جب اس کی آنکھ کھلی تب پورے کمرے میں دن کا اجالا پھیلا ہوا تھا جبکہ وہ وہیں زمین پر پڑی تھی ۔۔
تھوڑی دیر تک وہ غائب دماغ سی اپنا سر دباتی رہی ۔۔
پھر دھیرے دھیرے اس کے ذہن میں کل رات والا سارا منظر چلنے لگا ۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔
اس کی دہشت سے پھٹی آنکھیں پورے کمرے میں چکراتی پھر رہی تھیں ۔۔
سر کی چوٹ تکلیف دے رہی تھی جبکہ پورا جسم خون ضائع ہونے کی وجہ سے بے جان ہو رہا تھا ۔۔
اس کی نظر گھڑی پر پڑی جہاں گھڑی آٹھ بجا رہی تھی ۔۔
یقیناً صبح کے آٹھ ۔۔
لیکن ۔۔
اس کا دل بیٹھنے لگا ۔۔
چاچی جتنی بھی ظالم سہی ۔۔
لیکن نمازی پانچ وقت کی تھیں ۔۔
فجر کے وقت ہی ان کا شور شروع ہوجاتا ۔۔
کیونکہ وہ اپنے بچوں پر بھی نماز کے لیئے سختی کرتی تھیں ۔۔
ان کی تیز آواز کا فائدہ اسے بھی ہوتا اور وہ بھی فجر کے لیئے اٹھ جاتی لیکن آج ۔۔
ایک تو رات کا دہشت ناک واقعہ ۔۔
اس پر صبح کی یہ بوجھل خاموشی ۔۔
وہ تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھے جب اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی چاچی کے کمرے میں پہنچی تو وہاں کا منظر اسے ساکت کر گیا ۔۔
تیز رفتاری سے دھڑکتا دل رک سا گیا ۔۔
آنکھیں بڑی اور پتلیاں چھوٹی ہوگئیں ۔۔
دل پر پڑا ہاتھ پہلو میں جا گرا ۔۔
کچھ دیر تک وہ خالی دماغ سی کمرے میں بکھرا خون اور چاچی ۔۔ ناصر ۔۔ نازش اور نوید کے خون سے لت پت سفید بے جان وجودوں کو دیکھتی رہی پھر اس کی چیخیں بلند ہوئیں ۔۔
اور پھر بلند تر ہونے لگیں ۔۔
وہ ایک ایک کے مردہ وجود کے پاس جا کر اسے جھنجوڑتی ۔۔
اسے پکارتی ۔۔
پھر کوئی جواب نہ پا کر اچھل کر پیچھے ہوجاتی ۔۔
پھر دوسری لاش کے قریب جاتی اور یہی عمل دوہراتی ۔۔
بہت دیر تک وہ دیوانگی کی حالت میں یہی عمل کرتی رہی ۔۔
پھر اسے جب یقین آنے لگا اس منظر کی سچائی پر تو وہ دوڑ کر کمرے سے نکلی اور صحن میں جا کر گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے برمہ چلانے لگی ۔۔
خود کو گیلا کرتی اور پھر برمہ چلاتی ۔۔
پانی آنے پر پھر پانی میں بھیگنے لگتی ۔۔
اس کی چیخیں اور آنسو مسلسل جاری تھے ۔۔
وہ کبھی خود کو کوستی تو کبھی اس بلے کو بددعائیں دیتی ۔۔
اس کی تو ساری دنیا اجڑ گئی تھی ۔۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد چاچا نے اسے سنبھالا تھا ۔۔
پھر چاچا کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد بھی چاچی اسے بچپن سے جیسے تیسے سہی پال پوس رہی تھی کیا یہ کم احسان تھا آج کے دور میں ۔۔
وہ ان کی ساری سختیاں بھلائے اپنا سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔
اچانک وہ اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر بھاگی ۔۔
اس طرح سنسان راستے پر صبح کے وقت بھیگی بھیگی دوپٹے سے بے نیاز بھاگتی ہوئی وہ کہیں سے بھی نارمل نہیں لگ رہی تھی ۔۔
وہ دوڑتی ہوئی فیروزہ خالہ کے گھر کے باہر رکی جن سے چاچی کے اچھے تعلقات تھے ۔۔
دھڑ دھڑ دروازہ بجائے ہوئے وہ جیسے توڑ دینے کے در پر تھی ۔۔
اندر سے فیروزہ خالہ کی غصہ کرنے کی آواز آرہی تھی لیکن وہ ایک پل کو نہیں رکی اور جنونی کیفیت میں دروازہ بجاتی رہی ۔۔
کمرے کا منظر اس کی نظروں سے ہٹ نہیں رہا تھا ۔۔
دروازہ فیروزہ خالہ کے بیٹے نے کھولا وہ انہیں دیکھ کر ایک پل کو ساکت ہوئی جبکہ فروز بھائی اس کے حلیے پر نظریں دوڑاتے ہوئے حق دق کھڑے رہ گئے ۔۔
وہ انہیں نظر انداز کر کے ان کے پیچھے کھڑی فیروزہ خالہ کے سینے سے لگی اور شدت سے رونے لگی ۔۔
فیروزہ خالہ کے گھر کے سب فرد صحن میں آگئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے ۔۔
فیروزہ خالہ نے اسے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تو ان سے گویا چمٹ گئی تھی ۔۔
“ائے کچھ بتا تو سہی لڑکی ۔۔
دل بیٹھ رہا ہے میرا ۔۔
گھر میں سب ٹھیک ہے ۔۔”
فیروزہ خالہ نے اس کی پشت سہلاتے ہوئے کوئی بیسویں دفع پوچھا جبکہ فروز بھائی اور ان کے والد اس کے گھر کی طرف نکل پڑے تھے کہ خدا جانے کیا قیامت ٹوٹی تھی صبح ہی صبح اس پر ۔۔
وہ فیروزہ سے الگ ہو کر کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اچانک اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ سب کو حواس باختہ چھوڑتی پھر حواس چھوڑ بیٹھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیروزہ خالہ نے یاسین شریف پڑھ رکھی پھر اس کی تپتی پیشانی کو چھوا اور ساتھ ہی پھونک بھی اس کے پورے وجود پر ماری ۔۔
وہ چار دنوں سے ہوش سے بیگانہ تھی ۔۔
ذرا سی آنکھیں کھولتی گھر والوں میں کسی کو پکارتی اور پھر بے ہوش ۔۔
لیکن بے ہوشی میں بھی اس کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو گرے چلے جا رہے تھے ۔۔
فیروزہ بیگم خود بھی کمرے کا ہیبت ناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں ۔۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر تھا یہ کسی جانور کا کام تھا لیکن آج کل کے دور میں اس رپورٹ پر یقین کرنا مشکل ہی تھا ۔۔
پولیس والوں کا شک اس کی طرف ہی تھا جو ہوش میں آ کر نہیں دے رہی تھی ۔۔
فیروزہ خالہ کہ زبانی پولیس اس کے اور چاچی کے تعلقات سے واقف ہو چکی تھی ۔۔
پولیس کا خیال تھا مار پیٹ سے تنگ آ کر اس نے جذبات میں آ کر یہ حرکت کر ڈالی ہوگی اور قتل کر دینے کے بعد اسے صدمہ لگ گیا ہوگا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جو سچ ہے میں آپ کو بتا چکی ہوں ۔۔
آپ مجھے تھپڑ نہ ماریں بلکہ گولی ماریں میں تب بھی یہی بولوں گی کیونکہ یہی سچ ہے ۔۔
لیکن اپنی وردی کے غرور میں آپ کو کسی پر جھوٹا الزام لگانا ہے تو لگا لیں مجھ پر ۔۔
لیکن کوشش کیجیئے گا پھانسی سے کم پھر سزا نہ ہو ۔۔”
لیڈی کانسٹیبل کے پانچویں تھپڑ پر سن گال کے ساتھ اس نے اٹک اٹک کر کہا ۔۔
اس دوران کتنے ہی آنسو اس کی آنکھوں سے گرے تھے کسی نے توجہ نہیں دی تھی ۔۔
“اے چل زیادہ ڈائلاگ مت مار ۔۔”
لیڈی کانسٹیبل کا ہاتھ ایک بار پھر ہوا میں بلند ہوا تھا لیکن ایک بلند گرجدار آواز پر لیڈی کانسٹیبل کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا ۔۔
اس نے بھی چونک کر سامنے دیکھا ۔۔
سفید اجلی داڑھی اور لمبے پونی میں جکڑے سفید چٹے بال ۔۔
جھریوں کے ساتھ بھرپوت صحت اور سرخ و سفید رنگت والا وہ سیاہ وردی میں ملبوس شخص نہ جانے کیوں اسے فرشتہ سا لگا تھا ۔۔
“میں نے کتنی بار سمجھایا ہے آپ لوگوں کو ۔۔
صرف شک کی بنا پر کسی پر جسمانی تشدد مت کیا کریں ۔۔”
اس شخص نے دھیمی لیکن بارعب آواز میں کہا تو لیڈی کانسٹبل اور حوالدار گڑبڑا گئے ۔۔
“سر جسمانی تشدد نہ کریں تو یہ سچ بھی نہیں بتاتے نا ۔۔”
حوالدار کے منمنانے پر انہوں نے اسے گھورا پھر دونوں کو وہاں سے جانے کا اشارہ دیا ۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر شانے اچکاتے ہوئے چلے گئے ۔۔
“میں نے ابھی آپ کا بیان سنا ہے ۔۔
کیا آپ پھر سے دہرانا پسند کریں گی ۔۔ ”
ان کا انداز شائستگی اور رعب سے بھرپور تھا ۔۔
دھندلی نظروں سے ان کا چہرہ دیکھ کر اس نے پھر اس ہیبت ناک رات کی کہانی دہرا دی ۔۔
تیمور آفندی چہرے پڑھنے کے فن سے آشنا تھے اور اس لڑکی کے چہرے پر انہیں سوائے سچائی اور دکھ کے اور کچھ نظر نہیں آیا تھا ۔۔
وہ تھوڑی دیر تک ایک ٹک اس کا آنسئوں سے تر چہرہ دیکھتے رہے پھر بولے ۔۔
“ایسے بیان پر آج کل کون یقین کر سکتا ہے ۔۔ ”
جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا تب وہ مزید بولے ۔۔
“لیکن مجھے پورا یقین ہے ۔۔
کیونکہ تقریباً ایسے ہی حالات کا سامنا میں بھی کر چکا ہوں ۔۔”
ان کے انکشاف پر اس نے سرخ سوجی آنکھیں اٹھا کر کچھ حیرت سے انہیں دیکھا تو تیمور آفندی نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔
“میں ہی کیا میرا پورا خاندان ان حالات سے گزر چکا ہے ۔۔
بلکہ اب بھی گزر رہا ہے شہلا ۔۔
لوگ منہ پر کچھ نہیں کہتے لیکن مجھے پتہ ہے لوگ ہمارے خاندان کو پیٹھ پیچھے سائکو خاندان کہتے ہیں ۔۔
ہماری حویلی پاگلوں کا ادارہ کہلائی جاتی ہے ۔۔”
ان کی مسکراہٹ زخمی تھی ۔۔
“میں نو سال کا تھا جب میں نے ایک بہت بڑے بلے کو میرے چاچا کو بے دردی سے مارتے دیکھا ۔۔”
بلے کے ذکر پر شہلا کی آنکھوں میں خوف غم اور غصہ ساتھ لہرائے ۔۔
جیسا تم بتا رہی ہو بلکل ویسا ہی بلا ۔۔
پولیس نے میرے بیان کو صدمہ کا اثر قرار دیا پھر آگے کیا ہوا میں نہیں جانتا لیکن ہماری حویلی میں عجیب و غریب واقعات ہوتے ہیں ۔۔
رات کو بلیوں کے رونے کی کریہہ آواز اکثر آتی ہے ۔۔
میرے بھانجے کو بھی تمہاری فیملی والے طریقے سے ہی قتل کردیا گیا ۔۔
میری بھتیجی نے سارا منظر چھپ کر دیکھ لیا اور دماغی توازن کھو بیٹھی ۔۔
اس وقت اگر وہ سکتے میں جانے کی جگہ چیخ پڑتی تو ممکن تھا وہ بھی ۔۔
خیر اللہ کا کرم ہوا ۔۔
ہمارے پانچ وفادار ملازم ایک کے اوپر ایک ایسے ہی ختم ہوتے گئے ۔۔
اب ہماری حویلی میں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ۔۔
یہ تھی میری اور میرے خاندان کی کہانی ۔۔
اس لیئے میں تم پر یقین کرتا ہوں اور تمہیں بچانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔
کوئی ثبوت تمہارے خلاف نہیں ہے سو یہ اتنا مشکل بھی نہیں ۔۔”
شہلا جو ایک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھی اچانک نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
“میرے لیئے باہر کی دنیا میں رکھا ہی کیا ہے سر ۔۔
سب کچھ تو ختم ہوگیا میرا ۔۔
میں آزاد ہو کر کیا کروں گی ۔۔
رہنے دیں مجھے جیل میں اور ختم ہوجانے دیں ۔۔
آپ کا بھی ویسی ہی بلا سے پالا پڑا ہے ۔۔
آپ نے میری باتوں کا یقین کیا ۔۔
یہ کافی ہے ۔۔
ورنہ مجھے خود پر شک ہونے لگا تھا کہ واقعی میں نے ہی ۔۔
ممم میں نے ہی ۔۔
اپنی ۔۔
اپنی پوری فیملی ۔۔
اپ اپنی پوری دنیا کو ۔۔
ختم کرلیا ۔۔
ختم کرلیا ۔۔
ختم ہوگیا میرا سب ختم ہوگیا ۔۔
سب چھین لیا مجھ سے اس بلا نے ۔۔
کیا کروں گی میں جی کر ۔۔
کہاں جائوں ۔۔
کیا کروں ۔۔
مرنے دیں سر مجھے یہیں مرنے دیں ۔۔”
وہ بولتے بولتے اچانک ہذیانی کیفیت میں چیخنے لگی ۔۔
تیمور آفندی ہمدردی سے اسے دیکھنے لگے پھر اس کا سر تھپکتے ہوئے بولے ۔۔
“بیٹا اللہ کی ذات پر یقین رکھو ۔۔
کیا پتہ وہ رب تم سے بہتر لے کر بہترین سے نوازنے کا ارادہ رکھتا ہو ۔۔”
“فیملی سے بڑھ کر بھی کچھ ہو سکتا ہے سر ۔۔”
شہلا نے افسردگی سے سوچا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا کے خلاف کیس بہت کمزور تھا ۔۔
اسے آرام سے آزادی کا پروانہ مل گیا تھا ۔۔
کوئی نزدیکی رشتہ نہیں تھا ۔۔
جو دور کے تھے وہ پولیس قتل وغیرہ کے معاملے کے بعد اور بھی دور ہوگئے ۔۔
ایسے میں تیمور آفندی اس کی لاکھ نہ نہ کے باوجود اسے لیئے حویلی چلے آئے ۔۔
جب تیمور آفندی نے سب کو لائونج میں جمع کر کے شہلا کی تمام کہانی سنائی تو سب کو سانپ سونگھ گیا ۔۔
تو گویا اس دنیا میں کوئی اور بھی تھا جس نے اس بلا کو دیکھا تھا اور اس کا ستم جھیلا بھی تھا ۔۔
لیکن ایک بات جو سب کو چونکا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس بلے نما بلا نے شہلا کی جان کیسے چھوڑ دی ۔۔
سب کے دلوں میں پنپتے سوال کو حمزہ نے زبان دی تو شہلا خود بھی سوچ میں ڈوب گئی ۔۔
ہاں واقعی ۔۔
وہ کیسے زندہ تھی اور کیوں ۔۔
“اس بارے میں بعد میں سوچا جائے گا ۔۔
ہانیہ بیٹا تم بہن کو گیسٹ روم میں لے جائو ۔۔”
“جی چاچو ۔۔”
ہانیہ اٹھی تو اسے بھی نہ چار اٹھنا پڑا ۔۔
پیچھے پیچھے حمزہ بھی چل پڑا ۔۔
“ہانی مجھے تو لگتا ہے اسی نے قتل کیا ہے ۔۔
کسی سے ہماری “خاندانی بلا کہانی” سن لی ہوگی ۔۔
اب اس کہانی کا سہارا لے کر چاچو کو ماموں بنا کر یہاں آگئی ۔۔”
حمزہ نے آواز دھیمی رکھی تھی لیکن ان سے دو قدم پیچھے چلتی شہلا نے سب سنا اور ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی ۔۔
“او بھیا ۔۔
تیمور چاچو کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں جنہیں کوئی بھی آرام سے بے وقوف بنا دے ۔۔
خاندان کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک ہیں ۔۔
اپنے ادارے کا فخر ہیں وہ ۔۔
اور ہماری “بلا کہانی” دیپیکا اور رنبیر کپور کی بریک اپ سٹوری نہیں ہے جس کے ہر طرف چرچے ہوں ۔۔
صرف قریب قریب کے دوست احباب واقف ہیں ۔۔
شہلا یہ آپ کا کمرہ ہے ۔۔”
ہانیہ خود سے چار سال بڑے بھائی کو ڈپٹ کر اچانک مڑ کر شہلا سے بولی ۔۔
شہلا جو ان کی ساری باتیں سن کر ان سنی کر رہی تھی پھیکا سا مسکرا کر کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
حمزہ کینہ پرور نظروں سے اس کو گھورتا رہا یہاں تک کہ ہانیہ شہلا کو کچھ ہدائتیں دے کر حمزہ کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے ساتھ لیجانے لگی ۔۔
شہلا دروازہ بند کرنے لگی تھی کہ اس کی نظر حمزہ پر پڑی ۔۔
حمزہ نے دو انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی طرف پھر اس کی طرف اشارہ کر کے “دیکھ لوں گا” کا اشارہ دیا ۔۔
شہلا کے سارے احساسات مرے ہوئے تھے سو اس نے خاموشی سے سر جھٹک کر دروازہ بند کردیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دبے قدموں آگے بڑھ رہا تھا ۔۔
اس کے ایک پیر میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی جسے وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا ۔۔
رات ۔۔ اندھیرے ۔۔ ویرانی اسے بہت بھاتی تھیں ۔۔
وہ عموماً گہری رات میں چہل قدمی کے لیئے نکلتا تھا ۔۔
کئی دنوں تک پہاڑی علاقوں کی ویرانیاں خود میں اتارنے کے بعد وہ حویلی لوٹا تھا ۔۔
اس کے چہرے پر مدھم سی مسکان تھی جو ہمیشہ ہر حال میں قائم رہتی تھی ۔۔
وہ کتنا ہی ڈپریس ہو یا کتنی ہی اذیت میں ہو ۔۔
یہ مسکان اس کے لبوں سے جدا نہیں ہوتی تھی ۔۔
اس وقت بھی وہ مسکان اس کے لبوں پر تھی ۔۔
لیکن آنکھیں ہر جذبے سے عاری ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھ رہی تھیں ۔۔
اچانک اس کی تیز نظریں گیسٹ روم کی اس بڑی سی گیلری پر پڑیں اور ساکت رہ گئیں ۔۔
سیاہ پتلیاں ڈرا دینے کی حد تک چھوٹی ہوگئیں ۔۔
یوں کہ ہر طرف سفیدی تھی صرف درمیان میں ایک ننھا سا سیاہ نقطہ تھا بس ۔۔
“یہ ۔۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔
یہ یہاں کیسے ۔۔
کیسے آخر ۔۔
کیا میں نے اسے زندہ چھوڑ کر غلطی کی ۔۔
کہیں یہ میرا راز تو نہیں جان گئی ۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...