروح ماہروح مہجین مہجین
حسنے جانا کی تعریف ممکن نہیں
افرین افرین افرین
کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادی میں اتر گا
مجھے اپنے سر نے پر تھوڑی
سی جگہ دے دے
مجھے نیند نہ انے کی کوئی تو
وجہ دے دے
نور کی آنکھیں کھولی تو گھڑی پر وقت دیکھا رات کے 9 بجے رہے تھے اوففف میں اتنا سو گئی
اس کے سوچا اور کروٹ لی تو اس کا سر وارث کے سینے سے لگا وہ وارث کے بائوں پر سر رکھ کر سو رہی تھی وہ وارث کا دوسرا ھاتھ نور کے اوپر تھا وہ کچھ وقت وارث کو دیکھتی
رہی پھر جو کچھ شام کو ہوا وہ سب یاد انے لگا اوففف لگتا ہے نیند میں کچھ زیادہ ہی اوو ری ایکٹ کر گئی نور نے خود سے کہا اور پھر وارث کو دیکھنے لگئی جو کہ یونیفارم میں ہی
تھا نور کے چہرے پر مسکراہٹ ائی اس نے وارث کے ماتھے پر بال پیچھے کیے اور اس کے حصار سے آزدا ہونے کی کوشش اس کی کوشش پر وارث نے نیند میں گرفت اور مضبوط کر دی
وارث کی حرکت پر نور مسکرائ مسٹر آفیسر نور نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی تو وارث کی آنکھ کھولی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا نور آپ ٹھیک ہو وارث نے اس کا ماتھا چھوتے ہوے کہا
جی میں ٹھیک ہوں نور نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تو وارث نے گہرا سانس لیا شکر ہے آپ ٹھیک ہو میں تو ڈدر ہی گیا تھا وارث نے کہا وارث شکریہ میں بہت ڈدر گئی تھی نیند میں
بہت برا خواب تھا نور نے اس کے ہاتھ میں گرفت سختے کرتے ہوے کہا نور پریشان نہیں ہوے وہ بس ایک خواب تھا اگر آپ مناسب سمجھے تو مجھے بتائیں کیا تھا خواب وارث نے اب اس کا ہاتھ تھامتے ہوے کہا
ایک جنگل ہے اور اس میں بہت اندھیر ہے پھر کیسی کی رونے کی آواز اتی ہے مجھے بہت ڈدر لگا رہا ہے لیکن میں اس کے پاس جاتی ہوں کچھ وقت بعد مجھے پتا چلتا ہے وہ ایک لڑکی ہے جو رورہی ہے
میں اس کے اور پاس جاتی ہوئی وہ مجھے سے مدر مانگتی ہے لیکن اندھیر کی وجہ سے
اس کا چہرہ میں نہیں دیکھ پاتی میں اس کے اور پاس جاتی ہوں پھر اچانک وہ غائب ہو جاتی ہے اور پھر بہت ساری جنگلی جانورں کی آواز انی شروع ہو جاتی ہے مجھے بہت ڈدر لگا رہا ہوتا ہے پھر
میری آنکھ کھول گئی روم میں کوئی نہیں تھا میں نے بابا کو آواز دی ماں کو بھی لیکن کچھ وقت بعد مجھے یاد ایا کہ وہ دونوں بھی میں پاس نہیں ہے سو میں اور بھی خوف ذرد ہو گئی تھی
نور بتاتے ہوے پھر سے خوف کے سایہ میں چلی گئی اور کابپ لگئ وہ جو بہت غور سے نور کی بات سن رہا تھا اس کی حالت دیکھا کر نور کو اپنے ساتھ لگیا شششش ری ریلکس نور میں ہو
وارث نے کہا کچھ دیر تک وہ نارمل ہوئی اور اس سے الگ ہوئی نور خواب اچھا یا برا نہیں ہوتا اس کو ہم اچھا یا برا بناتے ہے ہماری سوچ بناتی ہے شیطان ہمارے دل میں سو وسوسہ ڈالتا ہے لیکن ہمہیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاھے میرا رب بہت رحمن رحیم ہے
آپ نماز پڑھے اور دعا کر اللہ سب بہتر کرے گا
وارث نے کہا
آپ ٹھیک کہتے ہے مجھے میرے رب پر بھروسہ ہے وہ مجھے پر اوتنی ہی آزمائش ڈالے گا جیتنی میں برداشت کر سکوں لیکن میں نیند میں بہت ڈدر گئی تھی اس لیے
اس طرح ری ایکٹ کر گئی نور نے کہا اچھے چھوڑے آپ نے کھانا کھایا تھا وارث نے کہا نور نے نفی میں سر ہلایا کیوں وارث نے گھورتے ہوئے پوچھا مجھے بھوک نہیں تھی اس وقت لیکن اب بہت بھوک لگئی
ہے نور نے معصوم سا منہ بناتے ہوے کہا جبکہ وارث مسکرایا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے تو نور نے آنکھیں بند کرتے ہوے سکون اپنے اندر اتارا بھوک تو مجھے بھی بہت لگئی
ہے وارث نے کہا اور نور بیڈ سے اتاری اور فریش ہونے چلی گئی جبکہ وارث بیڈ پر پھر سے لیٹ کر نور کے خواب کے بارے میں سوچنے لگا پھر گہرا سانس لیا اور کہا اللہ سب بہتر کرے گا انشاءاللہ
نور فریش ہو کر ائی اور الماری سے وارث کے کپڑے نکالے مسٹر آفیسر میں نے کپڑے نکال دیے ہے آپ فریش ہو کر بھائ کے کمرے میں اجائے گا میں بھائ کے پاس جارہی ہو وہ پریشان ہو گیا تھے نا نور نے بلال کے بارے میں سوچے ہوے کہا
بلال کے نام پر وارث کو یاد ایا کہ وہ سو گیا تھا اس نے تو بلال سے بات کرنی تھی وہ پریشان تھا ہاں بلال ہی نہیں چھوٹی ماں اور چھوٹے پاپا بھی پریشان تھے تم جاواور ان سے کہانا میں ٹھیک ہو میں بھی بس ارہا ہو وارث نے کہا اور چلا گیا
نور بلال کے روم کے پاس ائی تو اندر سے آوازے آرہی تھی وہ باہر ہی کھڑی گئی
ماما پلیز نہیں روے وہ ٹھیک ہے بلال نے حریم سے کہا کیوں نا روے بلال میری بچی کی حالت دیکھی تھی تم نے پتا نہیں اب وہ کیسی ہو گئی حریم نے روتے ہوے کہا
ماما شاہ کو کال کی تھی میں نے وہ ٹھیک ہے بلال نے کہا اور اندر سے وہ خود پریشان تھا کہ شاہ نے کہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر تک ائے گا لیکن وہ ایا کیوں نہیں بلال نے سوچا
بلال میری بچی مجھے سے بہت نفرت کرتی ہے لیکن جب وہ خوش ہوتی ہے مجھے لگتا ہے میں خوش ہو لیکن آج وہ رورہی تھی مجھے لگا میرا دل بند ہو جائے گا میں کیسی بدقیسمت ماں ہو
جو اپنی ڈول کو سینے سے لگا نہیں سکی حریم نے کہا ماما پلیز ایسی باتے نہیں کرے اور آپ پلیز نہیں روے مجھے تکلیف ہوتی ہے آپ کے آنسو سے
بلال نے کہا اور حریم کے آنسو صاف کیے جبکہ نور لمبا سانس لیتے ہوے اپنے روم کی طرف بھاگی اور روم میں اکر درواذ بند کیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگئی
اس نے سائیڈ ٹیبل کے دارز کو کھولا اور انہیلز نکالا اور پائپ کیا ایک بارے دو بارے لیکن کوئی فرق نہیں پڑھا اس ہی وقت ورش روم کا درواذ کھولا اور وارث باہر آیا
وہ نور کو دیکھا حیران ہوا نور وارث نے کہا اور نور نے شاہ کی آواز سن کر ایک بارا پھر سے پائپ کیا
نور کیا ہوا ہے آپ کو وارث پریشان سا اس کے پاس ایا مسٹر آفیسر
مجھے سانس نہیں ارہا بالکنی کا درواذ کھولے نور نے اٹک اٹک کر سانس لیتے ہوے کہا تو وارث بھاگ کر درواذ کھولا تاکہ ہوا اندر ائے
لیکن کوئی فرق نہیں پڑھا نور نے تھوڑی دیر تک پھر سے پائپ لیا لیکن تب تک سانس اور خراب ہو گیا