One is loved because one is loved. No reason is needed for loving .
(Paulo Coelho )
منزل پر پہنچی تو وہاں ایک چھوٹا ہٹ بنا تھا اور آس پاس آبادی نا ہونے کے برابر تھی ۔ ڈر نے اسے یوں لپٹ میں لیا ہوا تھا گویا بھڑوں کا جھونڈ ہو۔
اس نے کھڑکیوں سے دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔آخر ڈرتے ڈرتے دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ کھلتا چلا گیا ۔
اس نے اندر داخل جو کر تمام کمروں میں دیکھا ۔کسی کو نہ پا کر سیڑھیوں عبور کیں ۔ تو سامنے ہی آرزو صاحبہ کو کرسی سے باندھا گیا تھا ۔
"آنٹی آرزو ” ارج کہتے ہوئے آگے بڑھی
تبھی ہی پامیر پیچھے سے آتا دکھائی دیا ۔ چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جس نے ارج کو بے چین کر دیا
"آہا ! مجھ سے ملے بغیر کیسے جا سکتے ہیں آپ لوگ ۔ پہلے تاوان تو دیتے جایئں "۔ پامیر نے ٹیبل کی سائیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
"کیسا تاوان چاہیے تمھیں ذلیل انسان ۔ اور بیوی والی جو تم بات کر رہے ہو یہ تو کبھی نہیں ہونے والا ۔” ارج کو سر مسلسل گھوم رہا تھا ۔مگر ہمت کر کے بولی
"لگتا ہے تمھیں اپنی آنٹی اچھی نہیں لگتیں ۔ چلو پھر ان کی انگلیاں کاٹ کر پتا کرتے ہیں بلکے چوپ کر کے دیکھتے ہیں کہ تمھیں یہ پیاری ہیں یا نہیں ۔” اس نے میز سے ایک بڑی سی چھری اٹھائی
آرزو صاحبہ کے ٹیپ لگے منہ سے بھی آوازایں نکلیں ۔ ارج ڈر سے کانپی
اس نے چھری ان کے ہاتھ پر رکھی۔ پھر اٹھائی تو ہاتھ پر سرخ خون کی ایک ہلکی سے لکیر تھی ۔پامیر نے چھری واپس بڑھائی
"ایک منٹ ۔ ت۔۔تم جیسا کہو گے میں و۔۔۔وہی کروں گی ل۔۔۔۔لیکن آنٹی کو کچھ م۔۔۔مت کہنا ” ارج کو یہ تواقع نا تھی کے وہ واقعی ہی یہ حرکت کر گزرے گا ۔
"ٹھیک ہے پھر .. یہاں پر عامر ( جو پامیر کی لائبریری کے ساتھ منسلک کتابوں کی دکان میں کام کرتا تھا )سمبھال لے گا ۔ ”
"مگر ۔۔” ارج نے اس کی طرف دیکھا پھر آرزو صاحبہ کی طرف۔
"اگر مگر کچھ نہیں خاموشی سے چلو ۔ "ارج اگے چل رہی تھی اور پامیر پیچھے ۔
"رات کے اس پہر نکاح کیسے ہو سکتا ہے ۔؟” ارج بولی
"تم خاموشی سے چلو بس۔ زیادہ چالاکی کی تو انجام کی ذمہ دار خود ہوں گی ”
پامیر نے پیچھے آرزو صاحبہ کی طرف مسکرا کر دیکھا ۔جبکہ عامر ان کے ہاتھ کھو ل رہا تھا ۔
رات کے اندھیر ے میں جگنوؤں کا رقص تھا ۔ شبنم کے قطرے پھولوں کی رعنائی میں اضافہ کر رہے تھے
نکاح کا آغاز ہوا تھا ۔ پامیر سے پوچھنے پر ایک گہری سانس لے کر اثبات میں جواب دیا ،اور اس نے زندگی کے نئے دور میں قدم رکھا تھا ۔
ارج پامیر کو خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی ۔ پوچھنے پر بلکل خاموش رہی ۔ پامیر نے اپنے موبائل پر کچھ ڈائل کرتے ہوئے مسکرا کر اسے دیکھا تو ارج نے جلدی سے جواب دے دیا ۔
اور پامیر کی گرفت موبائل پر ڈھیلی ہوئی ۔اس نے ارج یوں دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو
” میں کسی رشتے کی محبّت کے زر زبر سے واقف نا تھا ، لیکن آج جیسے ایک بند دروازہ تھا جو واہ ہوا تھا ، یہ سامنے بیٹھی لڑکی جو میری بیوی بنی تھی چند پل میں میرے لئے کتنی اہمیت اختیار کر گئی کے مجھے بھی علم نا ہو سکا ۔ ۔مجھےاب تک کی اٹھتیس سالہ زندگی میں پہلی بار ایک سچا رشتہ ملا تھا ۔ اور میں اپنے رب کی نا شکری کرنے چلا تھا ۔ "وہ اسے مسلسل دیکھتے ہوئے سوچ رہا ۔ کسی کے بلانے پر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا ۔۔
پا میر کو سب سے زیادہ حیرانی یہ جان کر ہوئی تھی کہ یہ ارج کی دوسری شادی تھی ۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولا ۔ کے یہ سب ارج کا اپنا فیصلہ تھا وہ بتانا چاہے یا نا ۔
جبکہ ارج کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ چھری کب اسے ملے اور وہ پامیر کی گردن پر چلا سکے ۔
پامیر اور ارج واپسی پر آرزو صاحبہ کے گھر ہی اترے ۔ارج بھاگ کر آرزو صاحبہ سے ملی ۔
"آپ ٹھیک ہیں ؟ آپ کو مارا تو نہیں کسی نے” ارج نے ان کو دیکھتے ہوئے کہا
"نہیں بچے اندر آؤ دراصل مجھ کچھ بات کرنی ہے تم سے” ۔ آرزو صاحبہ نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا
"پامیر تم بھی اندر آؤ ۔ ”
"آپ انہیں کیوں بولا رہیں ہیں ۔ پولیس کو بلائیں انہوں نے زبردستی نکاح کیا ہے ۔”۔ ارج نے ان کو دیکھ کر کہا
"پہلے میری بات سن لو بچے ۔” وہ کہتے ہوئے ان کو اندر لے آئیں ارج ان دونوں کے چہرے دیکھ رہی تھی ۔
"دراصل ! میں نے ۔۔۔۔۔ میں نے ہی پامیر کو یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا ۔” ارج نے غائب دماغی سے ان کی طرف دیکھا ۔ جیسے کسی اور دنیا کی زبان بول رہی ہوں ۔
"مطلب ؟ ۔” وہ دھیمے سے بولی
"مطلب کے میں نے ہی خود کو اغوا کرنے کا آئیڈیا دیا تھا اس میں پامیر کی کوئی غلطی نہیں ۔ تم کب تک ایسے زندگی گزر سکتی ہو آج ہوں میں کیا پتا کل نا ہوں ۔ زندگی کا کیا بھروسہ ۔” جبکہ ارج نفی میں سر ہلا رہی تھی
"مجھے یقین نہیں ہو رہا ۔” وہ یہ کہتے ہوۓ اوپر اپنے کمرے کی طرف بھاگی ۔
"ارج ۔۔ بچے ۔۔” انہوں نے آواز دی
"تھوڑی دیر اسے اکیلا رہنے دیں وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔ ویسے آپ واقع ہی اچھی ادا کاری کرتی ہوں ۔جو آج آپ نے لائبریری میں کیا ۔ ”
اس نے یاد کرتے ہوئے کہا ۔
"””جب آرزو صاحبہ اس کی لائبریری میں داخل ہوئیں تھیں
"پامیر مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔” وہ کاؤنٹر پر روکتے ہوئے بولیں ۔
"ارج کے بارے میں ہے ۔کیا وہ راضی ہوئی؟ ” وہ اپنا کام چھوڑتے ہوئے بولا ۔
"نہیں ! پر اس کے لئے تمھیں تھوڑی محنت کرنی ہو گی "۔ آرزو صاحبہ نے آس پاس دیکھ کر کہا ۔
"کیا کرنا ہو گا ؟” اس نے پوچھا لیکن آرزو صاحبہ کا پلان سنتے ہی اس نے نفی میں سر ہلا یا
"یہ ناممکن ہے میں یہ حرکت کبھی نہیں کرنے والا ۔ آپ چلی جائیں اور میری اور ارج کو اب بھول جائیں ۔ اب آپ جائیں یہاں "۔ خود کو بے چین دل کے ساتھ مصروف کرنے کی کوشش کی ۔
"چلو ! جیسی تمہاری مرضی ۔ کمال صاحب کا بیٹا بھی ارج کو پسند کرتا ہے تو وہ مان جائے گا ” یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
دروازے تک پہنچیں تو پین زور سے پٹخنے کی آواز آئی ۔
"مجھے بتائیں یہ سب کب اور کیسے کرنا ہے ۔ "””
پامیر نے واپس حال میں آتے ہوئے روداد بیان کی تھی
"ویسے مجھے ابھی بتائیں یہ کمال صاحب کا بیٹا کون ہے ۔تاکہ اس کا دماغ دروست کیا جا سکے ، ”
” کمال صاحب! ہاں ۔۔ان کا اٹھ سالہ بیٹا ہے ” وہ مزے سے بولیں
"مطلب کے آپ نے مجھے پاگل بنایا ۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
"اور وہ خون جو کے سرخ رنگ تھا اور چھری پر پہلے ہی موجود تھا ۔ میں تو کھبرا ہی گئی جیسے اصل میں میری انگلیاں کاٹنے لگیں ہیں ۔۔” آرزو صاحبہ نے کہا
"تو آپ کا ڈر بھی دکھانا تھا ارج کو "۔ وہ پھر سے مسکرایا ۔
"میں مل کر آتا ہوں اس سے ۔” پامیر نے سیڑ ھیوں سے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ۔اور زینے عبور کرنے لگا ،
کمرے میں داخل ہوا جو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔
"آرزو آنٹی کچھ دیر کے لئے چلی جائیں ۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی آپ سے مجھے یہ امید تو نہیں تھی کم سے کم ۔” اس کی ہلکی آواز آئی
"میں ہوں ارج ۔ ” پامیر موبائل کی روشنی کئے بیڈ پر اس کے پاس بیٹھا ۔
"آپ ۔۔ آپ کیوں آئے ہیں یہاں نکلیں جایئں یہاں سے” اس نے غراتے ہوئے کہا ۔ اور اس پر چھپٹی ۔ پامیر نے اس کے ہاتھ راستے میں ہی پکڑ لے ،
"ارج !!!!! یہ سب میں۔ نے آرزو صاحبہ کے کہنے پر کیا میں تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا میں شرمندہ بھی بہت ہوں ۔ لیکن جب کوئی آپ کی بات نا سمجھ سکے تو اور حربے تلاش کرنے پڑتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں یہ بات انتہائی خطرناک تھی تمھیں کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ عفت وہاں ہی موجود تھی جب تم میری کال سن رہی تھی ” ۔ ارج نے آنسوؤں سے تر پلکوں میں حیرانی لئے دیکھا
"ہم سب بھلا ہی چاہتے ہیں تمہارا ۔ آج نہیں تو کل آرزو صاحبہ کو یہاں سے جانا تھا ۔ تم ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اور تم اس حالت میں بھی نہیں کے تم اکیلی رہ سکو ۔۔ ” وہ سمجھاتے ہوئے بولا
"آپ کو کیا مسلہ تھا میں اکیلی رہتی جو مرضی کرتی ؟” ارج نے رونے کا شغل پھر سے جاری کر دیا ۔
"مجھے تم اچھی لگی تھی ۔ لیکن کبھی کبھی ہماری اپنی بےجاں ضد کی وجہ سے اچھے رشتوں سے مرحوم ہو جاتے ہیں ۔نفرت کرنے لگتے ہیں ۔پتا نہیں کیوں جبکہ ہمارے پاس نفرت کا کوئی خاص جواز بھی نہیں ہوتا ۔ میں نے تمھیں اپنی زندگی میں شامل کیا ہے ۔ طریقہ غلط تھا میں معافی مانگتا ہوں اس کے لئے۔مگر ارادہ غلط نہیں تھا ۔لیکن یہاں صورت حال ہی الگ تھی” ۔ وہ بول رہا تھا اور ارج سن رہی تھی
"ارج تم بھلے مجھ سے ناراض ہو لو پر تم مجھ سے نفرت مت کرنا ۔” پامیر بولتے بولتے روکا تھا
ارج اور پامیر کی محبت تب شروع نہیں ہوئی تھی جب ہم نے ایک دوسرے کو لائبریری میں دیکھا تھا پہلی بار ۔
ارج اور پامیر کی محبت ان کے نکاح سے شروع ہوئی تھی ۔” پامیر اٹھا اور ارج کو حیران چھوڑ اندر کو چل دیا
"میں نے کب محبت کی ہے؟” ارج بولی پر پامیر جا چکا تھا
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ پل
یہ ان کی۔ یاد میں ہو گی ۔