سعیدہ نے اقرار کیا کہ اس کا نکاح ہوا ہے فاطمہ اور بدرالنساء کی موجودگی میں یہ سنتے ہی فاطمہ نے کہا کہ سعیدہ اس پر الزام لگا رہی ہے اس کو اس سب کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعیدہ اگر سچی ہے تو نکاح نامہ دکھائے۔ لیکن کہاں سے دکھائے وہ تو فاطمہ کے پاس تھا اس نے یہ کہہ کر کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔” خدیجہ بول رہی تھیں اور ساریہ اور بیلہ سکتے کے عالم میں بیٹھی سن رہی تھیں۔
” سعیدہ روتی رہی گڑ گڑاتی کہ اس کا نکاح ہوا ہے لیکن نہ تو اس کے پاس نکاح نامہ تھا نہ کوئی گواہ نہ ہی وہ انسان جس سے نکاح ہوا۔”
” قمر عباسی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہاں تھے؟” ساریہ نے سوال کیا۔
” نکاح کے کچھ عرصہ بعد اس کا ویزہ لگا اور وہ دبئی چلا گیا-”
” زرغم دبئی ان کے پاس گیا ہے؟” یک دم ہی بیلہ کے ذہن میں آیا۔
” ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرغم انہی کے پاس گیا ہے وہ شاید آخری سانسیں لے رہے ہیں عرصہ دراز سے ان کی طبیعت خراب ہے اور وہ معافی مانگ رہے ہیں لیکن سعیدہ کا دل اب پتھر ہو چکا ہے نہ تو اس نے زرغم کو اپنا بیٹا مانا نہ ہی قمر عباسی اور فاطمہ کو معاف کیا۔
” بوا پھر یہ کیسے ثابت ہوا کہ سعیدہ پھپو سچ بول رہی ہیں اور فاطمہ چچی نے محض اپنا بدلہ لینے کے لیے ایسا کیا؟” بیلہ نے پھر سوال کیا۔
” علی الحسن اور مجیدالحسن نے بہت کھوج لگائی لیکن کسی طرح یہ بات نہ سامنے آ سکی کہ سعیدہ جو کہہ رہی ہیں وہ سچ فاطمہ خوش تھی کہ اس نے علی الحسن سے اپنی توہین کا بدلہ لے لیا ہے کیونکہ سعیدہ علی الحسن کی ہی زیادہ لاڈلی تھی پھر اس نے مجیدالحسن کے کان بھرنے شروع کر دیے سعیدہ نے اپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیا تو بس نسرین ہی تھی جس نے اس کو سنبھال رکھا تھا۔ علی الحسن کا دل کسی طور یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ ان کی لاڈلی بہن جو کپڑوں کا جوڑا لیتی ہے تو ان سے پوچھتی ہے اگر اس نے نکاح کر لیا تو یقینا کسی کے بہکاوے میں آئی ہو گی کیونکہ ان کو یقین تھا کہ سعیدہ اپنے کردار کو اس قدر دار نہیں کر سکتی لیکن یہ مسئلہ ایسی پہیلی بن چکا تھا جس کا کوئی سراغ نہ مل رہا تھا سعیدہ سے لاکھانی لاج کا ہر فرد قطعی تعلق کر چکا تھا چونکہ وہ بہت نازک دور سے بھی گزر رہی تھی تو نسرین اس کی دیکھ بھال کرتی تھی پھر اس نے زرغم کو جنم دیا اور بس اس نے زرغم کو جنم ہی دیا پھر نہ اس کو بلایا نہ دیکھا میں نے اور نسرین نے زرغم کی ذمہ داری اٹھائی کہ آخر اس ننھی جان کا کیا قصور؟ لیکن سعیدہ نجانے کیسی ماں تھی جس کا دل نہ پسیجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر شاید فاطمہ کی جھوٹی خوشی کا اختتام ہونے کا وقت تھا نجانے کیسے فاطمہ کی پرانی فائل میں سے سعیدہ کا نکاح نامہ مجیدالحسن کے ہاتھ لگ گیا فاطمہ کے پاس سعیدہ اور قمر عباسی کا نکاح نامہ فاطمہ کے خلاف گواہی دے رہا تھا۔ مجیدالحسن نے فاطمہ سے صرف ایک سوال کیا کہ قمر عباسی کے بارے میں کچھ بتاؤ گی یا اپنی ماں کے پاس جاؤ گی؟ فاطمہ کے پاس کوئی راہ نجات نہ تھی تو اس کو قمر عباسی کے بارے میں بتانا پڑا۔ ساریہ کوئی دو ڈھائی ماہ کی تھی مجیدالحسن کا فیصلہ کہ یہاں لاکھانی لاج میں فاطمہ کو ہر چیز ملے گی لیکن آج کے بعد وہ کسی کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کریں گی نہ ہی مجیدالحسن سے کوئی امیدیں وابستہ کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساریہ ان کی بیٹی ہے اور ان کو ہر حال میں عزیز ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجیدالحسن نے تمہاری پرورش میں کوئی کمی نہ چھوڑی لیکن فاطمہ کو یہ سزا منظور نہ تھی تو اس نے مجیدالحسن کو ساریہ سے ملنے سے منع کر دیا اور دھیرے دھیرے شاید تمہارے ذہین میں نفرت بھرنے لگی۔” خدیجہ نے ساریہ کو دیکھا جو بے آواز آنسوؤں سے تر چہرے پر بے زارگی اور شرمندگی لیے سر جھکائے بیٹھی تھی۔
” بوا کیا زرغم کو معلوم ہے کہ وہ سعیدہ پھپو کا بیٹا ہے؟”
بیلہ نے استفار کیا۔
” اس کو پتہ ہے علی الحسن بھائی نے اس کو کچھ دن پہلے بتایا تھا۔ جب قمر عباسی کی عدالت کی خبر آئی اور یہ کہ وہ ایک بار زرغم سے ملنے کے خواہش مند ہیں تو زرغم کو حقیقت بتا کر اس کو وہاں بھیجا۔”
” پھپو کو پتہ ہے کہ زرغم سب جانتا ہے؟” بیلہ ایک عجیب سی شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔ زرغم سے اپنے رویے پر اب اپنے آپ کو ملامت کر رہی تھی۔
” زرغم کے جانے کے بعد علی الحسن بھائی نے سعیدہ کو بتایا تھا۔” خدیجہ مدھم آواز میں بیلہ کے سوالوں کے جواب دے رہی تھیں جبکہ ساریہ مضطرب چہرہ لیے بیٹھی نجانے کیا سوچے جا رہی تھی۔
” بیلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” کچھ پل چپ چاپ بنا کسی آہٹ کے پلک جھپکے بیٹھی تھی۔ خدیجہ اپنی بات مکمل کر چکی تھی۔ بیلہ خاموش بیٹھی تھی کہ ساریہ نے اس کو پکارا تو اس نے سوالیہ نظروں سے ساریہ کو دیکھا۔
” کیا زرغم نے تم سے کنٹکٹ کیا؟” سراسیمگی وبے چینی سے ساریہ اس سے استفار کر رہی تھی۔
” نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ بوکھلا سی گئی اور دوسرے ہی پل اس کی نظروں کی سامنے اک خواب سا لہرایا ذہن کے دریچے میں اک مدھم سی سرگوشی گونجی تو وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گئی۔
” زرغم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
خدیجہ بوا سونے کے لیے لیٹ چکی تھی ساریہ بھی اپنے کمرے میں جا چکی تھی تو نجانے کیوں بیلہ نے اس ایس ایم ایس کا جواب دیا۔
” بولو بیلہ؟” کچھ دیر بعد زرغم نے اپنے ہونے کا یقین دلایا تو بیلہ نے اطمینان کا سانس لیا لیکن وہ کیا بولے؟
” مجھے آپ سے بات نہیں کرنی زرغم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ روٹھ چکی تھی ایک بار پھر زرغم کا بیگانہ رویہ یاد آ گیا۔
” عجیب تقاضے ہیں چاہتوں کے
بڑی کٹھن یہ مسافتیں ہیں
میں جس کی راہوں میں بچھ گیا ہوں
اس کو مجھ سے شکایتیں ہیں
شکایتیں سب بجا ہے لیکن
میں کیسے اس کو یقین دلاؤں
جو مجھ کو جان سے عزیز تر ہے
اسے بھلاؤں تو مر نہ جاؤں
میں خاموشی کی انتہا میں
کہاں کہاں سے گزر گیا ہوں
اسے خبر بھی نہیں شاید
میں دھیرے دھیرے بکھر گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔”
اپنے نروٹھے میسج کے جواب میں زرغم کی طرف سے بھیجی گئی اس نظم نے بیلہ کے دل کی انتہا کو تہ و بالا کر دیاتھا۔ اس وقت اس کے اکیلے پن کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ اس وقت زرغم کو کسی بہت اپنے کی ضرورت ہے اور وہ دور رہے دل کو تسلی دینے کے لیے مچلنے لگا۔
اس کے ساتھ کے لیے گڑ گڑانے لگا۔ جزبات کے اس تلاطم سے گھبرا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی رات دھیرے دھیرے تاریکیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ چاند ننھے تارے اس تاریک رات کو روشن کرنے کی اپنی سی کوشش میں ناکام ہو رہے تھے۔
” زرغم لوٹ آؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔” رات کے پچھلے پہر اس کی سسکی کمرے میں گونج لیکن زرغم تک نہ پہنچ سکی دل اس کے ساتھ کے لیے تڑپنے لگا فاصلوں کی سبیل کیسے پار ہو؟ یک دم ہی الجھنوں اور بے چینیوں کے گرداب میں دھنستی چلی گئ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...